Supplication : The Only Way Forward (Part 3)



   حضرت محمدﷺ دنیائے انسانیت کے آخری عالمی اور دائمی نبی ہیں۔آپ کی مخاطب پوری دنیا اور تمام اہلِ مذاہب ہیں۔آپ کا پیغام آفاقی ہے اور آپ پوری دنیا کو ایمان و اخلاق کی روشنی فراہم کر رہے ہیں۔اللہ تعالٰی نے انہیں اپنے پیارے کلام میں”سراج منیرا“ کے پُر کشش لقب سے نوازا ہے۔ان کی زندگی میں ایسی کشش اور جاذبیت ہے کہ مسلمان تو کیا غیروں کو بھی اس کا لوہا منوانا پڑا۔جس شخص کی تعريفيں خود اللہ رب العٰلمین کرے ان کی زندگی کی پھر تصويريں کھینچنے کی ضرورت ہی نہیں ہوتی۔ایک شخصیت کی سب سے زیادہ پہچان اللہ رب العٰلمین ہی کو ہوتی ہے۔دنیا میں واحد ایک ذات ہے جو محمد عربیﷺ کی شخصیت سے پوری طرح واقف ہیں وہ اللہ جل و عالٰی ہی کی ذات ہے۔دنیا محمد عربیﷺ کو کہاں جانتی تھی،ان کا تعارف ہمیں سب سے پہلے خود اللہ تعالٰی ہی نے اپنے پاک کلام میں کرایا۔تین بڑے پیغمبروں کا تذکرہ کرتے ہوئے اللہ تعالٰی نے فرمایا:

تِلۡكَ الرُّسُلُ فَضَّلۡنَا بَعۡضَهُمۡ عَلٰى بَعۡضٍ‌ۘ مِنۡهُمۡ مَّنۡ كَلَّمَ اللّٰهُ‌ وَرَفَعَ بَعۡضَهُمۡ دَرَجٰتٍ‌ؕ وَاٰتَيۡنَا عِيۡسَى ابۡنَ مَرۡيَمَ الۡبَيِّنٰتِ وَاَيَّدۡنٰهُ بِرُوۡحِ الۡقُدُسِ‌ؕ(البقرہ:253)

”یہ سب رسول ہم نے بعض کو بعض پر فضیلت دی۔ ان میں سے کسی سے اللہ نے کلام فرمایا اور بعض کے درجے بلند کیے۔اور ہم نے عیسیٰ ابن مریم کو کھلی کھلی نشانیاں دیں اور روح القدس سے اس کی مدد فرمائی۔“

    کچھ مفسرین کا خیال ہے کہ مذکورہ آیت میں”ورفع بعضھم درجات“میں اشارہ حضرت محمدﷺ کی طرف ہے،جو تمام انبیاء و رسل کے کمالات کے جامع ہیں۔انہیں خداوند قدوس کی طرف سے وہ مقامات عطا کئے گئے،جن کی بلندیوں اور وسعتوں کو تصور میں لانا مشکل ہے۔ان کا کوئی ثانی نہیں،وہ رہتی دنیا تک قرآن کی عملی تفسير ہے۔وہ حضرت عائشہؓ کی بزبانی”کان خلقہ القرآن“کی چلتی پھرتی تصویر تھے یعنی آپ کے اخلاق سراپا قرآن تھے۔

     دنیائے انسانیت میں جتنے بھی صالح افراد گزرے ہیں،ان میں ایسے بھی ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے”المصطفین،اخیار،الابرار“کے الفاظ سے یاد فرمایا ہے۔وہ بھی ہیں جن کو نبوت کا تاج پہنایا گیا،وہ بھی ہیں جن کو رسالت کے بلند ترین منصب پر فائز فرمایا گیا،لیکن ان سب پر اللہ تعالٰی نے حضرت محمدﷺ کو فوقیت و برتری عطا فرمائی،جو صفات اللہ تعالٰی نے ان سب کو عطا فرمائے تھے وہ سب بیک وقت حضرت محمدﷺ کی شخصیت میں رکھے گئے،ان صفات کے سمندر کو کوزے میں بندکر کے محمدﷺ کو عطا کیا گیا۔ان انبیاءؑ کے سارے خصائل اور صفات کو آپﷺ کی ذات میں مجتمع کئے گئے۔اس اعتبار سے آپ کی جامعیت اور ہمہ گیریت کے مقابلے میں کوئی دوسرا نبی اور رسول نہیں ہے:

     حسن یوسف،دم عیسی،ید بیضا داری

     آنچہ  خوہاں ہمہ  دارند ،تو  تنہا  داری


  رب العٰلمین نے آپ کی خاطر”ورفعنا لک ذکرک“کا مزدہ سناکر آپﷺ کی شخصیت کا ڈنکا پوری دنیا میں بجا دیا۔پیغمبروں میں اتنی فوقیت و برتری دینے کے بعد بھی آپﷺ انکساری اور خوئے دلنوازی کے پیکر تھے۔دنیا میں اتنا اعلٰی وارفع مقام ملنے کے بعد بھی حضورﷺ نہایت ہی سادگی سے زندگی بسر کرتے تھے۔وہ اپنے جوتوں کی خود مرمت کرتے،اپنی بکریوں  کا دودھ دوہتے۔اکثر لوگ حضورﷺ کی مذکورہ سادگی ہی کا ڈنڈوارہ اپنے معاشرے میں پیٹتے ہیں۔لیکن سیرت کے غائر مطالعہ سے یہ بات آشکارا ہو جاتی ہے کہ حضورؐ جب فتحِ مکہ کے بعد مکہ میں بحثیت فاتح داخل ہوگئے تو اونٹنی پر جس حالت میں حضورﷺ سوار تھے،اس تصویر کو جب ہم سیرت کی کتابوں میں دیکھتے ہیں تو واقعتاً اسی جگہ پر حضورﷺ کی عاجزی و انکساری نقطہ عروج پر دیکھنے کو ملتی ہے۔آپﷺ نے بادشاہی میں بھی فقیری اختیار کی اور اللہ تعالٰی کے سامنے جبین نیاز بار بار خم کرنے میں ہی اپنی اور اپنی چہیتی امت کی عافیت سمجھی۔ حضورﷺ کی عبدیت آپ کا سب سے بڑا امتیاز ہے۔اللہ تعالٰی نے جب یہ چاہا کہ اپنے محبوب کے بلند ترین مقام کا تذکرہ فرمائے،جس سے بلند مقام کسی انسان کو،کسی نبی کو،کسی رسول کو نہیں ملا،یہاں تک کہ فرشتوں کو،جبرئیل امینؑ کو بھی نہیں ملا،جب اس مقام کا تذکرہ اللہ نے فرمایا تو اس طرح فرمایا:

سُبۡحٰنَ الَّذِىۡۤ اَسۡرٰى بِعَبۡدِهٖ لَيۡلًا مِّنَ الۡمَسۡجِدِ الۡحَـرَامِ اِلَى الۡمَسۡجِدِ الۡاَقۡصَا الَّذِىۡ بٰرَكۡنَا حَوۡلَهٗ لِنُرِيَهٗ مِنۡ اٰيٰتِنَا‌ ؕ اِنَّهٗ هُوَ السَّمِيۡعُ الۡبَصِيۡرُ ۞(الاسراء:1)

”پاک ہے وہ جو لے گیا ایک رات اپنے بندے کو مسجد حرام سے دُور کی اُس مسجد تک جس کے ماحول کو اس نے برکت دی ہے، تاکہ اسے اپنی کچھ نشانیوں کا مشاہدہ کرائے۔حقیقت میں وہی ہے سب کچھ سُننے اور دیکھنے والا۔“

  یہاں لفظ محمد،احمد،نبی اور رسول بھی ہو سکتا تھا لیکن اپنے محبوب کی خاطر لفظ”عبد“لا کر اللہ تعالٰی نے ان کی شان ہی کچھ اور بڑا دی۔اس لفظ میں جو محبوبیت،کشش،جاذبیت اور جو پیار رکھا گیا اس کا متبادل کسی بھی لفظ میں نہیں ہے۔”عبد“جب عابد بن جاتا ہے تو معبود کی خوشی کی کوئی انتہا ہی نہیں رہتی۔عبد عبادت کرتے کرتے قرب کا وہ مقام حاصل کر لیتا ہے کہ وہاں سے واپس آنے کی پھر اسے آرزو ہی ختم ہو جاتی ہے اور معبودِ حقیقی بھی اپنے اس بندے کو شرفِ قربت سے نوازتا ہے۔عبادت میں عبد اور معبود کے درمیان سرگوشیاں ہوتی ہیں،ان سرگوشیوں میں اتنی لطافت ہوتی ہے کہ عبد مجبوراً معبود کا درباد چھوڑ بیٹھتا ہے۔عبدیت کے مقام پر فائز رہ کر مسلسل کوشش کا مزہ ہی کچھ اور ہے،یہاں سے یہ صدائیں سننے کو آتی ہیں کہ اے خیر کے طالب آگے بڑھ کیونکہ رُکنا منع ہے،رکنا ترقی کے بجائے تنزلی کا راستہ ہے۔اللہ تعالٰی نے باقی تمام القاب کو چھوڑ کر مذکورہ آیتِ کریمہ میں لفظ”عبد“کا انتخاب کیا۔اس لفظ کو منتخب کرنے کے پیچھے ایک بہت بڑی حکمت تھی جس کو عقل و خرد رکھنے والے لوگ ہی محسوس کر سکتے ہیں۔نبوت ملنے سے لے کر وصال تک حضورﷺ کی پوری زندگی عبدیت سے پُر تھی۔دنیا میں سید المرسلین کا لقب ملنے کے بعد بھی آپﷺ نے اپنی پوری زندگی فقیری کی سی حالت میں ہی بسر کی۔زندگی کے ہر لمحہ رب کے دروازے کو کھٹکھٹانا ان کا شیوہ تھا اور لوگوں کو اسی در کی دعوت دینا ان کا بڑا مشن تھا۔بندے کو اپنے معبودِ حقیقی سے ملانے کی تڑپ نے انہیں پوری زندگی بے چین کر رکھا تھا۔اپنی ذات کے بجائے اپنے معبود کی طرف دعوت دینا ان کا کمال تھا۔اپنی حاجات رب کے دربار میں ڈالنے کی عملی شکلیں بنانا ان کی پرُحکمت اور پُر اثر دعوت تھی۔حضورﷺ نے اپنے رب کے سامنے اپنی حاجتیں پیش کرکے اور اس سے دُعا مانگ کر اس کی آقائی و بالادستی کا اعتراف اور اپنی بندگی و عاجزی کا اقرار کیا۔یہ اظہارِ عبودیت بجائے خود عبادت،بلکہ جانِ عبادت ہے جس کا عملی جامہ حضورﷺ نے سب سے پہلے خود اپنے مبارک ہاتھوں ہی پہنا دیا۔

      حضورﷺ کی اپنی عبدیت کا اظہار یوں تو بہت ساری روایات میں دیکھنے کو ملتا ہے لیکن طوالت سے بچنے کے لئے میں یہاں چند ہی کا تذکرہ کرنا مناسب سمجھتا ہوں:
    حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ یہ دعا مانگا کرتے تھے:
 اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْكَسَلِ، ‏‏‏‏‏‏وَالْهَرَمِ، ‏‏‏‏‏‏وَالْمَأْثَمِ، ‏‏‏‏‏‏وَالْمَغْرَمِ، ‏‏‏‏‏‏وَمِنْ فِتْنَةِ الْقَبْرِ، ‏‏‏‏‏‏وَعَذَابِ الْقَبْرِ، ‏‏‏‏‏‏وَمِنْ فِتْنَةِ النَّارِ، ‏‏‏‏‏‏وَعَذَابِ النَّارِ، ‏‏‏‏‏‏وَمِنْ شَرِّ فِتْنَةِ الْغِنَى، ‏‏‏‏‏‏وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ الْفَقْرِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ الْمَسِيحِ الدَّجَّالِ، ‏‏‏‏‏‏اللَّهُمَّ اغْسِلْ عَنِّي خَطَايَايَ بِمَاءِ الثَّلْجِ وَالْبَرَدِ، ‏‏‏‏‏‏وَنَقِّ قَلْبِي مِنَ الْخَطَايَا، ‏‏‏‏‏‏كَمَا نَقَّيْتَ الثَّوْبَ الْأَبْيَضَ مِنَ الدَّنَسِ، ‏‏‏‏‏‏وَبَاعِدْ بَيْنِي وَبَيْنَ خَطَايَايَ كَمَا بَاعَدْتَ بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ.
 *”اے اللہ!میں تیری پناہ مانگتا ہوں سستی سے،بہت زیادہ بڑھاپے سے،گناہ سے،قرض سے اور قبر کی آزمائش سے اور قبر کے عذاب سے اور دوزخ کی آزمائش سے اور دوزخ کے عذاب سے اور مالداری کی آزمائش سے اور تیری پناہ مانگتا ہوں محتاجی کی آزمائش سے اور تیری پناہ مانگتا ہوں مسیح دجال کی آزمائش سے۔اے اللہ! مجھ سے میرے گناہوں کو برف اور اولے کے پانی سے دھو دے اور میرے دل کو خطاؤں سے اس طرح پاک و صاف کر دے جس طرح تو نے سفید کپڑے کو میل سے پاک صاف کردیا اور مجھ میں اور میرے گناہوں میں اتنی دوری کر دے جتنی مشرق اور مغرب میں دوری ہے۔“(بخاری:6368)

    حضرت ابو موسٰی اشعریؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ یہ دعا مانگا کرتے تھے:

رَبِّ اغْفِرْ لِي خَطِيئَتِي، ‏‏‏‏‏وَجَهْلِي وَإِسْرَافِي فِي أَمْرِي كُلِّهِ،‏‏‏‏‏‏وَمَا أَنْتَ أَعْلَمُ بِهِ مِنِّی،اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِي خَطَايَايَ،‏‏‏‏‏‏وَعَمْدِي، ‏‏‏‏‏‏وَجَهْلِي، ‏‏وَهَزْلِي وَكُلُّ ذَلِكَ عِنْدِي، ‏‏‏‏اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي مَا قَدَّمْتُ، ‏‏‏‏‏‏وَمَا أَخَّرْتُ، ‏‏‏‏‏‏وَمَا أَسْرَرْتُ، ‏‏‏‏‏‏وَمَا أَعْلَنْتُ، ‏‏‏‏‏‏أَنْتَ الْمُقَدِّمُ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنْتَ الْمُؤَخِّرُ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنْتَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ۔

”میرے رب!میری خطا،میری نادانی اور تمام معاملات میں میرے حد سے تجاوز کرنے میں میری مغفرت فرما اور وہ گناہ بھی جن کو تو مجھ سے زیادہ جاننے والا ہے۔ اے اللہ! میری مغفرت کر،میری خطاؤں میں،میرے بالا ارادہ اور بلا ارادہ کاموں میں اور میرے ہنسی مزاح کے کاموں میں اور یہ سب میری ہی طرف سے ہیں۔اے اللہ!میری مغفرت کر ان کاموں میں جو میں کرچکا ہوں اور انہیں جو کروں گا اور جنہیں میں نے چھپایا اور جنہیں میں نے ظاہر کیا ہے،تو سب سے پہلے ہے اور تو ہی سب سے بعد میں ہے اور تو ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔(بخاری:6398)


طائف کا سفر رسول اللہﷺ کے لیے ذاتی اعتبار سے امتحان،آزمائش اور ابتلا کا نقطۂ عروج ہے اسی لیے حضور اکرم ﷺ نے اسے معرکۂ احد سے زیادہ سخت دن قرار دیا ہے۔سیرت کی کتابوں میں سفرِ طائف سے واپس آکر حضورﷺ ایک طرف ٹوٹے ہوئے دل،زخموں سے چور اور لہولہان جسم سمیت ایک باغ میں پناہ لیتے ہوئے نظر آتے ہیں تو دوسری طرف فرشتوں کے اصرار پر بد دعا کرنے کے بجائے حضورﷺ نے زبان پر جو الفاظ لائے ان کو دیکھتے ہی انسان عشقِ نبیﷺ میں ڈوب کر بے چین ہو جاتا ہے۔اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کی برکھا برسنے لگتی ہے جو کہ تھمنے کا نام نہیں لیتی۔ایمان میں ایسی حرارت پیدا ہو جاتی ہے کہ ایک بھکاری بن کر وہ رب سے یوں فریاد کرتا ہے کہ:

جس خواب میں ہو  جائے  دیدار نبی حاصل

اے عشق کبھی مجھ کو نیند ایسی سُلا دینا


سفرِ طائف کے سارے مناظر سامنے رکھتے ہوئے اب دیکھئے کہ حضورﷺ کی زبانِ مبارک پر کیا الفاظ ہیں:

اَللّٰھُمَّ اِلَیْکَ اَشْکُوْ ضَعْفَ قُوَّتِی وَ قِلَّۃَ حِیْلَتِیْ وَ ھَوَ انِی عَلٰی النَّاسِ یَااَرْحَمَ الرّٰحِمِیْنَ اَنْتَ رَبُّ الْمُسْتَضْعَفِیْنَ وَاَنْتَ رَبِّی اِلٰی مَنْ تَکِلُنِیْ اِلٰی بَعِیْدٍ یَتَجَھَّمُنِی اَمْ اِلٰی عَدُوٍّمَلَّکْتَہٗ اَمْرِیْ اِنْ لّمْ یَکُنْ بِکَ عَلیَّ غَضَبٌ فَلَا اُبَالِیْ وَلٰکِنَّ عَافِیَتُکَ ھِیَ اَوْسَعُ لِیْ اَعُوْذُبِنُوْرِوَجْہِکَ الَّذِیْ اَشْرَقَتْ لَہُ الظُّلُمَاتُ وَصَلُحَ عَلَیْہِ اَمْرُالدُّنْیَا وَالْآٰخِرَۃِمِنْ اَنْ تُنَزِلِ بِیْ غَضَبَکَ اَوْ یَحِلَّ عَلَیَّ سَخَطُکَ لَکَ الْعُتْبٰی حَتیّٰ تَرْضٰی وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّابِکَ۔

”اے اللہ!میں اپنی طاقت کی ناتوانی اپنی قوت عمل کی کمی لوگوں کی نگاہوں میں اپنی بے بسی کا شکوہ تیری بارگاہ میں کرتا ہوں۔اے ارحم الراحمین!تو کمزوروں کا رب ہے تو میرا بھی رب ہے۔تو مجھے کس کے حوالے کرتا ہے ایسے بعید کے حوالے جو ترش روئی سے میرے ساتھ پیش آتا ہے کیا کسی دشمن کو تو نے میری قسمت کا مالک بنادیا ہے اگر تو مجھ پر ناراض نہ ہو تو مجھے ان تکلیفوں کی ذرا پروا نہیں۔پھر بھی تیری طرف سے عافیت اور سلامتی میرے لیے زیادہ دلکشا ہے۔میں پناہ مانگتا ہوں تیری ذات کے نور کے ساتھ جس سے تاریکیاں روشن ہوجاتی ہیں۔اور دنیا و آخرت کے کام سنور جاتے ہیں۔اگر تو نازل کرے اپنا غضب مجھ پر اور تو اتارے مجھ پر اپنی ناراضگی میں تیری رضا طلب کرتا رہوں گا یہاں تک کہ تو راضی ہوجائے۔تیری ذات کے بغیر نہ میرے پاس کوئی طاقت ہے نہ قوت۔“(السیرۃ النبویہ ابن کثیر جلد دوم)


   حضورﷺ کفارِ مکہ کے تمام مصائب جھیل کر حق کے راستے پر آگے بڑھتے گئے۔لیکن جب حالات ابتر ہوگئے تو آنحضرتﷺ اس انتظار میں تھے کہ کب مجھے اللہ تعالٰی کی طرف سے ہجرت کا حکم ملے۔آپﷺ کسی طرح بھی اللہ کے گھر کی ہمسائیگی کو چھوڑنا پسند نہیں کرتے تھے اور مکہ معظمہ آپ کا وطنِ عزیز تھا۔اسی لئے آپﷺ جب بھی تصور کرتے تھے کہ مجھے اس شہر کو چھوڑنا ہوگا تو آپ کے دل مبارک پر ایک چوٹ سی پڑتی تھی۔اسی فکر میں پڑتے پڑتے رب کی رحمت برجوش آگئی اور اس نے مستقبل کے حوالے سے آپﷺ کو ایک ایسی جامع دعا سکھائی جو کہ اپنے اندر اُمید کا سمندر سمیٹے ہوئی ہے۔اس میں رب کی شفقت کا ظہور اور مایوسی کا بادل چھٹ جانے کا پورا امکان نظر آرہا ہے۔اس میں رب کا اپنے محبوب کی فکر اور چاہت روزِ روشن کی طرح عیاں ہے۔حق کے راستے میں چلتے ہوئے مسافر کو اس دعا میں رب کا یہ پیغام ہے کہ کوشش جاری رکھیں کیونکہ آج جو مسائل اس کو پہاڑ کے مترادف لگتے ہیں،کل یہی قصہ ماضی بن جائیں گے۔اپنے ماضی پر پچھتاوے اور اپنے مستقبل میں کودنے کے بجائے اسے صرف حال پر فوکس کرنا چاہئیے۔مایوسی اور ڈپریشن میں پڑے ہوئے انسان کو مستقبل اللہ کے حوالے کرنے سے ہی یہ کاٹ کھانے والی بیماریاں اسے چھٹکارا دلا سکتی ہیں۔اس دعا کو عملی جامہ پہنا کر حضورﷺ رب کے دربار میں من وعن انہی الفاظ میں فریاد کرنے لگے جو کہ اللہ تعالٰی نے انہیں بذریعہ وحی سکھائے تھے:

رَبِّ اَدۡخِلۡنِىۡ مُدۡخَلَ صِدۡقٍ وَّ اَخۡرِجۡنِىۡ مُخۡرَجَ صِدۡقٍ وَّاجۡعَلْ لِّىۡ مِنۡ لَّدُنۡكَ سُلۡطٰنًا نَّصِيۡرًا‏ ۞(الاسراء:80)

”پروردگار،مجھ کو جہاں بھی تُو لے جا سچائی کے ساتھ لے جا اور جہاں سے بھی نکال سچائی کے ساتھ نکال،اور اپنی طرف سے ایک اقتدار کو میرا مددگار بنادے۔“


    آپؐ نے زندگی کے قدم بقدم اپنے رب کو پُکارا اور اس پُکار کو وہ عبادت کے مغز سے جانتے اور مانتے تھے۔انہوں نے اپنی ذات کے ساتھ ساتھ اپنے صحابہؓ کو بھی رب کے در کا فقیر بنا دیا اور اس فقیری کو وہ اپنا اعزاز سمجھتے تھے۔ایک دفعہ آپؐ نے حضرت ابن عباسؓ کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:”جب تم کوئی چیز مانگو تو صرف اللہ سے مانگو،جب مدد مانگنا چاہو تو صرف اللہ تعالٰی سے ہی مدد مانگو۔“(ترمذی:2516)
     بڑی حاجات تو دور کی بات آپﷺ نے معمولی حاجات کا سوال بھی اللہ رب العزت کے سامنے کرنے کی ترغیب دی ہے۔حضرت انسؓ کہتے ہیں کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا:”تم میں سے ہر شخص کو اپنی ہر حاجت خدا سے مانگنی چاہئیے،حتٰی کہ اگر اس کی جوتی کا تسمہ بھی ٹوٹ جائے تو خدا سے دُعا کرے۔“(ترمذی)
  لہٰذا اُسوہ محمدﷺ کو فالو کر کے ہماری کامیابی اسی چیز میں مضمر ہے کہ ہم ہر لمحہ اور ہر آن اپنے رب ہی کو پُکاریں۔اس دینے والے کا دروازہ کبھی بند نہیں ہوتا لینے والے ہی دروازہ کھٹکھٹانا بھول جاتے ہیں۔ہم جب بھی چاہیں،جہاں چاہیں اپنے رب سے ہم کلام ہو سکتے ہیں۔ہمارے اور رب کے درمیان خود ہمارا نفس حائل ہے اور کوئی نہیں،ورنہ اللہ تعالٰی کا معاملہ تو یہ ہے کہ:

ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں

راہ دکھلائیں کسے، راہ روِ  منزل  ہی  نہیں

Comments