Supplication : The Only Way Forward (Part 5)



     دعا،عاجزی،انکساری اور بے چارگی کے اظہار کو کہتے ہیں۔عبادت کی اصل روح اللہ تعالٰی کے سامنے اس کی قدرت و اطاعت اور اپنی کم مائیگی و ذلت کا اظہار کرنا ہے۔انسان رحمِ مادر میں جب نطفہ کی شکل میں قرار پاتا ہے تو اس وقت سے ہی وہ حاجتوں اور ضرورتوں کا غلام بن جاتا ہے اور اس کی حاجتوں اور ضرورتوں کا یہ لامتناہی سلسلہ زندگی کے آخری سانس تک ختم نہیں ہوتا۔مرنے کے بعد بھی وہ دوسروں کا محتاج ہوتا ہے۔دنیا میں اگرچہ انسان کو اپنے ہی جیسے انسانوں سے سابقہ پڑ کر ان کی مدد کی ضرورت پڑتی ہے لیکن دنیا میں انسان کو سب سے بڑھ کر ضرورت اپنے خالقِ حقیقی ہی کی ہوتی ہے،جو انسان کا سب سے زیادہ مشفق اور خیرخواہ ہوتا ہے،جو بندے کو کسی بھی حال میں چھوڑنا نہیں چاہتا۔جو ذات رگِ جان سے بھی زیادہ قریب ہو اسے چھوڑ کر کسی اور کے در کا فقیر بننا عقلمندی اور دانشمندی کا کام نہیں ہو سکتا۔انسان کبھی کبھار مسائل کے بھنور میں اس طرح پھنس جاتا ہے کہ اسے کوئی امید باقی نہیں رہتی،سب سہارے ٹوٹ جاتے ہیں،سارے وسائل جواب دیتے ہیں،اپنے بھی بے گانے ہو جاتے ہیں،وہ لوگ بھی ساتھ دینا چھوڑتے ہیں جو ہمیشہ اور ہر حال میں نصرت و امداد کا،متاع زیست لٹانے کا اور اپنی جان تک نچھاور کرنے کا دم بھرتے رہتے ہیں۔بہ الفاظ دیگر انسانی زندگی میں ایسا وقت بھی آجاتا ہے کہ اپنا سایہ تک بھی ساتھ دینا چھوڑ دیتا ہے۔ایک شاعر نے اسی حقیقت کو اپنے الفاظ میں اس طرح بیان کر دیا ہے کہ؎

     وقت  انسان  پہ  ایسا  بھی کبھی آتا ہے

     راہ میں چھوڑ کے سایہ بھی چلاجاتا ہے


      ایسے میں اس کی امیدوں کا چراغ،تمناؤں کی کرن،آرزؤوں کا محل،آشاؤوں کی جوتی صرف ایک رہ جاتی ہے اور وہ ہوتی ہے ربِّ کائنات کی ذات کریم۔ ہاں وہی ذات باقی رہ جاتی ہے جو انسان کو کبھی تنہا اور بےسہارا نہیں چھوڑتی۔جو اسکی پُکاروں کو جواب بھی دیتی ہے۔پوری دنیا سے مایوس ہو کر بے بس،لاچار،مقہور و مجبور،ستم رسیدہ،کمزور و لاغر بندہ جب اسے پکارتا ہے تو وہ ذات اس کی چارہ جوئی کرتی ہے،وہ اس کے دُکھوں کا مداوا کرتی ہے۔وہ بندے کے زخموں کو ہلکا کر دیتی ہے اور بندہ جو کچھ مانگتا ہے اس کی ذات اسے دے کے ہی رہتی ہے۔وہ ذات ہر وقت منتظر رہتی ہے کہ بندہ کب اسکے در پر آجائے تاکہ وہ اس کی جھولی کو خوشیوں سے بھر دے۔وہ ذات ستم رسیدہ افراد کی فریاد کو سن کر اسے پورا بھی کر دیتی ہے۔وہ ذات حکمت کے تحد اپنے بندے کی حاجت کو مٶخر تو کر سکتی ہے لیکن تڑپانا اس کے شایان شان نہیں ہے۔وہ ذات بندے کی آہوں سے خوش ہو کر اسے مزید توفیق کا پروانہ سونپتی ہے۔وہ ذات اپنے بندے کو اپنے دربار میں ایک مہمانِ عزیز سمجھ کر اسے خوشی و مسرت کے ساتھ رخصت کر دیتی ہے۔وہ ذات ہے ہی ایسی جس کے درِ اقدس سے کبھی کوئی خالی ہاتھ نہیں لوٹتا،بس اسے پکار کر دیکھ تو لو!

      بندہ رب کے علم کو کہاں عبور کر سکتا ہے اور وہ اس کی پُلاننگ کو کیسے سمجھ سکتا ہے؟وہ”علیم“ اور”حکیم“رب اپنے بندے کے لئے وہی کرتا ہے جس میں اس کے لئے خیر ہی خیر ہو اور شر کی اس میں ذرہ برابر بھی آمیزش نہ ہو۔بندے کو جب تک”دعا“ کے پورے فلسفے پر گہرائی سے نظر نہ ہو تب تک یہ اس کے لئے سود مند ثابت نہیں ہو سکتا اور غالب گمان یہی ہے کہ بندہ مایوسی کا شکار ہوکر راضی برضائے رب نہ رہ کر اپنے ہاتھوں خود ہی اپنے نقصان کا ارتکاب کر بیٹھے گا۔یہ بندے کے لئے سب سے بڑی ناکامی اور شیطان لعین کے لئے ایک عظیم کامیابی سے کم نہیں ہوتی۔کیونکہ شیطان چاہتا بھی یہی ہے کہ بندے کو کسی بھی طرح رب کے در سے اٹھا کر ہی لے اور غیر اللہ کے آستانے پر جبین نیاز خم کرادے۔بندہ رب کے دربار کو چھوڑ کر آخر کہاں جا سکتا ہے؟اس کے پھٹے ہوئے دل اور بے چین روح کو کون محسوس کر سکتا ہے؟یہ اللہ رب العزت ہی ہے جو بندے کی فریادوں کو کان لگا کر سنتا ہے اور اپنی حکمت کے تحت ہی انہیں استجابت کے شرف سے نوازتا ہے۔بندے کو چاہئیے کہ وہ اپنے وجود کو اللہ پاک کے حوالے کر کے بس اسی سے مانگتا رہے اور اپنے ہاں یہی امید دامن گیر رکھے کہ میرا رب میرے لئے بہترین فیصلے ہی کر ڈالیں گے۔اسی بھروسہ اور اعتماد سے بندے کے بہت سارے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ہو سکتا ہے کہ استجابت تک بندے کو صبر کے بہت سارے گھونٹ پینے پڑیں گے،جنہیں دوسروں کو پلانا تو آسان ہے لیکن خود ایک ایک گھونٹ پی کر پتا چل جاتا ہے کہ ان کو پینا کتنے مشکل ہوتا ہے۔یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ جس رب العٰلمین نے بندے کو”اشرف المخلوقات“ کے لقب سے نوازا ہے وہ زندگی کے مختلف موڑوں پر اسے اکیلے اور بے یارومددگار چھوڑے گا۔وہ اپنے بندے کو اپنے دربار میں سجدہ ریز دیکھ کر فرشتوں کے سامنے اس کی قدرومنزلت کو بڑھا دیتے ہیں اور اسے اُس مقام پر فائز کر دیتے ہیں کہ فرشتے بھی رشک کرنے لگتے ہیں۔یہ رتبہ آنکھ بند کر کے نہیں دیا جاتا بلکہ عرش پر بندے کی دل کی گہرائیوں میں اٹھتے ہوئے موجوں کو چک کیا جاتا ہے،اس کے خیالات اور وساوس کو تولا جاتا ہے،اس کے امنگوں اور ولولوں کو جانچا جاتا ہے،اس کے درد کو محسوس کیا جاتا ہے اور اس کی روح کی سمت کو دیکھا جاتا ہے۔رب کو پکار کر اس کے فیصلوں کا انتظار کرنے کا مزہ ہی کچھ اور ہے،جو بندے کو رب کے دربار کی طرف بار بار کھینچ کر لاتا ہے۔جو بندہ بھی رب کے فیصلوں پر راضی نہیں رہتا اسے بالاٰخر ناکامی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا۔

     دعا کے ضمن میں حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ نے بہت کچھ لکھا ہے لیکن کئی جگہوں پر انہوں نے ایسی تحریریں لکھی ہیں کہ پڑھ کے ہی انسان اندر سے ایک ٹھنڈک سی محسوس کرتا ہے اور آناً فاناً وہ رب کے در کا فقیر بن کر اپنے سارے معاملات کو اللہ کے سپرد کر ہی دیتا ہے۔ایک جگہ لکھتے ہیں:دعا کی حقیقت الله تعالیٰ کے دربار میں درخواست پیش کرنا ہے،جس طرح حاکم کے یہاں درخواست دیتے ہیں،کم سے کم دعا اُس طرح تو کرنا چاہیے کہ درخواست دینے کے وقت آنکھیں بھی اسی طرف لگی ہوتی ہیں،دل بھی ہمہ تن اُدھر ہی ہوتا ہے،صورت بھی عاجزوں کی سی بناتے ہیں،اگر زبانی کچھ عرض کرنا ہوتا ہے تو کیسے ادب سے گفتگو کرتے ہیں اور اپنی عرضی منظور ہونے کیلئے پورا زور لگاتے ہیں اور اس کا یقین دلانے کی پوری کوشش کرتے ہیں کہ ہم کو آپ سے پوری امید ہے کہ ہماری درخواست پر پوری توجہ فرمائی جائے گی،پھر بھی اگر عرضی کے موافق حکم نہ ہوا اور حاکم عرضی دینے والے کے سامنے افسوس ظاہر کرے کہ تمہاری مرضی کے موافق تمہارا کام نہ ہوا تو ہم فوراً یہ جواب دیتے ہیں کہ حضور مجھ کو کوئی رنج یا شکایت نہیں ہے،اس معاملہ میں میری پیروی میں کمی رہ گئی تھی یا قانون ہی دوسرا تھا،حضور نے کچھ کمی نہیں فرمائی اور اگر اس حاجت کی آئندہ بھی ضرورت ہو تو ہم کہتے ہیں کہ مجھ کو نا امیدی نہیں،پھر عرض کرتا رہوں گا اور اصلی بات تو یہ ہے کہ مجھ کو حضور کی مہربانی کام ہونے سے زیادہ پیاری چیز ہے،کام تو خاص وقت یا محدود درجہ کی چیز ہے،حضور کی مہربانی تو عمر بھر کی اور غیر محدود درجہ کی دولت اور نعمت ہے،ہم مسلمانوں کو دل سے غور کرنا چاہیے!!دعا مانگنے کے وقت اور دعا مانگنے کے بعد جب اس کا کوئی نتیجہ ظاہر نہیں ہوتا،تو کیا ہم خدا تعالیٰ کے ساتھ ایسا ہی برتاٶ کرتے ہیں،سوچیں اور شرمائیں،جب ہم یہ برتاٶ نہیں کرتے تو اپنی دعا کو دعا یعنی درخواست کس منہ سے کہتے ہیں،واقع میں کمی ہماری ہی طرف سے ہے،ہماری دعا درخواست ہی نہیں ہوتی،جب ہم اس طرح دعا مانگیں گے،تو پھر دیکھیں کیسی برکت ہوتی ہے اور برکت کا یہ مطلب نہیں کہ جو مانگیں گے،وہی مل جائے گا،کبھی تو وہی چیز مل جاتی ہے،جیسے:کوئی آخرت کی چیزیں مانگے،کیونکہ وہ بندہ کے لئے بھلائی ہی بھلائی ہے البتہ اس میں ایمان اور اطاعت شرط ہے کیونکہ وہاں کی چیزیں قانوناً اُسی شخص کو مل سکتی ہیں اور کبھی وہ چیز مانگی ہوئی نہیں ملتی جیسے:کوئی دنیا کی چیزیں مانگے کیونکہ وہ بندہ کے لئے کبھی بھلائی ہے کبھی برائی،جب اللہ تعالی کے نزدیک بھلائی ہوتی ہے اس کو مِل جاتی ہے اور جب بُرائی ہوتی ہے تو نہیں ملتی جیسے:باپ بچہ کو پیسہ مانگنے پر کبھی دے دیتا ہے اور کبھی نہیں دیتا جب وہ دیکھتا ہے کہ یہ اس سے ایسی چیز خرید کر کھائے گا جس سے حکیم نے منع کر رکھا ہے۔تو برکت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ مانگی ہوئی چیز مل جائے بلکہ برکت کا مطلب یہ ہے کہ دعا کرنے سے حق تعالیٰ کی توجہ بندہ کی طرف ہوجاتی ہے،اگر وہ چیز بھی کسی مصلحت سے نہ ملے تو دعا کی برکت سے بندہ کے دل میں تسلّی اور قوت پیدا ہوجاتی ہے اور پریشانی اور کمزوری جاتی رہتی ہے اور یہ اثر حق تعالٰی کی اس خاص توجہ کا ہوتا ہے جو دعا کرنے سے بندہ کی طرف حق تعالیٰ کو ہوجاتی ہے اور یہی خاص توجہ اجابت اور دعا کی قبولیت کا وہ یقینی درجہ ہے جس کا وعدہ حق تعالٰی کی طرف سے دُعا کرنے والے کے لئے ہوا ہے اور مانگی ہوئی ضرورت کا عطا فرما دینا یہ اجابت اور قبولیت کا دوسرا درجہ ہے،اس کو ایک مثال سے سمجھنا چاہیے،کوئی حکیم سے درخواست کرے کہ میرا علاج فلاں دوا سے کردیجیے،تو اگر حکیم علاج شروع کردیں،تو یہ سمجھا جائے گا کہ علاج کی منظوری حاصل ہوگئی اور یہی اصل منظوری ہے،باقی حکیم سے کسی خاص دوا کا مطالبہ اس کی منظوری حاصل ہونا ضروری نہیں ہے،کبھی حاصل ہوجائے گی اور کبھی نہیں ہوگی،اس بارے میں حکیم مریض کی مصلحت دیکھے گا۔(ماخوذ از حیاة المسلمین)
    
     بندے کی عافیت اسی میں ہے کہ وہ اپنے ربِ کریم کے در کا ہی فقیر بنا رہے،اسے پورے آداب و شرائط اور شعور کے ساتھ پُکارے۔دعا کی استجابت کو جلدی میں نہ دیکھ کر دوسرے آستانوں پر بندے کو آخر کیا مل سکتا ہے؟وہاں ذلت و رسوائی ہی اس کے مقدر بن سکتی ہے۔خیر اور شر کا مالک اللہ سبحانہ و تعالٰی ہی ہے،اپنی حکمت کے تحت جسے چاہتا ہے خیر میں مبتلا کر دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے شر کی وادی میں دھکیل دیتا ہے۔بندے کی نجات اسی عقیدے میں ہے کہ ان دونوں حالتوں میں سے کسی ایک حالت میں رکھنے کی طاقت بس اُس اللہ جل و اعلٰی کو ہے جو پوری کائنات کا منتظم ہے اور جس کی تدبیروں کے پیچھے ایک بہت بڑی حکمت کام کر رہی ہوتی ہے۔یہی وہ واحد ذات ہے جو اپنے بندے کو شر کے بھنور سے نجات دلا سکتی ہے۔اللہ رب العزت ان حالتوں میں رکھ کر دیکھنا چاہتا کہ بندہ شُکر اور کُفر کے راستوں میں سے کون سا راستہ اپنے لئے مُنتخب کرے گا۔اللہ رب العزت کو ہر ایک چیز کا مختار اور قادر ماننا کوئی آسان کام نہیں ہے،جس کے لئے جان جوکھوں میں ڈالنا پڑتا ہے۔اس عقیدے توحید میں  اتنی اہمیت اور اتنا طاقت ہے کہ اسے اپنانے سے انسانی زندگی میں ایک ہمہ گیر انقلاب رونما ہو جاتا ہے۔اسی اہمیت و افادیت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اللہ تعالٰی نے قرآنِ پاک میں نبی اکرمﷺ کو اس مضبوط عقیدہ توحید کو اپنانے کی تاکید ان الفاظ میں کر دی ہے:

وَاِنۡ يَّمۡسَسۡكَ اللّٰهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهٗۤ اِلَّا هُوَ‌ؕ وَاِنۡ يَّمۡسَسۡكَ بِخَيۡرٍ فَهُوَ عَلٰى كُلِّ شَىۡءٍ قَدِيۡرٌ ۞(الانعام:17)

”اور اگر اللہ تجھ کو کسی دکھ میں مبتلا کرے تو اس کے سوا کوئی نہیں جو اس کا دور کرنے والا بن سکے اور اگر کسی خیر سے بہرہ مند کرے تو وہ ہر چیز پر قادر ہے۔“


    مولانا ڈاکٹر محمد اسلم صدیقیؒ اس آیتِ پاک کے ذیل میں لکھتے ہیں:
 ”جو بات اس آیتِ کریمہ میں کہی گئی ہے کہ آدمی اپنے نفع و ضرر کا مالک صرف اللہ ہی کو سمجھے۔ یہ عقیدہ توحید کی آخری بات ہے اور اس کے قبول کرنے اور اسے اختیار کرلینے کے بعد زندگی مکمل تبدیل ہوجاتی ہے۔ لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اسے قبول کرنے میں تو شاید دشواری نہ ہو،مگر اس پر عمل کرنا آسان نہیں۔دنیا میں بہت سے قوت کے آستانے ہیں،بہت سے تخت اقتدار بچھے ہوئے ہیں،بڑی بڑی حویلیاں ہیں،جہاں وڈیرے کبریائی کا دعویٰ رکھتے ہیں۔انسانی برادری میں کبر و نخوت کے بیشمار دعویدار ہیں،جو دوسرے کا سر اٹھا کر چلنا برداشت نہیں کرتے اور کتنے ایسے معاشی ساہوکار ہیں،جن کے حکم کی مخالفت انسان کے معاش کو تنگ کردیتی ہے۔نتیجتاً اس کا جینا دوبھر ہوجاتا ہے۔ ایسی صورتحال میں اللہ تعالیٰ ہی کو نفع و ضرر کا مالک سمجھنا اور اس کے سوا کسی کے سامنے ہاتھ نہ پھیلانا کسی کے سامنے سر نہ جھکانا،کسی سے امیدیں وابستہ نہ کرنا اور کسی کی بندگی بجا نہ لانا،یہ بہت مشکل کام ہے۔اس لیے آنحضرتﷺ کو خطاب کر کے یہ بات فرمائی گئی ہے کہ آپ اپنے سارے مقامات اور مراتب کے باوجود جب تک اس بات کا یقین پیدا نہیں کریں گے کہ آپ کے نفع و ضرر کا مالک بھی اور آپ کی امیدوں کا پورا کرنے والا بھی،صرف خداوند عالم ہے۔اس وقت تک آپ توحید میں کامل نہیں ہوسکتے۔حالانکہ آنحضرت ﷺ سے بڑھ کر موحد کون ہوگا چونکہ یہ ایک مشکل بات تھی،اس لیے بطور خاص آپ کو خطاب کر کے یہ بات کہی گئی ہے اور پھر اسی پر اکتفا نہیں فرمایا بلکہ عام انسانوں کے حوالے سے بھی قرآن کریم نے جابجا اس کا ذکر کیا اور آنحضرت ﷺ نے اپنے ارشادات اور دعاٶں میں بھی اسے دھرایا،تاکہ اس مشکل لیکن ناگزیر احساس کو انسانی زندگی کا چلن بنادیا جائے۔ارشاد فرمایا :

 مَا یَفْتَحِ اللہُ لِلنَّاسِ مِنْ رَّحْمَۃٍ فَلَا مُمْسِکَ لَھَا وَمَا یُمْسِکُ فَلَا مُرْسِلَ لَہٗ مِنْ بَعْدِہٖ

 (یعنی اللہ تعالیٰ نے جو رحمت لوگوں کے لیے کھول دی اس کو کوئی روکنے والا نہیں اور جس کو روک دے اس کو کوئی کھولنے والا نہیں)

 صحیح احادیث میں ہے کہ رسول کریم ﷺ اپنی دعاٶں میں اکثر یہ کہا کرتے تھے :

 اَللّٰھُمَّ لَا مَانِعَ لِمَا اَعْطَیْتَ وَ لَا مُعْطِیَ لِمَا مَنَعْتَ وَلَا یَنْفَعُ ذَا لجَدِّ مِنْکَ الْجَدُّ

 یعنی اے اللہ!جو آپ نے دیا،اس کو کوئی روکنے والا نہیں اور جو آپ نے روک دیا،اس کا کوئی دینے والا نہیں اور کسی کوشش والے کی کوشش آپ کے مقابلہ میں نفع نہیں دے سکتی۔


     امام بغویؒ نے اس آیت کے تحت حضرت عبد اللہ ابن عباسؓ سے نقل کیا ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہﷺ ایک سواری پر سوار ہوئے اور مجھے اپنے پیچھے ردیف بنا لیا۔کچھ دور چلنے کے بعد میری طرف متوجہ ہو کر فرمایا کہ اے لڑکے!میں نے عرض کیا،حاضر ہوں۔کیا حکم ہے؟آپﷺ نے فرمایا کہ تم اللہ کو یاد رکھو!اللہ تم کو یاد رکھے گا۔تم اللہ کو یاد رکھو گے تو اس کو ہرحال میں اپنے سامنے پاٶ گے،تم امن و عافیت اور خوش عیشی کے وقت اللہ تعالیٰ کو پہچانو تو تمہاری مصیبت کے وقت اللہ تعالیٰ تم کو پہچانے گا،جب تم کو سوال کرنا ہو تو صرف اللہ سے سوال کرو اور مدد مانگنی ہو تو صرف اللہ سے مدد مانگو۔جو کچھ دنیا میں ہونے والا ہے،قلم تقدیر اس کو لکھ چکا ہے۔اگر ساری مخلوقات مل کر اس کی کوشش کریں کہ تم کو ایسا نفع پہنچا دیں،جو اللہ تعالیٰ نے تمہارے حصہ میں نہیں رکھا تو وہ ہرگز ایسا نہ کرسکیں گے اور اگر وہ سب مل کر اس کی کوشش کریں کہ تم کو ایسا نقصان پہنچاویں،جو تمہاری قسمت میں نہیں ہے تو ہرگز اس پر قدرت نہ پائیں گے۔اگر تم کرسکتے ہو کہ یقین کے ساتھ اس پر عمل کرو تو ایسا ضرور کرلو،اگر اس پر قدرت نہیں تو صبر کرو کیونکہ اپنی خلاف طبع چیز پر صبر کرنے میں بڑی خیر و برکت ہے اور خوب سمجھ لو کہ اللہ تعالیٰ کی مدد صبر کے ساتھ ہے اور مصیبت کے ساتھ،راحت اور تنگی کے ساتھ،فراخی ہے۔(یہ حدیث ترمذی اور مسند احمد میں بھی بسند صحیح مذکور ہے)
    اسی سے ملتا جلتا مضمون ایک دوسری آیت میں ہمیں ان الفاظ میں دیکھنے کو ملتا ہے:

وَاِنۡ يَّمۡسَسۡكَ اللّٰهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهٗۤ اِلَّا هُوَ ‌ۚ وَاِنۡ يُّرِدۡكَ بِخَيۡرٍ فَلَا رَآدَّ لِفَضۡلِهٖ‌ ؕ يُصِيۡبُ بِهٖ مَنۡ يَّشَآءُ مِنۡ عِبَادِهٖ‌ ؕ وَهُوَ الۡغَفُوۡرُ الرَّحِيۡمُ ۞(یونس:107)

”اور اگر اللہ تجھے کسی مصیبت میں ڈالے تو خود اس کے سواء اسے دور کرنے والا کوئی نہیں۔اور اگر وہ ارادہ فرمائے تیرے حق میں کسی بھلائی کا تو اس کے فضل کو پھیرنے والا بھی کوئی نہیں ہے۔وہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے سرفراز فرماتا ہے۔وہ درگزر کرنے والا رحم کرنے والا ہے۔“


   مذکورہ تفصیلی وضاحت سے یہ بات عیاں ہوئی کہ ہمارے لئے اللہ تعالٰی کو راضی کرنے اور کامیاب زندگی گزارنے کی واحد کنجی اپنے رب کو مسلسل پُکارنے میں ہی ہے،جس کا عملی ثبوت ہمیں نبی اکرمﷺ اور اسلاف کی زندگیوں میں دیکھنے کو ملتا ہے۔رب کے در کا فقیر بننا ایک ایسا اعزاز ہے جو قسمت والوں کو ہی ملتا ہے،جن کے دل اس یقین سے شرشار ہوتے ہیں کہ بندے کو رب کے آستانے پر ہی سب کچھ مقررہ وقت پر مل سکتا ہے،بس صبر کرنے کی دیر ہے۔وہ اس بات سے بخوبی واقف ہوتے ہیں کہ رب کے کرم و سخاوت کا دروازہ کبھی بند نہیں ہوتا،وہ مانگنے سے خوش اور نہ مانگنے سے ناراض ہوتے ہیں۔اس حقیقت کا تذکرہ ایک شاعر نے اپنے ان سنہرے الفاظ میں کر دیا ہے؎

            لا تسئل بنی اٰدم حاجتہ

          واسئل الذی ابوابہ لا تحجب

           اللہ یغضب ان ترکت سٶالہ

          وابن اٰدم حین یسئل یغضب

”یعنی کسی انسان سے اپنی حاجت مت مانگو اس سے مانگو جس کے کرم و سخاوت کے دروازے ہر وقت کھلے رہتے ہیں بند نہیں ہوتے،انسان اور اللہ کے درمیان تو یہی فرق ہے۔اگر اللہ سے مانگنا چھوڑ دو گے تو اللہ ناخوش ہو جائے گا اور انسان سے جب مانگو گے ناخوش ہو جائے گا۔“

Comments