Supplication : The Only Way Forward (Part 13)

 

وسیلہ کے حوالے سے قرآنِ پاک کی جس آیت کو نشانہ بنایا جارہا ہے وہ سورۃ المائدہ کی آیت نمبر 35(يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَابۡتَغُوۡۤا اِلَيۡهِ الۡوَسِيۡلَةَ وَجَاهِدُوۡا فِىۡ سَبِيۡلِهٖ لَعَلَّـكُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ)ہے۔اس آیتِ مبارکہ میں اگرچہ اللہ تعالٰی نے اپنی جناب میں”وسیلہ“ تلاش کرنے کی بھر پور انداز میں دعوت دے دی ہے لیکن سرسری طور پر اس آیتِ مبارکہ سے گزرنے سے اس میں تذکره شدہ لفظ ”وسیلہ“ نے کافی لوگوں کو پریشان کر رکھا ہے۔قرآنِ پاک علوم و معارف کا ایک بحر بے کراں ہے جس میں ایک انسان کافی غوروخوض کے بعد ہی علم کے موتیوں کو نکال سکتا ہے۔غوروفکر کے حوالے سے قرآنِ پاک کی ایک ایک آیت پر اگر سالوں سال لگ جائے تب بھی کم ہے اور اس کی گہرائی میں اتر کر ہی ایک انسان کو علم کی جڑ ہاتھ آسکتی ہے۔ایک مشہورومعروف عالمِ دین اس حوالے سے ایک بہت ہی معنٰی خیز مثال پیش کرتے ہیں:

Bishr Bin As-Sirri said
 إنما الآية مثل التمرة كلما مضغتها استخرجت حلاوتها

"Each verse of the Qur'an is like a date:the more you chew it, the more of its sweetness is released."
["Al-Burhan fi Ulum al-Qur'an",1/471]

    ایک حقیقی طالبِ علم قرآنِ پاک کے درمیان علمی سفر کر رہا ہوتا ہے اور اس سفر میں کامیابی سے ہمکنار ہونے کے لئے ایک ایک آیت پر ڈھیرا ڈالنا اس کے لیے ناگزیر ہے۔مذکورہ بالا آیتِ مبارکہ قرآنِ پاک کی ایک جامع ترین آیت ہے جس میں اللہ تعالٰی اہلِ ایمان کو شفقت بھرے انداز میں مخاطب ہوتے ہیں اور انہیں اپنی جناب میں وسیلہ تلاش کرنے سے پہلے تقوٰی اور بعد میں جہاد کی پُر زور دعوت دیتے ہیں۔یہاں پہ اگر ہم کچھ وقفہ کے لئے سوچیں گے تو ایک سوال ضرور ہمارے ذہنوں میں اٹھے گا وہ یہ کہ آخر تقوٰی،وسیلہ اور جہاد کے درمیان آپسی ربط و تعلق کیا ہے؟جب تک اس سوال کا جواب ہم نہ پائیں گے تب تک ہم لفظ”وسیلہ“کے حوالے سے ٹھوکریں ہی کھاتے رہیں گے۔اگر ہم ایک پرندے کی مثال لیں گے جسے کسی مقام تک پہنچنا ہو تو سیدھی سی بات ہے کہ اس مقصد میں کامیاب ہونے کی خاطر اس کے لئے دو چیزیں اشد ضروری ہیں،ایک ان چیزوں کو چھوڑنا جو اس سفر کے موانع ہوں اور دوسری جہدِ مسلسل،بالکل اسی طرح اس فانی و عارضی دنیا میں ہم اللہ تعالٰی کی طرف محوِ سفر ہیں اور اس سفر میں کامیاب ہونے کے لئے ہمیں اللہ تعالٰی کی خاطر کچھ چیزوں کو چھوڑنا ہے یعنی تقوٰی اختیار کرنا ہے اور مسلسل جدوجہد یعنی جہاد فی سبیل اللہ میں سرگرمِ عمل رہنا ہے۔لہٰذا اس آیتِ مبارکہ پر غوروفکر کا منطقی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اللہ تعالٰی کی بارگاہ میں کامیابی سے ہمکنار ہونے کے لئے ایک بندہ مومن کو تقوٰی اور اس کی راہ میں جہاد کئے بغیر کوئی چارہ ہے ہی نہیں۔تقوٰی،وسیلہ اور جہاد فی سبیل اللہ کے مابین چولی دامن کا ساتھ ہے،لہٰذا تقوٰی اور جہاد فی سبیل اللہ کے بغیر قربِ الٰہی ایک ایسا خواب ہے جو زندگی بھر شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔مولانا شبیر احمد عثمانیؒ نے بڑے ہی محققانہ انداز میں اس آیتِ مبارکہ پر قابلِ دید نوٹ لکھا ہے،جسے پڑھتے ہی انسان کافی حد تک اس تفسیر سے مطمئن ہو جاتا ہے،لکھتے ہیں:
”وسیلہ“کی تفسیر ابن عباسؓ،مجاہد،ابو وائل،حسن وغیر ہم اکابر سلف نے قربت سے کی ہے تو وسیلہ ڈھونڈھنے کے معنی یہ ہونگے کہ اس کا قرب وصول تلاش کرو۔قتادہ نے کہا”ای تقربو الیہ بطاعتہ والعمل بما یرضیہ“خدا کی نزدیکی حاصل کرو اس کی فرمانبرداری اور پسندیدہ عمل کے ذریعہ سے ایک شاعر کہتا ہے:

        اذا عفل الواشون عدنا لوصلنا

        وعاد التصافی بیننا والوسائل

اس میں یہ ہی معنی قرب و اتصال کے مراد ہے اور جو حدیث میں آیا ہے کہ”وسیلہ“جنت میں ایک نہایت ہی اعلیٰ منزل ہے جو دنیا میں سے کسی ایک بندہ کو ملے گی آپﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تم اذان کے بعد میرے لئے خدا سے وہ ہی مقام طلب کیا کرو تو اس مقام کا نام بھی”وسیلہ“اسی لئے رکھا گیا کہ جنت کی تمام منزلوں میں وہ سب سے زیادہ عرش رحمان کے قریب ہے اور حق تعالیٰ کے مقامات قرب میں سب سے بلند واقع ہوا ہے۔بہرحال پہلے فرمایا کہ ڈرتے رہو اللہ سے لیکن یہ ڈر ایسا نہیں جیسے آدمی سانپ بچھو یا شیر بھیڑیے سے ڈر کر دور بھاگتا ہے بلکہ اس بات سے ڈرنا کہ کہیں اس کی خوشنودی اور رحمت سے دور نہ جا پڑو۔اسی لئے اتقوا اللّٰہ کے بعد وابتغوا الیہ الوسیلۃ فرمایا۔یعنی اس کی ناخوشی اور بعد و ہجر سے ڈر کر قرب و وصول حاصل کرنے کی کوشش کرو۔اور ظاہر ہے کہ کسی چیز سے قریب ہم اسی وقت ہوسکتے ہیں جبکہ درمیانی راستہ قطع کرلیں جس پر چل کر اس کے پاس پہنچ سکتے ہوں۔اسی کو فرمایا” وجاھدوا فی سبیلہ“جہاد کرو اس کی راہ میں یعنی اسی پر چلنے کی پوری پوری کوشش کرو”لعلکم تفلحون“تاکہ تم اس کی نزدیکی حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکو۔“(تفسیر عثمانی)

    مذکورہ بالا آیت پر مولانا مفتی محمد شفیع صاحبؒ نے جو نوٹ لکھا ہے وہ بڑا ہی بصیرت افروز بھی ہے اور اپنے مدعا کی وضاحت میں بڑا مٶثر بھی۔لکھتے ہیں:
 ”آیت متذکرہ سے پہلی آیات میں ڈاکو اور بغاوت کی شرعی سزا اور اس کے احکام کی تفصیل مذکور تھی،اور آگے تین آیتوں کے بعد چوری کی شرعی سزا کا بیان آنے والا ہے،اس کے درمیان تین آیتوں میں تقویٰ، اطاعت و عبادت،جہاد کی ترغیب اور کفر وعناد اور،معصیت کی تباہ کاری کا بیان فرمایا گیا ہے،قرآن کریم کے اس طرز خاص میں غور کرو تو معلوم ہوگا کہ قرآن کریم کا عام اسلوب یہ ہے کہ وہ محض حاکمانہ طور پر تعزیر و سزا کا قانون بیان کرکے نہیں چھوڑ دیتا،بلکہ مربّیانہ انداز میں ذہنوں کو جرائم سے باز رہنے کے لئے ہموار بھی کرتا ہے،خدا تعالیٰ اور آخرت کے خوف اور جنت کی دائمی نعمتوں اور راحتوں کو مستحضر کرکے ان کے قلوب کو جرم سے متنفر بناتا ہے،یہی وجہ ہے کہ اکثر قانون جرم و سزا کے پیچھے اتَّقُوا اللّٰهَ وغیرہ کا اعادہ کیا جاتا ہے،یہاں بھی پہلی آیت میں تین چیزوں کا حکم دیا گیا ہے
 اول اتَّقُوا اللّٰهَ۔یعنی اللہ تعالیٰ سے ڈرو،کیونکہ خوف خدا وہی چیز ہے جو انسان کو حقیقی طور پر خفیہ و اعلانیہ جرائم سے روک سکتی ہے۔
 دوسرا ارشاد ہے وابْتَغُوْٓا اِلَيْهِ الْوَسِيْلَةَ یعنی اللہ کا قرب تلاش کرو،لفظ وسیلہ وسل مصدر سے مشتق ہے،جس کے معنی ملنے اور جڑنے کے ہیں،یہ لفظ سین اور صاد دونوں سے تقریباً ایک ہی معنی میں آتا ہے،فرق اتنا ہے کہ وصل بالصاد مطلقاً ملنے اور جوڑنے کے معنی میں ہے اور وسل بالسین رغبت و محبت کے ساتھ ملنے کے لئے مستعمل ہوتا ہے۔
 صحاح جوہری اور مفردات القرآن راغب اصفہانی میں اس کی تصریح ہے،اس لئے صاد کے ساتھ وصلہ اور وصیلہ ہر اس چیز کو کہا جاتا ہے جو دو چیزوں کے درمیان میل اور جوڑ پیدا کردے۔خواہ وہ میل اور جوڑ رغبت و محبت سے ہو یا کسی دوسری صورت سے،اور سین کے ساتھ لفظ وسیلہ کے معنی اس چیز کے ہیں جو کسی کو کسی دوسرے سے محبت ورغبت کے ساتھ ملا دے۔(لسان العرب،مفردات،راغب)
 اللہ تعالیٰ کی طرف وسیلہ ہر وہ چیز ہے جو بندہ کو رغبت و محبت کے ساتھ اپنے معبود کے قریب کر دے،اس لئے سلف صالحین وتابعین نے اس آیت میں وسیلہ کی تفسیر اطاعت و قربت اور ایمان و عمل صالح سے کی ہے،بروایت حاکم حضرت حذیفہؓ نے فرمایا کہ وسیلہ سے مراد قربت و اطاعت ہے اور ابن جریر رحمة اللہ علیہ نے حضرت عطا رحمة اللہ علیہ اور مجاہد رحمة اللہ علیہ اور حسن بصری رحمة اللہ علیہ سے بھی یہی نقل کیا ہے۔
 اور ابن جریر رحمة اللہ علیہ وغیرہ نے حضرت قتادہ رحمة اللہ علیہ سے اس آیت کی تفسیر یہ نقل کی ہےتقربوا الیہ بطاعتہ والعمل بما یرضیہ یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف تقرب حاصل کرو،اس کی فرمانبرداری اور رضامندی کے کام کرکے،اس لئے آیت کی تفسیر کا خلاصہ یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ کا قرب تلاش کرو،بذریعہ ایمان اور عملِ صالح کے۔
 اور مسند احمد رحمة اللہ علیہ کی ایک صحیح حدیث میں ہے کہ رسول کریمﷺ نے فرمایا کہ وسیلہ ایک اعلیٰ درجہ ہے جنت کا جس کے اوپر کوئی درجہ نہیں ہے،تم اللہ تعالیٰ سے دعاء کرو کہ وہ درجہ مجھے عطا فرما دے۔
 اور صحیح مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ جب مؤذن اذان کہے تو تم بھی وہی کلمات کہتے رہو جو مؤذن کہتا ہے،اس کے بعد مجھ پر درود پڑھو اور میرے لئے وسیلہ کی دعا کرو۔
 ان احادیث سے معلوم ہوا کہ وسیلہ ایک خاص درجہ ہے جنت کا،جو رسول کریمﷺ کے ساتھ مخصوص ہے،اور آیت مذکورہ میں ہر مومن کو وسیلہ طلب کرنے اور ڈھونڈنے کا حکم بظاہر اس خصوصیت کے منافی ہے،مگر جواب واضح ہے کہ جس طرح ہدایت کا اعلیٰ مقام رسول کریمﷺ کے لئے مخصوص ہے اور آپﷺ ہمیشہ اس کے لئے دعا کیا کرتے تھے،مگر اس کے ابتدائی اور متوسط درجات تمام مؤمنین کے لئے عام ہیں،اسی طرح وسیلہ کا اعلیٰ درجہ رسول کریمﷺ کے لئے مخصوص ہے،اور اس کے نیچے کے درجات سب مؤمنین کے لئے،آپﷺ ہی کے واسطہ اور ذریعہ سے عام ہیں۔
 حضرت مجدّد الف ثانی رحمة اللہ علیہ نے اپنے مکتوبات میں اور قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمة اللہ علیہ نے تفسیر مظہری میں اس پر متنبہ فرمایا ہے کہ لفظ وسیلہ میں محبت ورغبت کا مفہوم شامل ہونے سے اس طرف اشارہ ہے کہ وسیلہ کے درجات میں ترقی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ کی محبت پر موقوف ہے،اور محبت پیدا ہوتی ہے اتباع سنت سے،کیونکہ حق تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) فاتبعونی یحببکم اللّٰہ،اس لئے جتنا کوئی اپنی عبادات،معاملات،اخلاق،معاشرت اور زندگی کے تمام شعبوں میں رسول کریمﷺ کی سنت کا اتباع کرے گا اتنا ہی اللہ تعالیٰ کی محبت اس کو حاصل ہوگی،اور وہ خود اللہ تعالیٰ کے نزدیک محبوب ہوجائے گا،اور جتنی زیادہ محبت بڑھے گی اتنا ہی اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہوگا۔۔۔
 آیت مذکورہ میں اول تقویٰ کی ہدایت فرمائی گئی، پھر اللہ تعالیٰ سے ایمان اور اعمال صالحہ کے ذریعہ تقرب حاصل کرنے کی،آخر میں ارشاد فرمایا وَجَاهِدُوْا فِيْ سَبِيْلِهٖ،یعنی جہاد کرو اللہ کی راہ میں،اگرچہ اعمال صالحہ میں جہاد بھی داخل تھا،لیکن اعمال صالحہ میں جہاد کا اعلیٰ مقام بتلانے کے لئے اس کو علیحدہ کرکے بیان فرما دیا گیا۔جیسا کہ حدیث میں رسول کریمﷺ کا ارشاد ہے وذروة سنامہ الجھاد،یعنی اسلام کا اعلیٰ مقام جہاد ہے دوسرے اس جگہ جہاد کو اہمیت کے ساتھ ذکر کرنے کی یہ حکمت بھی ہے کہ پچھلی آیتوں میں فساد فی الارض کا حرم و ناجائز ہونا اور اس کی دینوی اخروی سزاؤں کا بیان آیا تھا،جہاد بھی ظاہر کے اعتبار سے فساد فی الارض کی صورت معلوم ہوتی ہے،اس لئے ممکن تھا کہ کوئی ناواقف جہاد اور فساد میں فرق نہ سمجھے،اس لئے فساد فی الارض کی ممانعت کے بعد جہاد کا حکم اہمیت کے ساتھ ذکر کرکے دونوں کے فرق کی طرف لفظ فی سبیلہ سے اشارہ فرما دیا۔کیونکہ ڈاکہ،بغاوت وغیرہ میں جو قتل قتال اور مال لوٹا جاتا ہے وہ محض اپنی ذاتی اغراض و خواہشات اور ذلیل مقاصد کے لئے ہوتا ہے،اور جہاد میں اگر اس کی نوبت آئے بھی تو محض اللہ کا کلمہ بلند کرنے اور ظلم و جور کو مٹانے کے لئے ہے جن میں زمین آسمان کا فرق ہے۔(معارف القرآن)

  مشرکینِ مکہ کے ذہنوں میں بھی لفظ ”وسیلہ“ کا غلط مفہوم بیٹھا ہوا تھا اور اسی وجہ سے وہ ایک سنگین اور ناقابلِ معافی گناہ یعنی شرک میں مبتلا ہوگئے تھے۔اللہ تعالٰی قرآنِ پاک میں نبی اکرمﷺ کی وساطت سے انہیں ان الفاظ میں چیلنج دے رہیں ہیں:

قُلِ ادۡعُوا الَّذِيۡنَ زَعَمۡتُمۡ مِّنۡ دُوۡنِهٖ فَلَا يَمۡلِكُوۡنَ كَشۡفَ الضُّرِّ عَنۡكُمۡ وَلَا تَحۡوِيۡلًا۞(الاسراء:56)
”اِن سے کہو،پکار دیکھو اُن معبودوں کو جن کو تم خدا کے سوا(اپنا کارساز)سمجھتے ہو،وہ کسی تکلیف کو تم سے نہ ہٹا سکتے ہیں نہ بدل سکتے ہیں۔“

مولانا ڈاکٹر محمد اسلم صدیقیؒ نے اس آیتِ مبارکہ کے ذیل میں بہت ہی قیمتی باتیں لکھی ہیں،جنہیں پڑھ کر ایک انسان کو اس آیتِ مبارکہ کی تہہ تک پہنچنے میں کافی حد تک رسائی ملتی ہے۔لکھتے ہیں:
”مشرکین سے کہا جارہا ہے کہ تم جن قوتوں کو اللہ تعالیٰ کے علاوہ معبود سمجھتے ہو،انھیں پکارو،پھر دیکھو وہ تمہاری پکار کا جواب دیتے ہیں اور تمہاری کچھ مدد کرتے ہیں؟ اور اگر وہ تمہارے پکارنے پر تمہاری کوئی مدد نہیں کرسکتے اور تم سے کسی تکلیف کا ازالہ نہیں کرسکتے حتیٰ کہ اسے ٹال تک نہیں سکتے تو پھر تم نے انھیں اللہ تعالیٰ کا شریک کس مقصد کے لیے بنا رکھا ہے۔علامہ قرطبی نے اس کا شان نزول بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ جب قریش کو قحط میں مبتلا کردیا گیا تو انھوں نے بارگاہِ رسالت میں حاضر ہو کر فریاد کی اور اپنی خستہ حالی کا تذکرہ کیا تو یہ آیت نازل ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کو حکم دیا کہ ان سے دریافت کریں کہ جن معبودوں کی پرستش اور عبادت کرتے ہیں ان سے جا کر فریاد کیوں نہیں کرتے۔پھر خود ہی بتادیا کہ وہ بےچارے خود بےبس ہیں۔اس مشکل وقت میں وہ تمہاری کوئی امداد نہیں کرسکتے۔سوچنے کی بات ہے کہ جو خدا مشکل میں کام نہ آئے اور جو معبود مصیبت کو دور نہ کرے اس کی پوجا کرنے سے کیا حاصل۔
 دو باتیں
 آیت میں تدبر سے کام لیا جائے تو دو باتیں سمجھ میں آتی ہیں۔ایک تو یہ بات کہ جس طرح غیر اللہ کو سجدہ کرنا اور اس کی پوجا پاٹ کرنا شرک ہے۔اسی طرح غیر اللہ سے استمداد اور استعانت اور انھیں مدد کے لیے پکارنا بھی شرک ہے۔دونوں میں عبادت ہونے کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں۔اللہ تعالیٰ نے یہ حق صرف اپنے لیے مخصوص رکھا ہے کہ اسی کو سجدہ کیا جائے،اسی کے سامنے دست سوال پھیلایا جائے اور اسی کو غیب میں پکارا جائے۔
 دوسری یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ غیر اللہ سے مراد صرف بت نہیں بلکہ وہ تمام قوتیں اور تمام شخصیتیں ہیں جنھیں لوگ ہمیشہ عبادت یا استمداد کے لیے پکارتے رہے۔چاہے وہ بت ہوں،چاہے وہ گزرے ہوئے بزرگ جن کی عقیدت میں لوگوں نے ان کے مجسمے بنا لیے،چاہے وہ فرشتے ہوں اور چاہے وہ مظاہر فطرت ہوں۔ان کے ساتھ وہ معاملہ کرنا جو اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ کیا جاتا ہے بہر صورت شرک ہے۔البتہ اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں اور دوسروں میں یہ فرق ضرور ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں سے دعا چاہی جاتی ہے کیونکہ وہ بارگاہِ الٰہی میں تقرب کی وجہ سے عزت کیے جاتے ہیں اور ان کی دعائیں قبول کی جاتی ہیں اور یا بعض لوگوں کے نزدیک ان کی برکت سے دعا مانگی جاسکتی ہے۔ظاہر ہے کہ اس میں ان کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا لیکن اللہ تعالیٰ کی ذات ان کی بندگی اور اطاعت کا لحاظ فرماتے ہوئے ان کی برکت کی لاج رکھتی ہے۔“(روح القرآن)
    
   نبی اکرمﷺ کی وساطت سے ہی دوسری جگہ ان مشرکینِ  مکہ کو سوالیہ انداز میں غوروفکر کرنے کی دعوت دے دی گئی تاکہ غفلت و جہالت کے پردوں کو چاک کر کے یہ اصلی حقیقت تک پہنچ جائیں اور سوال بھی ایسا تھا کہ ان کی فطرت کی تاریں بھی تھرتھرانے لگ گئے:

قُلۡ اَرَءَيۡتَكُمۡ اِنۡ اَتٰٮكُمۡ عَذَابُ اللّٰهِ اَوۡ اَ تَتۡكُمُ السَّاعَةُ اَغَيۡرَ اللّٰهِ تَدۡعُوۡنَ‌ۚ اِنۡ كُنۡتُمۡ صٰدِقِيۡنَ‏۞بَلۡ اِيَّاهُ تَدۡعُوۡنَ فَيَكۡشِفُ مَا تَدۡعُوۡنَ اِلَيۡهِ اِنۡ شَآءَ وَتَنۡسَوۡنَ مَا تُشۡرِكُوۡنَ۞(الانعام:41-40)
”ان سے کہو،ذرا غور کر کے بتاؤ،اگر کبھی تم پر اللہ کی طرف سے کوئی بڑی مصیبت آ جاتی ہے یا آخری گھڑی آ پہنچتی ہے تو کیا اس وقت تم اللہ کے سوا کسی اور کو پکارتے ہو؟بولو اگر تم سچے ہو۔اس وقت تم اللہ ہی کو پُکارتے ہو،پھر اگر وہ چاہتا ہے تو اس مصیبت کو تم پر سے ٹال دیتا ہے۔ایسے موقعوں پر تم اپنے ٹھیرائے ہوئے شریکوں کو بُھول جاتے ہو۔“

مولانا سید ابو الاعلٰی مودودیؒ نے ان آیات کے ذیل میں لکھا ہے:
گزشتہ آیت میں ارشاد ہوا تھا کہ تم ایک نشانی کا مطالبہ کرتے ہو اور حال یہ ہے کہ تمہارے گرد و پیش ہر طرف نشانیاں ہی نشانیاں پھیلی ہوئی ہیں۔اس سلسلہ میں پہلے مثال کے طور پر حیوانات کی زندگی کے مشاہدہ کی طرف توجہ دلائی گئی۔اس کے بعد اب ایک دوسری نشانی کی طرف اشارہ فرمایا جارہا ہے جو خود منکرین حق کے اپنے نفس میں موجود ہے۔جب انسان پر کوئی آفت آجاتی ہے،یا موت اپنی بھیانک صورت کے ساتھ سامنے آکھڑی ہوتی ہے،اس وقت ایک خدا کے دامن کے سوا کوئی دوسری پناہ گاہ اسے نظر نہیں آتی۔بڑے بڑے مشرک ایسے موقع پر اپنے معبودوں کو بھول کر خدائے واحد کو پکارنے لگتے ہیں۔کٹے سے کٹا دہریہ تک خدا کے آگے دعا کے لیے ہاتھ پھیلا دیتا ہے۔اسی نشانی کو یہاں حق نمائی کے لیے پیش کیا جا رہا ہے،کیونکہ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ خدا پرستی اور توحید کی شہادت ہر انسان کے نفس میں موجود ہے جس پر غفلت و جہالت کے خواہ کتنے ہی پردے ڈال دیے گئے ہوں،مگر پھر بھی کبھی نہ کبھی وہ ابھر کر سامنے آجاتی ہے۔ابوجہل کے بیٹے عِکْرِمہ کو اسی نشانی کے مشاہدے سے ایمان کی توفیق نصیب ہوئی۔جب مکہ معظمہ نبیﷺ  کے ہاتھ پر فتح ہوگیا تو عِکْرِمہ جدہ کی طرف بھاگے اور ایک کشتی پر سوار ہو کر حبش کی راہ لی۔راستہ میں سخت طوفان آیا اور کشتی خطرہ میں پڑگئی۔اول اول تو دیویوں اور دیوتاؤں کو پکارا جاتا رہا۔مگر جب طوفان کی شدت بڑھی اور مسافروں کو یقین ہوگیا کہ اب کشتی ڈوب جائے گی تو سب کہنے لگے کہ یہ وقت اللہ کے سوا کسی کو پکارنے کا نہیں ہے،وہی چاہے تو ہم بچ سکتے ہیں۔اس وقت عِکْرِمہ کی آنکھیں کھلیں اور ان کے دل نے آواز دی کہ اگر یہاں اللہ کے سوا کوئی مددگار نہیں تو کہیں اور کیوں ہو۔یہی تو وہ بات ہے جو اللہ کا وہ نیک بندہ ہمیں بیس برس سے سمجھا رہا ہے اور ہم خواہ مخواہ اس سے لڑ رہے ہیں۔یہ عِکْرِمہ کی زندگی میں فیصلہ کن لمحہ تھا۔انہوں نے اسی وقت خدا سے عہد کیا کہ اگر میں اس طوفان سے بچ گیا تو سیدھا محمدﷺ کے پاس جاؤں گا اور ان کے ہاتھ میں ہاتھ دے دوں گا۔ چناچہ انہوں نے اپنے اس عہد کو پورا کیا اور بعد میں آکر نہ صرف مسلمان ہوئے بلکہ اپنی بقیہ عمر اسلام کے لیے جہاد کرتے گزار دی۔(تفہیم القرآن)

     قرآن مجید میں جس دوسرے مقام پر لفظ ”وسیلہ“ وارد ہوا ہے وہ ذیل کی آیتِ مبارکہ ہے۔اور یہی وہ آیت  ہے جس میں مشرکینِ مکہ کی غلط فہمی کا ازالہ کیا گیا:

اُولٰۤئِكَ الَّذِيۡنَ يَدۡعُوۡنَ يَبۡتَغُوۡنَ اِلٰى رَبِّهِمُ الۡوَسِيۡلَةَ اَيُّهُمۡ اَقۡرَبُ وَيَرۡجُوۡنَ رَحۡمَتَهٗ وَيَخَافُوۡنَ عَذَابَهٗؕ اِنَّ عَذَابَ رَبِّكَ كَانَ مَحۡذُوۡرًا۞(الاسراء:57)
”جن کو یہ لوگ پکارتے ہیں وہ تو خود اپنے ربّ کے حضور رسائی حاصل کرنے کا وسیلہ تلاش کر رہے ہیں کہ کون اُس سے قریب تر ہو جائے اور وہ اُس کی رحمت کے اُمیدوار اور اُس کے عذاب سے خائف ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ تیرے ربّ کا عذاب ہے ہی ڈرنے کے لائق۔“

امام المفسرین،علامہ ابن جریر طبریؒ اس آیت کریمہ کی تفسیر یوں فرماتے ہیں:
’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جن(نیک) لوگوں کو مشرکین اپنے ربّ سمجھے بیٹھے ہیں وہ تو خود اپنے ربّ کی طرف وسیلہ تلاش کرتے ہیں،یعنی وہ نیک لوگ اپنے ربّ کا قرب ڈھونڈتے ہیں۔اس طرح کہ وہ اللہ کے ساتھ ایمان لاتے ہیں،جبکہ اللہ کے ساتھ شرک کرنے والے غیراللہ کی عبادت کرتے ہیں۔‘‘(تفسیر طبری)

علامہ ابواللیث نصر بن محمد بن احمد بن ابراہیم سمرقندیؒ لکھتے ہیں :
”یہ نیک لوگ اپنے رب کی طرف وسیلہ تلاش کرتے ہیں،یعنی وہ نیک اعمال کے ذریعے اپنے ربّ کا قرب،اس کے ہاں فضیلت اور کرامت حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔“(بحرالعلوم)

معروف مفسر قرآن،حافظ ابوعبداللہ محمد بن احمد قرطبی فرماتے ہیں:
”وہ نیک لوگ اللہ تعالیٰ کا قرب تلاش کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے جنت کی طلب کے لیے بڑی گریہ و زاری سے کام لیتے ہیں،یہی وسیلہ ہے۔“(تفسیر قرطبی)

علامہ ابوسعید عبداللہ بن عمر شیرازی بیضاوی لکھتے ہیں:
”فرمانِ باری تعالیٰ ہے:﴿أُولَـئِكَ الَّذِينَ يَدْعُونَ يَبْتَغُونَ إِلَى رَبِّهِمُ الْوَسِيلَةَ”یہ لوگ جنہیں مشرکین پکارتے ہیں، یہ تو اپنے ربّ کی طرف وسیلہ تلاش کرتے ہیں“،یعنی یہ نیک لوگ اطاعت و فرمانبرداری کے ذریعے اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل کرنے کی کوشش میں رہتے ہیں۔“(تفسیر بیضاوی)

مشہور تفسیر’’جلالین‘‘میں اس آیت کی تفسیر یوں کی گئی ہے:
”وہ نیک لوگ(جنہیں مشرکین اپنے معبود سمجھے بیٹھے ہیں) اپنے ربّ کی طرف وسیلہ بناتے ہیں،یعنی نیک اعمال کے ذریعے اس کا تقرب حاصل کرتے ہیں۔“(تفسير جلالين)

علامہ ابوالقاسم محمود بن عمرو زمخشری کی طرف سے اس آیت کی تفسیر یہ ہے:
”وسیلہ تلاش کرنے میں حرص و طمع کا معنی ہے، گویا کہ یوں کہا گیا ہے:وہ اس حرص میں ہیں کہ انہیں اللہ تعالیٰ کا زیادہ قرب حاصل ہو جائے۔اور یہ قرب اطاعت الٰہی اور خیر و بھلائی کے کاموں میں آگے بڑھنے سے ملتا ہے۔“(تفسیر کشاف)

مشہورومعروف محقق اور مفسرِ قرآن،مولانا سید ابو الاعلٰی مودودیؒ اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”یہ الفاظ خود گواہی دے رہے ہیں کہ مشرکین کے جن معبودوں اور فریاد رسوں کا یہاں ذکر کیا جا رہا ہے ان سے مراد پتھر کے بت نہیں ہیں،بلکہ یا تو فرشتے ہیں یا گزرے ہوئے زمانے کے برگزیدہ انسان۔مطلب صاف صاف یہ ہے کہ انبیاء(علیہم السلام) ہوں یا اولیاء عظام یا فرشتے،کسی کی بھی یہ طاقت نہیں ہے کہ تمہاری دعائیں سنے اور تمہاری مدد کو پہنچے۔تم حاجت روائی کے لیے انہیں وسیلہ بنا رہے ہو،اور ان کا حال یہ ہے کہ وہ خود اللہ کی رحمت کے امیدوار اور اس کے عذاب سے خائف ہیں،اور اس کا زیادہ سے زیادہ تقرب حاصل کرنے کے وسائل ڈھونڈ رہے ہیں۔“*(تفہیم القرآن)

  قرآن مجید میں صرف انہی دو مقامات میں لفظ”وسیلہ“وارد ہوا ہے اور دونوں جگہ ایک ہی معنی مراد ہے،یعنی عبادات،تقوٰی،نیکیوں پر عمل اور محرمات و فواحش سے اجتناب کرکے قربِ الٰہی کا حصول۔اور یہ ایسی چیز ہے جس پر تمام علماءِ مفسرین کا اتفاق ہے۔لہٰذا اگر ہم دنیا و آخرت کی سرفرازی اور فوز و فلاح کے خواں ہیں تو اس لفظ کو خود ساختہ معنٰی پہنانے کے بجائے ہمیں علماءِ مفسرین کی اقتداء و پیروی ضرور کرنی ہوگی وگرنہ ہم خود ہی اپنے ہاتھوں اپنی بربادی کا سامان فراہم کریں گے۔

Comments