Supplication : The Only Way Forward (Part 4)


     دعا ایک عظیم نعمت اور ایک انمول تحفہ ہے،جس سے اس دنیا میں کوئی بھی انسان کسی بھی حال میں مستغنی نہیں ہو سکتا۔دعا اللہ تعالٰی کے ہاں ایک پسندیدہ اور خوشنودی کا عمل ہے۔دعا شرحِ صدر کا باعث اور سکون کا محرک ہے۔دعا اللہ تعالٰی کی ذات پر بھروسہ کی گائیڈ لائن ہے۔دعا آفت و مصیبت کی روک تھام کا مضبوط وسیلہ ہے۔بلاشبہ دعا اپنی اثر انگیزی اور تاثیر کے لحاظ سے مومن کا ہتھیار ہے اللہ کے نبیﷺ نے ارشاد فرمایا ہے:

 اَلدُّعَاءُ سِلاَحُ الْمُؤمِنِ وَعِمَادُ الدِّیْنِ وَنُوْرُ السَّمٰواتِ وَالأرْضِ

”دعا مومن کا ہتھیار،دین کا ستون اور آسمان و زمین کی روشنی ہے"

      دعا ربِ کریم کے نادیدہ خزانوں کی چابی ہے،جس کے ذریعے سے ہی ہم اِن خزانوں کو حاصل کرکے اپنی جھولی کو بھر سکتے ہیں۔دعا واقعی طور پر انسان کا وہ سہارا ہے جو اس کے لگے ہوئے زخموں پر مرہم پٹی کا کام کر رہا ہے۔دعا نہ ہوتا تو ربِ کریم کے دربار میں حاضری بھی نہ ہوتی۔دعا ایک مضبوط قلعہ ہے جس میں داخل ہوتے ہی انسان سکون و عافیت کا سانس لیتا ہے۔جو مزہ دعا مانگنے میں ہے وہ مزہ قبولیت کے بعد اوقات کا کہاں ہوگا؟بندہ جلد بازی میں دعا کو چھوڑ کر سچ مچ میں اللہ تعالٰی ہی کو چھوڑ بیٹھتا ہے۔بندے کی شان و بان اسی میں ہے کہ وہ مانگتا رہے۔دعا مانگنے سے ہی وہ اللہ کے ہاں عزت و قربت کے شرف سے نوازا جاتا ہے،جو بندے کے لئے  سب سے بڑی سعادت اور خوش بختی ہے۔

    بندہ جب اپنے رب کے در پر حاضری دیتا ہے تو آناً فاناً  نتائج نہ دیکھ کر وہ مایوسی کا شکار ہوجاتا ہے۔بندہ جلد باز ہی واقع ہوا ہے جو وقت سے پہلے ہی پھل توڑنا چاہتا ہے۔اللہ رب العزت علیم و خبیر ہیں جو بہترین چیز کو بہترین وقت پر ہی دیتے ہیں۔جب ایک بےکس و بےبس انسان،ساری مخلوق سے منہ موڑکر،اپنے مالکِ حقیقی کی بارگاہ میں دست سوال دراز کرتا ہے تو اللہ تعالی اسے محروم نہیں فرماتے،بلکہ توقع سے بڑھ کر نوازتے ہیں۔وہ کیسے اپنے بندے کی آنکھوں سے آنسوؤں کی برکھا کو ضائع کرے گا؟وہ کیسے اپنے بندے کے ٹوٹے ہوئے دل کو اپنے حال پر چھوڑ دے گا؟وہ کیسے سجدوں میں اپنے بندے کی آہوں کو بھول جائے گا؟وہ کیسے اپنے بندے کی نظر و نیاز کو اپنے دامن میں نہ لے گا؟وہ کیسے اپنے بندے کی بے قراریوں کو محسوس نہ کرے گا؟وہ کیسے اپنے بندے کی مدد کے لئے دوڑتا ہوا نہ آئے گا؟وہ کیسے اپنے بندے کی مجبوریوں کو نہ سمجھ سکے گا؟وہ کیسے اپنے بندے کی پلکوں کے پیچھے چُھپے ہوئے موتی کے مترادف آنسو کو چُن نہ لے گا؟وہ کیسے اپنے بندے کو اپنے سامنے جبینِ نیاز خم کر کے اس کی جھولی کو خوشیوں سے نہ بھر دے گا؟وہ کیسے اپنے بندے کے بتائے ہوئے رازوں کو افشا کرے گا؟وہ کیسے اپنے بندے کو کمزور پاکر اسے حوصلہ نہ دے گا؟وہ کیسے اپنے بندے کی اندھیری رات میں دے گئی پُکاروں کو استجابت کے شرف سے نہ نوازے گا؟وہ کیسے اپنے بندے کو بے بسی کی حالت میں چھوڑ دے گا؟وہ کیسے اپنے بندے کی مالی و جانی قربانیوں کو نظر انداز کرے گا؟وہ کیسے اپنے بندے کو بے یارومددگار چھوڑے گا؟وہ کیسے ہدایت کے پیاسے اپنے بندے کو ہدایت کے جام نہ پلائے گا؟وہ کیسے اپنے بندے کی مسلسل اور انتھک کوشش کو رنگ نہ لائے گا؟وہ کیسے اپنے بندے کی صبر سے لبریز ساری زندگی کو وقعت نہ دے گا؟وہ کیسے اپنے بندے کی موجوں میں پھنسی ہوئی سفینہ کو کنارہ نہ لگائے گا؟وہ کیسے اپنے بندے کو آزمائشوں کے بھنور میں اکیلے چھوڑے گا؟وہ کیسے اپنے بندے کو مصیبتوں میں دیکھ کر اسے اپنے حال پر چھوڑ دے گا؟وہ کیسے اپنے بندے کی چاہت دیکھ کر اسے اپنا نہ بنا لے گا؟وہ کیسے اپنے بندے کی دین کی خاطر جدوجہد دیکھ کر اسے چھوٹے انعام سے نوازے گا؟وہ کیسے اپنے بندے کی ندامت کے آنسوٶں کو دیکھ کر اسے مغفرت کا پروانہ نہ سونپے گا؟وہ کیسے دین کی خاطر فاقہ میں بندے کے خشک ہونٹوں کو دیکھ کر نہ مُسکرائے گا؟وہ کیسے اپنے بندے پر ظلم و بربریت دیکھ کر اس کے اوپر فرشتوں کا نزول نہ کرے گا؟وہ کیسے اپنے بندے کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے پاکر اس سے مُلاقات کرنے کو نہ آئے گا؟وہ کیسے اپنے بندے کو اپنا کلام وردِ زبان رکھتے ہوئے پاکر سکینت کا بادل نمودار نہ کرے گا؟وہ کیسے اپنے بندے کی اسلام کی راہ میں کوشش کو قبولیت کے شرف سے نہ نوازے گا؟وہ کیسے اپنے بندے کو اپنی محبت میں تڑپتے دیکھ کر اسے گلے نہ لگائے گا؟وہ کیسے اپنے بندے کو شہادت کا جام پیتے ہوئے دیکھ کر اسے اپنے دیدار سے محروم رکھے گا؟وہ کیسے دین کی راہ میں اپنے بندے کا سب کچھ تج کرتے ہوئے دیکھ کر جنت کے اعلٰی بالاخانوں میں اسے جگہ نہ دے گا؟اللہ رب العزت یہ سب کچھ اپنے بندے کی خاطر ہر دم کرنے کے لئے تیار ہے،بس اس کے در کا فقیر بننے کی دیر ہے۔

     اللہ رب العزت ہر چیز کو دینے پر پوری کی پوری قدرت رکھتا ہے لیکن وہ جلد بازی کا شکار ہوئے بغیر مقررہ وقت پر ہی دیتے ہیں۔وہ اپنے بندے کی دعا قبول کرکے اس کا یقین بڑھا رہا ہے،وہ اس کی دعا میں دیر لگا کر اس کا صبر بڑھا رہا ہے اور وہ اس کی دعا کا جواب نہ دے کر اسے آزما رہا ہے۔بندے کو کیا خبر کہ اس وقت یہ حاجت اس کے لئے موزوں رہے گی بھی یا نہیں؟انسان نہیں جانتا ہے کہ بعض ناگواریاں خوشیوں کا پیغام لاتی ہیں اور بعض بظاہر بھلی باتیں کسی بڑے توفان کا پیش خیمہ ہوتی ہیں۔کبھی کبھار انسان کسی چیز کو اپنے لئے شر سمجھتا ہے لیکن باریک بین اور حکیم خدا نے اس کے تہہ میں خیرِ کثیر رکھا ہوتا ہے،جس کا تذکرہ قرآنِ پاک میں ان الفاظ میں آیا ہے:

 وَعَسٰۤى اَنۡ تَكۡرَهُوۡا شَيۡــئًا وَّهُوَ خَيۡرٌ لَّـکُمۡ‌ۚ وَعَسٰۤى اَنۡ تُحِبُّوۡا شَيۡــئًا وَّهُوَ شَرٌّ لَّـكُمۡؕ وَاللّٰهُ يَعۡلَمُ وَاَنۡـتُمۡ لَا تَعۡلَمُوۡنَ ۞(البقرہ:216)

 ”ہوسکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں ناگوار ہو اور وہی تمہارے لیے بہتر ہو اور ہوسکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں پسند ہو اور وہی تمہارے لیے بری ہو اللہ جانتا ہے،تم نہیں جانتے“

اس آیتِ مبارکہ کے ذیل میں سید قطب شہیدؒ نے ایک بہت ہی شاندار اور جاندار نوٹ لکھا ہے،جس کو پڑھ کر انسان روحانی سکون سے مستفیض ہوکر اپنے سارے معاملات اور راہِ اعتدال پر مستقبل میں آنے والے تمام نتائج کو اللہ کے سپرد کر ہی دیتا ہے،لکھتے ہیں:
”۔۔۔۔۔۔اسلام فطرت کے ساتھ یوں معاملہ کرتا ہے کہ وہ انسان کے فطری رجحانات پر کوئی نکیر نہیں کرتا۔اور نہ ہی انسان کو کسی مشکل فرض کے سرِانجام دینے پر محض آرڈر اور حکم کے ذریعہ مجبور کرتا ہے،بلکہ وہ انسان کی تربیت کرکے اسے اطاعت پر آمادہ کرتا ہے۔امید کا دائرہ وسیع کردیتا ہے۔وہ اسے یہ تعلیم دیتا ہے کہ ادنیٰ چیز کو خرچ کرکے اعلیٰ ترین حاصل کرو،وہ انسان کو ذاتی خواہشات کے مقابلے میں نہیں بلکہ خوشی ورضا سے کھڑا کرتا ہے تاکہ انسان کی فطرت کو اس بات کا احساس ہو کہ اللہ کا رحم وکرم اس کے شامل حال ہے کیونکہ وہ انسانی کمزوریوں سے خوب واقف ہے۔وہ اس کی مجبوریوں سے بھی واقف ہے اور انسان کی بھی قدر کرتا ہے اور بلندہمتی،التجا اور امید کے ذریعے اسے مسلسل آگے بڑھانے کی ہمت بھی دیتا رہتا ہے۔

 یوں اسلام انسانی فطرت کی تربیت کرتا ہے،وہ فرائض پر ملول نہیں ہوتی،صدمات کی ابتلا میں جزع وفزع نہیں کرتی اور نہ مصائب شروع ہوتے ہی وہ ہمت ہار بیٹھتی ہے۔اگر مشکلات کے مقابلے میں کمزوری ظاہر ہوجائے تو شرمندہ ہو کر صاف گر ہی نہیں جاتی بلکہ ثابت قدم رہنے کی سعی کرتی ہے اور سمجھتی ہے کہ اسے عنداللہ معذور سمجھاجائے گا۔اسے یہ امید ہوتی ہے کہ اللہ اس کی امداد کرے گا اور اپنی طرف سے قوت بخشے گا اور مصائب کا مقابلہ کرنے کا پختہ ارادہ کرلیتی ہے۔کیونکہ ہوسکتا ہے کہ ان مشکلات کی تہہ میں کچھ خیر پوشیدہ ہو۔مشکلات کے بعد آسانیاں آجائیں،تھکاوٹ اور ضعف کے بعد بہت بڑا آرام نصیب ہوجائے۔یہ فطرت محبوبات ومرغوبات پر فریفتہ نہیں ہوتی اس لئے کہ عیش و عشرت کا نتیجہ حسرت بھی تو ہوسکتی ہے۔محبوب کی تہہ سے مکروہ بھی برآمد ہوسکتا ہے۔کبھی یہ بھی ہوسکتا ہے کہ روشن تر امیدوں کے پس پردہ ہلاکت اور مصیبت انتظار کررہی ہو۔

 تربیت کا یہ عجیب نظام ہے۔بہت ہی گہرا اور بہت ہی سادہ۔یہ نظام نفس انسانی کے سرچشموں،اس کے پوشیدہ گوشوں اور اس کے مختلف گزرگاہوں کا شناسا ہے۔یہ نظام تربیت سچائی اور صداقت سے کام لیتا ہے ۔ اس میں جھوٹے اشارے،جھوٹے تاثرات اور نظر فریب جعل سازی نہیں ہوتی۔پس یہ حقیقت ہے انسان کا ناقص اور ضعیف ذہن کسی بات کو ناپسند کرے حالانکہ وہ خیر ہی خیر ہو۔اور یہ بھی حق ہے کہ انسان کسی چیز کو پسند کرے اور اس کا جانثار ہو،لیکن اس میں شر ہی شر ہو اور یہ بھی حق ہے کہ اللہ جانتا ہے اور انسان نہیں جانتے۔لوگوں کو عواقب اور انجام کا کیا علم ہے،وہ کیا جانیں کیونکہ پردہ گرا ہوا ہے اور پس پردہ کیا ہے؟غرض لوگوں کو ان حقائق کا علم نہیں ہوسکتا جو ہماری خواہشات،جہالت اور نفس کے تابع نہیں ہیں۔

  قلب انسانی کے اندر یہ ربانی احساس،اس کے دریچے کھول دیتا ہے۔اس کے سامنے ایک نئی دنیا نمودار ہوجاتی ہے۔یہ دنیا اس محدود دنیا سے بالکل مختلف ہے جسے ہماری آنکھیں دیکھ رہی ہیں۔اس کی نظروں کے سامنے کچھ دوسرے عوامل بھی آجاتے ہیں جو اس کائنات کی گہرائیوں میں کام کررہے ہوتے ہیں،جو معاملات کی کایا پلٹ دیتے ہیں،جو نتائج کی اس ترتیب کو الٹ دیتے ہیں جن میں انسان کو تمنا ہوتی ہے یا وہ ان کی توقع کئے ہوئے ہوتا ہے۔جب قلب مومن تن بہ تقدیر اس ربانی احساس کے تابع ہوجاتا ہے،تو پھر وہ پُرامید ہوکر کام کرتا ہے۔اسے امید بھی ہوتی ہے اور اللہ کا ڈر بھی،لیکن وہ تمام نتائج برضا ورغبت دست قدرت کے سپرد کردیتا ہے جو حکیم ہے اور علیم ہے۔جس کا علم سب کو گھیرے ہوئے ہے،یہ ہے دراصل سلامتی کے کھلے دروازے کا داخلہ۔نفس انسانی کو اسلام کا صحیح شعور اس وقت تک نصیب نہیں ہوسکتا،جب تک اس میں یہ یقین پیدا نہ ہوجائے کہ خیر اسی میں ہے جسے اللہ نے خیر بتایا،بھلائی اس میں ہے کہ اپنے رب کی اطاعت و فرمانبرداری اختیار کی جائے۔اللہ تعالیٰ کو آزمانے اور اللہ سے براہین طلب کرنے میں کوئی بھلائی نہیں ہے۔پختہ یقین،پرسکوں امید اور سعی پیہم ہی سلامتی کے دروازے ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو انہی دروازوں سے داخل ہونے کی دعوت دیتا ہے اور حکم دیتا کہ نیمے دروں اور نیمے بیروں میں نہیں بلکہ پورے پورے ان دروازوں میں داخل ہوجاؤ۔اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو بڑے سادہ عجیب لیکن بہت گہرے منہاج کے ساتھ اس سلامتی کی طرف لے جارہا ہے۔بڑی نرمی،بڑی آسانی اور دھیمی رفتار سے۔

  انسان تو کسی معاملے میں یہ نہیں جانتا کہ خیر کہاں ہے اور شر کہاں ہے؟بدر کے دن مسلمان نکلے کہ قریش کے قافلے کو لوٹ لیں اور ان کے مال تجارت پر قبضہ کرلیں۔اللہ نے ان سے غنیمت کا وعدہ بھی کر رکھا تھا،وہ سمجھتے تھے کہ یہی قافلہ اور اس کا مال تجارت بس انہیں ملنے ہی والا ہے۔ان کے تصور میں بھی یہ نہ تھا کہ انہیں قریش کی فوج کے ساتھ دوچار ہونا پڑے گا،لیکن اللہ کا کرنا یہ تھا کہ قافلہ بچ نکلا اور ان کا سامنا قریش کی ساز و سامان سے لیس فوج سے ہوگیا اور اس کے نتیجہ میں اہل اسلام کو وہ کامیابی نصیب ہوئی جس کی آواز بازگشت پورے جزیرۃ العرب میں سنی گئی۔اب دیکھئے کہ مسلمانوں کی کامیابی کے مقابلہ میں قافلہ اور اس کے تجارتی سامان کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے؟اب دیکھئے،مسلمانوں نے اپنے لئے جو پسند کیا اس کی قدروقیمت کیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے جو اختیار کیا اس کی قدروقیمت کیا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ اللہ جانتا ہے اور لوگ نہیں جانتے۔

 حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا ساتھی نوجوان اپنا کھانا بھول گیا یعنی مچھلی۔جب پتھر کے پاس پہنچے تو مچھلی دریا میں چلی گئی۔حضرت موسیٰ (علیہ السلام) آگے چلے گئے اور اپنے خادم سے کہا لاؤ ہمارا ناشتہ آج کے سفر میں تو ہم بری طرح تھک گئے ہیں۔خادم نے کہا آپ نے دیکھا،یہ کیا ہوا؟جب ہم اس چٹان کے پاس ٹھہرے ہوئے تھے،اس وقت مجھے مچھلی کا خیال نہ رہا اور شیطان نے مجھ کو ایسا غافل کردیا کہ میں اس کا ذکر آپ سے کرنا بھول گیا۔مچھلی تو عجیب طریقے سے نکل کر دریا میں چلی گئی۔حضرت موسیٰ(علیہ السلام) نے کہا:اسی کی تو ہمیں تلاش تھی،چناچہ وہ دونوں اپنے نقش قدم پر واپس ہوئے اور وہاں انہوں نے بندوں میں سے ایک بندے کو پایا۔یہی وہ مقصد تھا جس کے لئے حضرت موسیٰ(علیہ السلام) نے سفر اختیار کیا۔اگر مچھلی کا واقع نہ ہوتا تو حضرت موسیٰ(علیہ السلام) نہ لوٹتے اور وہ پورا مقصد فوت ہوجاتا جس کے لئے انہوں نے یہ تھکا دینے والا سفر اختیار کیا تھا۔

 انسان اگر تامل کرے تو وہ بعض مخصوص تجربوں میں اس سچائی کو دریافت کرسکتا ہے کہ وہ اپنی زندگی میں کئی ایسے تجربات سے دوچار ہوا جو اسے ناپسند تھے۔لیکن ان کے پس پردہ وہ خیر عظیم کارفرما تھی۔اور کئی پُر ذائقہ اور لذید چیزیں بھی تھیں،لیکن ان کی تہہ میں شر عظیم نہا تھا۔کئی ایسے مقاصد ہوتے ہیں کہ جن سے انسان محروم ہوجاتا ہے اور اسے اپنی اس محرومی کا بےحد صدمہ بھی ہوتا ہے لیکن ایک عرصہ کے بعد نتائج دیکھ کر انسان کو معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے محروم رکھ کر دراصل بلائے عظیم سے نجات دی تھی۔کئی مصائب وشدائد ایسے جاں گسل ہوتے ہیں،کہ انسان بڑی ناخوش گواری سے ان کے کڑوے گھونٹ بھرتا ہے اور قریب ہوتا ہے کہ ان مصائب کی سختی کے نتیجے میں اس کی جان ہی نکل جائے،لیکن ایک طویل عرصہ نہیں گزرتا کہ ان سختیوں کے نتائج اتنے اچھے نکلتے ہیں جتنے ایک طویل پُر آسائش زندگی کے نتیجے میں اچھے نہ ہوسکتے تھے۔
 یہ ہے منہاج تربیت جس کے مطابق اللہ نفس انسانی کو لیتا ہے کہ وہ ایمان لے آئے،اسلام میں داخل ہوجائے اور آنے والے نتائج اللہ کے سپرد کردے۔اس کا کام صرف یہ ہے کہ بقدر استطاعت،ظاہری جدوجہد کے میدان میں اپنی پوری قوت لگادے۔

   قرآن و حدیث میں قبولیت دعا سے متعلق جو کچھ بیان کیا گیا ہے اس پر نظر دوڑانے سے پتہ چلتا ہے کہ ہر دعا جو خدا اور اس کے رسول کے بتائے ہوئے طریقے پر ہو تو وہ دعا ضرور قبول ہو جاتی ہے،مگر قبولیت کی صورتیں مختلف ہوتی ہیں۔جس کا تذکرہ ذیل کی احادیث میں اس طرح آیا ہے:
حضرت جابر بن عبداللہ کہتے ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا:
*”آدمی جب کبھی اللہ سے دعا مانگتا ہے،اللہ اسے یا تو وہی چیز دیتا ہے جس کی اس نے دعا کی تھی یا اسی درجے کی کوئی بلا اس پر آنے سے روک دیتا ہے، بشرطیکہ وہ کسی گناہ کی یا قطع رحمی کی دعا نہ کرے“ (ترمذی)

 اسی سے ملتا جلتا مضمون ایک دوسری حدیث میں ہے جو حضرت ابو سعید خدریؓ نے حضورﷺ سے روایت کی ہے۔ اس میں آپ کا ارشاد یہ ہے کہ:
*”ایک مسلمان جب بھی کوئی دعا مانگتا ہے،بشرطیکہ وہ کسی گناہ یا قطع رحمی کی دعا نہ ہو،تو اللہ تعالیٰ اسے تین صورتوں میں سے کسی ایک صورت میں قبول فرماتا ہے۔یا تو اس کی وہ دعا اسی دنیا میں قبول کرلی جاتی ہے۔یا اسے آخرت میں اجر دینے کے لیے محفوظ رکھ لیا جاتا ہے۔یا اسی درجہ کی کسی آفت کو اس پر آنے سے روک دیا جاتا ہے۔“ (مسند احمد)

   
  جلد بازی بھی ایک ایسی پروبلم ہے جو بندے کو رب کی رحمت سے مایوس کراکے بالاٰخر اسے رب کے در سے اٹھا ہی لیتی ہے۔دعا کے معاملے میں جلد بازی سے سختی کے ساتھ منع کیا گیا ہے کیونکہ اللہ تعالٰی ہی بہتر جانتے ہیں کہ بندے کے لئے اس کی مانگی ہوئی چیز کب موزوں رہے گی۔ایک روایت میں حضرت ابوہریرہ نبیﷺ کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں کہ:
”بندے کی دعا قبول کی جاتی ہے بشرطیکہ وہ کسی گناہ کی یا قطع رحمی کی دعا نہ کرے اور جلد بازی سے کام نہ لے۔عرض کیا گیا جلد بازی کیا ہے یا رسول اللہ؟فرمایا جلد بازی یہ ہے کہ آدمی کہے میں نے بہت دعا کی،مگر میں دیکھتا ہوں کہ میری دعا قبول نہیں ہوتی،اور یہ کہہ کر آدمی تھک جائے اور دعا مانگنی چھوڑ دے۔“(مسلم)
    لہٰذا مذکورہ تفصیلی وضاحت کو ذہن میں رکھ کر ہمیں چاہئیے کہ ہم مایوسی اور جلد بازی کا شکار نہ ہوکر رب کے در کا فقیر ہی بنے رہیں،اسی میں ہماری شان وبان اور ہماری دُنیوی و اُخروی نجات کا راز  مضمر ہے۔جو انسان ربِ کریم کا ہمہ وقتی غلام بن جائے گا اس کے متعلق کوئی کیسے گمان کر سکتا ہے کہ اسے اپنا رب زندگی کے کسی بھی موڑ پر ساتھ دینا چھوڑ دے گا،یہ ہو ہی نہیں سکتا۔ربِ کریم اپنے پیارے بندے کو موزوں وقت پر دے کر ہی اسے خوشیوں کا جام پلاتا ہے۔کبھی کبھار وہ اس کی دعا کو روک کر اپنے پاس ایسے نعم البدل سے نوازنے کی پُلاننگ کردیتا ہے کہ جسے آخرت میں دیکھ کر بندے کے سارے گلوں اور شکوٶں کے بادل چھٹ کر ان کی آنکھوں سے خوشیوں کے آنسو ٹپکنے لگیں گے۔”منّا السؤال و منک القبول“ہمارا کام مانگنا ہے اور پروردگار عالم کا کام عطا کرنا ہے“۔اس اصولی بات کو مدِ نظر رکھ کر اگر ہم اپنی دین و دنیا کی بھلائی چاہتے ہیں تو ہمیں چاہئیے کہ ہم اپنا کام کریں اور اللہ کو اپنا کام کرنے دیں۔

خاکسار اُمید رکھتا ہے کہ قارئین کرام انہیں اپنی خصوصی دعاؤں میں شامل فرمائیں گے۔

Comments