Supplication : The Only Way Forward (Part 10)


 

انسان جب اللہ تعالٰی کے سوا کسی اور کو مشکل کُشا اور نفع و ضرر کا مالک ٹھہراتا ہے تو پھر بالارادہ یہ اِسی کو پُوجنے لگتا ہے۔اس کے ذہن میں یہ عقیدہ پختہ اور راسخ ہو جاتا ہے کہ میری قسمت کو بنانے اور بگاڑنے والی یہی ایک ذات ہے اور اسی کے ساتھ میری ساری اُمیدیں وابستہ ہیں۔اس غلط عقیدے کی بنا پر یہ اصل آستانے سے محروم کر دیا جاتا ہے اور پھر یہ من گھڑت بُتوں کے سامنے اپنی جبینِ نیاز خم کرکے انہیں مانگتا ہی چلا جاتا ہے۔لیکن یہ اس کی گمراہی کی انتہا ہوتی ہے کہ حقیقی معبود کو چھوڑ کر یہ مصنوعی بُتوں کو پوجنے لگتا ہے جو کہ نہ نفع دینے پر قدرت رکھتے ہیں اور نہ ہی نقصان کی تلافی کر سکتے ہیں۔قرآنِ پاک میں اللہ تعالٰی نے اسی حقیقت کو دلنشین انداز میں اس طرح بیان کر دیا ہے:

يَدۡعُوۡا مِنۡ دُوۡنِ اللّٰهِ مَا لَا يَضُرُّهٗ وَمَا لَا يَنۡفَعُهٗ ‌ؕ ذٰ لِكَ هُوَ الضَّلٰلُ الۡبَعِيۡدُ‌۞(الحج:12)
”پھر وہ اللہ کو چھوڑ کر اُن کو پکارتا ہے جو نہ اُس کو نقصان پہنچا سکتے ہیں نہ فائدہ یہ ہے گمراہی کی انتہا۔“

 میاں محمد جمیل اس آیتِ پاک کے ذیل میں لکھتے ہیں:
ربط کلام:انسان جب اپنے رب کی بندگی چھوڑتا ہے تو پھر دربدر کی ٹھوکریں کھاتا پھرتا اور جگہ جگہ ماتھا ٹیکتا ہے۔
مشرک اپنی مفاد پرستی کی وجہ سے مستقل مزاجی کے ساتھ اپنے رب سے مانگنے اور اس کی عبادت کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔وہ عجلت پسندی کی وجہ سے ان کو پکارتا ہے جو نفع و نقصان پہچانے پر قدرت نہیں رکھتی۔
جلد باز اور مفاد پرست طبیعت کی وجہ سے مشرک اس حقیقت کو سمجھنے کے لیے تیار نہیں ہوتا کہ جس مزار یا بت کے سامنے اپنی حاجت پیش کررہا ہے وہ تو اسے نہ نفع دے سکتا ہے اور نہ ہی تکلیف پہنچا سکتا ہے۔ یہ فکر و عمل اس قدر گمراہ کن ہے کہ آدمی ہدایت قبول کرنا تو درکنار حق بات سننا بھی گوارا نہیں کرتا یہ عمل اس بات کی گواہی ہے کہ یہ شخص گمراہی میں بہت دور جا چکا ہے۔ایسے شخص کو شعور نہیں ہوتا کہ جس کو پکار رہا ہے وہ تو فائدے کی بجائے اس کے لیے نقصان کا باعث بن رہا ہے کیونکہ یہ اپنے فائدے کی خاطر اسے پکارتا ہے وہ فائدہ تو پہنچا نہیں سکتے البتہ یہ فائدے کی بجائے ضرور نقصان اٹھاتا ہے۔وہ فائدے کی بجائے اپنے آپ کا نقصان کر رہا ہوتا ہے۔ایسے شخص کا انجام انتہائی بھیانک ہوگا۔بہت ہی برا عقیدہ اور سہارا ہے جس کو مشرک نے اپنایا ہے۔جس انسان کا یہ فکر و عمل ہوجائے اس کو اللہ تعالیٰ کی بجائے دوسروں پر زیادہ اعتماد ہوتا ہے۔حالانکہ اللہ تعالیٰ کے سوا نہ کوئی نفع دے سکتا ہے اور نہ ہی نقصان پہنچا سکتا ہے۔اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں کو مشکل کشا سمجھنے والا شخص فائدے کی بجائے نقصان کے زیادہ قریب ہوتا ہے۔جن پر مشرک بھروسہ کرتا ہے۔ وہ برا مولیٰ وہ برا ساتھی ہے،مشرک ایک کی بجائے کئی مشکل کشاؤں کو پکارتا ہے،لیکن یہاں جمع کی بجائے واحد کا لفظ لایا گیا ہے۔کیونکہ مشرک کے عقیدہ کا محرک اور سبب شیطان ہوتا ہے اس لیے بتلایا ہے۔حقیقی خیر خواہی کی بجائے شیطان بد ترین خیر خواہی کرنے والا اور برا ساتھی ہے۔(فہم القرآن)
  یہی حقیقت  ذیل کی روایات میں بایں الفاظ میں بیان کی گئی ہے:

(عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ قَالَ کَانَ رَسُول اللَّہِ ﷺ إِذَا رَفَعَ رَأْسَہُ مِنَ الرُّکُوعِ قَالَ رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ مِلْءَ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ وَمِلْءَ مَا شِءْتَ مِنْ شَیْءٍ بَعْدُ أَہْلَ الثَّنَاءِ وَالْمَجْدِ أَحَقُّ مَا قَالَ الْعَبْدُ وَکُلُّنَا لَکَ عَبْدٌ اللَّہُمَّ لاَ مَانِعَ لِمَا أَعْطَیْتَ وَلاَ مُعْطِیَ لِمَا مَنَعْتَ وَلاَ یَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْکَ الْجَدّ ) [ رواہ مسلم:باب مَا یَقُولُ إِذَا رَفَعَ رَأْسَہُ مِنَ الرُّکُوعِ ]
”حضرت ابو سعیدؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا رسول اللہ ﷺ جب رکوع سے اپنا سر اٹھاتے تو یہ پڑھتے،اے ہمارے رب! تمام تعریفیں تیرے لیے ہیں آسمانوں و زمین خلاء کے برابر اور اس کے بعد جس قدر وسعتیں ہیں تو جس قدر چاہتا ہے،تمام تعریفات کا تو ہی لائق ہے اور بزرگی کا سب سے زیادہ تو حقدار ہے جو تعریف اور عظمت بندے بیان کرتے ہیں ہم تیرے ہی بندے ہیں اے اللہ! جو چیز تو عطاء کر دے اس کو کوئی روکنے والا نہیں اور جو چیز تو روک لے اس کو کوئی عطا کرنے والا نہیں تجھ سے بڑھ کر کسی کی عظمت نہیں،تیری عظمت سے بڑھ کر کسی کی عظمت فائدہ نہیں دے سکتی۔“

 (عَنْ الْحَسَنُ بْنُ عَلِیٍّؓ قَالَ عَلَّمَنِی رَسُول اللَّہِ ﷺ کَلِمَاتٍ أَقُولُہُنَّ فِی الْوِتْرِ إِنَّکَ تَقْضِی وَلاَ یُقْضَی عَلَیْکَ وَإِنَّہُ لاَ یَذِلُّ مَنْ وَالَیْتَ وَلاَ یَعِزُّ مَنْ عَادَیْتَ) [ رواہ ابوداٶد:باب الْقُنُوتِ فِی الْوِتْرِ ]
”حضرت حسن بن علیؓ،سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے وتر میں پڑھنے کے لیے یہ دعا سکھلائی الٰہی بیشک تو فیصلہ کرتا ہے تیرے فیصلہ کے خلاف کوئی فیصلہ نہیں کیا جاتا۔اسے کوئی ذلیل نہیں کرسکتا جس کا تو دوست بن جائے اور جس کے ساتھ تو دشمنی رکھے اس کو کوئی عزت نہیں دے سکتا۔“

غیر اللہ کو پُکارنے والا پرلے درجہ کا گمراہ ہوتا ہے۔یہ ان کو پُکارتا ہے جن کا نقصان ان کے فائدے سے زیادہ قریب ہوتا ہے۔مذکورہ بالا آیت کے بعد ہی اللہ تعالٰی نے اس حقیقت کو واشگاف الفاظ میں اس طرح بیان کیا ہے:

يَدۡعُوۡا لَمَنۡ ضَرُّهٗۤ اَقۡرَبُ مِنۡ نَّـفۡعِهٖ‌ؕ لَبِئۡسَ الۡمَوۡلٰى وَلَبِئۡسَ الۡعَشِيۡرُ ۞(الحج:13)
”وہ اُن کو پکارتا ہے جن کا نقصان اُن کے نفع سے قریب تر ہے،بدترین ہے اُس کا مولیٰ اور بدترین ہے اُس کا رفیق۔“

اس آیتِ پاک کی تشریح کرتے ہوئے مولانا ڈاکٹر محمد اسلم صدیقیؒ اس طرح رقمطراز ہیں:
 گزشتہ آیت میں فرمایا کہ مشرکین کی انتہائی گمراہی ملاحظہ ہو کہ یہ ان چیزوں کو پکارتے ہیں جو نہ نفع پہنچا سکتی ہیں اور نہ نقصان دے سکتی ہیں اور ان کے لیے جس پروردگار کو چھوڑا ہے وہ نہ صرف نفع و ضرر پر قادر ہے بلکہ اس کی قدرتیں بےپناہ ہیں۔پیش نظر آیت کریمہ میں ایک قدم آگے بڑھ کر فرمایا گیا ہے کہ کسی ایسی ذات کو پکارنا جو نفع و ضرر پر قادر نہ ہو یقیناً حماقت ہے لیکن ایسی ذات کو پکارنا جس کی ضرر رسانی نفع رسانی کی قوت سے بڑھی ہوئی ہو، اسے کم سے کم الفاظ میں حماقت در حماقت کہا جانا چاہیے۔ بعض بزرگوں نے اس آیت کے مفہوم کو اس طرح واضح کیا ہے کہ غیر اللہ سے نفع کی امید تو زیادہ سے زیادہ موہوم کہی جاسکتی ہے،لیکن ان کے پوجنے کا جو ضرر ہے وہ قطعی اور یقینی ہے۔موہوم امید کے برآنے کا سوال تو بعد میں دیکھا جائے گا نقصان تو ابھی ہاتھوں ہاتھ پہنچ گیا۔
 آیت کے دوسرے حصے میں فرمایا کہ قیامت کے دن جب اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر دوسری قوتوں کو پکارنے کے نتیجے میں جہنم کی سزا سنائی جائے گی تو مشرکین پکار اٹھیں گے کہ ہائے ہماری بدنصیبی ہم نے جن کے سہارے پر اللہ تعالیٰ کی عبادت کو چھوڑا اور جن کی امید پر شرک کا راستہ اختیار کیا وہ آج ہمارے کیا کام آتے ان کی بدنصیبی کا حال تو یہ ہے کہ ہماری طرح وہ بھی جہنم کا ایندھن بنائے جارہے ہیں۔یہ تو وہی بات ہوئی:

توقع تھی وہ جن سےخستگی میں داد پانےکی
وہ  ہم  سے  بھی  زیادہ  کشتہ  تیغ  ستم  نکلے

قرآن کریم کہتا ہے کہ کسی ایک کی بات نہیں بلکہ مولیٰ اور عشیر دونوں ہی ایک سے ایک بڑھ کر ناہنجار ثابت ہوئے۔مولیٰ سے مراد وہ شرکاء و شفعاء ہیں جنھیں اللہ تعالیٰ کے سوا مرجع اور کارساز بنایا گیا اور عشیر سے مراد وہ مشرکین ہیں جنھوں نے ان کو مرجع و کارساز بنایا۔(روح القرآن)
   حضرت ابراہیمؑ نے مندر میں جب بُتوں کو توڑ پھوڑ کر ڈالا اور قوم کے لوگ میلے سے واپس آکر ان پر الزام تراشنے لگے تو حضرت ابراہیمؑ نے انہیں ایسے دلنشین انداز میں دعوت دے دی کہ وہ سارے کے سارے اپنے ضمیر کی طرف پلٹنے پر مجبور ہوگئے۔لیکن اس کے بعد فوراً ہی ان پر ضد اور جہالت سوار ہوگئی۔یہ ضد کا خاصا ہے کہ اس کے سوار ہوتے ہی عقل اوندھ جاتی ہے اور یکایک دماغ الٹا سوچنے لگتا ہے،یہی حالت ان کی بھی ہوگئی۔لیکن دعوت کے حوالے سے حضرت ابراہیمؑ نے موقع کو غنیمت جانتے ہوئے ان سے کہا:

اَفَتَعۡبُدُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰهِ مَا لَا يَنۡفَعُكُمۡ شَيۡئًـا وَّلَا يَضُرُّكُمۡؕ۞(الانبیاء:66)
”پھر کیا تم اللہ کو چھوڑ کر اُن چیزوں کو پوج رہے ہو جو نہ تمہیں نفع پہنچانے پر قادر ہیں نہ نقصان۔“

    قوم کے لوگوں سے مخاطب ہوتے ہوئے ان کی بُت پرستی پر ضرب لگا کر انہوں نے دو ٹوک الفاظ میں راہِ نجات کی طرف انہیں اِن الفاظ میں دعوت دے دی:

اِنَّمَا تَعۡبُدُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰهِ اَوۡثَانًا وَّتَخۡلُقُوۡنَ اِفۡكًا‌ ؕ اِنَّ الَّذِيۡنَ تَعۡبُدُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰهِ لَا يَمۡلِكُوۡنَ لَـكُمۡ رِزۡقًا فَابۡتَغُوۡا عِنۡدَ اللّٰهِ الرِّزۡقَ وَاعۡبُدُوۡهُ وَاشۡكُرُوۡا لَهٗ ؕ اِلَيۡهِ تُرۡجَعُوۡنَ۞(العنکبوت:17)
”تم اللہ کو چھوڑ کر جنہیں پُوج رہے ہو وہ تو محض بُت ہیں اور تم ایک جھُوٹ گھڑ رہے ہو۔درحقیقت اللہ کے سوا جن کی تم پرستش کرتے ہو وہ تمہیں کوئی رزق بھی دینے کا اختیار نہیں رکھتے۔اللہ سے رزق مانگو اور اسی کی بندگی کرو اور اس کا شکر ادا کرو،اسی کی طرف تم پلٹائے جانے والے ہو۔“

  مکہ کی وادی میں نبی اکرمﷺ نے بھی حضرت ابراہیمؑ کا منہج اختیار کرتے ہوئے مشرکینِ مکہ کو اپنی پُرحکمت دعوت سے وقتاً فوقتاً باخبر کر دیا تاکہ یہ لوگ غلط عقیدے اور صراطِ منحنی کو خیرباد کہہ کر صراطِ مستقیم پر گامزن ہو سکیں۔اس حوالے سے قرآنِ پاک میں مختلف انداز میں ہمیں بہت ساری آیتیں دیکھنے کو ملتی ہیں جن کے ذریعے ہی نبی اکرم ﷺ ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر باتیں کرتے تھے۔حضورﷺ کو بس ایک ہی تڑپ اور ایک ہی قسم کا درد تھا کہ کب یہ مجھے سمجھ کر میری اتباع کرکے فلاحِ دارین حاصل کر سکیں۔قرآنِ پاک میں مختلف جگہوں پر آیا ہے کہ نبی اکرمﷺ ان سے مخاطب ہوئے تھے تاکہ ایک طرف حق کو روزِ روشن کی طرح عیاں کرنے سے ان پر اتمامِ حجت ہو سکے اور دوسری طرف یہ ہدایت کے راستے کی طرف آسکیں۔ذیل کی آیات میں ہم بالاختصار بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے کس طرح ان کے سامنے نہایت ہی عاجزی و انکساری کے ساتھ اپنا موقف بیان کر دیا تھا:

قُلۡ اِنَّمَاۤ اَدۡعُوۡا رَبِّىۡ وَلَاۤ اُشۡرِكُ بِهٖۤ اَحَدًا۞قُلۡ اِنِّىۡ لَاۤ اَمۡلِكُ لَـكُمۡ ضَرًّا وَّلَا رَشَدًا۞(الجن:21-20)
”اے نبیؐ،کہو کہ”میں تو اپنے ربّ کو پکارتا ہوں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتا۔کہو،”میں تم لوگوں کے لئے نہ کسی نقصان کا اختیار رکھتا ہوں نہ کسی بھلائی کا۔“

قُلۡ اِنِّىۡ نُهِيۡتُ اَنۡ اَعۡبُدَ الَّذِيۡنَ تَدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰهِ‌ؕ قُلْ لَّاۤ اَ تَّبِعُ اَهۡوَآءَكُمۡ‌ۙ قَدۡ ضَلَلۡتُ اِذًا وَّمَاۤ اَنَا مِنَ الۡمُهۡتَدِيۡنَ۞(الانعام:56)
”اے محمدؐ! اِن سے کہو کہ تم لوگ اللہ کے سوا جن دوسروں کو پکارتے ہو اُن کی بندگی کرنے سے مجھے منع کیا گیا ہے کہو،میں تمہاری خواہشات کی پیروی نہیں کروں گا،اگر میں نے ایسا کیا تو گمراہ ہو گیا،راہ راست پانے والوں میں سے نہ رہا۔“

قُلۡ اِنِّىۡ نُهِيۡتُ اَنۡ اَعۡبُدَ الَّذِيۡنَ تَدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰهِ لَمَّا جَآءَنِىَ الۡبَيِّنٰتُ مِنۡ رَّبِّىۡ  وَاُمِرۡتُ اَنۡ اُسۡلِمَ لِرَبِّ الۡعٰلَمِيۡنَ۞(غافر:66)

”اے نبیؐ،اِن لوگوں سے کہہ دو کہ مجھے تو اُن ہستیوں کی عبادت سے منع کر دیا گیا ہے جنہیں تم اللہ کو چھوڑ کر پکارتے ہو۔(میں یہ کام کیسے کر سکتا ہوں)جبکہ میرے پاس میرے ربّ کی طرف سے بیّنات آچکی ہیں۔مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں ربّ العالمین کے آگے سرِ تسلیم خم کر دوں۔“

   یہ قرآن کی دعوت کا ایک اسلوب ہے کہ وہ چند سوالات پوچھ کر روح کو اپیل کرتا ہے تاکہ یہ وجد میں آکر اپنے ازلی اور حقیقی دوست کو تلاش کرنے لگے۔حضورﷺ کی وساطت سے انہیں مختلف مواقع پر چند سوالات پوچھے گئے تاکہ یہ لوگ سوچ بچار کرکے ایک نتیجے پر پہنج جائیں۔طوالت سے بچنے کے لئے یہاں چند ہی آیات پیش کی جاتی ہیں۔ملاحظہ فرمائیں:

قُلۡ اَنَدۡعُوۡا مِنۡ دُوۡنِ اللّٰهِ مَا لَا يَنۡفَعُنَا وَلَا يَضُرُّنَا وَنُرَدُّ عَلٰٓى اَعۡقَابِنَا بَعۡدَ اِذۡ هَدٰٮنَا اللّٰهُ كَالَّذِى اسۡتَهۡوَتۡهُ الشَّيٰطِيۡنُ فِى الۡاَرۡضِ حَيۡرَانَ ۖ لَـهٗۤ اَصۡحٰبٌ يَّدۡعُوۡنَهٗۤ اِلَى الۡهُدَى ائۡتِنَا ‌ؕ قُلۡ اِنَّ هُدَى اللّٰهِ هُوَ الۡهُدٰى‌ؕ وَاُمِرۡنَا لِنُسۡلِمَ لِرَبِّ الۡعٰلَمِيۡنَۙ۞(الانعام:71)
”اے محمدؐ! ان سے پو چھو کیا ہم اللہ کو چھوڑ کر اُن کو پکاریں جو نہ ہمیں نفع دے سکتے ہیں نہ نقصان؟اور جبکہ اللہ ہمیں سیدھا راستہ دکھا چکا ہے تو کیا اب ہم الٹے پاؤں پھر جائیں؟کیا ہم اپنا حال اُس شخص کا سا کر لیں جسے شیطانوں نے صحرا میں بھٹکا دیا ہو اور وہ حیران و سرگرداں پھر رہا ہو درآں حالیکہ اس کے ساتھی اسے پکار رہے ہوں کہ اِدھر آ یہ سیدھی راہ موجود ہے؟کہو،حقیقت میں صحیح رہنمائی تو صرف اللہ ہی کی رہنمائی ہے اور اس کی طرف سے ہمیں یہ حکم ملا ہے کہ مالک کائنات کے آگے سر اطاعت خم کر دو۔“
قُلۡ مَنۡ ذَا الَّذِىۡ يَعۡصِمُكُمۡ مِّنَ اللّٰهِ اِنۡ اَرَادَ بِكُمۡ سُوۡٓءًا اَوۡ اَرَادَ بِكُمۡ رَحۡمَةً ‌ؕ وَلَا يَجِدُوۡنَ لَهُمۡ مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰهِ وَلِيًّا وَّلَا نَصِيۡرًا‏۞(الاحزاب:17)
”اِن سے کہو،کون ہے جو تمہیں اللہ سے بچا سکتا ہو اگر وہ تمہیں نقصان پہنچانا چاہے؟اور کون اس کی رحمت کو روک سکتا ہے اگر وہ تم پر مہربانی کرنا چاہے؟اللہ کے مقابلے میں تو یہ لوگ کوئی حامی و مدد گار نہیں پا سکتے ہیں۔“
قُلِ ادۡعُوا الَّذِيۡنَ زَعَمۡتُمۡ مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰهِۚ لَا يَمۡلِكُوۡنَ مِثۡقَالَ ذَرَّةٍ فِى السَّمٰوٰتِ وَلَا فِى الۡاَرۡضِ وَمَا لَهُمۡ فِيۡهِمَا مِنۡ شِرۡكٍ وَّمَا لَهٗ مِنۡهُمۡ مِّنۡ ظَهِيۡرٍ ۞(سبا:22)
 ”(اے نبیؐ،اِن مشرکین سے )کہو کہ پکار دیکھو اپنے اُن معبُودوں کو جنہیں تم اللہ کے سوا اپنا معبُود سمجھے بیٹھے ہو۔وہ نہ آسمانوں میں کسی ذرّہ برابر چیز کے مالک ہیں نہ زمین میں۔وہ آسمان و زمین کی ملکیّت میں شریک بھی نہیں ہیں۔ان میں سے کوئی اللہ کا مددگار بھی نہیں ہے۔“
قُلۡ اَرَءَيۡتُمۡ شُرَكَآءَكُمُ الَّذِيۡنَ تَدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰهِ ؕ اَرُوۡنِىۡ مَاذَا خَلَقُوۡا مِنَ الۡاَرۡضِ اَمۡ لَهُمۡ شِرۡكٌ فِى السَّمٰوٰتِ‌ ۚ اَمۡ اٰتَيۡنٰهُمۡ كِتٰبًا فَهُمۡ عَلٰى بَيِّنَتٍ مِّنۡهُ ۚ بَلۡ اِنۡ يَّعِدُ الظّٰلِمُوۡنَ بَعۡضُهُمۡ بَعۡضًا اِلَّا غُرُوۡرًا۞(فاطر:40)
”(اے نبیؐ)ان سے کہو”کبھی تم نے دیکھا بھی ہے اپنے اُن شریکوں  کو جنہیں تم خدا کو چھوڑ کر پکارا کرتے ہو؟مجھے بتاٶ،انہوں نے زمین میں کیا پیدا کیا ہے؟یا آسمانوں میں ان کی کیا شرکت ہے؟“(اگر یہ نہیں بتا سکتے تو ان سے پوچھو)کیا ہم نے کوئی تحریر لکھ کر دی ہے جس کی بنا پر یہ(اپنے اس شرک کے لیے )کوئی صاف سَنَد رکھتے ہوں؟نہیں،بلکہ یہ ظالم ایک دُوسرے کو محض فریب کے جھانسے دیے جارہے ہیں۔“
وَلَئِنۡ سَاَ لۡتَهُمۡ مَّنۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضَ لَيَـقُوۡلُنَّ اللّٰهُ‌ ؕ قُلۡ اَفَرَءَيۡتُمۡ مَّا تَدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰهِ اِنۡ اَرَادَنِىَ اللّٰهُ بِضُرٍّ هَلۡ هُنَّ كٰشِفٰتُ ضُرِّهٖۤ اَوۡ اَرَادَنِىۡ بِرَحۡمَةٍ هَلۡ هُنَّ مُمۡسِكٰتُ رَحۡمَتِهٖ‌ ؕ قُلۡ حَسۡبِىَ اللّٰهُ‌ ؕ عَلَيۡهِ يَتَوَكَّلُ الۡمُتَوَكِّلُوۡنَ‏۞(الزمر:38)
”اِن لوگوں سے اگر تم پوچھو کہ زمین اور آسمانوں کو کس نے پیدا کیا ہے تو یہ خود کہیں گے کہ اللہ نے۔اِن سے کہو،جب حقیقت یہ ہے تو تمہارا کیا خیال ہے کہ اگر اللہ مجھے کوئی نقصان پہنچانا چاہے تو یا تمہاری یہ دیویاں،جنہیں تم اللہ کو چھوڑ کر پکارتے ہو،مجھے اُس کے پہنچائے ہوئے نقصان سے بچا لیں گی؟یا اللہ مجھ پر مہربانی کرنا چاہے تو کیا یہ اُس کی رحمت کو روک سکیں گی؟بس ان سے کہہ دو کہ میرے لیے اللہ ہی کافی ہے،بھروسہ کرنے والے اُسی پر بھروسہ کرتے ہیں۔“

قُلۡ اَرَءَيۡتُمۡ مَّا تَدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰهِ اَرُوۡنِىۡ مَاذَا خَلَقُوۡا مِنَ الۡاَرۡضِ اَمۡ لَهُمۡ شِرۡكٌ فِى السَّمٰوٰتِ‌ؕ اِیْتُوۡنِىۡ بِكِتٰبٍ مِّنۡ قَبۡلِ هٰذَاۤ اَوۡ اَثٰرَةٍ مِّنۡ عِلۡمٍ اِنۡ كُنۡتُمۡ صٰدِقِيۡنَ۞(الاحقاف:4)
”اے نبیؐ،اِن سے کہو”کبھی تم نے آنکھیں کھول کر دیکھا  بھی کہ وہ ہستیاں ہیں کیا جنہیں تم خدا کو چھوڑ کر پکار تے ہو؟ذرا مجھے دکھاٶ تو سہی کہ زمین میں انہوں نے کیا پیدا کیا ہے،یا آسمانوں کی تخلیق و تدبیر میں ان کا کیا حصّہ ہے۔اِس سے پہلے آئی ہوئی کوئی کتاب یا علم کا کوئی بقیّہ(اِن عقائد کے ثبوت میں)تمہارے پاس ہو تو وہی لے آٶ اگر تم سچے ہو۔“

    قرآنِ پاک نے دعوت کے طور طریقوں کو مدِ نظر رکھ کر کہیں سوالات پوچھنے کا منہج اختیار کیا تو کہیں مثالوں کے ذریعے غوروفکر کرنے کی دعوت دے دی۔قرآنِ پاک اپنے مخاطب سے توجہ دلا رہا ہے کہ ذرا غور کرو،سوچو اور اپنے اندر جھانکو تاکہ تم اصل حقیقت کو پہنچ پاؤ۔مکہ کے بُت پرستوں کو شعور دلانے کے لئے ذیل کی آیت میں ایک حیران کُن مثال دے دی گئی تاکہ وہ غوروفکر کا راستہ لیتے ہوئے اپنے معبودِ برحق تک پہنچ جائیں:

يٰۤـاَيُّهَا النَّاسُ ضُرِبَ مَثَلٌ فَاسۡتَمِعُوۡا لَهٗ ؕ اِنَّ الَّذِيۡنَ تَدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰهِ لَنۡ يَّخۡلُقُوۡا ذُبَابًا وَّلَوِ اجۡتَمَعُوۡا لَهٗ‌ ؕ وَاِنۡ يَّسۡلُبۡهُمُ الذُّبَابُ شَيۡـئًـا لَّا يَسۡتَـنۡـقِذُوۡهُ مِنۡهُ‌ ؕ ضَعُفَ الطَّالِبُ وَالۡمَطۡلُوۡبُ۞(الحج:73)
”اے لوگو! ایک مثال بیان کی جاتی ہے  پس اسے ذرا توجہّ سے سنو یقیناً (تمہارے وہ معبود) جنہیں تم اللہ کے سوا پکارتے ہو ایک مکھی بھی تخلیق نہیں کرسکتے اگرچہ وہ سب اس کے لیے اکٹھے ہوجائیں اور اگر مکھی ان سے کوئی چیز چھین لے جائے تو یہ اس سے وہ چیز چھڑا نہیں سکتے کس قدر کمزور ہے طالب بھی اور مطلوب بھی۔“

  ڈاکٹر اسرار احمدؒ نے اس آیتِ پاک کے ذیل میں ایک ایسا شاہکار نوٹ لکھا ہے کہ جسے پڑھتے ہی انسان کے رونگھٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔لکھتے ہیں:
۔۔۔۔۔اِنَّ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ لَنْ یَّخْلُقُوْا ذُبَابًا وَّلَوِ اجْتَمَعُوْا لَہٗ ط
چونکہ اس کے مخاطبِ اوّل مکہّ کے بُت پرست تھے اس لیے انہیں شعور دلانے کے لیے ان کے  بُتوں کی مثال دی گئی ہے کہ خانہ کعبہ میں سجائے گئے تمہارے یہ تین سو ساٹھ بت مل کر بھی کوشش کرلیں تب بھی ایک مکھی تک نہیں بنا سکتے۔ یہ وہی انداز ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی قوم کے لوگوں کے سامنے بُتوں کی بےبسی ظاہر کرنے کے لیے اپنایا تھا۔آپ علیہ السلام نے بُتوں کو توڑ کر ان کے پجاریوں کو اپنے گریبانوں میں جھانکنے پر مجبور کردیا تھا۔
وَاِنْ یَّسْلُبْہُمُ الذُّبَابُ شَیْءًا لَّا یَسْتَنْقِذُوْہُ مِنْہُ ط
یعنی مکھی کو تخلیق کرنا تو بہت دور کی بات ہے،یہ تو اپنے اوپر سے مکھی کو اڑا بھی نہیں سکتے۔اگر کوئی مکھی ان کے سامنے پڑے ہوئے حلووں مانڈوں میں سے کچھ لے اڑے تو اس سے وہ چیز واپس بھی نہیں لے سکتے۔
ضَعُفَ الطَّالِبُ وَالْمَطْلُوْبُ
اس مضمون پر یہ جملہ اس قدر جامع ہے کہ قرآن مجید کے نظریۂ توحید کا عملی لبّ لباب ان تین الفاظ میں سما گیا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ ہر باشعور انسان کا ایک نصب العین،آئیڈل یا آدرش ہوتا ہے،جس کے حصول کے لیے وہ دن رات بھاگ دوڑ کرتا ہے۔انسان کی شخصیت اور اس کا آئیڈیل آپس میں ایک دوسرے کی پہچان کے لیے معیار اور کسوٹی فراہم کرتے ہیں۔کسی انسان کا معیار اس کے آئیڈیل سے پہچانا جاتا ہے اور کسی آئیڈیل کا معیار اس کے چاہنے والے کے معیار سے پرکھا جاتا ہے۔اگر کسی انسان کا آئیڈیل گھٹیا ہے تو لازماً وہ انسان خود بھی اسی سطح پر ہوگا اور اگر کسی کا آئیڈیل اعلیٰ ہوگا تو وہ خود بھی اعلیٰ شخصیت کا مالک ہوگا۔اس اصول پر ان لوگوں کے ذہنوں کے معیار اور سوچوں کی سطح کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے جو پتھر کے بتوں کو اپنے معبود سمجھ کر ان کے آگے جھکتے ہیں۔جس طالب کا مطلوب اور آئیڈیل ایک ایسا بےجان مجسمہ ہے جو اپنے اوپر سے ایک مکھی تک کو نہیں اڑا سکتا،اس کی اپنی شخصیت کا کیا حال ہوگا:ع”قیاس کن زگلستانِ من بہار مرا ! “
یہ مضمون ذرا مختلف انداز میں سورة البقرۃ کی آیت ١٦٥ میں اس طرح آچکا ہے:وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّتَّخِذُ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ اَنْدَادًا یُّحِبُّوْنَہُمْ کَحُبِّ اللّٰہِ ط کہ لوگوں میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو اللہ کے مدِّ مقابل کچھ معبود بنا کر ان سے ایسے محبت کرنا شروع کردیتے ہیں جیسے اللہ سے محبت کرنی چاہیے۔اس کے برعکس توحید کا سبق تو یہ ہے:لَا مَحْبُوْبَ الاَّ اللّٰہ! لَا مَقْصُوْدَ الاَّ اللّٰہ! لَا مَطْلُوْبَ الاَّ اللّٰہ! یعنی انسان کا محبوب و مقصود و مطلوب صرف اور صرف اللہ ہے۔باقی کوئی شے مطلوب و مقصود نہیں ہے،باقی سب ذرائع ہیں۔انسان کو زندہ رہنے کے لیے اور اپنی ضروریات زندگی پوری کرنے کے لیے مختلف ذرائع سے مدد لینی پڑتی ہے۔اس سلسلے میں توحید کا تقاضا یہی ہے کہ ان سب چیزوں کو ذرائع کے طور پر استعمال ضرور کریں مگر انہیں اپنا مطلوب و مقصود نہ بنائیں۔نہ کھیتی کو،نہ دکان کو،نہ کسی ہنر کو،نہ کسی پیشے کو،نہ کسی رشتہ دار،اور نہ اولاد کو! یہ ہے توحید کاُ لبّ لباب!
جو شخص توحید کے اس تصور تک نہیں پہنچ سکتا اور اللہ کی معرفت اس انداز میں حاصل نہیں کرسکتا،اس کے ذہن کی پستی اسے اللہ کو چھوڑ کر طرح طرح کی چیزوں کی پرستش کرنا سکھاتی ہے اور پھر اسی ڈگر پر چلتے ہوئے کوئی وطن پرست ٹھہرتا ہے تو کوئی قوم پرست قرار پاتا ہے۔کوئی دولت کی دیوی کا پجاری بن جاتا ہے تو کوئی اپنے نفس کو معبود بنا کر اپنے ہی حریم ذات کے گرد طواف شروع کردیتا ہے۔ع” اپنے ہی حسن کا دیوانہ بنا پھرتا ہوں!“(بیان القرآن)

Comments