Supplication : The Only Way Forward (Part 2)



   دنیا میں انسانوں کے گل سرِ سبد انبیاء کرامؑ ہیں،ان کی زندگیوں کو پڑھ کر انسان محوِ حیرت میں چلا جاتا ہے کہ کس طرح انہوں نے حالات کے چیلنجز کا سامنا کرکے اپنے عظیم مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچا دیا۔وہ دن رات ایک کرکے رب کے کام میں لگے رہتے تھے کیونکہ انہوں نے حق کا راستہ”علٰی وجہ بصیرہ“ہی چن لیا تھا۔حق کی ترویج و اشاعت کے لیے انہوں نے جان جوکھوں میں ڈالا اور جاں گسل محنت کے ذریعے ہی اپنی منزل پر پہنچ کر دم لیا۔یہ راہِ حق کے سپاہی حق کے راستے میں صرف اپنے رب کے مدد کے ہی منتظر رہتے تھے اور انہوں نے واقعی طور پر دنیا کی ہر تمنا دل سے نکال کر رکھی تھی۔وہ اپنے رب پر بھروسہ کر کے ہی اسے ہر لمحہ اور ہرآن پکارتے تھے اور انہیں اس بات پر پورا یقین تھا کہ رب کے دربار سے کوئی بھی بندہ خالی ہاتھوں واپس نہیں لوٹایا جاتا بلکہ بندے کی جھولی میں ضرور کچھ نہ کچھ ڈالا جاتا ہے۔وہ قدم بقدم اسے پکارتے تھے کیونکہ وہ اس بات سے بخوبی واقف تھے کہ رب کا دربار انسانوں کے ہر دکھ کا مداوا اور ہر درد کا درماں ہے۔ یہ لوگ اپنی تمام تر قدرومنزلت کے باوجود بھی اللہ تعالٰی ہی کو پکارتے تھے۔اس عظیم عبادت کے ذریعے وہ اپنی قوم کو بھی یہ پیغام دیتے تھے کہ”مانگنا ہے تو صرف اپنے اللہ سے مانگو اور پھر مانگ کر تو دیکھو“۔قرآنِ پاک نے جگہ جگہ ان مایہ ناز ہستیوں کی عظیم فریادوں کو قلمبند کر رکھا ہے۔یہ فریادیں ان کے دلوں کی آواز تھی،جن میں امید کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی تھی۔ربِ کریم اپنے دربار میں ان عظیم ہستیوں کے قدموں کی آہٹ سنتے ہی ان کی طرف لپک کر ان کی جھولیوں کو خوشیوں سے بھر دیتا تھا۔رب کے دربار میں میزبانی ہی کچھ ایسی ہوتی ہے کہ بندہ کا دل اسی کا گرویدہ ہوتا ہے اور دار الامتحان میں مجبوراً واپس آنے کے لیے وہ بار بار پیچھے مُڑ کر بالاٰخر رب کے دربار سے نکلنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔طوالت سے بچنے کے لیے میں ان مایہ ناز ہستیوں میں سے چند ہی کے فریادوں کا تذکرہ کرنا یہاں مناسب سمجھتا ہوں۔


   حضرت آدمؑ و حواؑ کو جب شیطان کی اکساہٹ سے معمولی لچک ہوئی تو بعد میں ان دونوں نے سرِ تسلیم  خم کر دیا،ان کی آنکھ نم ہوئی اور وہ شرم سے پانی پانی ہوگئے۔بالاٰخر وہ دونوں رب کے دربار میں ان الفاظ میں فریاد کرنے لگے :

رَبَّنَا ظَلَمۡنَاۤ اَنۡفُسَنَا وَاِنۡ لَّمۡ تَغۡفِرۡ لَـنَا وَتَرۡحَمۡنَا لَـنَكُوۡنَنَّ مِنَ الۡخٰسِرِيۡنَ ۞(الاعراف:23)

”اے ربّ!ہم نے اپنے اوپر ستم کیا،اب اگر تُو نے ہم سے درگزر نہ فرمایا اور رحم نہ کیا تو یقیناً ہم تباہ ہو جائیں گے۔“

   قوم کو سمجھانے بجھانے کے سلسلے میں حضرت نوحؑ نے اپنی کوشش اور توانائی کا آخری قطرہ تک نچوڑ دیا اور اپنی حد تک کوئی بھی کسر باقی نہ چھوڑی۔یہ ان کی ہدایت کے متمنی تھے اور دن رات ایک کرکے ان کے پیچھے پڑے تھے۔قوم ان کی دعوت پر سنجیدہ غوروخوض کرنے کے باوجود ان کے خون کے ہی پیاسے ہوگئے اور انہیں سنگسار کرنے کی دھمگی دے دی۔حضرت نوحؑ ان سرکشوں سے انتقام لینے کے لیے رب کے دربار میں ان الفاظ میں فریاد کرنے لگے:

رَبِّ اَنِّىۡ مَغۡلُوۡبٌ فَانْـتَصِرۡ ۞(القمر:10)

”اے میرے رب میں مغلوب ہو چکا،اب تو اِن سے انتقام لے“

    حضرت نوحؑ کی ناقدری کے پاداش میں قوم بالاٰخر عذاب کا شکار ہوگئی اور زندگی کے وسائل کے اعتبار سے وہاں ہر چیز تباہی کی نذر ہوگئی تھی۔حضرت نوحؑ گنے چنے چند باایمان افراد کے ساتھ کشتی میں سوار تھے لیکن انہیں کوئی جایے پناہ نہیں ملتی تھی کہ جہاں پڑاؤ ڈال کر اطمینان کا سانس لے سکے۔ان گھمبیر حالات میں حضرت نوحؑ نے جایے پناہ کے لیے رب کے آستانے پر ہی ڈھیرہ ڈال دیا اور بہترین منزل پر اتارنے کے لیے اپنے رب سے ان الفاظ میں فریاد کی:

 رَّبِّ اَنۡزِلۡنِىۡ مُنۡزَلًا مُّبٰـرَكًا وَّاَنۡتَ خَيۡرُ الۡمُنۡزِلِيۡنَ۞(المٶمنون:29)

”پروردگار،مجھ کو برکت والی جگہ اُتار اور تُو بہترین جگہ دینے والا ہے۔“


 حضرت یونسؑ جب گہرے ظلمات میں پھنس گیے،ظلمات بھی ایسی کہ پڑھتے ہی جسم تھرتھرانے لگتا ہے۔مچھلی کے پیٹ کی تاریکی،سمندر کے پانی کی تاریکی اور پھر اوپر بادلوں کی تاریکی۔حضرت نوحؑ جب جان گئے کہ یہاں سے نکلنے کی کوئی سبیل ہی نہیں ہے تو انہوں نے وہ زندہ و جاوید دعا مانگی جو کہ  آج بھی بے سکونی کے شکار ہوئے انسان کو ہر قسم کی تاریکیوں سے چھٹکارا دلا سکتی ہے بشرطیکہ حضرت یونسؑ والی عاجزی اور منہج اختیار کیا جائے۔ان کا با ادب ہونا دعا کے پہلے الفاظ سے ہی پتہ چلتا ہے اور ان کی عاجزی دعا میں اپنے آپ کو”قصوروار“ کا لقب دینے سے محسوس ہوتا ہے۔اس درد بھری فریاد کو سنتے ہی رب العٰلمین نے انہیں مچھلی کے پیٹ سے خلاصی دی اور حیرانی کی بات یہ ہے کہ مچھلی نے انہیں سمندر کے درمیان کے بجایے ساحل کی ریت پر اگل دیا،جہاں پر رب العٰلمین نے ان کی جسمانی تقویت کے لیے غیبی طور کا سامان تیار کر رکھا تھا۔ان کی فریاد کے الفاظ واقعی طور پر دل کو موہ لیتے ہیں:

 لَّاۤ اِلٰهَ اِلَّاۤ اَنۡتَ سُبۡحٰنَكَ ‌ۖ  اِنِّىۡ كُنۡتُ مِنَ الظّٰلِمِيۡنَ‌ ۞(الانبیاء:87)

”نہیں ہے کوئی خدا مگر تُو،پاک ہے تیری ذات،بے شک میں نے قُصور کیا۔“

حضرت ایوبؑ کے جسم سے جب آبلے نمودار ہوئے،جنہوں نے بالاٰخر ناسوروں کی شکل اختیار کرلی تو وہ سخت جسمانی تکلیف میں گرفتار ہوگئے۔لیکن انہوں نے زبان پر حرفِ شکایت نہ لائی بلکہ وہ صبر کا نمونہ بن کر”مقامِ رضا“پر پہنچنے میں کامیاب ہوگیے،جس کا ثبوت ان کی فریاد سے ہی پتہ چلتا ہے:

 رَبِّ اَنِّىۡ مَسَّنِىَ الضُّرُّ وَاَنۡتَ اَرۡحَمُ الرّٰحِمِيۡنَ‌ ۞(الانبیاء:83)

” اے میرے رب مجھے بیماری لگ گئی ہے اور تُو ارحم الراحمین ہے۔“


 حضرت یعقوبؑ ایک مثالی پیغمبر تھے جنہوں نے حق کے راستے میں رب کی رضا کے خاطر ہر قسم کی سختیاں جھیلیں اور کبھی بھی رب کا دربار نہ چھوڑا اگرچہ مایوسی کا بادل کئی بار نمودار ہوتے بھی دیکھا۔ان کو اس بات پر کامل یقین تھا کہ بندہ عزیز جب مایوسی کے قریب پہنچنے لگتا ہے لیکن وہ اللہ تعالٰی سے اُمید کا رشتہ ٹوٹنے نہیں دیتا تو بالاٰخر اللہ تعالٰی اس کا ہاتھ تھام ہی لیتا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ بندہ عزیز کو کچھ دیر وہ آزمائش میں ڈالتا ہے لیکن جب ان کی قوتِ برداشت جواب دینے لگتی ہے تو پھر اس کی رحمت دامن تھام ہی لیتی ہے۔ حضرت یعقوبؑ اس وقت صبر کے پیکر بن گئے جب کہ ایک سازش کے تحت  اس کے لختِ جگر کو اس کی صحبت سے دور رکھا گیا،تو غیر کے آستانے کے بجائے انہوں نے رب کے آستانے پر ہی ڈھیرہ ڈالنا پسند کیا اور دو ٹوک الفاظ میں سازش کرنے والوں کو کہا کہ:

 اِنَّمَاۤ اَشۡكُوۡا بَثِّـىۡ وَحُزۡنِىۡۤ اِلَى اللّٰهِ ۞(یوسف:86)

”میں اپنی پریشانی اور اپنے غم کا شکوہ اللہ تعالیٰ ہی سے کرتا ہوں۔“

     یہ الفاظ امید سے پُر ہیں اور ان جلیل القدر پیغمبر کی اندرونی حالت کو باور کراکے رہتی دنیا تک انسانوں کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ مایوسی کے بجایے امید میں ہی زندگی ہے۔


   اسی سے ملتی جلتی تصویر ہمیں حضرت ابراہیمؑ کے ان الفاظ میں ملتی ہے،جو کہ انہوں نے قوم کو خیرباد کہہ کر کہے تھے:

 اِنِّىۡ ذَاهِبٌ اِلٰى رَبِّىۡ سَيَهۡدِيۡنِ‏ ۞(الصافات:37)

 ”میں اپنے رب کی طرف جاتا ہوں وہ میری رہنمائی فرمائے گا“

قوم کو خیرباد کہنے سے پہلے بھی وہ ہر لمحہ اور ہر آن  اپنے رب سے ہی آس لگایے بیٹھے تھے۔وہ اس بات سے بخوبی واقف تھے کہ اسی کے در سے سب کچھ مل سکتا ہے اور جو بندہ اس کے اعتماد پر اسی کے کوچے کا مسافر بنتا ہے تو اسے وہ ہرگز مایوس نہیں کیا کرتا۔دعوت کا کام کرتے کرتے ایک دفعہ باپ سے مخاطب ہوئے اور انہیں درد بھرے انداز میں دینِ اسلام کی دعوت دی لیکن واپسی میں باپ نے اگرچہ تیز لہجہ اختیار کیا لیکن ابراہیمؑ نے انہیں سلام کہا اور وعدہ کیا کہ میں آپ کی خاطر اپنے رب کو ضرور پکاروں گا۔باپ کو کہا کہ میں آپ لوگوں سے بھی کنارہ کرتا ہوں اور ان ہستیوں سے بھی جن کو تم خدا کو چھوڑ کر پکارتے ہو۔ آخر پر  ایسے الفاظ زبان پر لائے کہ جن کے ذریعے سے ایک طرف باپ کو اپنے موقف سے باور کرایا تو دوسری طرف رہتی دنیا تک لوگوں کو یہ پیغام دیا کہ اپنے معبودِ برحق پر کیسا بھروسہ اور کس قسم کا تعلق ہونا چاہئیے؟

 وَاَدۡعُوۡا رَبِّىۡ‌ ‌ۖ عَسٰٓى اَلَّاۤ اَكُوۡنَ بِدُعَآءِ رَبِّىۡ شَقِيًّا‏ ۞(مریم:48)

 ”میں تو اپنے رب ہی کو پکاروں گا،امید ہے کہ میں اپنے رب کو پکار کے نامراد نہ رہوں گا“

   ایک بار باپ اور قوم کو رب العٰلمین کا تعارف دینے کے بعد فوراً اسے ان الفاظ میں فریاد کرنے لگے:

رَبِّ هَبۡ لِىۡ حُكۡمًا وَّاَلۡحِقۡنِىۡ بِالصّٰلِحِيۡنَۙ۞وَاجۡعَلْ لِّىۡ لِسَانَ صِدۡقٍ فِى الۡاٰخِرِيۡنَۙ۞وَاجۡعَلۡنِىۡ مِنۡ وَّرَثَةِ جَنَّةِ النَّعِيۡمِۙ۞ وَاغۡفِرۡ لِاَبِىۡۤ اِنَّهٗ كَانَ مِنَ الضَّآلِّيۡنَۙ۞وَلَا تُخۡزِنِىۡ يَوۡمَ يُبۡعَثُوۡنَۙ ۞(الشعراء87-83)

”اے میرے رب!مجھے قوت فیصلہ عطا فرما اور مجھ کو صالحین کے ساتھ ملا اور بعد کے آنے والوں میں مجھے سچی ناموری عطا فرما اور مجھے نعمتوں والی جنت کے وارثوں میں شامل فرما اور میرے باپ کو معاف فرما دے، بیشک وہ گمراہوں میں سے ہے اور مجھے اس دن رسوا نہ کر جس دن لوگ اٹھائے جائیں گے“


  جضرت یوسفؑ کو جب زلیخا نے گناہ کی طرف دعوت دی اور گناہ بھی معمولی انداز میں نہیں بلکہ وہ تاج پہنا کے رکھا گیا تھا۔حضرت یوسفؑ نے سوچا ایک طرف گناہ کا مزے دار راستہ ہے جو کہ بالاٰخر شیطان سے ملاکر مجھے جاہلوں میں شامل کردے گا اور دوسری طرف ثواب کا پُر خطر راستہ ہے جو کہ محبوبِ حقیقی تک جا پہنچتا ہے۔انہوں نے گناہ میں کود پڑنے کے بجائے جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہی رہنا پسند کیا،جہاں اس گناہ کا خیال تک بھی انسان کو مس نہیں کرتا ہے اور انسان رب کا مہمان بن کر تسلیم ورضا کی جنت میں پہنچ جاتا ہے۔ایک طرف ان کی فریاد میں ایمان کی طاقت کا ظہور ہے تو دوسری طرف عاجزی و انکساری اپنے نقطہ عروج پر دیکھنے کو ملتی ہے:

قَالَ رَبِّ السِّجۡنُ اَحَبُّ اِلَىَّ مِمَّا يَدۡعُوۡنَنِىۡۤ اِلَيۡهِ‌ۚ وَاِلَّا تَصۡرِفۡ عَنِّىۡ كَيۡدَهُنَّ اَصۡبُ اِلَيۡهِنَّ وَاَكُنۡ مِّنَ الۡجٰهِلِيۡنَ‏ ۞(یوسف:33)

”یُوسُفؑ نے کہا”اے میرے ربّ! قید مجھے منظور ہے بہ نسبت اس کے کہ میں وہ کام کروں جو یہ لوگ مجھ سے چاہتے ہیں۔اور اگر تُو نے ان کی چالوں کو مجھ سے دفع نہ کیا تو میں ان کے دام میں پھنس جاٶں گا اور جاہلوں میں شامل ہو رہوں گا“

   آج پورا معاشرہ گناہوں میں ڈوب کر تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔تاریخ شاہد ہے کہ جب حالت یہاں پہنچ جاتی ہے تو پھر ہر گھر میں ایک زلیخا جنم لیتی ہے۔گھروں کے دروازے گناہ کے لئے کھل جاتے ہیں اور گناہ کی دعوت کسی ایک زلیخا کی طرف سے نہیں بلکہ ہر گھر،ہر ادارے اور ہر ذریعہ ابلاغ سے گونجنے لگتی ہے۔دورِ نو میں مسلم نوجواں کو چاہئیے کہ وہ مصنوعی زلیخا کے پیچھے پڑنے کے بجائے سنتِ یوسفی کو ازسرِ نو زندہ کرے۔

*کیا ہمارے معاشرے میں آج سچ مچ میں ہے کوئی نوجوان تیار جو کہ سنتِ یوسفی کو زندہ کرسکے؟*

  ایک موقعہ پر جب حضرت یوسفؑ نے اپنے اوپر رب کے انعامات کی بارش دیکھی تو آپؑ رب کی حمد و سپاس میں ڈوب گئے اور بندوں کی طرف سے رخ پھیر کر ایک اللہ کی طرف رخ کرکے ان الفاظ میں عرض گزار ہوگئے:

رَبِّ قَدۡ اٰتَيۡتَنِىۡ مِنَ الۡمُلۡكِ وَ عَلَّمۡتَنِىۡ مِنۡ تَاۡوِيۡلِ الۡاَحَادِيۡثِ‌ ۚ فَاطِرَ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ اَنۡتَ وَلِىّٖ فِى الدُّنۡيَا وَالۡاٰخِرَةِ‌ ۚ تَوَفَّنِىۡ مُسۡلِمًا وَّاَلۡحِقۡنِىۡ بِالصّٰلِحِيۡنَ ۞(یوسف:101)

”اے میرے رب تو نے مجھے حکومت بخشی اور باتوں کی تعبیر کے علم میں سے بھی سکھایا۔ اے آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے والے تو ہی دنیا اور آخرت میں میرا کارساز ہے۔ میرا خاتمہ اسلام پر کر اور مجھے نیکوکاروں کے زمرہ میں شامل فرما۔“


    اللہ تعالٰی کی ذات ہی وہ واحد ذات ہے جو ناممکنات کو ممکنات میں تبدیل کرنے کی طاقت رکھتی ہے۔وہ مسبب الاسباب ہے جو اسباب کا محتاج نہیں ۔وہ بے جان میں سے جان دار چیز کو نکالنے پر پوری کی پوری قدرت رکھتا ہے۔اسی عقیدے کو ذہن میں رکھتے ہوئے جب حضرت زکریاؑ نے بے موسم میں اور بغیر کسی واسطے کے حضرت مریمؑ کے پاس تازہ پھل دیکھے تو فوراً اس کے ذہن میں یہ خیال آیا کہ اگرچہ میں بوڑھا کھسوٹ ہو چکا ہوں اور میری بیوی بانجھ ہو چکی ہے تو کیوں نہ اللہ تعالٰی بڑھاپے میں ہمیں ایک پاکیزہ اولاد عطا کرکے ہمیں روحانی سکون سے مستفیض کر سکے۔اس کے پاس ایک قیمتی سرمایہ یہ تھا کہ اسے رب کی بے پناہ طاقتوں پر پورا یقین تھا،اسی یقین نے اسے رب کے دروازے پر دستک دینے پر مجبور کر دیا۔رب کے دروازے پر پنہچ کر اس نے ایک ایسی دعا مانگی جو کہ درد اور اثر میں پوری طرح ڈوبی ہوئی تھی:

 رَبِّ هَبۡ لِىۡ مِنۡ لَّدُنۡكَ ذُرِّيَّةً طَيِّبَةً‌ ‌ ۚ اِنَّكَ سَمِيۡعُ الدُّعَآءِ ۞(اٰل عمران:38)

”اے میرے رب!عطا فرما مجھ کو اپنے پاس سے پاکیزہ اولاد،بیشک تو ہی سننے والا ہے دعا کو“


حضرت موسٰیؑ نے جب مصر سے مدین کا رخ کیا تو امید کا چراغ ہاتھ میں لیتے ہوئے دل ہی دل میں رب سے فریاد کرنے لگے،یہ باتیں ہمیں قرآنِ پاک میں ان الفاظ میں دیکھنے کو ملتی ہیں:

وَلَـمَّا تَوَجَّهَ تِلۡقَآءَ مَدۡيَنَ قَالَ عَسٰى رَبِّىۡۤ اَنۡ يَّهۡدِيَنِىۡ سَوَآءَ السَّبِيۡلِ ۞(القصص:22)

”اور جب موسیٰ نے مدین کا رخ کیا تو آپ نے دعا کی امید ہے کہ میرا رب سیدھے راستے کی طرف میری رہنمائی فرمائے گا“

    راستے میں چلتے چلتے وہ ایک مقام پر پہنچ گئے جہاں ایک پیڑ کے نیچے ہی اپنا ڈھیرہ ڈال دیا۔نہ کھانے کی کوئی چیز میسر اور نہ ہی سر چھپانے کے لئے کوئی جگہ موجود تھی۔آئیندہ کیا صورت پیش آنے والی ہے اس کا بھی کوئی سروسامان نہیں تھا۔اس موقعہ پر انہوں نے ایک دعا مانگی جو کہ اس قدر مختصر اور اس قدر حُسنِ ایجاز سے مرصع ہیں کہ قلم اس کی تعریف کرنے سے عاجز ہے۔اس نے دعا میں لفظ”خیر“ استعمال میں لاکر اپنی تمام ضرورتوں کو سمیٹ لیا تھا۔واقعی طور پر اپنی ذات کو”فقیر“ کا لقب دینے سے ہی یہ محسوس ہوتا ہے کہ کیسی انکساری ٹپکتی ہے ان کے بول سے:

 رَبِّ اِنِّىۡ لِمَاۤ اَنۡزَلۡتَ اِلَىَّ مِنۡ خَيۡرٍ فَقِيۡرٌ ۞(القصص:24)

 ”اے میرے رب ! جو خیر بھی تو مجھ پر نازل کردے، میں اس کا محتاج ہوں“


حواريوں نے ایک دفعہ حضرت عیسٰیؑ ابنِ مریمؑ سے فرمائش کی کہ کیا آپ کا رب ہم پر آسمان سے کھانے کا ایک خوان اتار سکتا ہے؟تو عیسٰیؑ نے کہا اللہ سے ڈرو اگر تم مٶمن ہو۔انہوں نے عیسٰیؑ کی غیبی اخبار پر یقین والا ایمان پیدا کرنے کے لئے جب بار بار اصرار کیا تو بالاٰخر حضرت عیسٰیؑ ابنِ مریمؑ نے اپنے پروردگار سے ان الفاظ میں دعا کی:

 اَللّٰهُمَّ رَبَّنَاۤ اَنۡزِلۡ عَلَيۡنَا مَآئِدَةً مِّنَ السَّمَآءِ تَكُوۡنُ لَـنَا عِيۡدًا لِّاَوَّلِنَا وَاٰخِرِنَا وَاٰيَةً مِّنۡكَ‌ۚ وَارۡزُقۡنَا وَاَنۡتَ خَيۡرُ الرّٰزِقِيۡنَ ۞(المائدہ:114)

 ”خدایا! ہمارے رب!ہم پر آسمان سے ایک خوان نازل کر جو ہمارے لیے اور ہمارے اگلوں پچھلوں کے لیے خوشی کا موقع قرار پائے اور تیری طرف سے ایک نشانی ہو،ہم کو رزق دے اور تو بہترین رازق ہے“

Comments

Post a Comment