Glorious Event From Ibrahim's PBUH Profile.

حضرت ابراہیمؑ وہ جلیل القدر پیغمبر ہیں جنہیں امامِ انسانیت کے لقب سے نوازا گیا۔آپؑ بچپن سے ہی توحید کے مینارہ نور تھے اور زندگی کے آخری سانس تک اسی کا دم بھرتے رہے۔آپؑ نے ایک ایسے ماحول میں آنکھ کھولی جو کہ شرک،بُت پرستی اور کواکب پرستی میں ڈوبا ہوا تھا۔لیکن بچپن سے ہی آپؑ نے شرک اور بُت پرستی سے بیزاری اختیار کی۔آپؑ نے اپنی قوم میں نعرہ توحید کی صدا لگا کر پورے معاشرے کو چیلنج کیا۔آپؑ نے پورے صبر و تحمل کے ساتھ راستے کے مصائب و پریشانیوں کو برداشت کیا۔آپؑ اللہ تعالیٰ کے وہ برگزیدہ نبی ہیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی محبت میں ایسے مصائب جھیلے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں خُلّت کا عظیم ترین مقام عطا فرمایا اور قرآن میں مختلف جگہوں پر آپؑ کی تعریف کی گئی۔آپؑ نے زندگی بھر اپنے رب کی خاطر جان ومال کا زیاں برداشت کیا،طرح طرح کی سختیاں جھیلیں،خطرات،مصائب اور مشکلات کا مقابلہ کیا۔ہر ناگوار تکلیف کو رب کے لیے برداشت کیا،ہر اس چیز کو رب کی رضا پر قربان کیا جسے وہ عزیز و محبوب رکھتے تھے،جس کا بین ثبوت اور نقطہ عروج ہمیں خواب میں رب کے حکم کا اشارہ پاتے ہی صالح اولاد کو قربان کرنے کی عملی تصویر میں دیکھنے کو ملتا ہے۔

     آپؑ کو دین کی سربلندی کی خاطر ہر ایک نے تنِ تنہا چھوڑ دیا۔اپنی قوم نے آگ کے آلاو میں پھینک دیا تاکہ توحید کی شمع کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بُجھا دیں۔لیکن جس کا حامی اللہ ہو اس کو دنیا میں کون مٹا سکتا ہے؟جب آگ سے آپؑ بسلامت نکلے تو مکمل ہجرت کرنے کا ارادہ کیا اور چلتے وقت یہ الفاظ زبانِ مبارک پر لائے:

اِنِّىۡ ذَاهِبٌ اِلٰى رَبِّىۡ سَيَهۡدِيۡنِ‏۞(الصافات:99)

’’میں اپنے رب کی طرف جاتا ہوں،وہی میری رہنمائی کرے گا“

 ”حضرت ابراہیمؑ نے قوم کے رویے کو دیکھتے ہوئے محسوس کیا کہ ان لوگوں سے ایمان قبول کرنے کی امید کارِ عبث ہے۔اور حکومت اپنے انتہائی اقدام میں ناکام ہو کر یقیناً کسی نئی تدبیر کی فکر میں ہے۔اب اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ میں اس شہر سے ہجرت کر جاؤں۔لیکن جاؤں کہاں،اس کی کچھ خبر نہیں۔جب اپنوں نے برداشت نہ کیا تو باہر اللہ تعالیٰ کے دین کی دعوت اور دعوت دینے والے کو کون برداشت کرے گا۔دنیا میں میرا کوئی ایسا ٹھکانہ نہیں جس کی طرف رخ کروں۔جہاں بھی جاؤں گا لوگ شک و شبہ کی نگاہ سے دیکھیں گے۔اس لیے میں کسی ٹھکانے کے تصور سے یہاں سے ہجرت نہیں کررہا بلکہ میری ہجرت اپنے رب کی طرف ہے۔اسی سے وفاداری کی پاداش میں یہاں سے نکالا جارہا ہوں اور اسی کی وفاداری کا حق ادا کرتے ہوئے ہر جگہ جانے کی کوشش کروں گا۔رہی یہ بات کہ میں راستوں سے بیخبر،منزلوں سے ناآشنا اور لوگوں کے لیے بیگانہ ہوں تو اس کی مجھے کوئی پرواہ نہیں۔جس اللہ تعالیٰ کے بھروسے پر اتنا بڑا اقدام کررہا ہوں یقیناً وہ مجھے راستہ دکھائے گا۔اللہ تعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ وہ اس کے اعتماد پر اس کے راستے پر چلنے والوں کو کبھی مایوس نہیں کیا کرتا۔اس کا وعدہ ہے جسے قرآن کریم میں بھی دہرایا گیا ہے وَالَّذِیْنَ جَاہَدُوْ فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَااور جو لوگ ہماری راہ میں جدوجہد کرتے ہیں ہم ان کے لیے اپنے راستے کھول دیتے ہیں۔“اللہ تعالیٰ میرے لیے بھی راستے کھولے گا۔“(روح القرآن)

    ہجرت کے بعد حضرت ابراہیمؑ نے خود کو اپنے رب کے حوالے کر دیا،چونکہ سبھوں نے ساتھ دینا چھوڑ دیا۔اب یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ شادی شدہ ہونے کے باوجود ایک صالح اولاد کو اپنا جانشین بنانے کی درخواست اپنے پیارے رب سے نہ کرتے؟اپنے دل کی دنیا آباد کرنے اور امیدیں جوان ہونے کے لئے ہر ایک بندہ اللہ رب العزت کو اولاد مانگنے کے لیے سجدہ ریز ہوتا ہے۔حضرت ابراہیمؑ نے بھی سب سہاروں کو چھوڑ کر ٹوٹے ہوئے دل سے اللہ تعالٰی سے ایک صالح ادلاد اور صالح جانشین کی درخواست ان الفاظ میں کر دی:

رَبِّ هَبۡ لِىۡ مِنَ الصّٰلِحِيۡنَ۞(الصافات:100)

”اے پروردگار،مجھے ایک بیٹا عطا کر جو صالحوں میں سے ہو‘‘

”اس دعا سے خود بخود یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ حضرت ابراہیمؑ اس وقت بےاولاد تھے۔قرآن مجید میں دوسرے مقامات پر جو حالات بیان کیے گئے ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صرف ایک بیوی اور ایک بھتیجے (حضرت لوطؑ) کو لے کر ملک سے نکلے تھے۔اس وقت فطرۃً آپ کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ اللہ کوئی صالح اولاد عطا فرمائے جو اس غریب الوطنی کی حالت میں آپ کا غم غلط کرے۔“(تفہیم القرآن)

   جو بندہ عاجز قلبِ سلیم لئے ہوئے اپنا سب کچھ اللہ رب العزت کی خاطر پیچھے چھوڑ کے اس کے حضور آئے،اس کی دعا کو آخر رب کے ہاں استجابت کیوں نہ مل جائے؟یہی طریقہ اختیار کرتے ہوئے حضرت ابراہیمؑ کو بالاٰخر ایک حلیم لڑکے کی بشارت دے دی گئی: 

فَبَشَّرۡنٰهُ بِغُلٰمٍ حَلِيۡمٍ ۞(الصافات:101)

”(اس دعا کے جواب میں ) ہم نے اس کو ایک حلیم(بردبار) لڑکے کی بشارت دی۔“

 ”اس سے حضرت اسماعیلؑ مراد ہیں۔” حلیم “اللہ تعالیٰ کا صفاتی نام ہے اور اس حوالے سے قرآن میں یہ لفظ بار بار آیا ہے۔ویسے تو اللہ کی صفات کا کچھ نہ کچھ عکس انسانوں کے اندر بھی پایا جاتا ہے لیکن”حلم“اللہ کی وہ شان ہے جو انسانوں میں زیادہ عام نہیں ہے۔لفظ”حلیم“غیر اللہ کے لیے قرآن میں صرف تین مرتبہ آیا ہے۔دو مرتبہ حضرت ابراہیمؑ کے لیے التوبہ:١١٤ اور ہود:٧٥ اور ایک مرتبہ حضرت اسماعیلؑ کے لیے آیت زیر مطالعہ میں۔یہاں ایک قابل توجہ نکتہ یہ بھی ہے کہ اس آیت میں حضرت اسماعیلؑ کو غُلٰمٍ حَلِیْمٍ جبکہ حضرت اسحاقؑ کو سورة الحجر کی آیت ٥٣ میں غُلٰمٍ عَلِیْمٍ کے لقب سے نوازا گیا ہے۔یعنی ایک بھائی علم میں زیادہ تھے اور ان ہی سے آگے بنی اسرائیل میں نبوت کا سلسلہ چلا اور دوسرے بھائی یعنی حضرت اسماعیلؑ”حلم“میں زیادہ تھے اور ان کی اولاد میں نبی آخر الزماں حضرت محمد ﷺ کی بعثت ہوئی۔“(بیان القرآن)

    بڑھاپے میں جو صالح بیٹا آنکھوں کا نور اور دل کا سہارا تھا اس کی جدائی کو حضرت ابراہیمؑ کیسے برداشت کرسکتے تھے؟لیکن اللہ کے ہاں ایک سنت ازل سے ہی رہی ہے کہ وہ عزیز اور محبوب چیز کو چھین کے ہی آزماتا ہے تاکہ بندہ صبر کا دامن تھام کر بلند ترین درجوں پر فائز ہونے کا اہل ہو جائے۔خواب میں اپنے جگر گوشے کی قربانی کا اشارہ پاکر ہی آپؑ تعمیلِ حکم کے لیے آمادہ ہوگئے اور آپؑ نے تسلیم و رضا کی اعلیٰ مثال رہتی دنیا تک قائم کر دی۔کتنے دلکش انداز میں باپ بیٹے کے مکالمے کو اللہ تعالٰی نے اپنے کلام میں درج کر دیا:

فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعۡىَ قَالَ يٰبُنَىَّ اِنِّىۡۤ اَرٰى فِى الۡمَنَامِ اَنِّىۡۤ اَذۡبَحُكَ فَانْظُرۡ مَاذَا تَرٰى‌ؕ قَالَ يٰۤاَبَتِ افۡعَلۡ مَا تُؤۡمَرُ‌ سَتَجِدُنِىۡۤ اِنۡ شَآءَ اللّٰهُ مِنَ الصّٰبِرِيۡنَ ۞(الصافات:102)

”وہ لڑکا جب اس کے ساتھ دوڑ دھوپ کرنے کی عمر کو پہنچ گیا تو (ایک روز) ابراہیمؑ نے اس سے کہا،’’بیٹا،میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں تجھے ذبح کر رہا ہوں،اب تو بتا تیرا کیا خیال ہے؟اس نے کہا،’’ ابا جان،جو کچھ آپ کو حکم دیا جا رہا ہے اسے کر ڈالیے، آپ اِنْشاءَ اللہ مجھے صابروں میں سے پائیں گے ‘‘

”سعی سے مراد یہاں دوڑنے پھرنے کی عمر ہے۔مطلب یہ ہے کہ یہ فرزند عزیز جب باپ کے ساتھ دوڑنے پھرنے کی عمر کو پہنچا تو حضرت ابراہیمؑ نے خواب میں دیکھا کہ ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ ہدایت ہو رہی ہے کہ اس کو اپنے رب کی خاطر قربان کردیں۔اوپر یہ اشارہ گزر چکا ہے کہ حضرت اسماعیل،حضرت ابراہیم کو ان کی دعا کے نتیجہ میں اس وقت ملے تھے جب وہ اپنے خاندان اور اپنی قوم کو چھوڑ کر ایک دوسرے ملک کو ہجرت فرما چکے تھے اور واحد چیز جو اس غربت میں ان کے لئے دلجمعی کا ذریعہ بن سکتی تھی ان کا یہی اکلوتا فرزند تھا۔اس فرزند کی عمر اس وقت اتنی ہوچکی تھی کہ وہ باپ کے ساتھ چلنے پھرنے اور اس کے چھوٹے موٹے کاموں میں اس کا ہاتھ بٹانے لگ گیا تھا۔تورات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت ان کی عمر 13 برس کی تھی۔ہر شخص اندازہ کرسکتا ہے کہ اس عمر میں بیٹا باپ کی نگاہوں میں سب سے زیادہ محبوب ہوتا ہے۔غور کیجیے کہ کتنا سخت امتحان ہے جس میں حضرت ابراہیمؑ ڈالے جاتے ہیں۔لیکن اللہ تعالیٰ کی وفاداری میں کوئی شخص اس وقت تک کامل نہیں ہوسکتا جب تک اپنی سب سے زیادہ عزیز چیز اس کی راہ میں قربان کرنے کے لئے تیار نہ ہوجائے اس وجہ سے حضرت ابراہیمؑ اس امتحان میں ڈالے گئے۔اگرچہ یہ ہدایت خواب میں ہوئی تھی اور خواب کی بات محتاج تاویل و تعبیر ہوتی ہے اس لئے حضرت ابراہیمؑ چاہتے تو اس کی کوئی تاویل کرلیتے لیکن وہ ایک صداقت شعار اور وفادار بندے تھے اس وجہ سے اس کی کوئی تعبیر نکالنے کے بجائے وہ اس کی من و عن تعمیل کرنے پر آمادہ ہوگئے۔

قال یبنی انی اری فی المنام انی اذبحک فانظر ماذا تریٰ اس راہ میں پہلا قدم انہوں نے یہ اٹھایا کہ فرزند کے حوصلہ کا بھی اندازہ کرلینا چاہا۔فرمایا کہ بیٹے میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ تمہیں ذبح کر رہا ہوں تو تم بھی غور کرلو کہ تمہاری کیا رائے ہے؟اسلوب کلام سے اعتبار ہوتا ہے کہ یہ خواب حضرت ابراہیمؑ کو ایک سے زیادہ مرتبہ نظر آیا۔اگر ایک ہی بار نظر آیا ہوتا تو اس کے اظہار کے لئے انی رایت فی المنام کا اسلوب زیادہ موزوں رہتا۔حضرت ابراہیمؑ نے یہ بھی ظاہر فرما دی کہ ہرچند یہ خواب ایک سے زیادہ مرتبہ ان کو نظر آیا ہے لیکن ہے بہرحال یہ ایک خواب تاکہ معاملہ کی اصل نوعیت بیٹے پر اچھی طرح واضح ہوجائے۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیمؑ کو بیٹے کی عقل و فہم پر اسی وقت سے بھروسہ تھا۔ان کو توقع تھی کہ اس معاملے میں اس کی رائے ان کے لئے صحیح فیصلہ کرنے میں مددگار ہوگی۔

قال آیابت افعل ماو ھرز ستجدنی ان شآء اللہ من الصبرین حضرت اسماعیل نے اس خواب کو خواب کے بجائے امر الٰہی سمجھا اور فوراً جواب دیا کہ والد ماجد آپ کو جو حکم دیا جا رہا ہے آپ بےدریغ اس کی تعمیل کیجیے اور میری طرف سے مطمئن رہیے۔انشاء اللہ آپ مجھے پوری طرح ثابت قدم پائیں گے۔“(تدبر قرآن)

اب باپ بیٹے نے گفتگو اور مکالمے کو عملی جامہ پہنانے کا مرحلہ شروع کر دیا:

فَلَمَّاۤ اَسۡلَمَا وَتَلَّهٗ لِلۡجَبِيۡنِ‌ۚ ۞(الصافات:103)

*”آخر کو جب ان دونوں نے سر تسلیم خم کر دیا اور ابراہیمؑ نے بیٹے کو ماتھے کے بل گرا دیا۔“*

”یعنی حضرت ابراہیمؑ نے ذبح کرنے کے لیے بیٹے کو چت لٹایا بلکہ اوندھے منہ لٹایا تاکہ ذبح کرتے وقت بیٹے کا چہرہ دیکھ کر کہیں محبت و شفقت ہاتھ میں لرزش پیدا نہ کر دے۔ اس لیے وہ چاہتے تھے کہ نیچے کی طرف سے ہاتھ ڈال کر چھری چلائیں۔“(تفہیم القرآن)

    جب دونوں باپ بیٹے نے اپنے خلوص کا نذرانہ پیش کردیا،اور دل و جان سے تعمیلِ حکم کے لئے تیار ہوگئے تو انھوں نے محبت کا حق ادا کردیا،حکمِ الٰہی بجا لائے اور کامیابی کے ساتھ امتحان پاس کر لیا۔اللہ تعالٰی نے انہیں کامیابی پر مبارک باد دی،یہ ایک ایسی کھلی آزمائش تھی جسے حضرت ابراہیمؑ ہی سر کر سکتے تھے۔اللہ تعالٰی بڑے ہی فخریہ انداز میں کہتے ہیں:

وَنَادَيۡنٰهُ اَنۡ يّٰۤاِبۡرٰهِيۡمُۙ ۞ قَدۡ صَدَّقۡتَ الرُّءۡيَا ‌ ‌ۚ اِنَّا كَذٰلِكَ نَجۡزِى الۡمُحۡسِنِيۡنَ ۞(الصافات:105-104)

”اور ہم نے ندا دی کہ”اے ابراہیمؑ تو نے خواب سچ کر دکھایا ہم نیکی کرنے والوں کو ایسی ہی جزا دیتے ہیں۔“

”باپ بیٹے کا اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے حکم کے سپرد کردینا اور پھر بیٹے کو ماتھے کے بل گرا دینا اور چھری لے کر پوری قوت سے آمادہِ عمل ہوجانا اور بیٹے کا سر تک ہلانے سے بھی گریز کرنا،یہ اطاعتِ امر اور قربانی و ایثار کی ایسی مثال ہے جس کی کیفیت اور اثرات کو الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں۔اس لیے پروردگار نے اس کے جواب کو ذہن سامع پر چھوڑ دیا کہ وہ تصور کرے کہ یہ صورتحال دیکھ کر اللہ تعالیٰ کے دریائے رحمت میں کیسا جوش آیا ہوگا اور پروردگار کو اپنے ان دونوں بندوں پر کیسا پیار آیا ہوگا۔اسے محسوس تو کیا جاسکتا ہے،بیان نہیں کیا جاسکتا۔بیان کی بہتر سے بہتر تعبیر بھی اس کیفیت کا حق ادا نہیں کرسکتی۔ البتہ اس رحمت کا ظہور اس طرح ہوا کہ پروردگار نے ابراہیم کو پکارا کہ اے ابراہیم! ہم نے تجھے خواب میں ذبح کرنے کا حکم نہیں دیا تھا،صرف ذبح کرتے ہوئے دکھایا تھا،وہ خواب تم نے پورا کر دکھایا۔اگرچہ تم اس کا مفہوم یہی سمجھے کہ بیٹے کو ذبح کرنا ہے۔اور تمہارے جوش و جذبہ نے قدم قدم پر اس کی تصدیق بھی کی۔لیکن ہم یہ نہیں چاہتے کہ باپ کے ہاتھوں سے بیٹا ذبح ہو،ہم تو دونوں میں امتثالِ امر کا جذبہ دیکھنا چاہتے تھے۔اب جبکہ تو نے اس جذبے کو سچا کر دکھایا ہے تو اب اپنا ہاتھ روک لو۔ہم اپنے محسنین کو ایسی ہی جزاء دیا کرتے ہیں۔احسان ہر اس نیکی کو کہتے ہیں جو اس طرح سے کی جائے جس طرح اسے کرنے کا حق ہے۔اللہ تعالیٰ کے ساتھ صدق و اخلاص میں کوئی کمی باقی نہ رہے۔جو نیکی اور قربانی بھی اس جذبے کے ساتھ کی جائے گی ہم اسے تکلیف یا رنج و غم کا باعث نہیں بناتے،بلکہ اس کے ذریعے سے فضیلتوں کو ابھارنے اور مرتبہ و مقام میں ترقی دینے کا کام لیتے ہیں۔اور آخرت میں ان ہی نیکیوں کو ابدی بادشاہی کی فیروز مندیوں کا ذریعہ بنائیں گے۔“(روح القرآن)

اِنَّ هٰذَا لَهُوَ الۡبَلٰٓؤُا الۡمُبِيۡنُ۞(الصافات:106)

 ”یقیناً یہ ایک کھلی آزمائش تھی“

”یہ حضرت ابراہیمؑ کو اس کامیابی پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے تحسین و آفرین ہے کہ یہ کوئی معمولی امتحان نہیں تھا بلکہ بہت بڑا امحتان تھا جس میں ابراہیمؑ نے بازی جیتی! جس امتحان کو خود اللہ تعالیٰ بڑا امتحان قرار دے اس کے بڑے ہونے میں کیا شبہ ہوسکتا ہے اور اگر اس میں حضرت ابراہیمؑ نے ایسی کامیابی حاصل کی جس کی داد خود اللہ تعالیٰ نے قدصدقت الرویا کے شاندار الفاظ سے دی تو اس میں شبہ نہیں کہ اس آسمان کے نیچے نہ اس سے بڑا کوئی امتحان پیش آیا اور نہ اس سے زیادہ شاندار کامیابی کسی نے حاصل کی۔“(تدبر قرآن)

 وَفَدَيۡنٰهُ بِذِبۡحٍ عَظِيۡمٍ۔(الصافات:107)

 ”ہم نے ایک بڑی قربانی فدیے میں دے کر اس بچے کو چھڑا لیا۔“

 ”بڑی قربانی“سے مراد،جیسا کہ بائیبل اور اسلامی روایات میں بیان ہوا ہے،ایک مینڈھا ہے جو اس وقت اللہ تعالیٰ کے فرشتے نے حضرت ابراہیمؑ کے سامنے پیش کیا،تاکہ بیٹے کے بدلے اس کو ذبح کردیں۔اسے بڑی قربانی کے لفظ سے اس لیے تعبیر کیا گیا کہ وہ ابراہیمؑ جیسے وفادار بندے کے لیے فرزند ابراہیمؑ جیسے صابر و جاں نثار لڑکے کا فدیہ تھا،اور اسے اللہ تعالیٰ نے ایک بےنظیر قربانی کی نیت پوری کرنے کا وسیلہ بنایا تھا۔ اس کے علاوہ اسے”بڑی قربانی“قرار دینے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ قیامت تک کے لیے اللہ تعالیٰ نے یہ سنت جاری کردی کہ اسی تاریخ کو تمام اہل ایمان دنیا بھر میں جانور قربان کریں اور وفاداری و جاں نثاری کے اس عظیم الشان واقعہ کی یاد تازہ کرتے رہیں۔“(تفہیم القرآن)

وَتَرَكۡنَا عَلَيۡهِ فِى الۡاٰخِرِيۡنَ‌ۖ۞(الصافات:108)

”اور اس کا ذکرخیر ہم نے بعد والوں میں چھوڑ دیا۔“

 ”یعنی اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیمؑ کی اس جاں نثاری اور فداکاری کو ایسی قبولیت عطا فرمائی کہ اس سنت کو بعد والوں میں بھی باقی رکھا اور حضرت ابراہیمؑ کا ذکرخیر اور آپ کی تعریف و توصیف بھی بعد کی آنے والی نسلوں میں زندہ رکھی۔شاید یہی وجہ ہے کہ آج کوئی آسمانی مذہب ایسا نہیں جو حضرت ابراہیمؑ کو اپنے بزرگوں میں شمار نہ کرتا ہو۔“(روح القرآن)

سَلٰمٌ عَلٰٓى اِبۡرٰهِيۡمَ۞(الصافات:109)

”سلامتی ہے ابراہیم پر“

 ”حضرت ابراہیمؑ کے صدق و اخلاص کے باعث دنیا اور آخرت دونوں میں اللہ تعالیٰ نے آپ کے لیے سلامتی لازم کردی ہے۔آج بھی جو شخص ان کا ذکر کرتا ہے ان کی سلامتی کے لیے دعا بھی کرتا ہے۔اور یہ سلامتی اور برکت کسی حسب و نسب کی وجہ سے نہیں بلکہ ان لوگوں کو ملتی ہے جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ صدق و اخلاص،وفاداری و جانثاری اور اخلاصِ عمل میں ہر طرح کی کمزوریوں سے پاک ہوں۔اور حضرت ابراہیمؑ یقینا ایسے تھے۔“(روح القرآن)

كَذٰلِكَ نَجۡزِى الۡمُحۡسِنِيۡنَ۞(الصافات:110)

”ہم نیکی کرنے والوں کو ایسی ہی جزا دیتے ہیں۔“

”کذلک کا اشارہ اسی سلامتی و برکت کی طرف ہے۔ فرمایا کہ ہم اپنے خوب کار بندوں کو اسی طرح اپنی رحمتوں اور برکتوں سے نوازتے ہیں۔“(تدبر قرآن)

اِنَّهٗ مِنۡ عِبَادِنَا الۡمُؤۡمِنِيۡنَ۞(الصافات:111)

”یقیناً وہ ہمارے مومن بندوں میں سے تھا۔“

مومن یہاں اپنے مکمل معنی میں ہے۔علم الیقین ہو،عین الیقین ہو یا حق الیقین ہو وہ اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات اور آپ کے احکام کے بارے میں ہر طرح کے یقین کی قوت سے مالامال تھے۔اور یہ یقین کی قوت ہی کے کرشمے ہیں کہ بڑی سے بڑی قربانی کے وقت بھی ان کے پائے استقامت میں کبھی تزلزل نہ آیا۔ان کی پوری زندگی خودفراموشی اور اللہ تعالیٰ کی ہمہ وقتی یاد سے وابستہ ہے۔وہ جانثاری اور فداکاری کی تصویر ہیں۔ان کے ایمان کا کم سے کم درجہ وہ ہے جسے اقبال نے خراج تحسین پیش کیا ہے :

 یقیں مثل خلیل آتش نشینی 

 یقیں اللہ مستی خود گزینی (روح القرآن)

Comments