Supplication : The Only Way Forward (Part 12)


    دنیا میں اگرچہ ایک انسان کو بہت سارے بندھنوں سے جُڑے رہنا پڑتا ہے لیکن اِن بندھنوں میں سب سے قیمتی بندھن بندے اور معبود کا ہوتا ہے۔اگر انسان صرف اپنے رب کا حقیقی غلام بن جائے تو یہ وہ واحد بندھن ہے جو دائمی اور پائیدار ہے،جس میں بُڑھاپا آیا نہیں کرتا۔اس دنیا میں باقی مخلوقات کی بنسبت انسان کو ایک کمزور مخلوق کی حیثیت سے جانا جاتا ہے اور اللہ تعالٰی نے بھی اپنے کلامِ پاک میں اس کی کمزوری کا اعتراف ان الفاظ میں کر دیا ہے:

خُلِقَ الۡاِنۡسَانُ ضَعِيۡفًا‏۞(النساء:28)

”انسان کمزور پیدا کیا گیا ہے۔“

   جو مخلوق اتنی کمزور ہو کہ جس کا اعتراف رب العٰلمین کرے،اس کے متعلق کیسے گمان کیا جا سکتا ہے کہ وہ دعا و مناجات سے بَری ہو،یہ ہو ہی نہیں سکتا۔اس کارگاہِ عالم میں انسان ہی وہ واحد مخلوق ہے جسے قدم قدم پر مختلف حاجات کی ضرورت پڑتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ اسے بار بار رب کے دربار میں حاضری دیتے ہوئے پایا گیا۔اپنے مُشفق رب کو یہ دل کے راز تک بتاتا ہے اور سچ مُچ میں رب کے سوا کون ہے جو اس کے دل کی دھڑکنوں کو محسوس کرسکے؟رب کے سوا کون ہے جو اس کو سنبھال سکے؟رب کے سوا کون ہے جو اس کی انگلی پکڑ کر اسے اپنے ساتھ چلا سکے؟ رب کے سوا کون ہے جو اس کی بے قراریوں میں اسے قرار دے سکے؟رب کے سوا کون ہے جو اس کے درد کو محسوس کر سکے؟رب کے سوا کون ہے جو اس کے زخموں کا مداوا کر سکے؟رب کے سوا کون ہے جو اسے اپنے گلے لگا سکے؟رب کے سوا کون ہے جو احسن طریقے پر اسے بلا حساب و کتاب دے سکے؟رب کے سوا کون ہے جو اس کے دامن کو انمول موتیوں سے بھر سکے؟رب کے سوا کون ہے جو اس کی آہوں کو سن سکے؟رب کے سوا کون ہے جو اس کی طرف دوڑتا ہوا آسکے؟رب کے سوا کون ہے جو اسے سچی محبت دے سکے؟رب کے سوا کون ہے جو اس کے لئے ہردم منتظر رہ سکے؟رب کے سوا کون ہے جو اس کے ساتھ بلا مفاد دوستی کر سکے؟رب کے سوا کون ہے جو ہر لحاظ سے اسے آباد کر سکے؟رب کے سوا کون ہے جو اسے سہارا دے سکے؟رب کے سوا کون ہے جو آزمائشوں کے بھنور سے اسے نکال سکے؟رب کے سوا کون ہے جو اسے جنت کے راستے کی طرف رہنمائی کر سکے؟رب کے سوا کون ہے جو اسے دُشوار گزار گھاٹی سے گزرنے کی ہمت دے سکے؟رب کے سوا کون ہے جو پُرخطر راستہ لینے پر اسے مطمئن کر سکے؟رب کے سوا کون ہے جو اسے انقلاب کو دستک دینے والا،طوفانوں کو للکارنے والا اور امت کو جنجھوڑنے والا مُصلح بنا سکے؟رب کے سوا کون ہے جو اعصاب شکن حالات میں اسے مستقل مزاجی سے چلنے کی توفیق دے سکے؟ رب کے سوا کون ہے جو جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھی اسے مُسکرانا سکھا سکے؟رب کے سوا کون ہے جو خون کا آخری قطرہ تک بہانے کی اسے ہمت،ولولہ اور جذبہ دے سکے؟اللہ رب العزت کے سوا یہ کسی کی مجال ہے ہی نہیں کہ وہ انسان کے لئے اتنا کچھ کر سکے۔وہ اپنے بندے کو بہت ہی چاہتا ہے،تب ہی تو اِس نے ساری کائنات کو اُس کے لئے مسخر کر دیا اور اس کے وجود کے اندر پورے عالَم کو چھپا کر رکھا ہے۔اللہ رب العزت کو بندے کی یہ حرکت ہرگز پسند نہیں آتی کہ وہ کسی غیر کا غلام بن جائے چونکہ یہ بندے کے لئے ذلت سے کچھ کم نہیں ہوتا۔بندے کی عافیت اور نجات اسی بات میں پنہاں ہے کہ وہ اللہ رب العزت کا ہمہ وقتی غلام بن جائے۔اس سے بڑھ کر بندے کو اور کیا سعادت مل سکتی ہے کہ اسے رب کے در کا فقیر بننے کی توفیق مل جائے۔دعا کی حالت میں انسان اپنے رب کے سامنے ایک بندہ عاجز کی  حیثیت سے پیش ہوتا ہے اور یہ وہ واحد عمل ہے جس میں بندہ اپنے رب سے مناجات اور سرگوشی کرنے کی نعمت سے مستفیض ہوتا ہے۔پھر اس دعا کے نتیجے میں مومن بندے کو تسکینِ روح اور اطمینانِ قلب کی جو دولت حاصل ہوتی ہے اس کی برکتوں کا تو اندازہ نہیں کیا جا سکتا۔یہ وہ دولت ہے جس کے لئے بھر پور خزانوں والے سرمایہ دار اور وسیع اختیارات رکھنے والے اربابِ اقتدار بھی ترستے ہیں۔لیکن یہ نعمت ملتی اسی کو ہے جو رب کے در کا فقیر بن ہی جائے اور کسی دوسرے در کا تصور اور خیال تک بھی دل میں نہ لے آئے۔

  جو بندے صرف اور صرف رب کے غلام ہوتے ہیں اللہ رب العزت انہیں اپنے کلام میں”عِبَادِی“کے نام سے پُکارتے ہیں تاکہ دنیا پر یہ واضح ہو جائے کہ اللہ رب العزت کے چہیتے کون ہیں۔دنیا میں یہ وہ بندے ہیں جو اپنا نام زندہ رکھنے کے بجائے اللہ رب العزت کا نام زندہ رکھتے ہیں اور اسی نام کو دنیا کے کونے کونے تک پہنچانے کو اپنا سب سے بڑا فریضہ سمجھتے ہیں۔یہ وہ بندے ہوتے ہیں جو اللہ کے احکامات کو بے چون و چرا بجا لاتے ہیں اور اپنی بڑی سعادت اسی میں سمجھتے ہیں کہ انہیں اللہ کے ہاں ایک بندے کی حیثیت سے دیکھا جائے۔جب ان کے سامنے اللہ کے فرمودات گزرتے ہیں تو یہ بے چین ہو کر عمل کے میدان میں آتے ہیں اور دل کی پوری آمادگی کے ساتھ انہیں بجا لاتے ہیں۔انہی احکامات میں ایک حکم روزہ ہے،جو کہ ایک اہم دینی فریضہ ہے اور دعا کے ساتھ اس کا انتہائی گہرا تعلق پایا جاتا ہے۔جب اللہ کے بندوں کو روزے میں بھوک اور پیاس کی صعوبتیں برداش کرنے پڑتے ہیں تو شکوه و شکایت کے بجائے یہ پوری رضامندی کے ساتھ اپنے قافلے کے ساتھ رواں دواں رہتے ہیں۔روزے کو پورے آداب و شرائط کے ساتھ رکھ کر بالاٰخر اس کی روح تک یہ رسائی کر ہی لیتے ہیں۔روزے کی روح اللہ تعالٰی سے بے پناہ تعلق ہے،اس سے والہانہ محبت ہے،اس سے قلبی لگاٶ اور روحانی وابستگی ہے،ان سب چیزوں کا اظہار بندے دعا کی شکل میں کرتے ہیں۔دعا عاجزی اور انکساری کی لامثالی شکل ہے،جسے اللہ کے ہاں بہت قیمت ہے۔انکساری تحقیر کے بجائے فخر کا نام ہے،جب بندے اس پوزیشن میں آجاتے ہیں تو پھر یہ اپنے رب کو پالینے کے چکر میں لگ جاتے ہیں اور ان کی سب سے بڑی آرزو اور سب سے بڑی تمنا یہ ہو جاتی ہے کہ اپنے رب سے قریب ہو جائیں۔ان کے اندر اپنے رب کی محبت کی آگ پیدا ہوتی ہے اور یہ اس کے لئے دیوانے ہو جاتے ہیں۔ان کے اندر اپنے آقا کی بھوک اور آقا کی پیاس پیدا ہو جاتی ہے۔یہ بے چین ہو کر کہتے ہیں کہ ہمارا مولٰی کہاں ہے،ہمارا مہربان آقا کہاں ہے،ہم اسے کہاں پا سکتے ہیں،اسے کس طرح پا سکتے ہیں۔روزہ کی مشق کو پورا کرکے جب بندے اس مقامِ عروج تک پہنچتے ہیں تو وہ اپنے معبودِ برحق کو ڈھونڈنے کی تلاش میں نکلتے ہیں اور نبی برحق صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وساطت سے ان بے چین بندوں کو ان الفاظ میں تشفی بخش جواب دیا جاتا ہے:

اِذَا سَاَلَـكَ عِبَادِىۡ عَنِّىۡ فَاِنِّىۡ قَرِيۡبٌؕ اُجِيۡبُ دَعۡوَةَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ۞(البقرة:186)

”(اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)!) جب میرے بندے آپ سے میرے بارے میں سوال کریں تو(ان کو بتا دیجیے کہ) میں قریب ہوں میں تو ہر پکار نے والے کی پکار کا جواب دیتا ہوں جب بھی (اور جہاں بھی) وہ مجھے پکارے۔“

اس آیتِ مبارکہ کے ذیل میں ڈاکٹر اسرار احمدؒ نے ایک بہت ہی قابلِ دید نوٹ لکھا ہے جسے پڑھتے ہی انسان کے ذہن سے دعا کے حوالے سے بہت سارے غلط تصورات  یک دم چُھٹ جاتے ہیں اور وہ اپنی عافیت رب کے در پہ ہی سمجھتا ہے۔لکھتے ہیں:

آیت ١٨٦ وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ ط

میرے نزدیک یہ دنیا میں حقوق انسانی کا سب سے بڑا منشور Magna Carta ہے کہ اللہ اور بندے کے درمیان کوئی فصل نہیں ہے۔فصل اگر ہے تو وہ تمہاری اپنی خباثت ہے۔اگر تمہاری نیت میں فساد ہے کہ حرام خوری تو کرنی ہی کرنی ہے تو اب کس منہ سے اللہ سے دعا کرو گے؟لہٰذا کسی پیر کے پاس جاؤ گے کہ آپ دعا کردیجیے،یہ نذرانہ حاضر ہے۔بندے اور خدا کے درمیان خود انسان کا نفس حائل ہے اور کوئی نہیں،ورنہ اللہ تعالیٰ کا معاملہ تو یہ ہے کہ؎

ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں
راہ دکھلائیں کسے،راہ رو منزل ہی نہیں!

اس تک پہنچنے کا واسطہ کوئی پوپ نہیں،کوئی پادری نہیں،کوئی پنڈت نہیں،کوئی پروہت نہیں،کوئی پیر نہیں۔جب چاہو اللہ سے ہم کلام ہوجاؤ۔علامہ اقبالؒ نے کیا خوب کہا ہے؎

کیوں خالق و مخلوق میں حائل رہیں پردے؟
پیران کلیسا کو کلیسا سے اٹھا دو!

اللہ تعالیٰ نے واضح فرما دیا ہے کہ میرا ہر بندہ جب چاہے،جہاں چاہے مجھ سے ہم کلام ہوسکتا ہے۔
اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ لا
اجابت کے مفہوم میں کسی کی پکار کا سننا،اس کا جواب دینا اور اسے قبول کرنا،یہ تینوں چیزیں شامل ہیں۔(بیان القرآن)

  جب اللہ رب العزت بندے کو اپنے در پہ دیکھتا ہے تو اس کی خوشی کی کوئی انتہا ہی نہیں رہتی اور مقررہ وقت پر اس بے بس اور لاچار بندے کی جھولی کو وہ خوشیوں سے بھر ہی دیتا ہے،مگر شرط یہ ہے کہ بندہ دعا کی روح سے آشنا ہو۔دعا کی روح کے بارے میں شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ فرماتے ہیں:
”دعا کی روح یہ ہے کہ دعا کرنے والا ہر قوت و حرکت کا سرچشمہ اللہ تعالٰی ہی کو سمجھے،اور اس کی قدرت و عظمت کے مقابلہ میں اپنے آپ کو اس طرح بے کس اور بے بس سمجھے جس طرح مردہ غسال کے ہاتھوں میں یا بے جان صورتیں حرکت دینے والے کے قبضے میں(مجبور محض) ہوتی ہیں،اور پھر اس کیفیت کے ساتھ اللہ تعالٰی سے مناجات اور سرگوشی کی لذت حاصل ہوتی ہے۔“(حجتہ اللہ البالغہ:ص٥١ ج٢)

  جو ذات رگِ جان سے بھی زیادہ قریب ہے اسے چھوڑ کر دور کے نام نہاد سہاروں پر تکیہ کرنا دانشمندی کا کام نہیں ہو سکتا۔رب کی ذات ہی وہ واحد ذات ہے جو بندے کے حالاتِ زندگی سے واقف ہے اور اس کے دل کی باتوں کو بھی نوٹ کر لیتی ہے۔ایک انسان اپنے باطن میں کن حالات سے گزر رہا ہے یہ رب کے سوا کوئی جان ہی نہیں سکتا۔رب نے خواہ مخواہ بندے کو اپنے در پہ نہیں بلایا بلکہ وہ جانتا ہے کہ میرے بندے کو زندگی کے نشیب و فراز میں میرے بغیر کوئی سمجھ ہی نہیں سکتا ہے۔دعا کی حالت میں رہ کر بندہ عرشِ الٰہی کے سرحدوں کو بھی چُھوتا ہوا نظر آتا ہے اور وہ انتہائی درجہ کی قربت سے نوازا جاتا ہے۔اولین فہرست میں دعا ان اعمالِ صالحات میں آتا ہے جن پر عمل پیرا ہونے سے بندے کو اللہ کی قربت حاصل ہوتی ہے،جو اس کی زندگی کا سب سے بڑا خواب ہوتا ہے۔کبھی کبھار رب سے مناجات کرتے کرتے بندے کو اس انداز کی قربت ملتی ہے کہ وہ اپنی حاجات تک بھول جاتا ہے۔رب چاہتا بھی یہی ہے کہ بندہ میری قربت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے،جس کے لئے کامل ایمان اور مسلسل عملِ صالح ناگزیر ہے۔اللہ تعالٰی باضابطہ طور پر بندے کو اپنے جناب میں باریابی کا ذریعہ تلاش کرنے کی دعوت ان الفاظ میں دیتا ہے:

يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَابۡتَغُوۡۤا اِلَيۡهِ الۡوَسِيۡلَةَ وَجَاهِدُوۡا فِىۡ سَبِيۡلِهٖ لَعَلَّـكُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ۞(المائدہ:35)
”اے ایمان والو! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور اس کے قرب کا وسیلہ تلاش کرو اور اسی کے راستے پر سرگرمِ کار رہو۔امید ہے کہ تم کامیاب ہو جاٶ گے۔“

مذکرہ بالا آیت میں لفظ”وسیلہ“کو نقلی جامہ پہنا کر بعض لوگوں نے کچھ خود ساختہ معبود تراش لئے ہیں جو کہ اس لفظ کے ساتھ ایک انتہائی قسم کا ظلم ہے۔ان لوگوں کو یہ ایک غلط فہمی لاحق ہوگئی ہے،جو کہ بالاٰخر انہیں شرک کی وادی میں دھکیل دیتی ہے جہاں سے نکلنا ان کے لئے پھر محال ہی رہتا ہے۔اس غلط فہمی کو دور کرنے کے لئے میں یہاں چند مشہورومعروف مفسرین کے اقوال پیش کرتا ہوں تاکہ لوگوں پر صحیح عقیدہ روزِ روشن کی طرح عیاں ہو۔باتفاقِ مفسرین اس آیت کریمہ میں وسیلے سے مراد ذاتی نیک اعمال کے ذریعے اللہ کا تقرب حاصل کرنا ہے۔آئیے اب ان مفسرین کرام کے اقوال بالتفصیل ملاحظہ فرمائیں:
امام المفسرین،علامہ ابوجعفر محمد بن جریر بن یزید طبریؒ لکھتے ہیں:
”اس کی طرف وسیلہ تلاش کرو“،
*یعنی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس کو راضی کرنے والے اعمال کے ذریعے اس کا تقرب حاصل کرو۔وسیلہ توسل سے فعيلة کا وزن ہے جس کا معنی ہوتا ہے:کسی چیز کے ذریعے کسی ذات کا تقرب حاصل کرنا۔۔۔ وسیلے کے معنی و مفہوم کے بارے میں مفسرین کرام وہی کہتے ہیں جو کچھ ہم نے کہہ دیا ہے۔ان کا تذکرہ ہم یہاں(اپنی سند سے)کیے دیتے ہیں۔ہمیں محمد بن بشار(ثقہ،حافظ) نے بتایا۔انہیں ابواحمد زبیری (ثقہ،ثبت) نے اور انہیں امام سفیان ثوری(ثقہ،حجۃ،فقیہ،عابد) نے بیان کیا،وہ منصور (ثقہ،ثبت) کے واسطے سے روایت کرتے ہیں کہ(ثقہ تابعی) امام ابووائل شقیق بن سلمہؒ نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا:*

﴿وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ﴾(المائدہ 35:5)
”اس کی طرف وسیلہ تلاش کرو“،

کا مطلب یہ ہے کہ نیک اعمال کے ذریعے اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل کرو۔“(تفسیر طبری)

نحو و لغت اور عربی ادب کے امام،معروف مفسر،علامہ زمخشریؒ اس آیت کریمہ کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
’’وسیلہ(لغوی معنی کے اعتبار سے) ہر وہ رشتہ داری یا عمل ہے جس کے ذریعے کسی کا قرب حاصل کیا جا سکے۔پھر اس کا استعمال نیک اعمال کی بجا آوری اور معاصی سے اجتناب پر ہونے لگا اور اسی کے وسیلے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کیا جاتا ہے۔لبید کے ایک شعر کا مفہوم ہے:میں دیکھتا ہوں کہ لوگ اپنی حیثیت کا احساس نہیں کرتے،ہر عقل مند کو اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنا چاہیے۔‘‘(تفسیر الكشاف )

مشہور مفسر و متکلم،فلسفی و اصولی،علامہ فخرالدین رازیؒ فرماتے ہیں:
”فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّـهَ وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ﴾
”اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور اس کی طرف وسیلہ تلاش کرو“،

*یعنی مسلمانو! تم نے دیکھ لیا ہے کہ یہود معصیت و نافرمانی کے ارتکاب میں کس قدر جرأت سے کام لیتے تھے اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت و فرمانبرداری،جو کہ بندے کے لیے اپنے ربّ کے تقرب کا وسیلہ ہوتا ہے،سے کتنا دور تھے۔تم اس کے بالکل برعکس ہو جانا،اللہ کی معصیت و نافرمانی سے بچنا اور اس کی اطاعت و فرمانبرداری کو وسیلہ بنا کر اس کا تقرب حاصل کرتے رہنا۔“*(تفسير كبير)

  معروف مفسر،علامہ ابوالحسن،علی بن محمد،المعروف بہ خازنؒ لکھتے ہیں:
*”فرمانِ باری تعالیٰ ہے کہ:﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّـهَ﴾ ”ایمان والو! اللہ سے ڈرتے رہو“،یعنی اللہ سے ڈرتے ہوئے اس کی تمام منع کردہ چیزوں سے رک جاؤ۔﴿وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ﴾”اور اس کی طرف وسیلہ تلاش کرو“،یعنی اس کی فرمانبرداری اور خوشنودی والے اعمال کے ذریعے اس کا تقرب حاصل کرو۔ہم نے یہ اس لیے کہا ہے کہ تمام شرعی پابندیاں آخر کار دو قسموں میں منقسم ہو جاتی ہیں۔ایک قسم ممنوعات سے احتراز ہے،اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو اور دوسری قسم احکامات الٰہی پر عمل کر کے اس کا تقرب حاصل کرنا ہے اور اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا کہ اس کا تقرب حاصل کرو۔“*(تفسیر خازن)

 سنی مفسر،حافظ ابن کثیرؒ لکھتے ہیں:
’’ان ائمہ دین نے جو فرمایا ہے،یہ مفسرین کرام کا اتفاقی فیصلہ ہے۔‘‘(تفسير ابن كثير)

  قارئین کرام! یہ تھے امت مسلمہ کے مشہور و معروف مفسرین جن کی زبانی آپ نے اس آیت کریمہ کی تفسیر ملاحظہ فرمالی۔سب نے بالاتفاق وسیلے سے ذاتی نیک اعمال مراد لیے ہیں۔اب کہاں ہے ان لوگوں کے عقیدے کی گنجائش جو دعا میں فوت شدگان کا وسیلہ دینے کا اثبات دیتے ہیں؟یہ قرآنِ حکیم کی مذکورہ بالا آیت کے اہم لفظ”وسیلہ“کے ترجمے،مفہوم اور تفسیر میں ایک تحریف ہے جسے کسی بھی صورت میں برداشت نہیں کیا جا سکتا۔اصل میں یہ علماءِ سوء کا کام ہے،جنہوں نے اس فعلِ بد کے ذریعے ایک طرف اپنی آخرت کو برباد کر ڈالا اور دوسری طرف لوگوں کے ایک گروہِ کثیر کو گمراہی کی کھائی میں دھکیل دیا۔کاش یہ صبر اور قناعت کا دامن ہاتھ میں لیتے تو حُب مال ان کے دل میں گھر نہ کر لیتی اور وہ دنیا کے کتے نہ بن جاتے۔وائے!حُب مال کی بیماری کے سبب ہی وہ دین کو بدنام کرنے والے سپاہی بن گئے۔ان کی اس حالتِ زار پر ترس کھا کر علامہ اقبالؒ نے بڑے ہی پتے کی بات کہی ہے؎

خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں
ہوئے کس درجہ فقیہانِ حرم بے توفیق

Comments

  1. Allah tallah aapki iss mehnat ko apni bargah mai qubool farmaye aur aapko zaida sai zaida ilem aata farmaye aur allah tallah hmm sabko hidayat atta farmaye#ameen ya rubal alameen#

    ReplyDelete

Post a Comment