Supplication : The Only Way Forward (Part 8)


    انسان کے لئے یہ دنیا ایک امتحان گاہ ہے جس میں اسے مختلف آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔پروردگار نے اس کارگاہِ عالم فانی میں آرام و تکلیف،رنج و غم،دوست دشمن،بیماری تندرستی اور طرح طرح کی صَدہا راحتوں اور مصیبتوں کو پیدا فرما کر سب مخلوق اور خاص طور پر انسان کو اس میں مبتلا کیا جیسا کہ اُس نے فرمایا:

لَقَدۡ خَلَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ فِىۡ كَبَدٍؕ۞(البلد:4)
”درحقیقت ہم نے انسان کو مشقت میں پیدا کیا ہے۔“

 اسی حقیقت کو نبی اکرم ﷺ نے ایک حدیثِ پاک میں یوں بیان فرمایا ہے:
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ  نبی کریمﷺ  نے چوکھٹا خط کھینچا۔پھر اس کے درمیان ایک خط کھینچا جو چوکھٹے کے درمیان میں تھا۔اس کے بعد درمیان والے خط کے اس حصے میں جو چوکھٹے کے درمیان میں تھا چھوٹے چھوٹے بہت سے خطوط کھینچے اور پھر فرمایا کہ یہ انسان ہے اور یہ اس کی موت ہے جو اسے گھیرے ہوئے ہے اور یہ جو(بیچ کا) خط باہر نکلا ہوا ہے وہ اس کی امید ہے اور چھوٹے چھوٹے خطوط اس کی دنیاوی مشکلات ہیں۔پس انسان جب ایک(مشکل) سے بچ کر نکلتا ہے تو دوسری میں پھنس جاتا ہے اور دوسری سے نکلتا ہے تو تیسری میں پھنس جاتا ہے۔(بخاری:6417)

   انسان ابتدائے آفرینش سے لے کر قیامت کی صبح تک گوناگوں حالات اور پریشانیوں میں مبتلا رہتا ہے۔مگر اپنے ربِ کریم کا کرم تو دیکھئے اس نے انسان کو بے یارومددگار نہیں چھوڑا بلکہ زندگی کے نشیب و فراز کے ساتھ ہی اُس نے ایسی احتیاطی تدبیریں بھی مقرر فرمادی ہیں کہ جن پر گامزن رہنے سے پریشانیاں دور ہو سکتی ہیں۔جیسے سردی سے بچاٶ کے لئے گرم سامان اور گرمی سے بچاٶ کے لئے ٹھنڈ پہنچانے والی چیزیں،دشمن سے بچاٶ کے لئے سامانِ جنگ،رنج و غم کے دور کرنے کے لئے آرام و راحت کے اسباب،بیماری کے دور کرنے کے لئے دعائیں اور دوائیں پیدا کیں۔ایک حدیثِ پاک میں ہے:

”حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ  نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے کوئی ایسی بیماری نہیں اتاری جس کی دوا بھی نازل نہ کی ہو۔“(بخاری:5678)


 درحقیقت اللہ تعالٰی ہی رنج و غم،تکلیف و مصیبت ڈالنے والا ہے اور وہی ان مصیبتوں کو دور فرما کر انسان کو آرام و راحت،صحت و تندرستی اور چین و سکون عطا فرماتا ہے۔وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے اور مختار کُل ہے۔جو چاہتا ہے کر گزرتا ہے،اپنے پیارے بندے کی بھلائی اس میں دیکھتا ہے کہ وہ صرف اسی کو پُکارے اور پُکارتا رہے۔اور سچ مچ میں رب کے سوا کون ہے جو اس کو ان گوناگوں حالات اور پریشانیوں سے چُھٹکارا دلا سکتا ہے؟انسان ہر مصیبت کو دور کرنے کے لئے کوئی نہ کوئی سہارا ضرور تلاش کرتا ہے۔وہ اسی پر قناعت نہیں کرتا بلکہ کبھی کبھار وہ اپنے سے بڑی ذات کا وسیلہ و ذریعہ ٹھہراتا ہے اور اس کا دامن پکڑ کر نجات حاصل کرنے کے خواہاں رہتا ہے۔لیکن جب ان سبھوں کے دربار سے مایوسی کے سوا اسے کچھ ہاتھ نہیں آتا تو یہ تمام مادی،صوری اور ظاہری ذریعوں سے منہ پھیر کر ایک اللہ کے پاس واپس لوٹ کر اسے عاجزی،انکساری اور آہ وزاری سے پُکارتا ہے۔اللہ رب العزت اس گناہگار بندے کے ماضی کو بھول کر اسے بالاٰخر اپنی دامنِ رحمت میں چھپا ہی لیتا ہے۔جب خدا ہی اس آڑے وقت و مصیبت میں کام آنے والا ہے تو ہر حالت میں اسی کو پُکارنا چاہئیے اور بندے کی نجات بھی اسی راستے میں پنہاں ہے۔کب تک بندہ دوسرے درباروں کے دروازوں کو کھٹکھٹائے گا،وہاں ذلت و رسوائی ہی اس کے ہاتھ آئے گی۔دوسرے عاجز و محتاجوں کو پُکارنے سے کیا فائدہ کیوں کہ وہ تو اس کی پُکار بھی نہیں سنتے ہیں کجا کہ وہ اسکی حاجت روائی کریں،یہ کھیل دھوکے کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ارشاد ربانی ہے:

وَمَنۡ اَضَلُّ مِمَّنۡ يَّدۡعُوۡا مِنۡ دُوۡنِ اللّٰهِ مَنۡ لَّا يَسۡتَجِيۡبُ لَهٗۤ اِلٰى يَوۡمِ الۡقِيٰمَةِ وَهُمۡ عَنۡ دُعَآئِهِمۡ غٰفِلُوۡنَ۞(الاحقاف:5)
”آخر اُس  شخص سے زیادہ بہکا ہوا انسان اور کون ہوگا جو اللہ کو چھوڑ کر اُن کو پکارے جو قیامت تک اسے جواب نہیں دے سکتے بلکہ اِس سے بھی بے خبر ہیں کہ پُکارنے والے اُن کو پکار رہے ہیں۔“

اس آیتِ مبارکہ کے تحت مولانا سید ابو الاعلٰی مودودیؒ نے ایک ایسا شاندار اور جاندار نوٹ لکھا ہے کہ جس کو پڑھتے ہی انسان کے ذہن سے دعا کے متعلق بہت سارے غلط تصورات یک دم چُھٹ جاتے ہیں اور وہ ایک صالح  فکر کو پروان چڑھاتے ہوئے رب کے در کا سوالی بن ہی جاتا ہے۔لکھتے ہیں:
جواب دینے سے مراد جوابی کاروائی کرنا ہے نہ کہ الفاظ میں بآواز جواب دینا یا تحریر کی شکل میں لکھ کر بھیج دینا۔مطلب یہ ہے کہ کوئی شخص اگر ان معبودوں سے فریاد یا استغاثہ کرے،یا ان سے کوئی دعا مانگے،تو چونکہ ان کے ہاتھ میں کوئی طاقت اور کوئی اختیار نہیں ہے،اس لیے وہ اس کی درخواست پر کوئی کارروائی نفی یا اثبات کی شکل میں نہیں کرسکتے۔(مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو جلد چہارم،الزمر،33)
قیامت تک جواب نہ دے سکنے کا مطلب یہ ہے کہ جب تک یہ دنیا باقی ہے اس وقت تک تو معاملہ صرف اسی حد پر رہے گا کہ ان کی دعاؤں کا کوئی جواب ان کی طرف سے نہ ملے گا،لیکن جب قیامت آجائے گی تو اس سے آگے بڑھ کر معاملہ یہ پیش آئے گا کہ وہ معبود اپنے ان عابدوں کے الٹے دشمن ہوں گے،جیسا کہ آگے کی آیت میں آرہا ہے۔

یعنی ان تک ان پکارنے والوں کی پکار سرے سے پہنچتی ہی نہیں۔نہ وہ خود اپنے کانوں سے اس کو سنتے ہیں،نہ کسی ذریعہ سے ان تک یہ اطلاع پہنچتی ہے کہ دنیا میں کوئی انہیں پکار رہا ہے۔اس ارشاد الٰہی کو تفصیلاً یوں سمجھیے کہ دنیا بھر کے مشرکین خدا کے سوا جن ہستیوں سے دعائیں مانگتے رہے ہیں وہ تین اقسام پر منقسم ہیں۔ایک،بےروح اور بےعقل مخلوقات دوسرے،وہ بزرگ انسان جو گزر چکے ہیں۔تیسرے،وہ گمراہ انسان جو خود بگڑے ہوئے تھے اور دوسروں کو بگاڑ کر دنیا سے رخصت ہوئے۔پہلی قسم کے معبودوں کا تو اپنے عابدوں کی دعاؤں سے بیخبر رہنا ظاہر ہی ہے۔ رہے دوسری قسم کے معبود،جو اللہ کے مقرب انسان تھے،تو ان کے بیخبر رہنے کے دو وجوہ ہیں۔ایک یہ کہ وہ الہ کے ہاں اس عالم میں ہیں جہاں انسانی آوازیں راہ راست تک نہیں پہنچتیں۔دوسرے یہ کہ اللہ اور اس کے فرشتے بھی ان تک یہ اطلاع نہیں پہنچاتے کہ جن لوگوں کو آپ ساری عمر اللہ سے دعا مانگنا سکھاتے رہے تھے وہ اب الٹی آپ سے دعائیں مانگ رہے ہیں،اس لیے کہ اس اطلاع سے بڑھ کر ان کو صدمہ پہنچانے والی کوئی چیز نہیں ہو سکتی،اور اللہ اپنے ان نیک بندوں کی ارواح کو اذیت دینا ہرگز پسند نہیں کرتا۔اس کے بعد تیسری قسم کے معبودوں کے معاملہ میں غور کیجیے تو معلوم ہوگا کہ ان کے بیخبر رہنے کے بھی دو ہی وجوہ ہیں۔ایک یہ کہ وہ ملزموں کی حیثیت سے اللہ کے ہاں حوالات میں بند ہیں جہاں دنیا کی کوئی آواز انہیں نہیں پہنچتی۔دوسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے بھی انہیں یہ اطلاع نہیں پہنچاتے کہ تمہارا مشن دنیا میں خوب کامیاب ہو رہا ہے اور لوگ تمہارے پیچھے تمہیں معبود بنائے بیٹھے ہیں،اس لیے کہ یہ خبریں ان کے لیے مسرت کی موجب ہوں گی،اور خدا ان ظالموں کو ہرگز خوش نہیں کرنا چاہتا۔
اس سلسلے میں یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں کو دنیا والوں کے سلام اور ان کی دعائے رحمت پہنچا دیتا ہے کیونکہ یہ چیزیں ان کے لیے فرحت کے موجب ہیں،اور اسی طرح وہ مجرموں کو دنیا والوں کی لعنت اور پھٹکار اور زجر و توبیخ سے مطلع فرما دیتا ہے جیسے جنگ بدر میں مارے جانے والے کفار کو ایک حدیث کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی توبیخ سنوا دی گئی،کیونکہ یہ ان کے لیے اذیت کی موجب ہے۔لیکن کوئی ایسی بات جو صالحین کے لیے رنج کی موجب،یا مجرمین کے لیے فرحت کی موجب ہو وہ ان تک نہیں پہنچائی جاتی۔اس تشریح سے سماع موتیٰ کے مسئلے کی حقیقت بخوبی واضح ہوجاتی ہے۔(تفہیم القرآن)

جو خود انسان کی طرح محتاج اور عاجز ہوں اور کسی بھی کام کا اختیار نہ رکھتے ہوں انہیں پُکارنا کہاں کی عقلمندی ہے؟نادانی میں جو لوگ اس سنگین گناہ کے مرتکب ہوتے ہیں دیکھو اللہ تعالٰی انہیں کس طرح چیلنج دے کر غوروفکر کرنے کی دعوت دیتا ہے:

اِنَّ الَّذِيۡنَ تَدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰهِ عِبَادٌ اَمۡثَالُـكُمۡ‌ فَادۡعُوۡهُمۡ فَلۡيَسۡتَجِيۡبُوۡا لَـكُمۡ اِنۡ كُنۡتُمۡ صٰدِقِيۡنَ۞(الاعراف:194)
”بیشک تم جن کو اللہ کے ماسوا پکارتے ہو وہ تو تمہارے ہی جیسے بندے ہیں پس ان کو پکارو اور انھیں چاہیے کہ وہ تمہیں جواب دیں اگر تم سچے ہو۔“

 مذکورہ بالا آیت کے چند آیات بعد ہی ایک آیتِ پاک میں اللہ تبارک و تعالٰی نے دو ٹوک الفاظ میں انسان کے سامنے ان تمام مصنوعی بتوں کے نقائص کو مُبَرہن کر کے اسے سوچنے پر مجبور کر دیا ہے:

وَالَّذِيۡنَ تَدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِهٖ لَا يَسۡتَطِيۡعُوۡنَ نَـصۡرَكُمۡ وَلَاۤ اَنۡفُسَهُمۡ يَنۡصُرُوۡنَ‏۞(الاعراف:197)
”اور جن کو تم اللہ کے ماسوا پکارتے ہو نہ وہ تمہاری مدد کرسکتے ہیں اور نہ اپنی مدد کرسکتے ہیں۔“

  غیر اللہ کو پُکارنے سے انسان کو دوہرا نقصان ہوتا ہے ایک یہ کہ زندگی بھر اس کی دعاؤں کو استجابت ہی نہیں ملتی ہے اور دوسرا یہ کہ اس فعلِ بد کے ذریعے سے اس کا شمار ظالموں میں ہوتا ہے۔نبی اکرمﷺ سے مخاطب ہوتے ہوئے اللہ تعالٰی نے اسی حقیقت کو اپنے الفاظ میں اس طرح بیان کر دیا ہے:

وَلَا تَدۡعُ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰهِ مَا لَا يَنۡفَعُكَ وَ لَا يَضُرُّكَ‌ۚ فَاِنۡ فَعَلۡتَ فَاِنَّكَ اِذًا مِّنَ الظّٰلِمِيۡنَ۞(یونس:106)
”اور نہ پکار اللہ تعالیٰ کے سواء کسی ایسی ہستی کو جو نہ تجھے نفع دے سکے اور نہ نقصان پہنچا سکے۔ اگر تو ایسا کرے گا تو پھر تیرا شمار ظالموں میں سے ہوگا۔“

  حاجت روائی،مشکل کشائی اور کار سازی کے سارے اختیارات خدا ہی کے ہاتھ میں ہے،اس لئے صرف اور صرف اس سے دعائیں مانگنا برحق ہے۔وہ لوگ جو خدا کو چھوڑ کر دوسرے آستانوں پر اپنی دعاٶں کو لے کر حاضری دیتے ہیں ان کی دعائیں بے نتیجہ بھٹک رہی ہیں اور وہ ایک تیرِ بے ہدف کے مانند ہوتے ہیں۔ارشاد ربانی ہے:

لَهٗ دَعۡوَةُ الۡحَـقِّ‌ؕ وَالَّذِيۡنَ يَدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِهٖ لَا يَسۡتَجِيۡبُوۡنَ لَهُمۡ بِشَىۡءٍ اِلَّا كَبَاسِطِ كَفَّيۡهِ اِلَى الۡمَآءِ لِيَبۡلُغَ فَاهُ وَمَا هُوَ بِبَالِـغِهٖ‌ؕ وَمَا دُعَآءُ الۡكٰفِرِيۡنَ اِلَّا فِىۡ ضَلٰلٍ‏۞(الرعد:14)
”اسی کو پکارنا برحق ہے۔رہیں وہ دُوسری ہستیاں جنہیں اس کو چھوڑ کر یہ لوگ پکارتے ہیں،وہ اُن کی دعاٶں کا کوئی جواب نہیں دے سکتیں۔اُنہیں پُکارنا تو ایسا ہے جیسے کوئی شخص پانی کی طرف ہاتھ پھیلا کر اُس سے درخواست کرے کہ تُو میرے منہ تک پہنچ جا،حالانکہ پانی اُس تک پہنچے والا نہیں۔بس اِسی طرح کافروں کی دعائیں بھی کچھ نہیں ہیں مگر ایک تیرِ بے ہدف!“

    آیات مذکورہ سے یہ ظاہر ہوا کہ خدا کے مقابلہ میں سب ہیچ اور بے بس ہیں۔کوئی کسی کی مدد اور تکلیف کو دور نہیں کر سکتا،صرف اور صرف اللہ ہی ہے جو سب کی مدد کرتا ہے،لہٰذا ہر حالت میں اللہ ہی کو پُکاریں۔اور اسی سے دُعا کریں اور اس پُکار میں دوسرے کو شریک نہ کریں۔چونکہ اللہ تعالٰی کے ساتھ کسی اور کو پُکارنا شرک ہے لہٰذا اللہ تعالٰی نے قرآنِ پاک میں بہت سی جگہوں پر دعا کے ساتھ لفظ”مَعَ اللہِ“ لاکر اپنے سوا تمام درباروں کو ٹھکرانے کی ہمیں دعوت دے دی ہے۔اس حوالے سے سطورِ ذیل میں چند آیات پیش کی جاتی ہیں:

وَمَنۡ يَّدۡعُ مَعَ اللّٰهِ اِلٰهًا اٰخَرَۙ لَا بُرۡهَانَ لَهٗ بِهٖۙ فَاِنَّمَا حِسَابُهٗ عِنۡدَ رَبِّهٖؕ اِنَّهٗ لَا يُفۡلِحُ الۡـكٰفِرُوۡنَ‏۞(المٶمنون:117)
”اور جو کوئی اللہ کے ساتھ کسی اور اِلٰہ کو پکارے گا جس کے حق میں اس کے پاس کوئی دلیل نہیں تو اس کا حساب اس کے رب کے پاس ہے اور کافر کبھی فلاح نہیں پاسکتے۔“


وَلَا تَدۡعُ مَعَ اللّٰهِ اِلٰهًا اٰخَرَ‌ۘ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ‌ ۚ كُلُّ شَىۡءٍ هَالِكٌ اِلَّا وَجۡهَهٗ‌ؕ لَـهُ الۡحُكۡمُ وَاِلَيۡهِ تُرۡجَعُوۡنَ۞(القصص:88)
”اور اللہ کے سوا کسی دُوسرے معبُود کو نہ پکارو۔اُس کے سوا کوئی معبُود نہیں ہے۔ہر چیز ہلاک ہونے والی ہے سوائے اُس کی ذات کے۔فرماں روائی اسی کی ہے اور اسی کی طرف تم سب پلٹائے جانے والے ہو۔“


وَّاَنَّ الۡمَسٰجِدَ لِلّٰهِ فَلَا تَدۡعُوۡا مَعَ اللّٰهِ اَحَدًا۞(الجن:18)
”اور یہ کہ مسجدیں اللہ کے لیے ہیں تو اللہ کے ساتھ کسی اور کو نہ پکارو۔“


  اللہ کے ساتھ کسی اور کو پُکارنے کا معاملہ اتنا سنجید ہے کہ نبی اکرمﷺ کو بھی اس سے باخبر کیا گیا کہ اگر آپ بھی اس سنگین گناہ کے مرتکب ہونگے تو فوراً اللہ کی پکڑ میں آجاٶ گے۔اس معاملے میں جب نبی اکرمﷺ کو رعایت نہ دے دی گئی تو کسی اور کی کیا مجال کہ وہ شرک کرنے کے بعد بھی یہ امید رکھے کہ وہ خود بچ نکلے گا یا کسی کے بچانے سے بچ جائے گا۔جن لوگوں کے ذہنوں میں اس طرح کا خیال اور تصور بیٹھا ہوا ہے وہ ایک بہت ہی بڑے دھوکے میں پڑے ہوئے ہیں۔قرآنِ پاک میں اللہ تبارک و تعالٰی اپنے نبی برحقﷺ سے اس طرح مخاطب ہیں:

فَلَا تَدۡعُ مَعَ اللّٰهِ اِلٰهًا اٰخَرَ فَتَكُوۡنَ مِنَ الۡمُعَذَّبِيۡنَ‌ۚ ۞
”پس اے پیغمبر! اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو مت پکارو ورنہ آپ بھی سزا پانے والوں میں شامل ہو جاٶ گے۔“

اس آیتِ پاک کے ذیل میں مولانا ڈاکٹر محمد اسلم صدیقیؒ نے ایک مختصر اور جامع نوٹ لکھا ہے جو کہ اپنے اندر ایک بڑے ہی علمی خزانے کو لئے ہوئے ہیں۔لکھتے ہیں:
خطاب آنحضرت ﷺ سے،عتاب مخالفین پر یہ اور آگے کی چند آیات آنحضرت ﷺ کی طرف التفات کی نوعیت کی ہیں۔قرآن کریم کا اسلوب یہ ہے کہ وہ بعض دفعہ کسی برائی کی شناعت کو نمایاں کرنے کے لیے اپنے پیغمبر کو اس برائی سے روکتا ہے اور ارتکاب کی صورت میں عذاب الیم کی دھمکی دیتا ہے۔ لیکن اس کا مقصد یہ نہیں ہوتا کہ معاذاللہ آنحضرت ﷺ سے اس برائی کے ارتکاب کا اندیشہ ہوگیا تھا اور آپ ﷺ کو دھمکا کر اسے روکا گیا۔ بلکہ مقصود یہ ہوتا ہے کہ یہ برائی اور یہ جرم اللہ تعالیٰ کے یہاں اس قدر قابل نفرت اور شدید عذاب کا مستحق ہے کہ اگر پیغمبر بھی اس کا ارتکاب کرے جس کا کوئی امکان نہیں تو وہ بھی سزا سے نہ بچ سکے۔اس لیے اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک کرنے یعنی کسی اور کو معبود بنانے سے روکنے کے لیے آنحضرت ﷺ سے خطاب فرمایا گیا۔لیکن اس میں روئے سخن قوم ہی کی طرف ہے۔لیکن آپ ﷺ سے خطاب کا مطلب یہ ہے کہ اگر بالفرض آپ ﷺ بھی بندگی کی راہ سے بال برابر ہٹ جائیں اور اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کو معبود کی حیثیت سے پکارنے لگیں تو اللہ تعالیٰ کی پکڑ سے بچ نہیں سکتے۔چہ جائیکہ کوئی اور شخص اس جرم کا ارتکاب کرے اور پھر وہ سمجھے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے گرفت نہیں آئے گی تو اسے اپنے دماغ کا علاج کرنا چاہیے۔

Comments

Post a Comment