Faith Strengthening Prayers Of Hazrat Ibrahim PBUH.

اللہ تعالیٰ نے قرآنِ پاک میں بہت سارے انبیاء کرامؑ کا تذکرہ فرمایا ہے،جن میں حضرت ابراہیمؑ کی شخصیت سرفہرست ہے۔آپؑ اپنی ذات سے ایک پوری امت تھے،جب دنیا میں کوئی مسلمان نہ تھا تو ایک طرف وہ اکیلے اسلام کے علمبردار تھے اور دوسری طرف ساری دنیا کفر کی علمبردار تھی۔اس اکیلے بندے نے وہ کام کیا جو ایک امت کے کرنے کا تھا۔اللہ تعالیٰ نے قرآنِ پاک میں آپ کی شخصیت کو پوری وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے۔آپ کی زندگی کے بہت سے پہلو ہیں اور ہر ایک پہلو بڑا ہی نرالا اور شان والا ہے۔وہ گفتار و کردار میں اللہ کی برہان تھے۔آپ کی روشن زندگی میں اہلِ ایمان کے لیے ایک اعلیٰ نمونہ ہے۔

   توحید کی دعوت ہو،شرک سے بیزاری ہو،دعوتِ دین کی تڑپ ہو،ابتلاء و آزمائش میں استقامت و پامردی ہو،اللہ کی راہ میں طرح طرح کی قربانی ہو۔ہر اعتبار سے آپؑ ایک ممتاز حیثیت رکھتے ہیں۔آپؑ کی زندگی کا ایک ابھرا ہوا پہلو یہ ہے کہ آپؑ نے اللہ تعالیٰ سے مختلف مواقع پر نہایت ہی اہم اور جامع دعائیں مانگی ہیں۔یہ دعائیں وقتی و عارضی نہ تھیں،بلکہ رہتی دنیا تک یہ انسانوں کو رہنمائی کرنے میں کلیدی رول ادا کرتے ہوئے نظر آئیں گے،مگر شرط یہ ہے کہ مانگنے میں حضرت ابراہیمؑ جیسا طریقہ ہونا چاہئیے۔ان دعاٶں سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ سے آپؑ کا تعلق کتنا گہرا تھا،آپؑ رجوع الی اللہ کے جذبے سے کتنے سرشار تھے،آپؑ کے خلوص و للٰہیت اور خشیت و انابت کی کیفیت کتنی بڑھی ہوئی تھی۔

   آپؑ نے آزمائش کے دور میں دعا کا دامن تھام لیا،چونکہ آزمائش میں دعا کی اہمییت کچھ اور ہی بڑھ جاتی ہے۔جب ہر طرف خوف و ہراس کا عالم ہو،ظلم و جور کی رات ہو،نفرت ہی نفرت کا دور دورہ ہو،تو بندہ مومن دامنِ دعا کی جانب بھاگتا ہے جہاں اسے اطمینانِ قلب بھی،جستجو کے طریقے بھی اور آگے بڑھنے کی ہمت بھی نصیب ہوتی ہے۔آپؑ نے ظلمت کی گھٹاٹوپ اندھیروں میں دعاٶں کے ذریعے چراغ روشن کئے تاکہ آنے والے انسان بآسانی منزلِ مقصود کو پہنچ سکیں۔لہٰذا بلاتاخیر آئیے ہم بھی حضرت ابراہیمؑ کی دعاٶں جیسی دعائیں مانگیں تاکہ ہم ان دعاٶں کے ذریعے سے حقیقی معنی میں اپنے رب سے جُڑ جائیں اور دین و دنیا کی ساری بھلائیاں اپنے لئے سمیٹ لیں۔ذیل میں انھی دعاٶں کو ترتیب دیا گیا ہے تاکہ قاری ان کو بر وقت زبان پر لائے اور ان کے پیغام سے کماحقہ مستفیض ہو جائے۔

مقصد میں سرگرم ہونے کی دعا

رَبِّ اجۡعَلۡنِىۡ مُقِيۡمَ الصَّلٰوةِ وَمِنۡ ذُرِّيَّتِىۡ‌‌ ۖ رَبَّنَا وَتَقَبَّلۡ دُعَآءِ‏ ۞رَبَّنَا اغۡفِرۡ لِىۡ وَلـِوَالِدَىَّ وَلِلۡمُؤۡمِنِيۡنَ يَوۡمَ يَقُوۡمُ الۡحِسَابُ ۞(ابراہیم:41-40)

”اے میرے رب! مجھے نماز کا قائم کرنے والا بنا اور میری اولاد میں سے بھی۔اے ہمارے رب! میری التجا ضرور قبول فرما۔اے ہمارے رب! مجھے اور میرے والدین کو اور مومنین کو اس دن بخش جس دن حساب قائم ہوگا۔“

”یہ وہ آیت کریمہ ہے جسے بالعموم مسلمان نماز کے آخر میں دعا کے طور پر پڑھتے ہیں۔اس میں حضرت ابراہیمؑ نے نماز میں اپنی اور اپنی اولاد کے لیے سرگرم رہنے کی دعا مانگی ہے،حالانکہ اس سے دو آیتیں پہلے دعا میں اس کا ذکر گزر چکا ہے۔بارِدگر پھر اسی کی دعا کرنا اس کی اہمیت پر دلالت کرتا ہے،لیکن مزید غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے پہلے حضرت ابراہیمؑ نے اپنے پروردگار کے حضور یہ درخواست کی تھی کہ میں نے اپنی اولاد کو تیرے حرمت والے گھر کے پاس اس لیے لا بسایا ہے تاکہ وہ اقامتِ صلوٰۃ کریں یعنی ان کے یہاں قیام کا مقصد صرف اقامتِ صلوٰۃ ہے۔اب اسی اقامتِ صلوٰۃ کے بروئے کار لانے کے لیے دعا مانگی جارہی ہے اور دعا میں فعل استعمال نہیں کیا گیا جو کسی عمل کے واقع ہونے پر دلالت کرتا ہے بلکہ اسم صفت لایا گیا ہے جس میں اہتمام اور استمرار کی شان پائی جاتی ہے اور جو عموماً انسان کی طبیعت ثانیہ بن جاتا ہے۔اللہ تعالیٰ سے طلب اس بات کی کی جارہی ہے کہ پروردگار مجھے اور میری اولاد کو اس طرح کا بنا دے کہ ہم سے نماز کا اہتمام اس طرح سے ظہور میں آئے جیسے چشمے سے پانی ابلتا ہے،جیسے سورج سے کرنیں پھوٹتی ہیں،جیسے چاند سے چاندنی ظہور پذیر ہوتی ہے۔اور صلوٰۃ چونکہ تمام نیکیوں کی جامع نیکی ہے اسی سے اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایفائے عہد کا جذبہ استوار ہوتا ہے اور اسی سے دن کے پانچ وقتوں میں تجدیدِ عہد ہوتی ہے۔اس میں ایک مومن ان تمام کیفیات سے گزرتا ہے جو ایک مومن کا سرمایہ ہیں۔اور اس کی زبان پر وہ تمام تسبیحات جاری ہوتی ہیں جو اس کی بندگی کی علامت ہیں۔اسی لیے آدمی اپنی فروتنی اور اللہ تعالیٰ کی کبریائی کا اظہار کرتا ہے۔دوسرے لفظوں میں یوں کہنا چاہیے کہ یہ پوری زندگی کی تعبیر ہے۔اسی کی اہمیت کے پیش نظر دوبارہ عرض کیا گیا کہ اے ہمارے رب! ہماری یہ دعا قبول فرمانا۔ کیونکہ اقامتِ صلوٰۃ یعنی اسلامی زندگی کی ذمہ داریاں ادا کرنا ایک نہایت کٹھن کام ہے جو ایک دو دن پر مشتمل نہیں بلکہ اس میں پوری زندگی مطلوب ہے۔ یقینا اس میں کہیں نہ کہیں کو تاہیاں ہوں گی،کہیں نہ کہیں لغزشیں ہوں گی۔اس لیے آخر میں اپنی،والدین کی اور مومنوں کی بخشش کے لیے دعا مانگی کہ اللہ تعالیٰ ان سب کو اپنی بخشش اور عفو و درگزر میں جگہ عطا فرمائے۔“(روح القرآن)

 اطاعت پر قائم رہنے کی دعا

رَبَّنَا وَاجۡعَلۡنَا مُسۡلِمَيۡنِ لَـكَ وَ مِنۡ ذُرِّيَّتِنَآ اُمَّةً مُّسۡلِمَةً لَّكَ وَاَرِنَا مَنَاسِكَنَا وَتُبۡ عَلَيۡنَا اِنَّكَ اَنۡتَ التَّوَّابُ الرَّحِيۡمُ۞(البقرہ:128)

”اے رب،ہم دونوں کو اپنا مسلم (مُطیع فرمان) بنا، ہماری نسل سے ایک ایسی قوم اٹھا،جو تیری مسلم ہو، ہمیں اپنی عبادت کے طریقے بتا،اور ہماری کوتاہیوں سے در گزر فرما،تو بڑا معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔“

 ”یہ اس معاونت کی امید ہے جو یہ دونوں اسلام کی طرف ہدایت پانے کے سلسلے میں اللہ سے رکھتے ہیں۔ان کے دلوں میں یہ پختہ شعور تھا کہ ان کے دل اللہ تعالیٰ کی انگلیوں میں ہیں،یہ کہ ہدایت صرف اس کی ہدایت ہے،اس کی معاونت وتوفیق کے بغیر کوئی نہیں جو ہدایت پاسکے۔اس لئے وہ دونوں ہمہ تن اللہ کی طرف متوجہ اور اس کی طرف راغب اور مائل ہیں اور اللہ تو بہترین مددگار ہے۔

 امت مسلمہ کا یہ مزاج کہ وہ باہم معاون و مددگار ہوتی ہے۔اس کے افراد نسلاً بعد نسل نظریاتی طور پر باہم پیوست ہوتے ہیں،اس لئے دعا کی جاتی ہے وَمِنْ ذُرِّيَّتِنَا أُمَّةً مُسْلِمَةً لَكَ”اور ہماری نسل سے بھی تیری مسلم امت پیدا ہو۔“

 یہ ایک ایسی دعا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ دل مومن کی پہلی تمنا کیا ہوتی ہے۔عقیدہ اور نظریہ ہی ایک مومن کا محبوب ، مشغلہ ہوتا ہے۔وہ اس کی پہلی ترجیح ہوتی ہے۔حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل (علیہما السلام) کے سامنے اس دولت کی اہمیت واضح تھی جو انہیں دی گئی تھی یعنی دولت ایمان اور ثروت عقیدہ۔یہ اہمیت اور خواہش انہیں مجبور کرتی ہے کہ وہ آنے والی نسلوں کے لئے بھی اس دولت کے بارے میں التجا کریں۔اس لئے وہ اپنے رب سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ان کی اولاد کو بھی اس دولت ثروت سے محروم نہ رکھیں جس کی قدر و قیمت کے برابر کوئی چیز موجود نہیں ہے۔اس سے قبل انہوں نے دعا کی تھی کہ وہ ان کی اولاد کو وسائل رزق فراوانی سے دیں۔اس لئے انہوں نے یہ بھی ضروری سمجھا کہ ان کی اولاد دولت ایمان سے محروم نہ ہو۔انہوں نے یہ بھی دعا کی کہ وہ ان کی اولاد کو تعلیم مناسک بھی دے۔ان کو طریقہ عبادت بھی سکھائے،ان کی مغفرت کرنے والا غفور الرحیم ہے۔“(فی ظلال القرآن)

 لائق اولاد کی دعا

رَبِّ هَبۡ لِىۡ مِنَ الصّٰلِحِيۡنَ۞(الصافات:100)

”اے پروردگار،مجھے ایک بیٹا عطا کر جو صالحوں میں سے ہو‘‘

”قرآن کریم کے دوسرے مقامات سے معلوم ہوتا ہے کہ جب آپ نے ہجرت کی ہے تو آپ کے ساتھ صرف آپ کی ایک بیوی اور ایک بھتیجے تھے جو حضرت لوطؑ کے نام سے معروف ہوئے اور اللہ تعالیٰ نے ان کو نبوت عطا فرمائی۔اس کا مطلب یہ ہے کہ اس وقت تک آپ کی کوئی اولاد نہ تھی۔تکالیف اور غربت میں یقیناً بیوی انسان کا ایک بڑا سہارا ہوتی ہے لیکن بیٹا ایک ایسی ضرورت ہے جو اپنی ایک انفرادی حیثیت رکھتا ہے، جس سے دل کی دنیا بھی آباد ہوتی ہے اور امیدیں بھی جوان ہوجاتی ہیں۔چناچہ اللہ تعالیٰ نے اس دعا کو قبول فرمایا اور آپ کو ایک ایسے بیٹے کی بشارت دی گئی جو نہایت حلیم اور بردبار ہوگا۔لیکن اس سے یہ نہ سمجھا جائے کہ آپ کی دعا کے نتیجے میں جلدی ہی آپ کو بیٹا عطا کردیا گیا۔بلکہ دعا اور بشارت میں سالہاسال کا فصل حائل ہے۔کیونکہ قرآن کریم میں حضرت ابراہیمؑ کا یہ قول نقل کیا گیا ہے اَلْحَمُدِللّٰہِ الَّذِیْ وَھَبَ لِیْ عَلٰی الْـکِبَرِ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِسْحٰقَشکر ہے اس اللہ کا جس نے مجھے بڑھاپے میں اسماعیل اور اسحاق عطا فرمائے۔“بائیبل کا بیان ہے کہ حضرت اسماعیلؑ کی پیدائش کے وقت حضرت ابراہیمؑ کی عمر ٨٦ برس کی تھی اور حضرت اسحاقؑ کی پیدائش کے وقت ١٠٠ برس تھی۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دونوں بھائیوں کی عمر میں ١٤ سال کا فاصلہ ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ جس بیٹے کی دعا مانگی گئی تھی وہ حضرت اسماعیلؑ تھے، حضرت اسحاقؑ نہیں اور وہی آپ کی اکلوتی اولاد تھے۔“(روح القرآن)

 ہر دل عزیزی کی دعا

رَبَّنَاۤ اِنِّىۡۤ اَسۡكَنۡتُ مِنۡ ذُرِّيَّتِىۡ بِوَادٍ غَيۡرِ ذِىۡ زَرۡعٍ عِنۡدَ بَيۡتِكَ الۡمُحَرَّمِۙ رَبَّنَا لِيُقِيۡمُوۡا الصَّلٰوةَ فَاجۡعَلۡ اَ فۡـئِدَةً مِّنَ النَّاسِ تَهۡوِىۡۤ اِلَيۡهِمۡ وَارۡزُقۡهُمۡ مِّنَ الثَّمَرٰتِ لَعَلَّهُمۡ يَشۡكُرُوۡنَ‏۞(ابراہیم:37)

”پروردگار،میں نے ایک بے آب و گیاہ وادی میں اپنی اولاد کے ایک حصے کو تیرے محترم گھر کے پاس لا بسایا ہے۔پروردگار،یہ میں نے اِس لیے کیا ہےکہ لوگ یہاں نماز قائم کریں،لہٰذا تُو لوگوں کے دِلوں کو اِن کا مشتاق بنااور انہیں کھانے کو پھل دے،شاید کہ یہ شکر گزار بنیں۔“

”ہجرت کا اصل مقصود:یعنی میں نے اپنی اولاد کو ایک بن کھیتی کی چٹیل زمین میں،تیرے محترم گھر کے پاس،اس لیے لا بسایا ہے تاکہ وہ نماز کا اہتمام کریں۔تو لوگوں کے دل ان کی طرف مائل کردے اور ان کو پھلوں کی روزی عطا فرما تاکہ وہ تیرے شکر گزار رہیں۔اس سے ایک بات تو یہ معلوم ہوئی کہ خدا کی توحید اور خالص اسی کی بندگی وہ چیز ہے جس کی خاطر انسان سب کچھ چھوڑ سکتا ہے اور اسے سب کچھ چھوڑ دینا چاہیے یہاں تک کہ اگر اسے ایک چٹیل زمین میں تنہا زندگی بسر کرنی پڑے تو اس کو بھی اسے اختیار کرلینا چاہیے لیکن خدا اور اس کی عبادت کو کسی حال میں بھی نہیں چھوڑنا چاہیے۔

اقامت صلوۃ تعمیرِ کعبہ کا مقصد:دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ خانہ کعبہ اصل میں نماز کا مرکز ہے اس وجہ سے اس کی تولیت کے اصل حق دار وہ ہیں جو نماز کا اہتمام کریں نہ کہ وہ جو توحید اور نماز سب کچھ ضائع کر بیٹھے لیکن اس کی تولیت کے مدعی ہیں۔ یہاں حضرت ابراہیم نے نماز کا ذکر خانہ کعبہ کے ابتدائی مقصد تعمیر کی حیثیت سے کیا ہے۔بعد میں جب اس کے لیے ان کو حج کی منادی کا حکم ہوا تو یہ حج کا بھی مرکز بن گیا اور حضرت اسمعیل کی قربانی کی یادگار میں قربانی کا بھی۔یہ امر بھی ملحوظ رہے کہ”اقامت صلوۃ“کا مفہوم صرف نماز پڑھنا ہی نہیں ہے بلکہ یہ چیز بھی اس میں شامل ہے کہ لوگوں کو اس کی دعوت دی جائے اور اس امر کا اہتمام و انتام کیا جائے کہ لوگ نماز پڑھیں۔ 

دعائے ابراہیمی کے اصل اجزاء:یہاں حضرت ابراہیم نے نماز اور اس سرزمین کی خاص نوعیت کے سبب سے اپنی اولاد کے لیے دو چیزوں کی دعا کی۔ ایک اس چیز کی کہ تو لوگوں کے دل ان کی طرف مائل کردے۔ حضرت ابراہیم کی اس دعا کی مقبولیت کا یہ اثر ہوا کہ خانہ کعبہ بہت جلد سارے عرب کا مرجع بن گیا اور آنحضرتؐ کی بعثت کے بعد تو کہیے کہ سارے عالم کا مرکز بن گیا۔دوسری دعا ملک کے بےآب وگیاہ ہونے کے سبب سے رزق و فضل کی کشائش کی کی۔جس کا اثر بہت جلد اس شکل میں ظاہر ہوا کہ مکہ تمام عرب کی تجارت کا مرکز بن گیا۔“(تدبر قرآن)

 امن و سلامتی کی دعا

وَاِذۡ قَالَ اِبۡرٰهِيۡمُ رَبِّ اجۡعَلۡ هٰذَا الۡبَلَدَ اٰمِنًا۞(ابراہیم:35)

”یاد کرو وہ وقت جب ابراہیم ؑ نے دُعا کی تھی کہ”پروردگار،اِس شہر کو امن کا شہر بنا۔“

 اس منظر میں حضرت ابراہیمؑ بیت اللہ کے پاس کھڑے نظر آتے ہیں۔بیت اللہ کی تعمیر انہوں نے کردی ہے اور یہ وہی بیت اللہ ہے جس کی تولیت اب قریش تک آپہنچی ہے۔اور ذرا دیکھو ان کو،یہ اللہ کے ساتھ کفر بیت اللہ میں کرتے ہیں۔اور یہ کفر وہ اس گھر میں کرتے ہیں جس کے بنانے والے نے اسے صرف اللہ کی بندگی کے لئے بنایا تھا۔ قرآن کریم اس منظر میں حضرت ابراہیمؑ کو ایک عاجزی کرنے والا،اللہ سے نہایت ڈرنے والا،ذکر و شکر کرنے والا ظاہر کرتا ہے۔یہ اس لیے کہ قریش ذرا غور کریں اور اپنے انکار اور ہٹ دھرمی کو ترک کر کے دعوت اسلامی کا اعتراف کرلیں،کفر کے بجائے شکر کریں،غفلت کے بجائے نصیحت حاصل کریں اور ابراہیمؑ کی اولاد ہونے کے دعویٰ کے ساتھ ساتھ وہ جو بدراہ و گمراہ ہوگئے،واپس ان کی اصلی راہ پر آجائیں اور حضرت ابراہیمؑ کی پیروی کر کے راہ ہدایت پر آجائیں۔

 رب اجعل ھذا البلد امنا (١٤ : ٣٥)”پروردگار،اس شہر (یعنی مکہ) کو امن کا شہر بنا دے“۔امن وہ نعمت ہے جو ہر انسان کی ضرورت ہے۔انسان کے احساسات پر امن بہت اثر کرتا ہے،کیونکہ انسان کی زندگی جاری ہی امن سے رہ سکتی ہے۔یہاں حضرت ابراہیمؑ کی دعائے امن کو اس لیے لایا گیا ہے کہ اہل مکہ کو بتایا جائے کہ ذرا عقل کے ناخن لو اور اس شہر کے امن کو تباہ نہ کرو ، بڑی دعاؤں کے بعد یہ ملا ہے۔تم ایک طویل عرصہ ہوا اس سے فائدہ اٹھاتے رہے ہو اور خود اپنے ہاتھوں سے تباہ کرتے ہو اور شکر نہیں کرتے۔یہ امن اس شہر کو تو حضرت ابراہیمؑ کی دعاؤں سے حاصل ہوا ہے۔ افسوس صد افسوس کہ تم حضرت ابراہیمؑ کے طریقے اور دین کو چھوڑ چکے ہو،اور یوں نا شکری کرتے ہو۔ اور اس پر مستزاد یہ کہ اس خانہ توحید میں تم نے اللہ کے شریکوں کے بت رکھ چھوڑے ہیں،تم اس شہر میں حضرت ابراہیمؑ کے دین اور اللہ کی راہ سے لوگوں کو روکتے ہو،حضرت ابراہیمؑ کی دعا کے اس حصے پر تو غور کرو۔(فی ظلال القرآن)

شرک و بت پرستی سے اجتناب کی دعا

وَّاجۡنُبۡنِىۡ وَبَنِىَّ اَنۡ نَّـعۡبُدَ الۡاَصۡنَامَؕ۞(ابراہیم:35)

”میری اولاد کو بُت پرستی سے بچا۔“

”حضرت ابراہیمؑ کی اس دعا سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ رب کے سامنے تسلیم و رضا کے پیکر ہیں۔اور دل کی گہرائیوں سے التجا کر رہے ہیں۔دعا یہ ہے کہ اے اللہ مجھے اور میری اولاد کو بت پرستی سے بچائیو،آپ اپنی دعا میں مدد بھی طلب فرماتے ہیں اور راہنمائی بھی چاہتے ہیں۔اس دعا سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ اس ہدایت کو اللہ کی نعمتوں میں سے ایک نعمت سمجھتے ہیں جس کی وجہ سے دل شرک اور بت پرستی کی تاریکیوں سے نکل آتا ہے اور جہالت کے بدلے علم اور تاریکی کے بدلے روشنی پاتا ہے۔یعنی ایمان باللہ اور توحید کی ہدایت اور روشنی۔توحید میں

آخر انسان حیرت اور پریشانی کے تہ بہ تہ اندھیروں سے نکل جاتا ہے اور گمراہی اور بدکرداری سے بچ نکلتا ہے۔وہ روشن دماغ،پرسکون اور برقرار ہوتا ہے اور مختلف الہٰوں اور خداؤں کی بندگی سے نکل کر اور ذلت اور غلامی سے نکل کر،ایک خدا کی نہایت ہی باعزت بندگی میں داخل ہوتا ہے اور ایک آزاد زندگی پاتا ہے۔یہ وہ انعامات ہیں جو حضرت ابراہیمؑ پر رب تعالیٰ نے کر رکھے تھے۔اب وہ دعا کرتے ہیں کہ یہ انعامات برقرار ہیں۔وہ بھی اور ان کی اولاد بھی بت پرستی کی لعنت سے دور رہے 

 حضرت ابراہیمؑ یہ دعا اس لیے کرتے ہیں کہ وہ دیکھتے ہیں کہ ان کے ماحول میں ان کی ہم عصر نسلوں میں سے اکثریت کو بت پرستی نے گمراہ کر رکھا ہے،سابقہ لوگ بھی اس میں مبتلائے ہوئے اور خلق کثیر کو ان بتوں نے گمراہ کیا۔“(فی ظلال القرآن)

 قبولیتِ عمل کی دعا

وَاِذۡ يَرۡفَعُ اِبۡرٰهٖمُ الۡقَوَاعِدَ مِنَ الۡبَيۡتِ وَاِسۡمٰعِيۡلُؕ رَبَّنَا تَقَبَّلۡ مِنَّا ‌ؕ اِنَّكَ اَنۡتَ السَّمِيۡعُ الۡعَلِيۡمُ۞(البقرہ:127)

”اور یاد کرو ابراہیمؑ اور اسمٰعیلؑ جب اس گھر کی دیواریں اٹھا رہے تھے،تو دعا کرتے جاتے تھے:”اے ہمارے رب، ہم سے یہ خدمت قبول فرما لے،تو سب کی سننے اور سب کچھ جاننے والا ہے۔“

”ذرا انداز کلام ملاحظہ ہو! کلام کا آغاز حکایتی ہے ۔ ایک قصے کا آغاز یوں ہوتا ہے۔وَإِذْ يَرْفَعُ إِبْرَاهِيمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَيْتِ وَإِسْمَاعِيلُاور یاد کرو جب ابراہیمؑ اور اسماعیلؑ اس گھر کی بنیادیں اٹھا رہے تھے۔

 اب قاری انتظار میں ہے کہ یہ حکایت آگے بڑھے گی،لیکن اچانک ہمارے تصور کے اسکرین پر ایسا منظر آتا ہے کہ گویا حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل اس پر سامنے آتے ہیں۔محسوس ہوتا ہے کہ گویا تصور نہیں بلکہ ہم اپنی آنکھوں سے ان حضرات کو دیکھ رہے ہیں۔وہ ہمارے سامنے حاضر ہیں اور قریب ہے کہ ہم ان حضرات کی یہ رقت آمیز دعا اپنے کانوں سے سن لیں۔

 زمزمہ دعا،نغمہ التجا اور طلب مدعا کی یہ عجیب فضا بالکل آنکھوں کے سامنے ہے،گویا یہ سب کچھ اسی وقت ہورہا ہے۔ایک زندہ اور متحرک منظر سامنے ہے جس کے کردار مشخص کھڑے ہیں۔حسین و جمیل تعبیر اور انداز گفتگو قرآن مجید کی خصوصیات میں سے ایک اہم خصوصیت ہے۔قرآن مجید ازمنہ سابقہ کے کسی بھی منظر کو اسی طرح بیان کرتا ہے کہ وہ بالکل اسکرین پر چلتا ہوا نظر آتا ہے۔زندگی سے بھرپور،متحرک اور شخصی تصویر کشی اور منظر نگاری کی یہ ایسی خصوصیت ہے جو اللہ کی اس دائمی کتاب ہی کو زیب دیتی ہے اور ہے بھی معجزانہ۔اور اس دعا کے اندر کیا ہے؟نبوت کی نیاز مندانہ ادا،نبوت کا پختہ یقین اور اس کائنات میں نظریہ اور عقیدے کا پیغمبرانہ شعور۔یہی ادا اور یقین اور یہی شعور اللہ تعالیٰ وارثان انبیاء کو سکھانا چاہتے ہیں۔قرآن مجید کی یہ کوشش ہے کہ اس القاء کے ذریعہ یہ شعور وارثان انبیاء کے دل و دماغ میں عمیق تر ہوجائے ۔

 رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ (١٢٧) ”اے ہمارے رب،قبول فرما،بیشک آپ ہی سننے والے ہیں اور جاننے والے ہیں۔“یہ دعائے اجابت ہے۔اور یہی منتہائے مراد ہے۔اس لئے کہ یہ عمل خالص اللہ کے لئے ہے۔خشوع اور خضوع کے ساتھ۔اس کے ذریعہ وہ دونوں اللہ کی جانب متوجہ ہوں۔اور اس سب کاروائی اور عمل کے پیچھے صرف رضائے الٰہی اور مقبولیت دعا کا جذبہ کار فرما ہے۔اور امید کی کرن یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر پکارنے والے کی پکار سنتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اس پکار کے پیچھے جو جذبہ کارفرما ہوتا ہے اور پکارنے والے کا جو شعور ہوتا ہے وہ اس کے علم میں ہوتا ہے۔“(فی ظلال القرآن)

 علم و حکمت کی دعا

رَبِّ هَبۡ لِىۡ حُكۡمًا۞(الشعراء:83)

”اے میرے ربّ،مجھے حکم عطا کر۔“

 ”حکم“سے مراد”نبوت“یہاں درست نہیں ہے،کیونکہ جس وقت کی یہ دعا ہے اس وقت حضرت ابراہیمؑ کو نبوت عطا ہوچکی تھی۔اور اگر بالفرض یہ دعا اس سے پہلے کی بھی ہو تو نبوت کسی کی طلب پر اسے عطا نہیں کی جاتی بلکہ وہ ایک وہبی چیز ہے جو اللہ تعالیٰ خود ہی جسے چاہتا ہے دیتا ہے۔اس لیے یہاں حکم سے مراد علم،حکمت،فہم صحیح اور قوت فیصلہ ہی لینا درست ہے،اور حضرت ابراہیمؑ کی یہ دعا قریب قریب اسی معنی میں ہے جس میں نبیؐ سے یہ دعا منقول ہے کہ اَرِنَا الْاَ شْیَآءَ کَمَاھِیَ یعنی ہم کو اس قابل بنا کہ ہم ہر چیز کو اسی نظر سے دیکھیں جیسی کہ وہ فی الواقع ہے اور ہر معاملہ میں وہی رائے قائم کریں جیسی کہ اس کی حقیقت کے لحاظ سے قائم کی جانی چاہیے۔“(تفہیم القرآن)

صالحین کے ساتھ رفاقت کی دعا

وَّاَلۡحِقۡنِىۡ بِالصّٰلِحِيۡنَۙ۞(الشعراء:83)

”(اِس کے بعد ابراہیمؑ نے دُعا کی)”اے میرے ربّ،مجھے حکم عطا کر۔اور مجھ کو صالحوں کے ساتھ مِلا۔یعنی دنیا میں مجھے صالح سوسائٹی دے اور آخرت میں میرا حشر صالحوں کے ساتھ کر۔جہاں تک آخرت کا تعلق ہے،صالح لوگوں کے ساتھ کسی کا حشر ہونا اور اس کا نجات پانا گویا ہم معنی ہیں،اس لیے یہ تو ہر اس انسان کی دعا ہونی ہی چاہیے جو حیات بعد الموت اور جزا وسزا پر یقین رکھتا ہو۔لیکن دنیا میں بھی ایک پاکیزہ روح کی دلی تمنا یہی ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ سے ایک بد اخلاق فاسق و فاجر معاشرے میں زندگی بسر کرنے کی مصیبت سے نجات دے اور اس کو نیک لوگوں کے ساتھ ملائے۔معاشرے کا بگاڑ جہاں چاروں طرف محیط ہو وہاں ایک آدمی کے لیے صرف یہی چیز ہمہ وقت اذیت کی موجب نہیں ہوتی کہ وہ اپنے گردو پیش گندگی ہی گندگی پھیلی ہوئی دیکھتا ہے،بلکہ اس کے لیے خود پاکیزہ رہنا اور اپنے آپ کو گندگی کی چھینٹوں سے بچا کر رکھنا بھی مشکل ہوتا ہے۔اس لیے ایک صالح آدمی اس وقت تک بےچین ہی رہتا ہے جب تک یا تو اس کا اپنا معاشرہ پاکیزہ نہ ہوجائے،یا پھر اس سے نکل کر وہ کوئی دوسری ایسی سوسائیٹی نہ پالے جو حق و صداقت کے اصولوں پر چلنے والی ہو۔“(تفہیم القرآن)

 نیک نامی کی دعا

وَاجۡعَلْ لِّىۡ لِسَانَ صِدۡقٍ فِى الۡاٰخِرِيۡنَۙ۞(الشعراء:84)

”اور بعد کے آنے والوں میں مجھ کو سچی ناموری عطا کر۔“

”یعنی بعد کی نسلیں مجھے خیر کے ساتھ یاد کریں۔میں دنیا سے وہ کام کر کے نہ جاؤں کہ نسل انسانی میرے بعد میرا شمار ان ظالموں میں کرے جو خود بگڑے ہوئے تھے اور دنیا کو بگاڑ کر چلے گئے،بلکہ مجھ سے وہ کارنامے انجام پائیں جن کی بدولت رہتی دنیا تک میری زندگی خلق خدا کے لیے روشنی کا مینار بنی رہے اور مجھے انسانیت کے محسنوں میں شمار کیا جائے۔یہ محض شہرت و ناموری کی دعا نہیں ہے بلکہ سچی شہرت اور حقیقی ناموری کی دعا ہے جو لازماً ٹھوس خدمات اور بیش قیمت کارناموں ہی کے نتیجے میں حاصل ہوتی ہے۔کسی شخص کو اس چیز کا حاصل ہونا اپنے اندر دو فائدے رکھتا ہے۔دنیا میں اس کا فائدہ یہ ہے کہ انسانی نسلوں کو بری مثالوں کے مقابلے میں ایک نیک مثال ملتی ہے جس سے وہ بھلائی کا سبق حاصل کرتی ہیں اور ہر سعید روح کو راہ راست پر چلنے میں اس سے مدد ملتی ہے۔اور آخرت میں اس کا فائدہ یہ ہے کہ ایک آدمی کی چھوڑی ہوئی نیک مثال سے قیامت تک جتنے لوگوں کو بھی ہدایت نصیب ہوئی ہو ان کا ثواب اس شخص کو بھی ملے گا اور قیامت کے روز اس کے اپنے اعمال کے ساتھ کروڑوں بندگان خدا کی یہ گواہی بھی اس کے حق میں موجود ہوگی کہ وہ دنیا میں بھلائی کے چشمے رواں کر کے آیا ہے جن سے نسل پر نسل سیراب ہوتی رہی ہے۔“(تفہیم القرآن)

 جنت کے وارثوں میں بنائے جانے کی دعا

وَاجۡعَلۡنِىۡ مِنۡ وَّرَثَةِ جَنَّةِ النَّعِيۡمِۙ ۞(الشعراء:85)

”اور مجھے جنتِ نعیم کے وارثوں میں شامل فرما۔“

 ”رب العالمین! مجھے نعمتوں والی جنت کے وارثوں میں سے بنا۔تیرا انتہائی کرم ہے کہ تو نے مجھے نبوت سے نوازا اور لوگوں کی رہنمائی کے منصب پر فائز کیا،لیکن تیری دی ہوئی ہدایت سے میں یہ بات جانتا ہوں کہ تیری ذات انتہائی بےنیاز اور بےپرواہ ہے۔اس لیے تیری بارگاہ کے مقربین بھی ہمیشہ لرزاں و ترساں رہتے ہیں جنت تیرا ایسا انعام ہے جو صرف اسے نصیب ہوگا جو ایمان و عمل کے ساتھ ساتھ تیرے فضل سے بہرہ ور ہوگا۔تیری وہ عنایات جو تیرے فضل کو دعوت دیتی ہیں وہ سب تو نے مجھے عطا فرمائی ہیں۔اب قیامت کے دن تیرا فضل ہوگا تو میں جنت میں داخل ہوسکوں گا۔اس لیے میں تجھ ہی سے تیرا فضل اور تیری جنت مانگتا ہوں۔“(روح القرآن)

 والد کے لیے مغفرت کی دعا

وَاغۡفِرۡ لِاَبِىۡۤ اِنَّهٗ كَانَ مِنَ الضَّآلِّيۡنَۙ۞(الشعراء:86)

”اور میرے باپ کو معاف کر دے کہ بے شک وہ گمراہ لوگوں میں سے ہے۔“

 ”سعادت مند اولاد جب بھی اپنے اللہ کو پکارتی ہے تو اپنے والدین کو کبھی نہیں بھولتی۔ اس لیے حضرت ابراہیمؑ نے جب اپنے لیے جنت کے وارثوں میں سے ہونے کی دعا مانگی تو معاً خیال آیا کہ میرے والد نے تو ابھی تک بت پرستی چھوڑ کر توحید کے راستے پر چلنے کا اقرار نہیں کیا۔یعنی اس نے ایمان کا راستہ اختیار نہیں کیا اور ایمان کے بغیر مغفرت کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا،لیکن یہ بات بھی بہت تکلیف دہ ہے کہ قیامت کے دن میرا باپ کافروں کے ساتھ جہنم میں داخل کیا جائے۔مجھے اللہ تعالیٰ نے بلند مراتب عطا فرمائے ہیں،لیکن جب میرا باپ جہنم میں جائے گا تو مجھے رسوائی سے کون بچا سکے گا۔اس لیے بےساختہ اللہ تعالیٰ سے اپنے والد کے لیے دعا مانگی۔کیونکہ وہ گمراہوں میں سے ہے۔اگر اسے ایمان کی دولت نہ ملی اور وہ جنت میں جانے کا مستحق نہ ٹھہرا تو میری میدانِ حشر میں کیسی رسوائی ہوگی۔لیکن قرآن کریم کی دیگر تصریحات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیمؑ نے اپنے والد کے لیے اس وقت تک دعائیں مانگی ہیں جب تک آپؑ کو باپ کے ایمان لانے کے بارے میں بالکل مایوسی نہیں ہوگئی۔اور آپؑ کی دعائیں جہاں پسرانہ محبت کی وجہ سے تھیں وہیں اس کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ جب آپؑ اپنے والد کے ظلم سے تنگ آکر ہجرت کرنے لگے تو آپؑ نے اپنے والد سے کہا تھا سَلاَ مٌ عَلَیْکَ سَاَسْتَغْفِرُ لَـکَ اِنَّـہٗ کَانَ بِیْ حَفِیًّا”آپ کو سلام ہے، میں آپ کے لیے اپنے رب سے بخشش کی دعا کروں گا،وہ میرے اوپر نہایت مہربان ہے۔“اس وعدے کے ایفاء کے لیے آپؑ اپنے باپ کے لیے دعا کرتے رہے۔لیکن اس کی جب حق سے دشمنی انتہا کو پہنچ گئی تو تب آپؑ نے دعا کرنا چھوڑ دیا۔قرآن کریم کہتا ہے وَمَا کَانَ اسْتِغْفَارُ اِبْرٰاھِیْمَ لِاَبِیْہِ اِلاَّ عَنْ مّـوْعِدَۃٍ وَّعَدَھَا اِیَّـاہُ فَلَمَّا تَـبَـیَّنَ لَـہٗ اَنَّـہٗ عَدَوَّلِلّٰہِ تَبَرَّاَ مِنْـہُ”حضرت ابراہیمؑ کا اپنے باپ کے لیے دعائے مغفرت کرنا محض اس وعدے کی وجہ سے تھا جو اس نے اس سے کیا تھا مگر جب یہ بات اس پر کھل گئی کہ وہ خدا کا دشمن ہے تو اس نے اظہارِ بیزاری کردیا۔“(روح القرآن)

 قیامت کی رسوائی سے بچنے کی دعا

وَلَا تُخۡزِنِىۡ يَوۡمَ يُبۡعَثُوۡنَۙ۞(الشعراء:87)

”اور مجھے اُس دن رُسوا نہ کر جبکہ سب لوگ زندہ کر کے اُٹھائے جائیں گے۔“

”یعنی قیامت کے روز یہ رسوائی مجھے نہ دکھا کہ میدان حشر میں تمام اوّلین و آخرین کے سامنے ابراہیمؑ کا باپ سزا پا رہا ہو اور ابراہیمؑ کھڑا دیکھ رہا ہو۔“(تفہیم القرآن)

آخری نبی کی بعثت کے لیے دعا

رَبَّنَا وَابۡعَثۡ فِيۡهِمۡ رَسُوۡلًا مِّنۡهُمۡ يَتۡلُوۡا عَلَيۡهِمۡ اٰيٰتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الۡكِتٰبَ وَالۡحِكۡمَةَ وَ يُزَكِّيۡهِمۡ‌ؕ اِنَّكَ اَنۡتَ الۡعَزِيۡزُ الۡحَكِيۡمُ۞(البقرہ:129)

”اور اے رب،ان لوگوں میں خود انھیں کی قوم سے ایک ایسا رسول اٹھائیو،جو انھیں تیری آیات سنائے،ان کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دے اور ان کی زندگیاں سنوارے۔تُو بڑا مقتدر اور حکیم ہے۔“

”آیت ١٢٩ رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْہِمْ رَسُوْلاً مِّنْہُمْ فِیْہِمْ سے حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما الصلوٰۃ والسلام کی نسل یعنی بنی اسماعیل مراد ہے۔وہ دونوں دعا کر رہے تھے کہ پروردگار! ہماری اس نسل میں ایک رسول مبعوث فرمانا جو انہی میں سے ہو،باہر کا نہ ہو،تاکہ ان کے اور اس کے درمیان مغائرت اور اجنبیت کا کوئی پردہ حائل نہ ہو۔ 

یَتْلُوْا عَلَیْہِمْ اٰیٰتِکَ  وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ  

کتاب کا صرف پڑھ کر سنا دینا تو بہت آسان کام ہے۔ اس کے بعد کتاب اور اس میں موجود حکمت کی تعلیم دینا اور اسے دلوں میں بٹھانا اہم تر ہے۔

وَیُزَکِّیْہِمْ۔ 

 ان کا تزکیہ کرے اور ان کے دلوں میں تیری محبت اور آخرت کی طلب کے سوا کوئی طلب باقی نہ رہنے دے۔

اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ   (بیان القرآن)

Comments