Supplication : The Only Way Forward (Part 7)


   ہر طرف انسان کی حاجت مندی،محتاجی اور فقیری ہے جو اس کی زندگی میں رچی بسی ہے۔اس دنیا میں انسان ہی وہ واحد کمزور مخلوق ہے جو سب سے زیادہ مدد کا محتاج ہوتا ہے۔زندگی کی شاہراہ پر اسے مختلف حاجات کی ضرورت پڑتی ہے اور انہی حاجات کو پورا ہونے کے لئے یہ فقیری اور محتاجی کا عبادہ اپنے اوپر اوڑھ لیتا ہے۔یہ اسی فقیری اور محتاجی کا نتیجہ ہوتا ہے کہ یہ اپنے آپ کو نقصان سے بچانے لگتا ہے۔اس وجہ سے جس سے بھی نقصان پہنچتا ہے یا فائدے کی امید ہوتی ہے اس سے یہ نسبت اور تعلق قائم کر ہی لیتا ہے۔کہیں وہ کسی غیر معمولی طاقت اور قوت کا خوف،ڈر اور ہیبت  سے اس کے آگے جھک جاتا ہے،ماتھا ٹیک دیتا ہے اور اس کو خدائی کا درجہ دے کر اس کی بندگی شروع کر دیتا ہے۔وہ اپنی حاجات،ضروریات،امیدوں،اور تمناؤں کے بر آنے کے لئے ہر ایسی ہستی اور قوت کے سامنے ہاتھ پھیلا دیتا ہے،اس کے در پہ جھک جاتا ہے،سجدے میں گر جاتا ہے،گڑگڑاتا اور دعائیں مانگتا ہے جس سے اسے حاجت روائی،مشکل کشائی،مرادوں کے بر آنے،دعاؤں کی قبولیت اور امن و تحفظ کی امید و توقع ہوتی ہے۔یہی امید و توقع اسے کسی کے در کا فقیر لازماً بنا ہی دیتی ہے۔قدرتی طور پر یہ سوال ہر کسی کے ذہن میں اٹھتا ہے کہ میرا مسئول کون ہے جسے میں بار بار پُکاروں اور آواز دوں تاکہ میرے دل کو تسکین اور میری روح کو راحت مل جائے؟تاریخ گواہ ہے کہ سوچ کے مختلف انداز نے مختلف درباروں کو جنم دے دیا اور رہتی دنیا تک سائل اور مسئول کا ایک لامتناہی سلسلہ اور تعلق قائم کر کے رکھ دیا۔
   
اللہ کی بندگی کی روح اور حقیقت یہ ہے کہ فقر،حاجت روی اور محتاجی کا یہ تعلق صرف اللہ جل و عالٰی کی ذات سے ہو۔اسی کے در کا فقیر بنا رہا جائے،اسی پر بھروسہ اور امید رکھی جائے،اسی کے آگے جھکا جائے اور ماتھا ٹیک دیا جائے،اسی کی بندگی کی جائے اور اس کی بندگی میں کسی کو شریک نہ کیا جائے۔یہ عقیدہ رکھا جائے کہ جو کچھ بھی مل سکتا ہے صرف اور صرف اسی کے دربار سے مل سکتا ہے اور سارے اختیارات صرف اسی کے پاس ہیں،ہر چیز اسی کے خزانے میں موجود ہے،اس کے علاوہ کسی کے پاس ذرہ برابر بھی اختیار نہیں ہے،نہ کچھ دینے کے لئے اور نہ کچھ چھیننے کے لیے۔زندگی و موت،نفع و نقصان اور خیر و شر سب اسی کے اختیار اور قبضہ قدرت میں ہے۔جس نے اس بات کو سمجھ کر مان لیا پھر اس پر یقین کیا اور اسی کے مطابق اپنی زندگی کی تعمیر کی بیشک اس کی بندگی مکمل ہوگئی،اس نے ایسی تجارت کی جو فلاحِ دارین کی ضامن ہے اور جس میں ذرہ برابر بھی نقصان کا شائبہ نہیں ہو سکتا۔اللہ رب العزت نے ہمیں دعا کی شکل میں ایک ایسا تحفہ فراہم کر دیا کہ جس کے ذریعے سے ہی ہم اس کے ساتھ ایک مضبوط تعلق قائم کرلیتے ہیں اور دنیا میں یہ وہ واحد تعلق ہے جسے توڑا نہیں جا سکتا۔اس تعلق کی مضبوطی کے لئے ہمیں بار بار ہر نماز میں”اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ“(ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے مدد مانگتے ہیں) کا اعادہ کرنا پڑتا ہے تاکہ اس تعلق میں کمزوری نہ آنے پائے۔پیشِ نظر آیتِ کریمہ میں”عبادت“اور”دعا“کو ایک ساتھ جمع کر کے اللہ  تعالٰی نے ہمارے اوپر یہ بات آشکارا کر دی کہ”دعا“کے بغیر عبادت کی روح کو پانا اور بندگی کی معراج کو پہنچنا ناممکن ہی نہیں بلکہ محال ہے۔دعا اگر حق کے راستے کی ابتداء ہے تو بندگی اس کی انتہا،لہٰذا انتہا کو پہنچنے کے لئے ابتداء کو چُھونا ناگزیر ہے۔اگر ہم عبادت کو ایک درخت کی حیثیت سے لیں گے تو دعا ایک بیج کے مترادف ہے،بیج کے بغیر درخت کا خواب دیکھنا ایک بیوقوف ہی کا کام ہوسکتا ہے۔عبادت کی عمارت میں دعا کی حیثیت ایک بنیاد کی سی ہوتی ہے اور بنیاد کمزور یا ٹیڑھی رہنے سے ساری کی ساری عمارت خطرے میں پڑ جاتی ہے،عمارت مضبوط کرنے سے پہلے بنیاد کو ترجیح دینا ایک باشعور،عقلمند اور حساس انسان کا کام ہوتا ہے۔محمد افضل احمد نے مذکورہ بالا آیتِ پاک کے ذیل میں دل کو چُھو لینے والی چند قیمتی باتیں لکھی ہیں،جن کو پڑھنے سے قاری کو اس آیتِ مبارکہ کی روح تک پہنچنے میں کافی حد تک رسائی ملتی ہے۔لکھتے ہیں:
نستعین لفظ استعانہ سے مشتق ہے اور استعان کے معنی مدد،تائید اور توفیق طلب کرنا ہے۔آیت کے پہلے حصے میں جہاں اِيَّاكَ نَعْبُدُ شرک سے بیزاری اور برات کا اظہار و اقرار ہے وہیں اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ کہہ کر ایک طرف اپنی طاقتوں،صلاحیتوں اور اہلیتوں کے انکار کے ساتھ ہی اللہ تعالٰی کے سامنے اپنی بے چارگی،کم مایگی،بے بضاعتی اور بے بساطی کا اظہار و اقرار ہے تو دوسری طرف اسی کے ساتھ ہی اپنے تمام امور،مسائل اور معاملات کی اللہ تعالٰی کو سپردگی بھی ہے۔اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ کہہ کر بندہ اللہ تعالٰی کے حضور درخواست لے کر حاضر ہوتا ہے کہ ہم نے جو اس عبادت کو تیرے لئے خالص کیا ہے،اس کی توفیق و تکمیل بھی تیری ہی مدد پر منحصر ہے اور اسکے علاوہ وہ تمام معاملات،امور اور مسائل جو زندگی میں ہر لمحے پیش آتے ہیں،ان میں بھی تیری ہی استعانت سے کامیابی حاصل ہو سکتی ہے۔رہنمائی کی استعانت،رہنمائی کے بعد عمل کی توفیق کی استعانت،عمل کر لینے کے بعد اس عمل کو کامیابی سے ہم کنار کرنے کی استعانت اور اس سے بہتر انجام کے حصول کی استعانت وغیرہ۔“(توضیح سورۃ فاتحہ،ص:١٠٣۔١٠٤)

   چنانچہ ہر معاملے میں،ہر حال میں اور ہمیشہ اللہ تعالٰی ہی سے رجوع کرنا چاہئیے اور اسی سے استعانت طلب کرنا چاہئیے۔اس حوالے سے سطورِ ذیل میں چند آیات پیش خدمت ہیں:

وَاسۡتَعِيۡنُوۡا بِالصَّبۡرِ وَالصَّلٰوةِ ‌ؕ(البقرہ:45)

”(اگر تمہیں نیکی کے راستے پر چلنے اور قائم رہنے میں دشواری ہو رہی ہو تو)صبر اور نماز سے استعانت طلب کرو۔“

يٰٓاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوا اسۡتَعِيۡنُوۡا بِالصَّبۡرِ وَالصَّلٰوةِ ؕ(البقرہ:153)

”اے لوگو جو ایمان لائے ہو صبر اور نماز سے مدد لو۔“

قَالَ مُوۡسٰى لِقَوۡمِهِ اسۡتَعِيۡنُوۡا بِاللّٰهِ وَاصۡبِرُوۡا‌ ۚ (الاعراف:128)

”موسیٰؑ نے اپنی قوم سے کہا”اللہ سے مدد مانگو اور صبر کرو۔“

 وَاللّٰهُ الۡمُسۡتَعَانُ عَلٰى مَا تَصِفُوۡنَ ۞(یوسف:18)

”جو بات تم بنا رہے ہو اس پر اللہ ہی سے مدد مانگی جا سکتی ہے ۔“

قٰلَ رَبِّ احۡكُمۡ بِالۡحَـقِّ‌ؕ وَرَبُّنَا الرَّحۡمٰنُ الۡمُسۡتَعَانُ عَلٰى مَاتَصِفُوۡنَ۞(الانبیاء:112)

”(آخرکار) رسولؐ نے کہا کہ”اے میرے رب،حق کے ساتھ فیصلہ کر دے،اور لوگو،تم جو باتیں بناتے ہو اُن کے مقابلے میں ہمارا ربِّ رحمان ہی ہمارے لیے مدد کا سہارا ہے“


    جس دعا پر عبادت کی پوری عمارت کھڑی ہو اسے اللہ کے سوا کسی غیر سے مانگنا انسان کے لئے ہلاکت کے سوا کچھ بھی نہیں ہو سکتا۔کامل انسان وہ ہے جو خوف اور طمع کی نسبت اللہ سے رکھے۔ڈرے تو صرف اسی سے ڈرے اور اگر کوئی امید ہو تو صرف اسی سے ہو۔قرآنِ پاک میں اللہ تعالٰی اپنے مومن بندوں کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:

تَتَجَافٰى جُنُوۡبُهُمۡ عَنِ الۡمَضَاجِعِ يَدۡعُوۡنَ رَبَّهُمۡ خَوۡفًا وَّطَمَعًا۞(السجدہ:16)

”اُن کی پیٹھیں بستروں سے الگ رہتی ہیں،اپنے ربّ کو خوف اور طمع کے ساتھ پُکارتے ہیں۔“

مولانا سید ابو الاعلٰی مودودیؒ اس آیتِ مبارکہ کے ذیل میں لکھتے ہیں:
”یعنی راتوں کو داد عیش دیتے پھرنے کے بجائے وہ اپنے رب کی عبادت کرتے ہیں۔ان کا حال ان دنیا پرستوں کا سا نہیں ہے جنہیں دن کی محنتوں کی کلفت دور کرنے کے لیے راتوں کو ناچ گانے اور شراب نوشی اور کھیل تماشوں کی تفریحات درکار ہوتی ہیں۔اس کے بجائے ان کا حال یہ ہوتا ہے کہ دن بھر اپنے فرائض انجام دے کر جب وہ فارغ ہوتے ہیں تو اپنے رب کے حضور کھڑے ہوجاتے ہیں۔اس کی یاد میں راتیں گزارتے ہیں۔اس کے خوف سے کانپتے ہیں اور اسی سے اپنی ساری امیدیں وابستہ کرتے ہیں۔بستروں سے پیٹھیں الگ رہنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ راتوں کو سوتے ہی نہیں ہیں،بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ وہ راتوں کا ایک حصہ خدا کی عبادت میں صرف کرتے ہیں۔“(تفہیم القرآن)
   اس آیتِ مبارکہ کے حوالے سے مولانا پیر محمد کرم شاہ الازہریؒ اس طرح رقمطراز ہیں:
”اہلِ ایمان کی ایک صفت یہ بھی ہے کہ جب دوسرے لوگ اپنے نرم و گداز بستروں پر محوِ استراحت ہوتے ہیں،گہری اور میٹھی نیند کے مزے لُوٹتے ہیں تو یہ دردِ محبت کے مارے اپنے پہلوٶں کو اپنے بستروں سے دُور رکھتے ہیں۔اپنے رب کے حضور میں دست بستہ کھڑے ہو کر کبھی اس کی حمد و ثنا کرتے ہیں۔کبھی اس کی بارگاہِ اقدس میں جبینِ نیاز جھکاتے ہیں،کبھی دُعا کے لئے دامن پھیلاتے دیتے ہیں اور اپنے کریم و رحیم پروردگار سے اس کے فضل و کرم کی بھیک مانگتے ہیں۔ان کے دعا کرنے اور مانگنے کا انداز بھی نِرالا ہے۔ساری رات اس کے ذکر میں گزر گئی،لیکن پھر بھی اپنی کوتاہیوں کا احساس بے چین کر رہا ہے اور اس کی بے نیازی کا تصور کر کے دل کانپ رہا ہے،لیکن اس کی بے نیازی اور اپنی کوتاہیوں کے شدید احساس کے باوجود مایوس نہیں ہیں بلکہ اس کے فضل و وکرم پر تکیہ کیے ہوئے دامن پھیلا رہے ہیں۔وہ جانتے ہیں کہ ان کا رب بڑا رحیم و کریم ہے۔جو شخص اس کے حضور میں دستِ سوال پھیلاتا ہے،اس کی شانِ کریمی اُسے خالی واپس نہیں کرتی۔بیم و رجا کی اسی کشمکش میں وہ اپنے شب و روز گزارتے ہیں۔اس آیت میں ان لوگوں کی طرف اشارہ ہے جو رات ڈھلنے کے بعد اپنے بستروں سے اُٹھتے ہیں اور نماز تہجد ادا کرتے ہیں۔“(ضیاء القرآن)
          
     مانگنے پر اگر سنجیدگی سے غور کیا جائے تو یہاں ایک طرف مانگنے والے ہیں جو کہ ہم فقیر،محتاج،بے بس اور لاچار ہیں،کسی چیز پر قدرت نہیں رکھتے ہیں،نہ اپنی آنکھ پر،نہ اپنے کان پر اور نہ اپنے جسم پر۔ہمارا اختیار جسم کے اندر چھوٹے سے ایک خلیے پر بھی نہیں ہے،اگر اس میں فساد برپا ہو جائے تو ہم گل سڑ کر مر جائیں گے،کچھ بھی نہیں کر سکتے ہیں،دیکھو مانگنے والا کتنا بے بس اور لاچار ہے،جسے مانگنے کے سوا کوئی چارہ ہی نہیں ہے۔دوسری طرف وہ ہے جس سے مانگا جائے یعنی اللہ رب العزت کی ذات۔ان کا حال یہ ہے کہ ہماری نیکی اور ہمارے مانگنے سے اس کی ذات میں ذرہ برابر بھی اضافہ نہیں ہوتا ہے۔وہ ہمارے گناہوں سے صرفِ نظر کرکے ہمیں بلا حساب و کتاب دیتا ہی چلا جاتا ہے۔غرض تو ہماری ہے،محتاج تو ہم ہیں،وہ تو غنی ہے اور ہم فقیر ہیں۔اگر اسے خدا کی شان میں گستاخی نہ سمجھا جائے نعوذ باللہ وہ تو ہمیں ایسے پُکارتا ہے اور بار بار پُکارتا ہے کہ گویا وہ محتاج اور فقیر ہو اور ہم غنی ہوں اور ہمیں کوئی پرواہ نہ ہو۔وہ اپنے در پر ہم سے وعدہ کرتا ہے کہ میں تمہاری مشکلات کو آسانیوں میں تبدیل کردوں گا،میں تمہاری قسمت بدل ڈالوں گا،میں تمہاری ہدایت کی پیاس کو بُجھا دوں گا،میں تمہارا ہاتھ پکڑ کر تمہیں ہدایت کے راستے پر لے لوں گا،میں تمیں فلاحِ دارین سے نوازوں گا۔وہ تو ہمیں خود پُکارتا ہے کہ آٶ مجھ سے پُکارو میں تمیں دوں گا،کھانا مانگو کھانا کھلاٶں گا،پانی مانگو پانی دوں گا،شفا مانگو شفا دوں گا،تم روزِ جزا میں معافی کی درخواست کرو گے تو تمہیں معافی بھی دے دوں گا اور اُچلھتے کودتے جنت میں پہنچادوں گا اور وہاں میں تمہیں اپنی میزبانی سے آباد کروں گا۔بس ایک بار میرے در کے فقیر بن جاٶ تمہیں مالامال نہ کردوں تو کہنا۔رب سے اس حقیقی تعلق کو توحید کے امام عالی مقام حضرت ابراہیمؑ نے یوں ادا کیا کہ تمام جھوٹے معبود میرے دشمن ہیں سوائے ایک رب العٰلمین کے:

فَاِنَّهُمۡ عَدُوٌّ لِّىۡۤ اِلَّا رَبَّ الۡعٰلَمِيۡنَۙ‏۞الَّذِىۡ خَلَقَنِىۡ فَهُوَ يَهۡدِيۡنِۙ‏ ۞وَالَّذِىۡ هُوَ يُطۡعِمُنِىۡ وَيَسۡقِيۡنِۙ۞وَاِذَا مَرِضۡتُ فَهُوَ يَشۡفِيۡنِ ۞وَالَّذِىۡ يُمِيۡتُنِىۡ ثُمَّ يُحۡيِيۡنِۙ ۞وَالَّذِىۡۤ اَطۡمَعُ اَنۡ يَّغۡفِرَ لِىۡ خَطِٓیْـئَـتِىۡ يَوۡمَ الدِّيۡنِ ۞(الشعراء:82-77)

”میرے تو یہ سب دشمن ہیں،بجز ایک ربّ العالمین  کے۔جس نے مجھے پیدا کیا،پھر وہی میری رہنمائی فرماتا ہے۔جو مجھے کھلاتا اور پلاتا ہے۔اور جب بیمار ہو جاتا ہوں تو وہی مجھے شفا دیتا ہے۔جو مجھے موت دے گا اور پھر دوبارہ مجھ کو زندگی بخشے گا۔اور جس سے میں اُمید رکھتا ہوں کہ روزِ جزا میں وہ میری خطا معاف فرما دے گا۔“

    اِن آیاتِ مبارکہ کی تشریح کرتے ہوئے سید قطب شہیدؒ لکھتے ہیں کہ:
 حضرت ابراہیم ؑ نے یہاں اپنے رب کی جو حمد کی ہے اور اس میں وہ تفصیلات تک چلے گئے ہیں اور تصویر کشی کی ہے،اس سے ہمیں یہ شعور ملتا ہے کہ آپ اپنی پوری شخصیت کے ساتھ معرفت رب میں ڈوبے ہوئے تھے اور ان کی پوری شخصیت کا خدا کے ساتھ رابطہ تھا۔وہ نہایت ہی محبت سے اللہ کی طرف متوجہ ہوتے تھے اور حضرت اپنے رب کی حمد اس طرح کرتے تھے کہ گویا وہ اللہ کو دیکھ رہے ہوں اور وہ اپنے تمام احساسات،تمام شعور اور وجدان کے ساتھ اور اپنے تمام اعضاء کے ساتھ اللہ کے فضل و کرم کو پا رہے تھے۔ قرآن کریم نے حضرت ابراہیم اور رب العالمین کے تعلق کو جس قدر دھیمے نغمے کے ساتھ یہاں بیان کیا ہے اس سے اس تعلق کی فضا،اس کے آثار اور پرتو اچھی طرح واضح ہوتا ہے۔ میٹھا اور نرم نغمہ اور طویل اور وسیع اثرات۔

الَّذِىۡ خَلَقَنِىۡ فَهُوَ يَهۡدِيۡنِجس نے مجھے پیدا کیا پھر وہی میری راہنمائی فرماتا ہے۔“اس نے مجھے پیدا کیا،وہی جانتا ہے اور میں نہیں جانتا کہ کہاں کہاں سے اجزائے جسم جمع ہوئے۔میری ماہیت اور میری تشکیل سے وہی باخبر ہے۔میرے فرئاض اور میرے شعور کی باریکیوں سے بھی وہی باخبر ہے۔میرے مال اور میرے متاں سے بھی وہی خبردار ہے۔فَهُوَ يَهۡدِيۡنِپھر وہی تو ہے جو میری راہنمائی فرماتا ہے۔“اپنی طرف راہنمائی جس راہ پر مجھے چلنا ہے اس کی نشاندہی،جس نظام کے مطابق مجھے زندگی بسر کرنی ہے اس کی نشاندہی،حضرت ابراہیمؑ یہ احساس دے رہے ہیں کہ وہ اس طرح ہیں جس طرح پگھلا ہوا مادہ اس سے صانع جو چاہتا،بنا لیتا ہے۔جس شکل و صورت میں چاہتا ہے مصنوعات تیار کرلیتا ہے یہ ہے مکمل اطاعت،مکمل سپردگی،مکمل اطمینان،راحت،سکون اور اعتماد ذات باری پر۔

وَالَّذِىۡ هُوَ يُطۡعِمُنِىۡ وَيَسۡقِيۡنِ۔وَاِذَا مَرِضۡتُ فَهُوَ يَشۡفِيۡنِجو مجھے کھلاتا اور پلاتا ہے اور جب میں بیمار ہوتا ہوں تو وہی شفا دیتا ہے۔“یہ براہ راست کفالت ہے،گہری شفقت ہے،ساتھ رہنے والی محبت ہے اس کا احساس ابراہیم ہی کرسکتے ہیں۔صحت میں اور مضر میں،حضر میں اور سفر میں،ہر حال میں بلند آداب نبوت کے ساتھ ہو جانتے ہیں کہ مرض بھی تو اللہ کی مشیت سے آتی ہے۔نہیں،وہ اس کو اللہ کی طرف منسوب نہیں کرتے حالانکہ مرض و شفا دونوں اللہ کی طرف سے ہے۔لیکن مَرِضۡتُ فَهُوَ يَشۡفِيۡنِ میں گہرا احترام محلوظ ہے۔کرم کا مقام يُطۡعِمُنِىۡ وَيَسۡقِيۡنِ اور يَشۡفِيۡنِ لکین ابتلا میں نعش کا اسناد خود اپنی طرف کرتے ہیں۔یہ ہے مقام ابراہیم۔
    وَالَّذِىۡ يُمِيۡتُنِىۡ ثُمَّ يُحۡيِيۡنِجو مجھے موت دے گا اور دوبارہ زندگی بخشے گا۔“ہر مسلمان کا یہ ایمان ہے کہ موت کا فیصلہ اللہ کرتا ہے اور پھر ایک دن حساب و کتاب کے لئے اللہ ہی اٹھائے گا لہٰذا یہ مکمل تسلیم و رضا کا اظہار ہے ۔

  وَالَّذِىۡۤ اَطۡمَعُ اَنۡ يَّغۡفِرَ لِىۡ خَطِٓیْـئَـتِىۡ يَوۡمَ الدِّيۡنِاور جس سے میں امید رکھتا ہوں کہ روز جزاء میں میری خطا معاف فرمائے گا۔ “حضرت ابراہیمؑ جو نبی اور رسول ہیں ان کی منتہائے آرزو ہے کہ اللہ قیامت کے دن ان کی خطائیں معاف کر دے،حالانکہ وہ پوری طرح عارف باللہ ہیں۔وہ اللہ کی ذات کا گہرا شعور رکھتے ہیں اور ان کے نفس کی گہرائیوں میں رب کی معرفت رچی بسی ہے۔وہ اپنے نفس کو پاک و صاف تصور نہیں کرتے۔اس معرفت اور قرب کے ساتھ پھر بھی ڈرتے ہیں کہ ان سے کوئی خطا ہوئی ہو،وہ اپنے اعمال پر بھروسہ نہیں کرتے نہ وہ اپنے اعمال کی اساس پر اپنے آپ کو مستحق نجات کہتے ہیں۔وہ فضلِ ربی پر بھروسہ کرتے ہیں،اللہ کی رحمت کے طلبگار ہیں اور یہ رحمت خداوندی ہے جس کے وہ امیدوار ہیں کہ عفو و درگزر ہوگا اور تب ان کی نجات ہوگی۔
 تقویٰ اور خدا خوفی کا یہ پیغمبرانہ شعور ہے،ادب و احترام پر مبنی شعور ہے،نہایت احتیاط کا انداز ہے۔اللہ کی عظمتوں اور اللہ کے انعامات کا یہ حقیقی شعور ہے۔ اس شعور کے مطابق عمل کی قیمت بہت ہی کم ہے اور مغفرت کی قیمت زیادہ ہے۔

یوں ذات باری کے بارے میں حضرت ابراہیمؑ اپنے عقائد کے بنیادی عناصر ترکیبی یہاں بیان کرتے ہیں کہ رب العالمین وحدہ لاشریک ہے،زمین پر انسان کی زندگی کے چھوٹے چھوٹے معاملات میں بھی اللہ رب العالمین متصرف ہے۔بعث بعد الموت اور حساب و کتاب میں صرف فضل الٰہی بندے کو بچا سکتا ہے۔(فی ظلال القرآن)
 
   توحید کے امام عالی مقام حضرت ابراہیمؑ کا اُسوہ پکڑ کر ہمارے لئے یہ ناگزیر ہے کہ ہم اپنے رب کے در کا فقیر بن کر توحید میں دن دگنی رات چگنی ترقی کریں۔اس کے در کا فقیر بن کر ہی ہم اپنے رب سے وہ تعلق قائم کرسکتے ہیں جو کہ ہمیں اس فانی دنیا میں ٹھوکریں کھانے سے بچائے گا اور ہمیں زندگی کے نشیب و فراز میں رہنمائی فرما کر اپنے حقیقی منزل کی طرف کوچ کرنے میں کافی حد تک مدد دے گا۔یہی وہ اصلی سرمایہ ہے جس سے کوئی بھی بندہ مستغنی نہیں ہوسکتا۔یہ اللہ رب العزت کا فضل ہوتا ہے کہ وہ بندے کو اپنے در کا فقیر بننے کی توفیق دے کر اسے مختلف مواقع پر اپنے ہاں بُلا لیتا ہے۔اللہ کے در کا مہمان بننا کوئی عام سا اعزاز نہیں ہے،جو کہ صرف اور صرف ہدایت کے پیاسے بندے ہی کو سونپا جاتا ہے۔پھر جب توفیقِ الٰہی اس کی دستگیری فرماتی ہے تو اسے نورِ حق نظر آتا ہے،دعوتِ حق سُنائی دیتی ہے،دل میں شوق کا طوفان اُمڈتا ہے اور راستے کی ساری مشکلیں اس کے لئے سہل ہوتی جاتی ہیں۔ہم رات سے صبح،صبح سے رات کریں اور بھول کر بھی نہ سوچیں کہ اس سے ملنا ہے،اس سے مانگنا ہے۔مگر وہ ہے کہ جو بار بار پُکارتا ہے کہ آٶ اپنے گناہوں کی معافی مانگو،تاکہ میں تم کو معاف کردوں۔ایک طرف ربِ کریم منتظر ہیں اور میزبانی کا روپ اختیار کئے ہوئے ہیں تو دوسری طرف بندہ دنیوی مصروفیات میں اُلجھا ہوا اور بتوں کی زنجیروں سے جکڑا ہوا،وائے حسرتا!

 لہٰذا جو بندہ بھی اللہ رب العزت کی خوشنودی اور فلاحِ دارین کا متمنی ہو اس کے لئے یہ اشد ضروری ہے کہ وہ بس اپنے ربِ کریم کے دربار کا سائل بنا رہے۔کیوں نہ ہم انہی بندوں کا طریقہ اپنائیں گے جو کہ اک بھکاری کی طرح اپنے ربِ کریم کے دربار کے پاس کھڑے ہو جاتے ہیں اور جب تک انہیں منا کر اس کے ہاں اپنی دعاٶں کو استجابت نہ کروا لیتے ہیں تب تک اس کے دربار سے واپس جانے کا خیال بھی اپنے دل و دماغ میں نہ لاتے ہیں۔

Comments