Supplication : The Only Way Forward (Part 9)

 

 سورۃ الفرقان میں اللہ تعالٰی نے”عباد الرحمٰن“ کے جو صفات گنوائے ہیں ان میں ایک صفت یہ بھی ہے کہ سچ مُچ میں میرے بندے وہ لوگ ہیں جو میرے ساتھ کسی اور کو نہیں پُکارتے ہیں بلکہ میرے در کا سوالی بنے رہنے میں ہی اپنی شان و بان اور عافیت سمجھتے ہیں۔فرمانِ الٰہی ہے:

وَالَّذِيۡنَ لَا يَدۡعُوۡنَ مَعَ اللّٰهِ اِلٰهًا اٰخَرَ۞(الفرقان:68)
”اور (عبادالرحمن وہ لوگ ہیں) جو اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہیں پکارتے ہیں۔“

   مولانا ڈاکٹر محمد اسلم صدیقیؒ نے اس آیتِ مبارکہ پر ایک ایسا معلوماتی نوٹ لکھا ہے کہ جسے پڑھتے ہی انسان کو توحید کی جڑ ہاتھ آتی ہے اور یہ اللہ تعالٰی کو مُختار کُل سمجھ کر اپنے تمام معاملات کو اس کے حوالے کر ہی دیتا ہے۔لکھتے ہیں:
 ۔۔۔۔توحید اسلام کے تمام عقائد کی بنیاد ہے۔اسلامی زندگی کا اصل الاصول اور اس کا مبدا و معاد ہے۔اسی سے پہلا قدم اٹھتا ہے اور یہی ایک مومن کی منزل اور معراج ہے۔اور اس توحید کا متضاد شرک ہے۔اسی لیے قرآن کریم نے توحید کی وسعتوں کو بھی بیان فرمایا اور شرک کی تمام اقسام و اصناف اور اس کے تمام الوان و آثار کی طرف بھی اشارے فرمائے۔اسلام کی نگاہ میں ایک مومن کی انفرادی طور پر اور ایک امت کی اجتماعی طور پر شخصیت کی تکمیل صرف عقیدہ توحید سے ہوتی ہے۔ایک مومن کی زندگی میں طہارتِ قلب سے لے کر طہارتِ اخلاق و اعمال تک جن مؤثرات کی ضرورت ہے وہ تمام عقیدہ توحید سے پھوٹتے ہیں۔ اس لیے وہ اللہ کی ذات کے مقابلے میں کسی اور ذات کو اور اللہ تعالیٰ کی صفات کے مقابلے میں کسی اور کی صفات کو اور اللہ تعالیٰ کے حقوق کے مقابلے میں کسی اور کے حقوق کو آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی بھی اجازت نہیں دیتا۔اس کی ذات بھی یکتا ہے،اس کی صفات بھی بےمثال ہیں اور اس کے حقوق بھی کسی اور کی ہمسری سے پاک ہیں۔ایک مومن جس طرح اپنا سر غیر اللہ کے سامنے جھکنے نہیں دیتا،اپنے دل میں کسی اور محبت کو بھی غالب نہیں ہونے دیتا،کسی اور کی غیرمشروط اطاعت کا تصور بھی قبول نہیں کرتا،کسی اور کا خوف اپنے اوپر طاری نہیں ہونے دیتا۔کسی اور سے لو لگانے کو اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں ناقابلِ قبول سمجھتا ہے۔اسی طرح زندگی کے اجتماعی معاملات میں کسی اور کو رہنمائی کی غیرمشروط طور پر اجازت نہیں دیتا۔کسی شخص یا کسی ادارے کو ایسی حکمرانی کا حق نہیں دیتا جو اللہ تعالیٰ کی حکمرانی کو چیلنج کرتی ہو۔کسی کو ایسی قانون سازی کی سند نہیں دیتا جو اللہ تعالیٰ کے قانون سے متصادم ہو۔یہ وہ توحید کا ایک سادہ سا تصور ہے جو اپنی جامعیت اور مانعیت میں اتنا مکمل ہے جس میں کسی طرح کی پیوندکاری ممکن نہیں۔اور یہی ایک مومن اور امت مسلمہ کی قوت کی علامت اور اس کا حقیقی سرچشمہ ہے۔اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے اِلٰہ کو پکارنے یعنی ماننے اور تسلیم کرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔

    ہمارے آج کے مذہبی طبقات کی بحثیں عموماً یہاں تک محدود رہتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو سجدہ نہیں کیا جاسکتا،کسی کے لیے قیام اور رکوع و سجود کی اجازت نہیں،کسی سے غیرعادی طریقے پر استمداد نہیں ہوسکتی،کوئی نفع و ضرر کا مالک نہیں،اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی کسی کو اولاد دینے پر قادر نہیں،وہی قسمتیں بناتا اور بگاڑتا ہے،عزت و ذلت اسی کے ہاتھ میں ہے۔یہ سب باتیں اپنی جگہ صحیح اور نہایت بیش قیمت ہیں۔لیکن آج عالم اسلام میں توحید کو جو سب سے بڑا حادثہ درپیش ہے وہ یہ باتیں نہیں بلکہ وہ یہ ہے کہ عالم اسلام کی بیشتر آبادی نے اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ قانون کو رد کردیا ہے۔غیرمشروط قانون سازی کا حق صرف اللہ تعالیٰ کو دینے کی بجائے انھوں نے بادشاہوں،آمروں اور پارلیمنٹ کو دے رکھا ہے۔وضعی قوانین کے مقابلے میں اسلامی شریعت اپنا وزن کھو چکی ہے۔دیگر مذاہب کی طرح اسلام ایک پرائیویٹ معاملہ ہو کر رہ گیا ہے اور مسلمانوں کی اجتماعی زندگی پر اسلام کے سوا نہ جانے کس کس کی حکومت ہے۔اسی کا نتیجہ ہے کہ ہم اسلامی تہذیب،اسلامی تمدن اور اسلامی ثقافت سے بیگانہ ہوچکے ہیں جبکہ اس آیت کریمہ میں عبادالرحمن جو درحقیقت مسلمانوں ہی کا نام ہے،کو عبادالشیطان سے الگ کرنے کے لیے ان کی جس پہلی صفت کا ذکر فرمایا گیا ہے اسے قبول اور اختیار کرنے سے جو زندگی وجود میں آتی ہے اس میں ان کمزوریوں کو راہ پانے کا موقع نہیں ملتا جن کا اوپر ذکر کیا گیا ہے۔(روح القرآن)
              
   اللہ تعالٰی کو چھوڑ کر غیر اللہ کو پُکارنا ایک ایسا بُرا فعل ہے جو کہ انسان کو انسانیت کے معراج سے گِرا دیتا ہے،اسے اللہ تعالٰی کی ناراضگی کی طرف دھکیلتا  ہے اور احسنِ تقویم سے اٹھا کر اسے اسفلَ السافلین کے صف میں شامل کر دیتا ہے۔یہ کہاں کی عقلمندی ہے کہ اپنی جیسی مخلوق کو پُکارا جائے،جو خود بھی انسان کی طرح بے بس،لا چار اور مجبور ہوں؟جو لوگ ایسی گناونی حرکت کرتے ہیں انہیں اللہ تعالٰی غوروخوض کرنے کی دعوت ان الفاظ میں دیتے ہیں:

وَالَّذِيۡنَ يَدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰهِ لَا يَخۡلُقُوۡنَ شَيۡـئًا وَّهُمۡ يُخۡلَقُوۡنَؕ۞(النحل:20)
”اور وہ دوسری ہستیاں جنہیں اللہ کو چھوڑ کر لوگ پکارتے ہیں،وہ کسی چیز کی بھی خالق نہیں ہیں بلکہ خود مخلوق ہیں۔“


    اللہ تعالٰی کو چھوڑ کر کسی اور کو پُکارنے والے حقیقت میں جھانکنے کے بجائے نِرے وہم و گمان کے پیرو اور محض قیاس آرائیاں کر رہے ہوتے ہیں۔کاش کہ وہ دھوکے کی پٹی کو اپنی آنکھوں سے ہٹا لیتے تو اصل حقیقت ان پر روزِ روشن کی طرح عیاں ہوتی۔قرآنِ پاک میں ان لوگوں کی اس بین خامی کی نشاندہی اللہ تعالٰی نے ان الفاظ میں کر دی ہے:

اَلَاۤ اِنَّ لِلّٰهِ مَنۡ فِى السَّمٰوٰتِ وَمَنۡ فِى الۡاَرۡضِ‌ؕ وَمَا يَتَّبِعُ الَّذِيۡنَ يَدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰهِ شُرَكَآءَ‌ ؕ اِنۡ يَّتَّبِعُوۡنَ اِلَّا الظَّنَّ وَاِنۡ هُمۡ اِلَّا يَخۡرُصُوۡنَ ۞(یونس:66)
”آگاہ رہو! آسمان کے بسنے والے ہوں یا زمین کے،سب کے سب اللہ کے مملوک ہیں اور جو لوگ اللہ کے سوا کچھ (اپنے خودساختہ) شریکوں کو پکار رہے ہیں وہ نِرے وہم و گمان کے پیرو ہیں اور محض قیاس آرائیاں کرتے ہیں۔“

        
    جو لوگ اللہ کو چھوڑ کر غیر اللہ کو پُکارتے ہیں وہ اپنے ہی خلاف ظالم بن بیٹھتے ہیں اور اس سے بڑھ کر بیوقوفی اور کیا ہوگی کہ انسان اپنے ہی وجود کو واصلِ جہنم ٹھہرائے۔اس جہالت کی اندھیری میں پڑے ہوئے انسان کے پاس جب فرشتے روح قبض کرنے کے لئے آتے ہیں تو اس کے اوپر حقیقت واضح ہونے پر پھر اپنے پاس ہاتھ ملنے کے سوا کچھ باقی نہیں رہتا۔اللہ تعالٰی فرماتے ہیں:

فَمَنۡ اَظۡلَمُ مِمَّنِ افۡتَـرٰى عَلَى اللّٰهِ كَذِبًا اَوۡ كَذَّبَ بِاٰيٰتِهٖ ؕ اُولٰۤئِكَ يَنَالُهُمۡ نَصِيۡبُهُمۡ مِّنَ الۡـكِتٰبِ‌ؕ حَتّٰٓى اِذَا جَآءَتۡهُمۡ رُسُلُـنَا يَتَوَفَّوۡنَهُمۡ ۙ قَالُوۡۤا اَيۡنَ مَا كُنۡتُمۡ تَدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰهِ‌ ؕ قَالُوۡا ضَلُّوۡا عَنَّا وَشَهِدُوۡا عَلٰٓى اَنۡفُسِهِمۡ اَنَّهُمۡ كَانُوۡا كٰفِرِيۡنَ۞(الاعراف:37)
”ظاہر ہے کہ اُس سے بڑا ظالم اور کون ہو گا جو بالکل جھوٹی باتیں گھڑ کر اللہ کی طرف منسُوب کرے یا اللہ کی سچی آیات کو جھُٹلائے۔ایسے لوگ اپنے نوشتہٴِ تقدیر کے مطابق اپنا حصّہ پاتے رہیں گے،یہاں تک کہ وہ گھڑی آجائےگی جب ہمارے بھیجے ہوئے فرشتے ان کی روحیں قبض کرنے کے لیے پہنچیں گے۔اُس وقت وہ اُن سے پوچھیں گے کہ بتاٶ،اب کہاں ہیں تمہارے وہ معبود جن کو تم خدا کے بجائے پُکارتے تھے؟وہ کہیں گے کہ” سب ہم سے گُم ہو گئے“۔اور وہ خود اپنے خلاف گواہی دیں گے کہ ہم واقعی منکرِ حق تھے۔“


  سابقہ قومیں بھی جب غیر اللہ کو پُکارنے کی روش اختیار کرنے لگے اور آخرت کے حوالے سے شفاعت کا غلط تصور لئے ہوئے ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھنے لگے تو اللہ تعالٰی کا تازیانہ حرکت میں آنے لگا اور ان کی جڑ کاٹ دی گئی۔کائنات میں جو بھی چیز قائم کردہ حدود کو پھلانگتے ہوئے تجاوز اختیار کر لیتی ہے تو عین وقت اسے تباہی و بربادی سے کوئی بچا بھی نہیں پاتا اور بالاٰخر اسے چوٹ کھانی ہی پڑتی ہے۔قرآنِ پاک میں ذیل کی آیتِ مبارکہ سے پہلے اللہ تعالٰی مختلف ظالم قوموں کا تذکرہ کرتے ہیں تاکہ آنے والے لوگ عبرت پکڑ کر اپنی نجات کا راستہ لیں۔وہ معبودانِ باطل پر بھروسہ کر کے اپنا سارا وجود اور اپنے سارے معاملات ان کے حوالے کر چکے تھے لیکن بحکمِ خدا جب عذاب اپنی اصلی شکل میں رونما ہوا تو یہ خود ساختہ معبود ان کے کچھ کام نہ آسکیں بلکہ انہوں نے ان کی بربادی میں مزید اضافہ کر دیا۔اللہ تعالٰی اس حقیقت کی نشاندہی ان الفاظ میں کرتے ہیں:

وَمَا ظَلَمۡنٰهُمۡ وَلٰـكِنۡ ظَلَمُوۡۤا اَنۡفُسَهُمۡ‌ فَمَاۤ اَغۡنَتۡ عَنۡهُمۡ اٰلِهَتُهُمُ الَّتِىۡ يَدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰهِ مِنۡ شَىۡءٍ لَّمَّا جَآءَ اَمۡرُ رَبِّكَؕ ‌ وَمَا زَادُوۡهُمۡ غَيۡرَ تَتۡبِيۡبٍ‏۞(ھود:101)
”ہم نے اُن پر ظلم نہیں کیا،انہوں نے آپ ہی اپنے اوپر ستم ڈھایا اور جب اللہ کا حکم آ گیا تو ان کے وہ معبود جنہیں وہ اللہ کو چھوڑ کر پکارا کرتے تھے ان کے کچھ کام نہ آ سکے اور انہوں نے ہلاکت و بربادی کے سوا انہیں کچھ فائدہ نہ دیا۔“

 اس آیتِ مبارکہ پر مولانا ڈاکٹر محمد اسلم صدیقیؒ نے دل کو چُھو لینے والی ایسی قیمتی باتیں لکھی ہیں کہ جن پر طائرانہ نظر مارتے ہی انسان اپنے اندر جھانک کر دعا کے متعلق چند غلط تصورات کو خیر باد کہتے ہوئے اپنا ہاتھ اللہ کے ہاتھ میں دے کر بالاٰخر نجات کی راہ کو پا ہی لیتا ہے۔لکھتے ہیں:
 قوموں کی ہلاکت اور بربادی کے واقعات پڑھ کر یا سن کر آدمی سوچنے لگتا ہے کہ قوموں کو تباہ کردینا بہت بڑا ظلم ہے۔پروردگار یہ کیسے پسند فرماتا ہے کہ اس کی زمین پر لاشوں کے ڈھیر لگے ہوں۔اس کی ذات تو نہایت رحیم و کریم ہے۔وہ خود فرماتا ہے کہ میری نگاہ میں ظلم نہایت ناپسندیدہ ہے۔میں نے کسی پر کبھی ظلم نہیں کیا۔تم جن بستیوں کو دیکھتے ہو کہ وہ اپنے مکینوں سمیت تباہ ہوگئیں وہ اللہ کے ظلم کی وجہ سے نہیں بلکہ لوگوں نے اپنی جانوں پر خود ظلم کیا۔اس کے نتیجے میں ان پر عذاب آیا۔اللہ نے اپنے رسول بھیج کر ان پر یہ بات واضح کردی کہ تمہارے سامنے دو راستے ہیں،ایک عافیت اور کامیابی و کامرانی کا راستہ ہے۔وہ یہ ہے کہ تم اپنے خالق ومالک کی مرضی کے مطابق اس کی خوشنودی کے حصول کے لیے زندگی گزارو۔اسی کو اپنا اِلٰہ سمجھو،اسی کے سامنے سر جھکاٶ،اسی کی غیر مشروط اطاعت کرو۔اس کے نتیجے میں تمہیں دنیوی کامیابیاں بھی نصیب ہوں گی اور اخروی کامرانیاں بھی۔اور دوسرا راستہ ہے ہلاکت و تباہی کا۔اگر تم اللہ کی فرمانبرداری کی بجائے شیطان یا اپنے نفس کی پیروی کرو،اس کے رسولوں پر ایمان لانے کی بجائے طاغوت پر ایمان لاٶ،اسی کے سامنے سر جھکانے اور اسی کو معبود سمجھنے کی بجائے اوروں کو اس کا شریک بناٶ اور خواہش نفس کے نتیجے میں بداخلاقیوں کو اپنا شعار بنا لو،تو یہ وہ راستہ ہے جو بالآخر ہلاکت اور تباہی پر منتج ہوتا ہے۔اللہ تعالیٰ جس طرح رحیم و کریم ہے اور اس کی رحمت تمام مخلوقات کو زندگی بخشتی ہے اور زندگی کی بقا کا سامان کرتی ہے اور اس کی ربوبیت تمام مخلوقات کی تربیت کے اسباب فراہم کرتی ہے۔اسی طرح وہ عادل بھی ہے۔وہ جب دیکھتا ہے کہ میری مکلف مخلوق جن میں جن و انس شامل ہیں وہ میری نعمتوں سے تو شادکام ہوتے ہیں،میرے احسانات سے بہرہ ور ہوتے ہیں اور میری رحمتوں کے مزے لوٹتے ہیں،لیکن میری حاکمیت،میری الوہیت،میری وحدانیت اور میری بندگی سے انکار کرتے ہیں اور انھوں نے نہ جانے کتنی دیویوں اور دیوتاٶں کو میرا شریک بنا رکھا ہے،پھر وہ اپنے رسول بھیج کر لوگوں کو سمجھانے کی کوشش کرتا ہے۔انھیں سمجھنے کے لیے مہلت دیتا ہے لیکن جب وہ اپنی ہٹ پر قائم رہتے ہیں تو آخر اس کی صفت عدل حرکت میں آتی ہے تو یہ لوگ جنھوں نے اس کی زمین کو فساد سے بھردیا ہے اور گلشن ہستی کو اپنی بداعمالیوں کے جھاڑ جھنکار سے ویرانے میں تبدیل کردیا ہے۔انھیں تباہ کرکے ازسرنو اس ویرانے کو گلشن میں تبدیل کرتا ہے۔تو یہ تباہی و بربادی ان لوگوں کی نافرمانی اور ان کی سرکشی کے نتیجے میں ان پر مسلط ہوتی ہے اور اس کا سبب وہ خود بنتے ہیں اور یہی وہ ظلم ہے جو وہ اپنے اوپر کرتے ہیں،اللہ ان پر ظلم نہیں کرتا۔
 
 آیت کے دوسرے حصے میں قوموں کے بگاڑ کا ایک عمومی سبب بیان فرمایا ہے۔وہ یہ ہے کہ ایسے لوگ کم ہوتے ہیں جنھیں سرے سے اس بات کا احساس ہی نہ ہو کہ اگر قیامت کے دن اللہ کے سامنے حاضری ہوئی اور وہاں اپنی زندگی کے اعمال کے بارے میں جوابدہی کرنا پڑی تو ہم کیا کریں گے۔ہر شخص کے دل میں یہ خواہش موجود رہتی ہے کہ میں کسی نہ کسی طرح قیامت کی ہولناکیوں سے محفوظ رہوں۔اس سے بچنے کا ایک راستہ تو وہ ہے جو پیغمبر لوگوں کو بتاتے ہیں لیکن وہ راستہ چونکہ کٹھن ہے،اس میں قدم قدم پر آزمائشیں ہیں،خواہش نفس کی مخالفت ہے اور ایک خاص دائرے میں رہ کر زندگی گزارنا پڑتی ہے۔اسی مشکل کو محسوس کرتے ہوئے کچھ لوگ ادھر ادھر دیکھنے لگتے ہیں،شیطان ایسے ہی موقعوں سے فائدہ اٹھاتا ہے۔وہ ان لوگوں کے لیے شارٹ کٹ تجویز کرتا ہے اور ان کے ذہن میں یہ بات ڈالتا ہے کہ تمہیں قیامت یا جوابدہی سے ہراساں نہیں ہونا چاہیے۔اولاً تو یہ ساری باتیں ہی باتیں ہیں جن کی کوئی حقیقت نہیں،لیکن اگر حقیقت ہو بھی تو تم ان قوتوں سے اپنا رشتہ جوڑو جو اللہ سے قریبی رشتہ رکھتی ہیں۔ان کی بندگی بجا لاٶ،ان کے لیے قربانیاں کرو اور جب ضرروت پڑے انھیں سے استمداد کرو۔انھیں اللہ نے اپنی صفات اور اپنے اختیارات میں شریک کر رکھا ہے اور وہی اس کائنات کا نظام چلا رہے ہیں۔قیامت کے دن یہی لوگ تمہاری شفاعت کریں گے۔ان کے ہوتے ہوئے تمہیں کسی طرح کا تردد نہیں کرنا چاہیے۔شفاعت کا یہ وہ غلط تصور ہے جس نے قوموں کی قومیں برباد کی ہیں۔جب کوئی شخص یہ یقین کرلیتا ہے کہ میں جن قوتوں کو اللہ کے مقابلے میں پکارتا ہوں وہ مجھے اللہ سے چھڑا سکتی ہیں۔میں نے جن کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دے رکھا ہے اور جن کا میں نے دامن تھام رکھا ہے وہ میری شفاعت کریں گی۔تو ایسے شخص کو پھر کیا ضرورت پڑی ہے کہ وہ شریعت کے احکام پر عمل کرے یا کسی بھی معاملے میں اللہ سے ڈر کر صحیح راستہ اختیار کرنے کی کوشش کرے۔شفاعت کا غلط تصور اور قیامت کے حقیقی تصور میں بعدالمشرقین ہے۔قیامت تو اس لیے آئے گی تاکہ ان لوگوں کو جزاء دی جائے اور اچھے بدلے سے نوازا جائے جنھوں نے اللہ کی فرمانبرداری میں زندگی گزاری اور اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے ہر قربانی دی۔حتیٰ کہ اگر اس راہ میں جان بھی قربان کرنا پڑی تو اس سے بھی دریغ نہ کیا۔اگر اس کے مقابلے میں یہ تصور قبول کرلیا جائے کہ زندگی جیسے چاہو خواہشِ نفس کی پیروی میں گزارو،جیسے چاہو داد عیش دیتے رہو،جہاں بس چلے دوسروں کے حقوق چھین لو اور کمزوروں پر ظلم توڑو اور اگر قیامت کے دن کوئی بازپرس ہوئی تو تم جن کے دامن گرفتہ ہو ان کی سفارش تمہاری نجات کا باعث بن جائے گی۔تمہاری کوئی بدعملی اور نافرمانی تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گی۔اندازہ فرمایئے،شفاعت کے اس غلط تصور کے نتیجے میں قیامت کا کیا مفہوم باقی رہ جاتا ہے۔ایسی صورتحال میں اللہ کی کوئی فرمانبرداری کرے تو کیونکر اور اس کے راستے میں قربانی دے تو کیوں؟جب کسی نیکی کا کوئی صلہ نہیں اور کسی بُرائی کی کوئی سزا نہیں تو نیکی کی رغبت اور بُرائی سے پرہیز آخر اس کی کیا علت باقی رہ جاتی ہے۔بگاڑ کے اسی حقیقی سبب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ جب ان بگڑی ہوئی قوموں پر ہمارا عذاب آیا تو جن دیوی دیوتائوں کی شفاعت کے سہارے پر وہ شرک اور نافرمانی کرتے رہے،کوئی ان کی مدد کو نہ پہنچا۔وہ یہ سمجھتے رہے کہ ان سے تعلق کی وجہ سے قدرت ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتی،لیکن جب اس کی گرفت آئی تو دور دور تک کوئی ان کا مددگار نہ پہنچا۔البتہ یہ ضرور ہوا کہ اگر یہ غلط تصور ان کا سہارا نہ بنتا تو شاید وہ ہدایت کی بات کو قبول کرلیتے اور پیغمبر کی تبلیغ و دعوت کے نتیجے میں سوچنے پر آمادہ ہوجاتے،لیکن شفاعت کے اس غلط تصور نے انھیں بچانے کی بجائے ان کی ہلاکت میں اضافہ کیا۔اس کے سہارے وہ اپنی ڈگر پر چلتے رہے اور کسی بات کو سننا بھی گوارا نہ کیا۔

Comments