Supplication : The Only Way Forward (Part 14)


      اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہوئے اس کو قبولیت کے درجے تک پہنچانے کے لیے جو طریقہ اختیار کیا جاتا ہے،اسے بھی وسیلہ کہہ دیا جاتا ہے۔دعا چونکہ عین عبادت ہے اور ہر عبادت کا طریقہ بھی قرآن وسنت سے ہی معلوم کیا جاتا ہے،لہٰذا دعا میں وسیلے کے بارے میں قرآن وسنت کی تعلیمات کا جائزہ لیا جائے گا۔دعا میں وسیلے کا جو جو طریقہ کتاب وسنت سے ثابت ہوگا،وہ جائز اور مشروع ہے جبکہ دوسرے خود ساختے طریقے ناجائز و غیر مشروع۔علماء کرام کے مطابق جائز وسیلے کی تین قسمیں ہیں ان کا بیان حسبِ ذیل ہے:

(1) جائز اور مشروع طریقے کی پہلی صورت یہ ہے کہ انسان اللہ تعالٰی کو اس کے اسمائے حسنیٰ کا وسیلہ پیش کرے،مثلاً:

یااللہ! تجھے تیری رحمت کا واسطہ،ہمارے حال پر رحم فرما۔فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

﴿وَلِلَّـهِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى فَادْعُوهُ بِهَا﴾(الاعراف:180)

’’اللہ تعالیٰ کے بہت اچھے اچھے نام ہیں،اس سے ان ناموں کے ساتھ دعا کیا کرو۔‘‘

اس آیت کریمہ کی تفسیر میں علامہ ابوعبد اللہ قرطبیؒ فرماتے ہیں:

’’اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ:﴿فَادْعُوهُ بِهَا﴾(تم اسے اسمائے حسنیٰ کے ساتھ پکارو)،یعنی اس سے اس کے ناموں کے وسیلے مانگو۔ہر نام کے وسیلے اس سے ملتی جلتی چیز مانگی جائے،مثلاً اے رحیم،مجھ پر رحم فرما‘‘(الجامع لأحكام القرآن)

   احادیثِ مبارکہ میں بھی اس کی مشروعیت کا ثبوت ملتا ہے۔لیکن طوالت سے بچنے کے لئے میں یہاں دو ہی احادیثِ پاک کا ذکر کرنا مناسب سمجھتا ہوں:

حضرت بریدہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ  نے ایک شخص کو کہتے سنا:اللهم إني أسألك أني أشهد أنك أنت الله لا إله إلا أنت،الأحد،الصمد،الذي لم يلد ولم يولد ولم يكن له کفوا أحداے اللہ! میں تجھ سے مانگتا ہوں اس وسیلے سے کہ:میں گواہی دیتا ہوں کہ تو ہی اللہ ہے،تیرے سوا کوئی اور معبود نہیں،تو تنہا اور ایسا بے نیاز ہے جس نے نہ تو جنا ہے اور نہ ہی وہ جنا گیا ہے اور نہ اس کا کوئی ہمسر ہے“۔یہ سن کر آپﷺ نے فرمایا:تو نے اللہ سے اس کا وہ نام لے کر مانگا ہے کہ جب اس سے کوئی یہ نام لے کر مانگتا ہے تو عطا کرتا ہے اور جب کوئی دعا کرتا ہے تو قبول فرماتا ہے۔(ابوداٶد:1493)

حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ  وہ رسول اللہﷺ  کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے اور ایک شخص نماز پڑھ رہا تھا،(نماز سے فارغ ہو کر)اس نے دعا مانگی:اللهم إني أسألک بأن لک الحمد لا إله إلا أنت المنان بديع السموات والأرض يا ذا الجلال والإکرام يا حى يا قيوماے اللہ!میں تجھ سے مانگتا ہوں اس وسیلے سے کہ:ساری حمد تیرے لیے ہے،تیرے سوا کوئی اور معبود نہیں،تو ہی احسان کرنے والا اور آسمانوں اور زمین کو پیدا کرنے والا ہے،اے جلال اور عطاء و بخشش والے،اے زندہ جاوید،اے آسمانوں اور زمینوں کو تھامنے والے!“۔یہ سن کر نبی اکرمﷺ  نے فرمایا:اس نے اللہ سے اس کے اس اسم اعظم(عظیم نام) کے حوالے سے دعا مانگی ہے کہ جب اس کے حوالے سے دعا مانگی جاتی ہے تو وہ دعا قبول فرماتا ہے اور سوال کیا جاتا ہے تو وہ دیتا ہے۔(ابوداٶد:1495)   

(2) دوسری مشروع صورت یہ ہےکہ اللہ تعالیٰ کو اپنے نیک اعمال کا وسیلہ پیش کیا جائے،جیسا کہ:

٭قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ نے مومنوں کی ایک صفت یوں بیان کی ہے:

﴿الَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا إِنَّنَا آمَنَّا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ﴾(آل عمران16:3 )

’’وہ لوگ کہتے ہیں:اے ہمارے ربّ! ہم ایمان لے آئے ہیں،لہٰذا ہمارے گناہ معاف کر دے اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا لے۔‘‘

اس آیت کریمہ کی تفسیر میں حافظ ابن کثیرؒ فرماتے ہیں:

’’مومن کہتے ہیں:اے ہمارے ربّ! ہم تجھ پر،تیری کتاب پر اور تیرے رسول پر ایمان لے آئے ہیں۔تو اپنے ساتھ ایمان رکھنے اور اپنی نازل کردہ شریعت کو تسلیم کرنے کے طفیل اپنے فضل و رحمت سے ہمارے گناہ معاف اور ہماری کوتاہیوں سے درگزر فرما۔‘‘(تفسير ابن کثیر)

٭ اسی طرح سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے حواریوں کا ایک قول اللہ تعالیٰ نے یوں بیان فرمایا ہے:

﴿رَبَّنَا آمَنَّا بِمَا أَنزَلْتَ وَاتَّبَعْنَا الرَّسُولَ فَاكْتُبْنَا مَعَ الشَّاهِدِينَ﴾ (آل عمران 53:3)

’’اے ہمارے ربّ! ہم تیری نازل کردہ وحی پر ایمان لائے اور تیرے رسول کی پیروی کی،لہٰذا ہمارا نام بھی تصدیق کرنے والوں میں شامل فرما دے۔‘‘

٭عقل مند لوگوں کی نشانیاں بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

﴿رَّبَّنَا إِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِيًا يُنَادِي لِلْإِيمَانِ أَنْ آمِنُوا بِرَبِّكُمْ فَآمَنَّا رَبَّنَا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَكَفِّرْ عَنَّا سَيِّئَاتِنَا وَتَوَفَّنَا مَعَ الْأَبْرَارِ﴾ (آل عمران 193:3)

’’اے ہمارے ربّ! ہم نے ایک پکارنے والے کی یہ پکار سنی کہ اپنے ربّ پر ایمان لاؤ،چنانچہ ہم ایمان لے آئے۔اے ہمارے ربّ!(اس ایمان کےطفیل) ہمارے گناہ معاف فرما دے،ہم سے ہماری برائیاں دور کر دے اور ہمیں نیک لوگوں کے ساتھ موت دے۔‘‘

ان آیات کریمہ سے معلوم ہوا کہ دعا کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کو اپنے نیک اعمال کا واسطہ دینا مشروع ہے۔ نیک اور عقل مند لوگوں کا یہی وطیرہ رہا ہے۔ مسلمانوں کو یہ جائز وسیلہ استعمال کرنا چاہیے۔

٭ صحیح حدیث میں اصحابِ غار والا مشہور واقعہ موجود ہے،جنہوں نے مصیبت میں اللہ تعالیٰ کو اپنے اپنے نیک اعمال کا وسیلہ پیش کیا تھا اور ان کی پریشانی رفع ہوگئی تھی۔

 عبداللہ بن عمر ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ  نے  فرمایا،تین شخص کہیں باہر جا رہے تھے کہ اچانک بارش ہونے لگی۔انہوں نے ایک پہاڑ کے غار میں جا کر پناہ لی۔اتفاق سے پہاڑ کی ایک چٹان اوپر سے لڑھکی  (اور اس غار کے منہ کو بند کردیا جس میں یہ تینوں پناہ لیے ہوئے تھے)اب ایک نے دوسرے سے کہا کہ اپنے سب سے اچھے عمل کا جو تم نے کبھی کیا ہو،نام لے کر اللہ تعالیٰ سے دعا کرو۔اس پر ان میں سے ایک نے یہ دعا کی اے اللہ! میرے ماں باپ بہت ہی بوڑھے تھے۔میں باہر لے جا کر اپنے مویشی چراتا تھا۔پھر جب شام کو واپس آتا تو ان کا دودھ نکالتا اور برتن میں پہلے اپنے والدین کو پیش کرتا۔جب میرے والدین پی چکتے تو پھر بچوں کو اور اپنی بیوی کو پلاتا۔اتفاق سے ایک رات واپسی میں دیر ہوگئی اور جب میں گھر لوٹا تو والدین سو چکے تھے۔اس نے کہا کہ پھر میں نے پسند نہیں کیا کہ انہیں جگاؤں بچے میرے قدموں میں بھوکے پڑے رو رہے تھے۔میں برابر دودھ کا پیالہ لیے والدین کے سامنے اسی طرح کھڑا رہا یہاں تک کہ صبح ہوگئی۔اے اللہ! اگر تیرے نزدیک بھی میں نے یہ کام صرف تیری رضا حاصل کرنے کے لیے کیا تھا،تو ہمارے لیے اس چٹان کو ہٹا کر اتنا راستہ تو بنا دے کہ ہم آسمان کو تو دیکھ سکیں۔نبی کریمﷺ  نے فرمایا،چناچہ وہ پتھر کچھ ہٹ گیا۔دوسرے شخص نے دعا کی اے اللہ! تو خوب جانتا ہے کہ مجھے اپنے چچا کی ایک لڑکی سے اتنی زیادہ محبت تھی جتنی ایک مرد کو کسی عورت سے ہوسکتی ہے۔اس لڑکی نے کہا تم مجھ سے اپنی خواہش اس وقت تک پوری نہیں کرسکتے جب تک مجھے سو اشرفی نہ دے دو۔میں نے ان کے حاصل کرنے کی کوشش کی،اور آخر اتنی اشرفی جمع کرلی۔پھر جب میں اس کی دونوں رانوں کے درمیان بیٹھا۔تو وہ بولی،اللہ سے ڈر،اور مہر کو ناجائز طریقے پر نہ توڑ۔اس پر میں کھڑا ہوگیا اور میں نے اسے چھوڑ دیا۔اب اگر تیرے نزدیک بھی میں نے یہ عمل تیری ہی رضا کے لیے کیا تھا تو ہمارے لیے(نکلنے کا)راستہ بنا دے۔نبی کریم  ﷺ  نے فرمایا،چناچہ وہ پتھر دو تہائی ہٹ گیا۔تیسرے شخص نے دعا کی اے اللہ! تو جانتا ہے کہ میں نے ایک مزدور سے ایک فرق جوار پر کام کرایا تھا۔جب میں نے اس کی مزدوری اسے دے دی تو اس نے لینے سے انکار کردیا۔میں نے اس جوار کو لے کر بو دیا(کھیتی جب کٹی تو اس میں اتنی جوار پیدا ہوئی کہ)اس سے میں نے ایک بیل اور ایک چرواہا خرید لیا۔کچھ عرصہ بعد پھر اس نے آکر مزدوری مانگی کہ اللہ کے بندے مجھے میرا حق دیدے۔میں نے کہا کہ اس بیل اور اس کے چرواہے کے پاس جاؤ کہ یہ تمہارے ہی ملک ہیں۔اس نے کہا کہ مجھ سے مذاق کرتے ہو۔میں نے کہا میں مذاق نہیں کرتا واقعی یہ تمہارے ہی ہیں۔تو اے اللہ! اگر تیرے نزدیک یہ کام میں نے صرف تیری رضا حاصل کرنے کے لیے کیا تھا تو یہاں ہمارے لیے(اس چٹان کو ہٹا کر)  راستہ بنا دے۔چناچہ وہ غار پورا کھل گیا اور وہ تینوں شخص باہر آگئے۔(بخاری:2215)

(3) تیسری مشروع صورت یہ ہے کہ کسی زندہ،صالح اور موحد انسان سے دعا کرائی جائے،جیسا کہ سورة النساء میں اس کا ثبوت مذکور ہے:

وَمَاۤ اَرۡسَلۡنَا مِنۡ رَّسُوۡلٍ اِلَّا لِـيُـطَاعَ بِاِذۡنِ اللّٰهِ ‌ؕ وَلَوۡ اَنَّهُمۡ اِذْ ظَّلَمُوۡۤا اَنۡفُسَهُمۡ جَآءُوۡكَ فَاسۡتَغۡفَرُوا اللّٰهَ وَاسۡتَغۡفَرَ لَـهُمُ الرَّسُوۡلُ لَوَجَدُوا اللّٰهَ تَوَّابًا رَّحِيۡمًا‏۞(النساء:64)

”﴿انہیں بتاوٴ کہ﴾ہم نے جو رسول بھی بھیجا ہے اسی لیے بھیجا ہے کہ اذنِ خداوندی کی بنا پر اس کی اطاعت کی جائے۔اگر انہوں نے یہ طریقہ اختیار کیا ہوتا کہ جب یہ اپنے نفس پر ظلم کر بیٹھے تھے تو تمہارے پاس آجاتے اور اللہ سے معافی مانگتے،اور رسول بھی ان کے لیے معافی کی درخواست کرتا،تو یقیناً اللہ کو بخشنے والا اور رحم کرنے والا پاتے۔“

٭ صحابہ کرام نبی اکرمﷺ سے مصیبت اور پریشانی میں دعا کراتے تھے۔اس بارے میں بہت ساری احادیث موجود ہیں۔ایک نابینا شخص نے نبی کریمﷺ سے اپنے حق میں دعا کرائی تھی:

عثمان بن حنیف ؓ سے روایت ہے کہ  ایک نابینا شخص نبی اکرمﷺ  کے پاس آیا اور کہا:آپ دعا فرما دیجئیے کہ اللہ مجھے عافیت دے،آپ نے فرمایا:اگر تم چاہو تو میں دعا کروں اور اگر چاہو تو صبر کیے رہو،کیونکہ یہ تمہارے لیے زیادہ بہتر(و سود مند)ہے۔اس نے کہا:دعا ہی کر دیجئیے،تو آپ نے اسے حکم دیا کہ وہ وضو کرے،اور اچھی طرح سے وضو کرے اور یہ دعا پڑھ کر دعا کرے:«اللهم إني أسألک وأتوجه إليك بنبيك محمد نبي الرحمة إني توجهت بك إلى ربي في حاجتي هذه لتقضی لي اللهم فشفعه»اے اللہ! میں تجھ سے مانگتا ہوں اور تیرے نبی محمد جو نبی رحمت ہیں کے وسیلے سے تیری طرف متوجہ ہوتا ہوں،میں نے آپ کے واسطہ سے اپنی اس ضرورت میں اپنے رب کی طرف توجہ کی ہے تاکہ تو اے اللہ! میری یہ ضرورت پوری کر دے تو اے اللہ تو میرے بارے میں ان کی شفاعت قبول کر۔(ترمذی:3578) 

حضرت انس بن مالک ؓ سے مروی ہے کہ  ایک شخص رسول اللہﷺ  کی خدمت میں حاضر ہوا۔عرض کی یا رسول اللہﷺ! مویشی ہلاک ہوگئے اور راستے بند ہوگئے۔ آپ اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے۔رسول اللہﷺ  نے دعا فرمائی تو ایک جمعہ سے دوسرے جمعہ تک بارش ہوتی رہی پھر دوسرے جمعہ کو ایک شخص حاضر خدمت ہوا اور کہا کہ یا رسول اللہﷺ !(کثرت باراں سے بہت سے)مکانات گرگئے،راستے بند ہوگئے اور مویشی ہلاک ہوگئے۔چناچہ رسول اللہﷺ  نے دعا فرمائی اللهم على رءوس الجبال والآکام وبطون الأودية ومنابت الشجر کہ اے اللہ! پہاڑوں ٹیلوں وادیوں اور باغات کی طرف بارش کا رخ کر دے۔(جہاں بارش کی کمی ہے)چناچہ آپ  ﷺ  کی دعا سے بادل کپڑے کی طرح پھٹ گیا۔(بخاری:1017)

٭ اسی طرح سیدنا عمر بن خطابؓ نے نبی کریمﷺ کے چچا عباس بن عبدالمطلبؓ سے دعا کرائی:

انس بن مالک ؓ سے مروی ہے کہ جب کبھی عمر ؓ کے زمانہ میں قحط پڑتا تو عمر ؓ عباس بن عبد المطلب ؓ کے وسیلہ سے دعا کرتے اور فرماتے کہ اے اللہ! پہلے ہم تیرے پاس اپنے نبی کریمﷺ  کا وسیلہ لایا کرتے تھے۔ تو،تو پانی برساتا تھا۔اب ہم اپنے نبی کریمﷺ  کے چچا کو وسیلہ بناتے ہیں تو،تو ہم پر پانی برسا۔انس ؓ نے کہا کہ چناچہ بارش خوب ہی برسی۔(بخاری:1010)

  قرآن و سنت سے وسیلے کی یہی تین قسمیں ثابت ہیں۔اہل سنت و الجماعت کا انہی پر عمل رہا ہے اور مسلمانوں کو انہی پر اکتفا کرنا چاہیے۔

Comments