Supplication : The Only Way Forward (Part 6)

کائنات میں انسان بہت سے امتیازات و اختیارات رکھنے کے باوجود اپنے خالق و مالک کے سامنے بے بس اور مجبور ہے۔ہر لحاظ اور ہر آن اس کی بارگاہ کا محتاج ہونے کے وجہ سے یہ ضروری تھا کہ اسے دربدر پھرانے کے بجائے مانگنے کا طریقہ بتلایا جائے۔چناچہ حضرت آدمؑ کو جب خطا سرزد ہوئی تو وہ اسی بات میں متفکر تھے کہ اب اپنے مشفق رب کو کیسے مناٶں؟ان کی ناراضگی کو کیسے رضامندی میں تبدیل کراٶں؟انہیں کن الفاظ اور کس نہج میں پکاروں؟اسی فکر نے انہیں بے چین اور اندر سے کھوکھلا کر رکھا تھا۔انہیں اللہ کی ناراضگی کے احساس سے زبان بند ہو چکی تھی۔دل اس صدمے سے خون خون ہو رہا تھا۔رات دن آنسو بہانے کے سوا انہیں کوئی کام نہ تھا۔ان کی یہ شکست و ریخت،درماندگی اور فروتنی اللہ کے حضور کام آئی،رحمتِ حق جوش میں آئی تو انہیں فوری طور پر کہا گیا کہ ادھر اُدھر بھاگنے کے بجائے اپنے رب کے حضور آکر چند کلمات کو لے لیا کریں۔ان کلمات کو پکڑ کر وہ اپنے رب کو پورے ذوق و شوق،شعور اور نہایت ہی عاجزی و فروتنی کے ساتھ پکارنے لگے۔قرآنِ پاک میں ہمیں اس تاریخی حقیقت کا تذکرہ نہایت ہی اختصار کے ساتھ ان الفاظ میں دیکھنے کو ملتا ہے:

فَتَلَقّٰٓى اٰدَمُ مِنۡ رَّبِّهٖ كَلِمٰتٍ فَتَابَ عَلَيۡهِ‌ؕ اِنَّهٗ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيۡمُ‏ ۞(البقرہ:37)

”پھر سیکھ لیے آدم نے اپنے رب کی طرف سے چند کلمات،تو اس نے اس کی توبہ قبول کی۔کیونکہ وہی توبہ قبول کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔“


  جن کلمات کو اللہ تبارک و تعالٰی نے انہیں بطورِ تحفہ عطا فرمائے ان کا تذکرہ ذیل کی آیت میں اس طرح آیا ہے:

رَبَّنَا ظَلَمۡنَاۤ اَنۡفُسَنَا وَاِنۡ لَّمۡ تَغۡفِرۡ لَـنَا وَتَرۡحَمۡنَا لَـنَكُوۡنَنَّ مِنَ الۡخٰسِرِيۡنَ ۞(الاعراف:23)

”اے ہمارے رب!ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا۔اب اگر آپ نے ہم سے درگزر نہ فرمایا اور ہم پر رحم نہ کیا تو ہم یقیناً نامرادوں میں سے ہو جائیں گے۔“

   اس آیت کے ذیل میں مولانا ڈاکٹر محمد اسلم صدیقیؒ نے ایک ایسا دلفریب اور شاہکار نوٹ لکھا ہے کہ جس کو پڑھتے ہی انسان رب کے دربار میں ندامت کے آنسو بہانے پر مجور ہو ہی جاتا ہے اور اس کے در کا فقیر بننے میں فخر محسوس کرنے لگتا ہے۔لکھتے ہیں:
 یعنی جیسے ہی انھیں تنبہ ہوا اور پروردگار نے انھیں ان کی غلطی پر ٹوکتے ہوئے پکارا تو بےساختہ ان پر وہ کیفیت طاری ہوئی جو گناہ کے شدید احساس کے بعد طاری ہوتی ہے اور فوراً انھوں نے اپنے رب کے دروازے پر دستک دی اور جیسا کہ عرض کیا جا چکا ہے انھوں نے سب سے پہلے نجانے کتنی گریہ وزاری کے بعد اپنے رب سے وہ کلمات سیکھے جن سے وہ اپنے رب کو پکار سکیں اور پھر انھوں نے اپنے رب کو پکارتے ہوئے کہا کہ اے ہمارے رب! ہم کوئی عذر پیش نہیں کرتے کہ ہم سے یہ گناہ کیوں سرزد ہوا،ہم اعتراف کرتے ہیں کہ ہم نے یہ حرکت کر کے آپ کی شان میں کوئی کمی نہیں کی بلکہ اپنے نفسوں کو تباہ کیا اور اپنی جانوں پر ظلم ڈھایا ہے۔کیونکہ ہماری جانیں آپ کی عطیہ ہیں،ہمارا جسم آپ کی دین ہے،ہمارے احساسات آپ کی عطا کردہ نعمت ہیں،ہماری قوتیں سراسر آپ کی بخشش ہیں،ہمارے پاس جو کچھ ہے وہ سب آپ کا ہے اس لحاظ سے ان سب کا آپ کے سامنے جھکنا آپ کا حق ہے ہم نے اس حق کو کسی دوسرے کے حوالے کر کے اپنے آپ پر ظلم کیا۔اب ہم اپنے اس گناہ کا اعتراف کرتے ہوئے آپ ہی سے دست بستہ پوری عاجزی کے ساتھ عرض کرتے ہیں کہ آپ ہمارے اس گناہ کو معاف فرما دیں ہم اس بات کا یقین رکھتے ہیں کہ آپ کے سوا کوئی جائے پناہ نہیں:

جس  نے  دیا  ہے  درد  وہی چارہ  گر   بھی  ہے

کہنی ہے چارہ گر سے ہی خود چارہ گر کی بات


 ہمارے اس درد کی چارہ گری صرف آپ کے ہاتھ میں ہے اس لیے ہم آپ ہی کے دروازے پر دستک دیتے ہیں اور آپ ہی کے آستانے پر سجدہ ریز ہوتے ہیں۔ہم جانتے ہیں کہ اس آستانے کے سوا ہمارا کوئی آستانہ نہیں اور اس خزانے کے سوا کوئی اور خزانہ نہیں جہاں سے یہ قیمتی سوغات ملتی ہو اس لیے آپ ہم پر رحم فرمائیں اور ہمارے گناہ کو معاف فرما دیں کیونکہ ہماری معافی کا تعلق سراسر آپ کے رحم و کرم سے ہے۔گناہ گار کا گناہ صرف رحم و کرم کے پانی ہی سے دھل سکتا ہے اس کے علاوہ دنیا کے سمندر بھی اس گندگی کو ختم نہیں کرسکتے۔ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کے حالات میں ایک واقعہ لکھا گیا ہے کہ وہ اللہ کے گھر کا طواف کر رہے تھے کہ انھوں نے عالم غیب سے ایک آواز سنی کہ کسی شخص کا نام لے کر کہا جا رہا ہے کہ ہمارے گھر سے نکل جاؤ تمہارا یہاں آنا ہمیں منظور نہیں۔شیخ نے اس نام کے آدمی کو تلاش کرنا شروع کیا حتٰی کہ وہ انھیں مل گئے پوچھا کہ یہ آواز جو میں سن رہا ہوں آپ کو بھی سنائی دیتی ہے یا نہیں؟کہنے لگے میں بھی سنتا ہوں پوچھا پھر آپ یہاں سے چلے کیوں نہیں جاتے انھوں نے نہایت تعجب سے شیخ کی طرف دیکھا اور کہا بھلے آدمی آپ ہی مجھے بتائیں میں کہاں جاؤں؟کیا اس دروازے کے علاوہ کوئی اور دروازہ ہے جہاں جا کر دستک دوں یا اس آستانے کے علاوہ کوئی اور آستانہ ہے جہاں جا کر سر جھکاٶں۔ جب اس چوکھٹ کے سوا کوئی اور چوکھٹ نہیں تو مجھے جب تک معافی نہیں مل جاتی یہیں جبہ سائی کرتا رہوں گا اور یہیں اپنا سر پٹختا رہوں گا۔اس لیے حضرت آدم اور حضرت حوا بھی یہ فرما رہے ہیں کہ تیرے سوا اور آستانہ کوئی نہیں کہ جہاں ہم جا کر معافی کے طلبگار ہوں اس لیے تو نے اگر ہمیں معاف نہ فرمایا تو پھر ہماری نامرادی اور تباہی میں کوئی کسر باقی نہیں رہ جائے گی۔اس سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ گناہ ابلیس سے بھی ہوا لیکن اس نے بجائے عجز و اعتراف کے انکار و بغاوت کا راستہ اختیار کیا اور ہمیشہ کے لیے راندہ درگاہ ہوگیا اور گناہ حضرت آدم اور حضرت حوا سے بھی ہوا لیکن وہ فوراً اللہ کی بارگاہ میں جھک گئے جس سے معلوم یہ ہوتا ہے کہ گناہ فرشتوں اور اللہ کے پیغمبروں کے سوا ہر مخلوق سے ہوسکتا ہے کیونکہ؎

چلے بچ کر کوئی کتنا وہ ٹھوکر کھا ہی جاتا ہے


  کوئی چال لڑکھڑاہٹ سے پاک نہیں ہوتی،کوئی عمل معصیت کی جراہتوں سے محفوظ نہیں ہوتا،کوئی خیال آوارہ خیالی سے بچا ہوا نہیں ہوتا۔یہاں قدم قدم پر محرکات شر اور آلودگیوں کے بھنور موجود ہیں جن سے ہر وقت محفوظ رہنا اولاد آدم کے لیے آسان نہیں کسی بھی وقت گناہ کا ظہور ہوجانا بالکل ممکن ہے اس لیے حضرت آدم کا رویہ ہمیں یہ راستہ دکھاتا ہے کہ تم گناہوں سے معصوم پیدا نہیں کیے گئے ہو تمہارا کام یہ ہے کہ کبھی اپنے اندر انکار کی جرأت نہ پیدا ہونے دینا یہ ابلیس کا رویہ ہے تم سے اگر غلطی ہوجائے اور کبھی معصیت کے راستے پر پڑجاؤ تو تنبہ ہوجانے کے بعد فوراً توبہ کا راستہ اختیار کرنا یہی ابلیس اور آدم کے رویے میں فرق ہے اور اللہ کریم کا یہ وعدہ ہے کہ کسی کے گناہ اگر زمین و آسمان کے درمیانی حصے کو بھر بھی دیں لیکن وہ جب بھی اخلاص اور عاجزی کے ساتھ ہم سے معافی مانگے گا اور آئندہ گناہ نہ کرنے کا یقین دلا دے گا تو ہم اسے معاف کردیں گے بلکہ اس کا کرم اس حد تک بے پایاں ہے کہ وہ صرف گناہوں کو معاف ہی نہیں کرتا،بلکہ گناہوں کو نیکیوں سے بدل دیتا ہے۔ سورة الفرقان میں اس نے ارشاد فرمایا ہے کہ جو آدمی توبہ کرتا ہے اور پھر نیک عمل کا راستہ اختیار کرلیتا ہے :

 فَاُولٰٓئِکَ یُبَدِّلُ اللہُ سَیِّاٰتِھِمْ حَسَنَاتٍ ط (الفرقان :70)

”تو اللہ ان لوگوں کے گناہوں کو نیکیوں سے تبدیل کردیتا ہے“

   بلکہ بعض دفعہ تو یہ رحمت ایسے جھوم کر برستی ہے کہ گناہ صرف نیکی ہی میں تبدیل نہیں ہوتا بلکہ معافی اور توبہ کی صورت میں ڈھیروں نیکیوں کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ایک صحابی کا واقعہ ہے کہ ایک دن نیند نہ کھلنے کے باعث ان کی تہجد چھوٹ گئی جب آنکھ کھلی تو فجر کی اذان ہوچکی تھی۔فجر کی نماز پڑھی لیکن دل غم سے نڈھال ہو رہا تھا اور بار بار آنکھوں میں آنسو آرہے تھے کہ ہائے مجھ سے تہجد کیوں چھوٹ گئی۔پورا دن اللہ سے معافی مانگتے گزارا کہ میں یہ غفلت کی نیند کیوں سویا جس کی وجہ سے میری تہجد رہ گئی چناچہ دوسرے روز رات کو سوتے ہوئے جب تہجد کا وقت ہوا تو دیکھا کہ انھیں کوئی جگا رہا ہے انھیں حیرت ہوئی کہ میری خواب گاہ میں کون آگیا،پوچھا کہ تم کون ہو؟وہ بولا میں شیطان ہوں۔ پوچھا:تم کیوں آئے ہو؟کہا میں اس لیے آیا ہوں کہ تمہیں تہجد کے لیے اٹھا دوں۔انھوں نے حیران ہو کر کہا کہ شیطان تو لوگوں کو تہجد کے وقت سلاتا ہے تاکہ وہ تہجد نہ پڑھ سکیں تم کیسے شیطان ہو جو مجھے تہجد کے لیے اٹھا رہے ہو؟اس نے کہا کہ کل تمہاری تہجد چھوٹ گئی اور تم نے دن بھر رو رو کر برسوں کی تہجدیں اپنے نام لکھوا لیں۔میں آج اس لیے آیا ہوں کہ اٹھو تہجد پڑھو اور ایک ہی تہجد کا ثواب پاٶ۔میں یہ نہیں چاہتا کہ آج پھر اگر تمہاری تہجد چھوٹ جائے تو تم برسوں کی تہجدیں پھر اپنے نام لکھوا لو۔اس سے معلوم ہوا کہ تہجد پڑھنے سے تو ایک تہجد کا ثواب ملتا ہے لیکن معافی اور توبہ کی صورت میں نجانے کتنی تہجدوں کا ثواب مل جاتا ہے۔جس اللہ کی کرم نوازیوں کا یہ عالم ہے اسے پکارنے والا کیسے محروم رہ سکتا ہے۔چناچہ حضرت آدم اور حضرت حوا نے جب اپنی اس غلطی پر پروردگار کو مغفرت و توبہ کے لیے پکارا اور پھر بار بار عاجزی سے اس بات کا اظہار بھی کیا کہ یا اللہ تیرے سوا کوئی دروازہ نہیں جہاں ہم جائیں،تیرے سوا کوئی معاف کرنے والا نہیں اگر آپ نے ہمیں معاف نہ کیا اور ہم پر رحم نہ کھایا تو ہم تباہ و برباد ہوجائیں گے۔سورة البقرہ میں بتایا گیا ہے کہ اللہ نے پھر ان کی توبہ قبول فرما لی اور گناہ کا یہ داغ جو ان کے دامن پر لگ گیا تھا اسے دھو ڈالا اور قیامت تک کے لیے ان کے اس حسن عمل کے طفیل یہ اصول ٹھہرا :

 التائب من الذنب کمن لا ذنب لہ

 ”گناہ سے توبہ کرنے والا ایسا ہے جیسے اس نے کوئی گناہ نہیں کیا“

 
    انسان کو اس سے بڑھ کر خوش قسمتی اور کیا ہو سکتی ہے کہ اسے اپنے صالح باپ کا منہج اختیار کرنے کی توفیق مل کر اپنے ربِ کریم کی رضا حاصل ہو جائے۔اپنے مشفق رب کا دربار چھوڑ کر انسان کو ذلت و رسوائی کے سوا آخر کیا مل سکتا ہے؟انسان کے لئے واقعی طور پر رب ہی وہ مضبوط سہارا ہے جو کبھی ٹوٹنے والا نہیں ہے۔رب ہی وہ واحد ذات ہے جو بندے کو ہر مصیبت،بلا اور ہلا دینے والی تکلیف سے نجات دلا سکتی ہے،اسے آزمائشوں کے بھنور سے نکال سکتی ہے،اسے طوفانوں کے مقابلے میں ثبات دے سکتی ہے،اسے طاغوت کے دریاؤں کا رُخ موڑنے کی ہمت دے سکتی ہے،اسے برائیوں کے طوفان میں تنہا کھڑا کر سکتی ہے،اسے تاریخ کا دھارا بدل دینے کا عزم دے سکتی ہے،اسے کفر کی اندھیری رات میں اسلام کا چراغ روشن کرنے کی توفیق دے سکتی ہے،اسے پوری دنیا سے ٹکر لینے کا عزم باندھ لینے کا جذبہ دے سکتی ہے،اسے کانٹوں کا راستہ لینے پر مطمئن کر سکتی ہے،اسے دین کے راستے میں ہر قسم کی قربانی دینے کے لیے تیار کر سکتی ہے،اسے اپنے قُرب کے شرف سے نواز سکتی ہے،اسے آفاق میں گم ہونے کے بجائے آفاق ہی اپنے آپ میں گم کرنے کا پروانہ سونپ سکتی ہے،اسے اپنے اسلاف کے نقشِ قدم پر چلا سکتی ہے،اسے سمجھوتہ کا راستہ اپنانے کے بغیر موت کو گلے لگانے کے راستے کی طرف گامزن کر سکتی ہے،اسے جلد بازی کے صفت سے لیث کرانے کے بجائے صبر جیسے عظیم صفت سے متصف کر سکتی ہے،اسے دنیا کی نعمتوں کے بجائے جنت کے اعلٰی بالاخانوں کا سودا کرنے کا پُلان دے سکتی ہے،اسے جنت کی دلچسپیوں میں مشغول ہونے کا خواب دے سکتی ہے،اسے اپنے ہاں میزبانی کے شرف سے نواز سکتی ہے،اسے زندگی کے آخری سانس تک اپنے دامنِ رحمت میں رکھ سکتی ہے،دین کی راہ میں اس کے دشمنوں کو خود ہی نمٹنے کا کام کر سکتی ہے،اپنےگناہوں پر پچھتانے پر فوری طور پر اس کے اوپر ابرِ رحمت لا سکتی ہے،اپنے دربار میں حاضر ہوتے ہوئے دیکھ کر اس کی بے قراریوں کو محسوس کر سکتی ہے،اس کے نذر و نیاز کو اپنے دامن میں خوشی خوشی لے سکتی ہے،اسے مایوسی کے دلدل سے نکال سکتی ہے،اس کی بھرے منجدھار میں ڈوبی کشتی کو کنارا لگا سکتی ہے،اس کی تقدیر کو محض ایک”کُن“سے بدل سکتی ہے،اس فانی دنیا سے نکلتے وقت اس کی کارگزاری کو مقبول ٹھہرا کر بالاٰخر اسے اپنے دیدار کے شرف سے نواز سکتی ہے۔

    ان میں سے وہ کون سا کام ہے جو اللہ رب العزت کی ذات نہیں کر سکتی ہے؟انسانوں کے آستانوں پر کچھ دیر پڑاؤ ڈال کر جب بالاٰخر انسان کو خالی ہاتھوں ہی واپس لوٹنا پڑتا ہے تو یہ رب کے در کا فقیر بن ہی جاتا ہے۔اللہ رب العزت اس کے انتظار میں ہوتا ہے کہ کب یہ بندہ فقیر میرے سامنے زانویہ تلمذ بیٹھ کر مجھے منائے؟کب یہ اپنے دل کے زخموں کو میرے سامنے کھول دے؟کب یہ زندگی کی پیچیدگیوں کو میرے سامنے بیان کر دے؟کب یہ میرے دربار میں آکر اپنے دامن کو خوشیوں سے بھر دے؟کب یہ میری رحمت میں سے اپنا حصہ لے لے؟کب یہ ندامت کے آنسوؤں سے اپنے گناہوں کو دھل دے؟کب یہ امید کا پروانہ ہاتھ میں لئے ہوئے میرا مہمان بن جائے؟کب یہ میرے سامنے بیٹھ کر دل کا بوجھ ہلکا کر ڈالے؟کب یہ اپنے دل و دماغ کی رعنائیوں سے لے کر جسم و جان کی تمام توانائیوں کو میرے راستے میں جھونک دے؟کب یہ گناہ ہونے کے بعد”فاغفرلی“کا کلمہ وردِ زبان رکھ کر میری طرف دوڑ کر آئے؟کب یہ اپنی حاجتوں کی ڈھیر میرے سامنے رکھ دے؟کب یہ اپنی قربانیوں کو میرے سامنے پیش کرکے ان کی”قبولیت“ کے لئے مجھے پُکارے؟کب یہ میرا بندہ بن کر میرے خزانوں کو لُٹادے؟کب یہ میرے دربار میں آکر حقیقی مزہ کو چکھے؟کب یہ دوسرے آستانوں سے واپس آکر میری ملاقات سے مستفیض ہو جائے؟کب یہ میرے دربار میں آکر میری کرم فرمائیوں کو دیکھے؟کب یہ میرے در پر امید،یقین اور عاجزی کے ساتھ پُکارنے کے لئے آئے؟کب یہ میرے دربار میں آکر میرے ساتھ سرگوشیوں کا لُطف اٹھائے؟کب یہ فضائے بدر پیدا کر کے فرشتوں کی نصرت کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لے؟کب یہ دنیا میں خلافت کا نظام قائم کرکے مجھے حقیقی عزت و وقار دے دے؟کب یہ دنیا میں ڈوب کر اور اس پر جان دینے کے بجائے اسے میرے لئے آگ لگا کر آئے؟کب یہ سر پر شہادت کا تاج سجا کر میرے سامنے حاضر ہو جائے؟وہ منتظر ہے اپنے چہیتے بندے کا لیکن بندہ ہی سرکشی کا راستہ اختیار کئے ہوئے ایسے مشفق رب کو چھوڑ کر دوسرے آستانوں پر ڈھیرا ڈال لیتا ہے۔اس فعلِ بد کی پاداش میں وہ اپنے ربِ کریم کی ناراضگی مول لیتا ہے۔ربِ کریم کے دربار کو چھوڑ کر دراصل بندہ اس کی ناقدری کرتا ہے اور اس بندے کی مشابہت ان کُفار سے ہوتی ہے جو واقعی طور پر اپنے ربِ کریم کو چھوڑ کر اس کے قدر دان نہ بن بیٹھتے ہیں۔منجملہ ان تمام نادان بندوں کی طرف اشارہ کرکے روٹھا ہوا رب ایسے پُرکشش الفاظ میں”شکوہ“کرتا ہے کہ پڑھتے ہی زندہ ضمیر انسان بے قراری کی حالت میں جھومنے لگتا ہے اور اس کے رخساروں سے آنسوؤں کا نہ تھمنے والا سلسلہ خود ہی بہنے لگتا ہے:

مَا قَدَرُوا اللّٰهَ حَقَّ قَدۡرِهٖؕ اِنَّ اللّٰهَ لَقَوِىٌّ عَزِيۡزٌ‏ ۞(الحج:74)

”انھوں نے اللہ کی قدر نہ پہچانی جیسے اس کی قدر پہچاننے کا حق تھا۔بیشک اللہ تعالیٰ بڑا طاقتور اور سب پر غالب ہے۔“


   رب کے در پر ہمیں سب کچھ اپنے مقررہ وقت پر ہی مل سکتا ہے۔یہ ایک ایسا عقیدہ ہے جو انسان کو نجات کی راہ پر گامزن کر سکتا ہے۔یہی وہ عقیدہ ہے جو انسانی وجود میں ایک نئی روح پھونک سکتا ہے،اس کے ایمان کو جِلا بخش کر بالاٰخر اسے رب کے در کا فقیر بنا ہی دیتا ہے۔اس سے بڑھ کر انسان کو کیا اعزاز مل سکتا ہے کہ اسے رب کے در کا فقیر بننے کی توفیق مل جائے؟مان لیجیے کہ وہ رب العٰلمین ہماری بد اعمالیوں،بدکاریوں اور اسلامی تعلیم سے روگردانی کی وجہ سے ہم سے ناراض ہیں،تو کیا ہمیں اس کی صدا”لَا تَقۡنَطُوۡا مِنۡ رَّحۡمَةِ اللّٰهِ‌“(یعنی اللہ کی رحمت سے نا اُمید مت ہو) سننے اور محسوس کرنے کو نہیں آتی؟وہ آج بھی درد بھرے انداز میں ہمیں اپنے در پہ بُلا رہا ہے اور ہمارے ندامت کے آنسوؤں کو پونچھنے کے لئے تیار ہے،بس اس کے در پر حاضری دینے کی دیر ہے۔جہاں خدائے جبار و قہار کا جوش انتقام بھڑکا ہوا ہے،وہاں اس کا دریائے رحمت بھی موجزن ہے۔آئیے ہم سب مل کر اپنے مشفق باپ حضرت آدمؑ کا اُسوہ پکڑ کر اس وقت رب کے در کا سُوالی بننے کا عہد کریں اور ساتھ میں توبہ و استغفار اور گریہ وزاری کے آنسوؤں سے اپنے گناہوں کے آگ کو بُجھادیں،یہی ہمارے لئے نجات کا واحد راستہ ہے۔جب تک بچہ نہیں روتا ماں نہ بچے کو دودھ دیتی ہے اور نہ ہی پیار و محبت کرتی ہے۔مولانا رومؒ نے کیا ہی خوب کہا ہے؎

   تانہ گرید کود کے حلوا  فروش
   بحر بخشائش نمی آید  بجوش
   تانہ  گرید  ابر کے خندد و چمن
   تانہ گرید  طفل کے  جوشد  لبن
   اے کہ خواہی کزبلا جاں  رابری
   جان  خود  را  در  تضرع  آوری
   در تضرع  باش تا  شاداں  شوی
   گریہ کن تابے وہاں خنداں  شوی
   در پس ہر گریہ آخر خندہ ایست
   مرد  آخر بیں مبارک بندہ  ایست

”جب تک حلوا فروش بچہ نہ روئے دریائے کرم جوش میں نہیں آتا۔رونا عجیب تاثیر رکھتا ہے کہ جب تک ابر پر گریہ طاری نہ ہو(بارش نہ برسے)چمن کیسے ہنس سکتا ہے،اس کو شادابی کہاں نصیب ہوسکتی ہے۔جب تک بچہ روئے نہیں ماں کا دودھ کیسے جوش مار سکتا ہے۔اگر بلا اور مصیبت سے نجات چاہتے ہو تو(حق تعالیٰ کے سامنے) گریہ وزاری سے کام لو۔حق تعالیٰ کے سامنے آہ و زاری میں مصروف رہو تاکہ مسرور اور شاد کام ہوجائے۔گریہ کرتے رہو تاکہ دہن نہیں بلکہ دل ہنسے اور خوش ہو۔ہر رونے کا انجام خوش ہونا ہے،جو شخص انجام پر نظر رکھے مبارک بندہ وہی ہے۔“

Comments