Supplication : The Only Way Forward (Part 11)

     اس دنیا میں بلوغیت کو پہنچتے ہی انسان ضرور  ایک قوت کو اپنے دل میں بٹھا لیتا ہے۔اس قوت پر بھروسہ کر کے یہ اپنے دن رات کاٹ کر کشاں کشاں اپنے رب کی طرف چلا جا رہا ہے اور بالاٰخر یہ اُس سے ملنے والا ہی ہے۔اس قوت کے اوپر اس کے سارے کے سارے توقعات ہوتے ہیں اور اسی قوت پر یہ پورا اعتماد کرتا ہوا نظر آرہا ہوتا ہے۔ازل سے ہی دنیا میں انسانوں نے مختلف قوتوں کو پکڑ کر ان کا سہارا لیا اور باقی لوگوں کو بھی ان قوتوں کا طواف کرنے کی دعوت دے دی۔مشکلاتِ زندگی میں ان قوتوں کو سراب پاتی ہی یہ لوگ کف افسوس ملنے لگے اور ایک بڑے سہارے کو تلاش کرنے میں سرگرداں ہوگئے۔یہ تمام قوتیں باطل ہو کے بھی حق کا لبادہ اوڑھ کر منظرِ عام پر آچکے تھے اور نتیجتاً انہوں نے لوگوں کو دھوکہ دے کر ان کے دین و دنیا کو تباہ کر ڈالا۔اچھے توقعات کے عوض انسان ان قوتوں کے سامنے ہی گھٹنے ٹیک دیتا ہوا چلا آیا تاکہ اپنی حاجات کو استجابت کا دستار پہنا لے اور اپنے آپ کو مسائل کے بھنور سے خُلاصی دلا سکے۔لیکن پھر یہ ہمیشہ ہوا کہ جب انسان نے اپنے آپ کو مصائب اور آزمائشوں کے بھنور میں پایا اور باقی قوتوں کو مُٹھی بند کرکے باگتے ہوئے دیکھا تو یہ ان ساری قوتوں کو خیر باد کہتے ہوئے اُس اصلی قوت پر بھروسہ کرکے اسے پُکارنے لگا جو کہ لا مثال قوت ہے اور یہ قوت اللہ جل شانہ کی قوت ہے،جو تمام قوتوں کا احاطہ کئے ہوئے ہیں۔اس دنیا میں اللہ رب العزت کا سہارا ہی وہ واحد سہارا ہے جس پر سچ مُچ میں اعتماد کیا جاسکتا ہے۔حقیقت میں اللہ کا سہارا ہی ایک پائیدار اور مضبوط سہارا ہے جو ٹوٹنے والا نہیں ہے۔فرمان الٰہی ہے:

 فَمَنۡ يَّكۡفُرۡ بِالطَّاغُوۡتِ وَيُؤۡمِنۡۢ بِاللّٰهِ فَقَدِ اسۡتَمۡسَكَ بِالۡعُرۡوَةِ الۡوُثۡقٰى لَا انْفِصَامَ لَهَا‌‌ ؕ وَاللّٰهُ سَمِيۡعٌ عَلِيۡمٌ۞(البقرہ: 256)  

”جو طاغوت سے کفر کرے اور اللہ پر ایمان لائے اس نے وہ مضبوط سہارا تھام لیا جو کبھی ٹوٹنے والا نہیں ہے اور اللہ سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے۔“

  جو لوگ اللہ کے سوا باقی قوتوں پر بھروسہ کر کے ان کا سہارا لیتے ہیں اور اُس کو چھوڑ کر دوسرے سرپرست بنا لیتے ہیں وہ حقیقی خُسران سے دوچار ہوتے ہیں۔ان کے حق میں تباہی کے سوا کچھ بھی نہیں ہوتا چونکہ انہوں نے اپنا نظامِ حیات بے بنیاد سہاروں پر تعمیر کیا۔اپنے حقیقی مالک و فرمانروا کو چھوڑ کر بالکل بے اختیار بندوں اور سراسر خیالی معبودوں پر اعتماد کیا،جن کی حقیقت مکڑی کے جالے سے زیادہ کچھ بھی نہیں ہے۔یہ کہاں کی عقلمندی ہے کہ ان قوتوں پر بھروسہ کیا جائے جو تارِ عنکبوت کے مترادف ہیں،جو انگلی کی چوٹ بھی برداشت نہیں کر پاتے ہیں؟اس پورے فلسفے کو قرآنِ پاک نے بڑے ہی دلنشین پیرائے میں ان الفاظ میں جامہ پہنا دیا ہے:

مَثَلُ الَّذِيۡنَ اتَّخَذُوۡا مِنۡ دُوۡنِ اللّٰهِ اَوۡلِيَآءَ كَمَثَلِ الۡعَنۡكَبُوۡتِ ‌ۖۚ اِتَّخَذَتۡ بَيۡتًا ‌ؕ وَ اِنَّ اَوۡهَنَ الۡبُيُوۡتِ لَبَيۡتُ الۡعَنۡكَبُوۡتِ‌ۘ لَوۡ كَانُوۡا يَعۡلَمُوۡنَ۞اِنَّ اللّٰهَ يَعۡلَمُ مَا يَدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِهٖ مِنۡ شَىۡءٍ‌ؕ وَهُوَ الۡعَزِيۡزُ الۡحَكِيۡمُ۞وَتِلۡكَ الۡاَمۡثَالُ نَضۡرِبُهَا لِلنَّاسِ‌ۚ وَمَا يَعۡقِلُهَاۤ اِلَّا الۡعٰلِمُوۡنَ۞(العنکبوت:43-41)

”جن لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر دوسرے سرپرست بنا لیے ہیں اُن کی مثال مکڑی جیسی ہے جو اپنا ایک گھر بناتی ہے اور سب گھروں سے زیادہ کمزور گھر مکڑی کا گھر ہی ہوتا ہے۔کاش یہ لوگ علم رکھتے۔یہ لوگ اللہ کو چھوڑ کر جس چیز کو بھی پکارتے ہیں اللہ اُسے خوب جانتا ہے اور وہی زبردست اور حکیم ہے۔یہ مثالیں ہم لوگوں کی فہمائش کے لیے  دیتے ہیں،مگر ان کو وہی لوگ سمجھتے ہیں جو علم رکھنے والے ہیں۔“

ان آیات کے ذیل میں سید قطب شہیدؒ نے ایک ایسا شاہکار نوٹ لکھا ہے کہ جسے پڑھتے ہی انسان باقی تمام قوتوں کو خیرباد کہہ کر اللہ کی بے پناہ قوت پر بھروسہ کر کے اس کا سہارا تھام لینے پر مجبور ہو ہی جاتا ہے۔لکھتے ہیں:
 یہ ایک عجیب اور سچی تصویر ہے،ان تمام قوتوں کی جو اس کائنات میں موجود ہیں۔اس میں ایک ایسی حقیقت کو نمایاں کیا گیا ہے جس سے لوگ بالعموم غافل رہتے ہیں اور اس غفلت کی وجہ سے پھر ان کے پیمانے اور اقدار بدل جاتی ہیں۔پھر وہ غلط رابطے قائم کرلیتے ہیں۔ان کو پتہ نہیں ہوتا کہ وہ غلط سمت میں جا رہے ہیں۔وہ صحیح فیصلہ نہیں کرسکتے کہ کیا لیں اور کیا چھوڑیں۔
 اس غلط سوچ کی وجہ سے وہ پھر ریاستی قوت سے بھی دھوکہ کھا جاتے ہیں،وہ سمجھتے ہیں کہ اس زمین پر ریاستی قوت ہی اصل قوت ہے اور سب کچھ ہے۔اور ہر جگہ مٶثر ہے۔اس لیے وہ اس قوت سے ڈرتے ہیں اور اس کے حصول کے لیے کوشاں رہے ہیں وہ اس ریاستی قوت کی اذیتوں سے اپنے آپ کو بچانا چاہتے ہیں اور اس کی حمایت کے حصول کے لیے کوشاں ہوتے ہیں۔
 پھر ایسے لوگوں کو دولت کی قوت سے بھی دھوکہ ہوتا ہے،وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہی قوت ہے،جس کے نتیجے میں زندگی کی قدریں حاصل ہوتی ہیں۔اور تمام اقدار حیات دولت کے تابع ہوتی ہیں۔چناچہ ایسے لوگ حصول دولت کا شوق رکھتے ہیں اور زوال دولت کا انہیں ہر وقت خوف رہتا ہے۔اور وہ حصول دولت کے لیے ہر وقت جدوجہد کرتے ہیں تاکہ اس دولت کے ذریعہ وہ لوگوں کی گردنوں پر سوار ہوں اپنے زعم کے مطابق۔ یہ لوگ سائنس کی قوت کو بھی ایک بڑی قوت سمجھتے ہیں۔اس کو بھی یہ مالی قوت اور تمام قوتوں کی بنیاد تصور کرتے ہیں،جن کے ذریعہ کوئی شخص گرفت کرتا ہے یا چلتا پھرتا ہے۔سائنسی قوت کے سامنے بھی لوگ اس طرح جھکتے ہیں جس طرح سائنس کوئی معبود ہے اور لوگ اس کے بندے ہیں۔غرض انسان کو یہ سب ظاہری قوتیں دھوکہ دیتی ہیں۔جن افراد کے پاس یہ قوتیں ہیں جن سوسائٹیوں کے پاس یہ وسائل ہیں یا جن حکومتوں کے پاس یہ قوتیں ہیں ان سے دوسرے لوگ ڈرتے ہیں اور ان کا طواف کرتے ہیں اور ان پر لوگ اس طرح فدا ہوتے ہیں جس طرح پروانہ چراغ پر گرتا ہے۔یا جس طرح وہ آگ میں گرتا ہے۔
 ان ظاہری قوتوں سے دھوکہ کھا کر انسان اس اصلی قوت کو بھول جاتا ہے جو ان حقیر قوتوں کو پیدا کرنے والی عظیم قوت ہے۔جو ان قوتوں کی پیدا کرنے والی ہے،جو ان سب قوتوں کی مالک ہے،جو کسی کو یہ قوتیں عطا کرتی ہے،جو ان قوتوں کی تسخیر کرتی ہے اور ان کا رخ جس طرف چاہتی ہے،پھیر دیتی ہے۔لوگ اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ دنیا کی ان حقیر اور ظاہری قوتوں کے پاس پناہ لینا،خواہ قوتیں افراد کے ہاتھ میں ہوں،چاہے کسی سوسائٹی میں ہوں،چاہے کسی حکومت کے پاس ہوں،اسی طرح ہے جس طرح کوئی تار عنکبوت کا سہارا لے،یا بیت عنکبوت میں پناہ لے۔یہ عنکبوت تو ایک کمزور،حقیر،اور نہایت نرم کپڑا ہے اس کی ساخت ہی کمزور ہے۔اور اس کا گھر بھی کمزور گھر ہے۔وہ کسی کو کیا پناہ دے سکتا ہے۔
 یاد رکھو! کہ حمایت صرف اللہ کی حمایت ہے،پناہ صرف اللہ کی پناہ ہے جو ایک قوی پناہ دینے والا ہے۔یہ ایک عظیم حقیقت ہے جو قرآن کریم مومن لوگوں کے دلوں میں بٹھاتا ہے۔اور ایک بار جب قرآن نے اہل ایمان کے دلوں میں یہ حقیقت بٹھا دی تھی تو وہ گروہ دنیا کا ایک طاقت ور گروہ بن گیا تھا۔اور اس نے ان تمام ظاہری قوتوں کو روند ڈالا تھا جو اس کی راہ میں کھڑی ہوگئی تھیں۔زمین کے تمام جباروں اور قہاروں کی گردنیں مروڑ کر جھکا دی تھیں اور بڑے بڑے قلعے مسمار کرکے رکھ دئیے تھے۔
 یہ حقیقت قرآن نے اس گروہ میں کس طرح بٹھا دی تھی؟یہ حقیقت ہر نفس میں بیٹھ گئی تھی۔اس سے ہر دل بھر گیا تھا۔یہ حقیقت ان کے خون میں مل گئی تھی اور یہ ان کو رگوں میں دوڑ رہی تھی۔یہ حقیقت صرف الفاظ کی ادائیگی تک محدود نہ تھی۔نہ یہ ایک موضوع بحث تھی جس پر سیمینار ہوتے تھے بلکہ یہ ان نفوس میں واضح طور پر نظر آتی تھی۔اور ان کے حس و خیال میں اس کے سوا کوئی اور بات نہ تھی۔ یہ کہ اللہ کی قوت ہی واحد قوت ہے اور اللہ کی دوستی ہی واحد دوستی ہے اور اس کے سوا جو کچھ بھی ہے وہ کمزور و ناتواں ہے۔اگرچہ بظاہر دوسری قوتیں جس قدر بھی ظلم و استبداد کریں۔اگرچہ انہوں نے ظلم و سرکشی کی حد کردی ہو،اگرچہ ان کے پاس گرفت اور دست درازی کے تمام وسائل ہوں اور وہ پکڑ دھکڑ کر رہے ہوں۔یہ سب کچھ بیت عنکبوت ہے۔یہ تمام قوتیں اور وسائل تار عنکبوت ہیں۔
 وان اوھن ۔۔۔ یعلمون (29: 41) ”اور سب گھروں سے کمزور گھر مکڑی کا گھر ہوتا ہے،کاش کہ یہ لوگ جانتے
 وہ داعی جو فتنوں اور آزمائشوں سے دوچار ہوجاتے ہیں،جنہیں قید و بند اور تشدد و اذیت سے دوچار ہونا پڑتا ہے،ان کو چاہئے کہ اس حقیقت پر غور کریں اور ایک لمحے بھر کے لیے بھی اسے نظروں سے اوجھل ہونے نہ دیں،ان کو تو اس میدان میں مختلف مزاحم قوتوں سے دوچار ہونا ہے۔یہ قوتیں ان پر وار کرتی ہیں اور ان کو نیست و نابود کرنا چاہتی ہیں۔بعض ایسی قوتیں ہوتی ہیں جو انہیں خریدنا چاہتی ہیں۔یہ سب قوتیں تار عنکبوت کی طرح ہوتی ہیں بشرطیکہ کسی کا ایمان و نظریہ مضبوط ہو،اور کوئی جانتا ہو کہ اصل اور حقیقی قوت ہے کیا۔
 ان اللہ یعلم ۔۔۔۔ من شئ (29: 42)”یہ لوگ اللہ کو چھوڑ کر جس چیز کو پکارتے ہیں،اللہ اسے خوب جانتا ہے“۔یہ لوگ اللہ کے سوا بعض دوسری چیزوں کا سہارا لیتے ہیں۔اور اللہ جانتا ہے کہ یہ سہارے کے قابل چیزیں نہیں ہیں۔ان کی حقیقت وہی ہے جو تمثیل سابق میں بیان کی گئی یعنی مکڑی کا جالا۔
 وھو العزیز الحکیم (29: 42) ”وہی زبردست اور حکیم ہے“۔ وہی غالب ہے،وہی قاہر ہے،وہی حکیم ہے اور وہی اس پوری کائنات کا مدبر ہے۔
 وتلک الامثال ۔۔۔۔ الا العلمون(29: 43)”یہ مثالیں ہم لوگوں کی فہمائش کے لیے دیتے ہیں مگر ان کو وہی لوگ سمجھتے ہیں جو علم رکھتے ہیں“۔مشرکین کے بعض لوگ ایسے تھے جن کے دلوں پر تالے لگے ہوئے تھے اور ان کی عقل ماری گئی تھی،وہ لوگ اس تمثیل کے ساتھ یہ مزاح کرتے تھے اور کہتے تھے کہ محمد کے رب مکھیوں اور مچھروں کی بات بھی کرتے ہیں اور اس تمثیل میں جو حقیقت بیان کی گئی تھی،اس کو وہ سمجھ ہی نہ سکے تھے۔نہ اس کا ان پر اثر ہوا۔اس لیے اللہ نے فرمایا کہ:
 وما یعقلھا الا العلمون (29: 43) ”مگر ان چیزوں کو وہی لوگ سمجھے ہیں جو عقلمند ہیں“۔(فی ظلال القرآن)

   انسان کی غیر متوازن شخصیت کا ایک پہلو یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ جب وافر مقدار میں اسے نعمتوں سے نوازا جاتا ہے تو اکڑ کر چلتا ہے اور اپنے خالقِ حقیقی کی یاد اسے بھول کر بھی نہیں آتی ہے بلکہ اپنی ترقی کو وہ اپنی قابلیت،مادی سہاروں اور مختلف قوتوں کا مرہونِ منت سمجھتا ہے۔اپنی قسمت کو اُس نے اِن قوتوں سے وابستہ کیا ہوتا ہے جو خود بھی حقیقی قوت کے سامنے لرزتے ہیں اور انسان کے اس فعلِ بد کو ایک گناونی حرکت تصور کرتے ہیں۔یہ ساری کی ساری قوتیں رب کی لازوال قوت سے ہی ثبات اور تقویت پاتے ہیں اور اِس کا سہارا چھوڑنے سے یہ پلک جھپکتے ہی ہواؤں کے نام ہوتے ہیں۔اللہ رب العزت کی قوت کا مشاہدہ انسان کو مشکلات،مصائب اور آزمائش کے وقت ہی ہوتا ہے چونکہ اِس وقت یہ اپنی آنکھوں کے سامنے ان تمام قوتوں کو نہایت ہی کمزور پا لیتا ہے اور اللہ رب العزت کی قوت کے سامنے زانویہ تلمذ بیٹھ کر اپنے وجود کو ان تمام اندھیروں سے خُلاصی پانے کے لئے لمبی چوڑی دعائیں مانگتا ہے۔قرآنِ پاک نے واضح کر دیا ہے کہ یہ ایک چھچھورا اور کم ظرف قسم کا انسان ہے اور ان کے وجود میں اِس بُرے صفت کی نشاندہی ان  الفاظ میں کر دی ہے:

وَاِذَاۤ اَنۡعَمۡنَا عَلَى الۡاِنۡسَانِ اَعۡرَضَ وَنَاٰ بِجَانِبِهٖ‌ۚ وَاِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ فَذُوۡ دُعَآءٍ عَرِيۡضٍ۞(فصلت:51)

”انسان کو جب ہم نعمت دیتے ہیں تو وہ منہ پھیرتا ہے اور اکڑ جاتا ہے۔اور جب اسے کوئی آفت چھُو جاتی ہے تو لمبی چوڑی دُعائیں کرنے لگتا ہے۔“

اس آیتِ مبارکہ کے ذیل میں مولانا ڈاکٹر محمد اسلم صدیقیؒ نے ایک معلوماتی نوٹ لکھا ہے جسے پڑھتے ہی کم ظرف انسان کے نفس کی اندرونی تصویر دیکھنے کو ملتی ہے۔لکھتے ہیں:
 انسان کی غیرمتوازن شخصیت کا ایک پہلو یہ ہے کہ جب ہم اسے نعمتوں سے نوازتے اور اپنے فضل و کرم سے گراں بار کردیتے ہیں تو بجائے شکرگزار ہونے کے اسے دولت کا خمار آپکڑتا ہے اور غرور و استکبار اس کی شخصیت کا لازمہ بن جاتا ہے۔اب وہ اللہ تعالیٰ کے شکر سے اعراض کرتا اور اس کے ذکر سے پہلو بچاتا اور کندھے جھکٹتا ہوا وہاں سے چل دیتا ہے۔بھلائی اور نیکی کی ہر بات سے اسے تنفر ہوجاتا ہے۔اور اللہ تعالیٰ کی عظمت اور انسانی رشتوں سے اسے اس حد تک بیگانگی ہوجاتی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے سامنے بھی اکڑتا اور انسانوں سے بھی تکبر سے معاملہ کرتا ہے۔ لیکن اس کی شخصیت کے بودے پن کا حال یہ ہے کہ یہ غرور و تکبر اس وقت تک قائم رہتا ہے جب تک دولت کی توانائی اس کے احساس کو قوت بخشتی رہتی ہے۔ لیکن جب اسے کوئی مصیبت آپکڑتی ہے، ناکامیاں اور تکالیف اسے گھیر لیتی ہیں،کاروبار مندا پڑجاتا ہے اور محرومیاں اس کا مقدر معلوم ہونے لگتی ہیں تو پھر یہ شخص جو اللہ تعالیٰ کے ذکر سے بھی اعراض کرتا تھا اور جسے عاجزی اور انکساری چھو کے بھی نہیں گئی تھی،اب اللہ تعالیٰ سے لمبی لمبی دعائیں مانگنے والا بن جاتا ہے۔آیت میں لمبی دعاٶوں کو چوڑی دعاٶوں سے تعبیر کیا گیا ہے۔کیونکہ جس کی چوڑائی غیرمعمولی ہو اس کی لمبائی خودبخود غیرمعمولی دکھائی دینے لگتی ہے۔احادیثِ مبارکہ میں لمبی دعاٶوں کو پسند کیا گیا ہے،لیکن ان سے مراد وہ دعائیں ہیں جنھیں اخلاص،للہیت اور اللہ تعالٰی کی کبریائی کے احساس نے طویل کیا ہو۔لیکن وہ دعائیں جو محض اپنی ضرورت کے باعث طویل و عریض ہوتی ہیں اور حرص اور خودغرضی جنھیں طویل و عریض کرتی ہے وہ ممدوح و محبوب نہیں بلکہ مذموم ہیں۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی شخصیت کس قدر کمزور اور ان کا طنطنہ کس قدر بےبنیاد ہے۔ایسے لوگ اللہ تعالیٰ کی دھرتی کا بوجھ ہوتے ہیں۔(روح القرآن)
        
    ویسے تو یہ دیکھنے کو ملا ہے کہ کم ظرف انسان بھلائی کی دعا مانگتے نہیں تھکتا لیکن بُرا وقت آنے پر گِڑگڑانے لگتا ہے اور دنیا کا عیش پاتے ہی آپے سے باہر جاتا ہے،یہ اس کی کمزوریوں میں سے ایک بہت ہی بڑی کمزوری ہے جسے شُکر گزار بندہ ہی محسوس کر سکتا ہے۔کمال یہ نہیں ہے کہ فقیری میں رب کو پُکارا جائے بلکہ کمال یہ ہے کہ بادشاہت کی کُرسی پر بیٹھ کر بھی اللہ کو یاد کیا جائے۔اس سے بڑھ کر انسان کی بیوقوفی اور کیا ہو سکتی ہے کہ خوشحالی پر دوسری قوتوں کے بُت اپنے سینے میں سجاتا ہے اور آفت و مصیبت کے ایک معمولی جھونکے پر مایوس اور دل شکستہ ہو جاتا ہے۔اس کمزور شخصیت کے مالک اور پست حوصلہ والے انسان کی تصویر قرآنِ پاک نے ان الفاظ میں کھینچی ہے:

لَا يَسۡئَـمُ الۡاِنۡسَانُ مِنۡ دُعَآءِ الۡخَيۡرِ وَاِنۡ مَّسَّهُ الشَّرُّ فَيَئُـوۡسٌ قَنُوۡطٌ۞(فصلت:49)

”انسان کبھی بھلائی کی دعا سے نہیں تھکتا،اور اگر اس کو کوئی تکلیف آجائے تو مایوس و دل شکستہ ہوجاتا ہے۔“

    فراخی ہو یا تنگی ہر حال میں اپنے رب سے دعا اور طلب کا سلسلہ جاری رکھنا چاہیئے۔یہ انتہائی خود غرضی کی نشانی ہے کہ مصیبت اور پریشان حالی میں تو خدا کو پُکارا جائے لیکن جب آرام و راحت اور خوش حالی حاصِل ہو جائے تو خدا کو بھول کر دنیا کی آسائشوں اور تفریحات میں انسان گُم ہو جائے۔یہ کردار تو قرآن نے کفار و مشرکین کا بیان کیا ہے:

وَاِذَا مَسَّ الۡاِنۡسَانَ ضُرٌّ دَعَا رَبَّهٗ مُنِيۡبًا اِلَيۡهِ ثُمَّ اِذَا خَوَّلَهٗ نِعۡمَةً مِّنۡهُ نَسِىَ مَا كَانَ يَدۡعُوۡۤا اِلَيۡهِ مِنۡ قَبۡلُ۔(الزمر:39)

”جب انسان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ اپنے رب کو پکارتا ہے صرف اسی کی طرف متوجہ ہوکر،پھر جب اس کا رب اسے اپنی نعمت سے نواز دیتا ہے تو وہ بھول جاتا ہے اس مصیبت کو جس کے لیے پہلے پکارتا رہا تھا۔“

اسی بنا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے:
”جس شخص کو یہ بات بھلی معلوم ہوتی ہے کہ شدائد و مصائب میں اللہ  تعالٰی اس کی دعا اور فریاد سنے تو اسے چاہیئے کہ راحت اور فارغ البالی کے زمانہ میں بھی خدا کو خوب یاد رکھے۔اور اس سے دعا مانگنے میں کوئی کوتاہی نہ کرے۔“(ترمذی)


   مشرکینِ مکہ نے بھی بہت ساری قوتوں کے ساتھ اپنے آپ کو باندھ رکھا تھا اور ان پر انہیں ایسا بھروسہ تھا کہ ان کی قوت اور طاقت کو وہ حرفِ آخر سمجھتے تھے۔لیکن جب کبھی ناگفتہ بہ حالات سے دوچار ہوتے یا بحر و بر کی ظلمتوں یعنی مصیبتوں میں گھر جاتے تو تمام  مادی سہاروں اور قوتوں کو چھوڑ کر ایک اللہ کے سامنے گِڑگڑاتے اور اسے چُپکے چُپکے دعائیں مانگتے تھے۔اور ربِ کریم جب کبھی انہیں مصائب و تکالیف سے نجات دیتے تو پھر یہ دوبارہ شرک کرنے لگتے تھے،یہ ایک ایسی گناونی حرکت تھی کہ جس نے انہیں ہدایت سے ہی محروم کر دیا اور ابدی آگ ان کا ٹھکانا بن گیا۔حضورؐ کی وساطت سے انہیں چیلنج دے کر چند سوالات پوچھے گئے تاکہ یہ رجوع الی اللہ کر سکیں۔ان کی فطرت زنگ آلود ہو چکی تھی وہ کیسے سوالات کی تہہ تک پہنچ کر اصلی حقیقت کو پا لیتے؟حالانکہ سوالات ایسے تھے جو کہ فطرت کی تاروں کو بھی جنجھوڑے بغیر نہ رہتے۔وائے! اتنا کرم کرنے کے باوجود بھی وہ شرک کی آغوش میں چلے جاتے تھے۔واہ! ایسے سوالات کہ ایک مُدعی مُوحِد بھی سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ کہیں میرے وجود میں شرک کی آمیزش تو نہیں ہے؟کہیں میرا توحید کا لبادہ شرک سے داغدار تو نہیں ہے؟کہیں میرے وجود کے اندر توحید کے بجائے شرک تو نہیں پنپ رہا ہے؟کہیں میں حقیقی توحید سے کوسوں دور تو نہیں ہوں؟کہیں میں اپنے نفس کو دھوکہ تو نہیں دے رہا ہوں؟ذرا سوالات کی جامعیت کو تو دیکھئے،جو قرآن کے ہر ایک مسافر کو یہاں پہ ڈھیرا ڈالنے پر مجبور کر ہی دیتے ہیں:

قُلۡ مَنۡ يُّنَجِّيۡكُمۡ مِّنۡ ظُلُمٰتِ الۡبَرِّ وَالۡبَحۡرِ تَدۡعُوۡنَهٗ تَضَرُّعًا وَّخُفۡيَةً لَئِنۡ اَنۡجٰٮنَا مِنۡ هٰذِهٖ لَـنَكُوۡنَنَّ مِنَ الشّٰكِرِيۡنَ‏۞قُلِ اللّٰهُ يُنَجِّيۡكُمۡ مِّنۡهَا وَمِنۡ كُلِّ كَرۡبٍ ثُمَّ اَنۡـتُمۡ تُشۡرِكُوۡنَ‏۞(الانعام:64-63)

”اے محمدؐ! ان سے پوچھو،صحرا اور سمندر کی تاریکیوں میں کون تمہیں خطرات سے بچاتا ہے؟کون ہے جس سے تم (مصیبت کے وقت) گِڑگڑا گِڑگڑا کر اور چپکے چپکے دعائیں مانگتے ہو؟کس سے کہتے ہو کہ اگر اس بلا سے تو نے ہم کو بچا لیا تو ہم ضرور شکر گزار ہوں گے؟کہو،اللہ تمہیں اُس سے اور ہر تکلیف سے نجات دیتا ہے پھر تم دُوسروں کو اُس کا شریک ٹھیراتے ہو۔“

   ان آیات کے ذیل میں مولانا مودودیؒ صاحب نے ایک مختصر اور جامع نوٹ لکھا ہے جسے پڑھتے ہی ایک توحید کا دعویدار بھی سر جُھکانے پر مجبور ہو جاتا ہے اور دل پر ہاتھ رکھ کر یہ کہہ ہی ڈالتا ہے کہ توحید کا دعوٰی کرنا تو آسان ہے لیکن توحید میں اپنے آپ کو رنگنا ایک کارے درد والا معاملہ ہے۔لکھتے ہیں:
یعنی یہ حقیقت کہ تنہا اللہ ہی قادر مطلق ہے،اور وہی تمام اختیارات کا مالک اور تمہاری بھلائی اور برائی کا مختار کل ہے،اور اسی کے ہاتھ میں تمہاری قسمتوں کی باگ دوڑ ہے،اس کی شہادت تو تمہارے اپنے نفس میں موجود ہے۔جب کوئی سخت وقت آتا ہے اور اسباب کے سر رشتے ٹوٹتے نظر آتے ہیں تو اس وقت تم بےاختیار اسی کی طرف رجوع کرتے ہو۔لیکن اس کھلی علامت کے ہوتے ہوئے بھی تم نے خدائی میں بلا دلیل و حجت اور بلا ثبوت دوسروں کو اس کا شریک بنا رکھا ہے۔ پلتے ہو اس کے رزق پر اور ان داتا بناتے ہو دوسروں کو۔ مدد پاتے ہو اس کے فضل و کرم سے اور حامی و ناصر ٹھیراتے ہو دوسروں کو۔غلام ہو اس کے اور بندگی بجا لاتے ہو دوسروں کی۔مشکل کشائی کرتا ہے وہ،بُرے وقت پر گِڑگڑاتے ہو اس کے سامنے،اور جب وہ وقت گزر جاتا ہے تو تمہارے مشکل کشا بن جاتے ہیں دوسرے اور نذریں اور نیازیں چڑھنے لگتی ہیں دوسروں کے نام کی۔(تفہیم القرآن)

Comments

Post a Comment