Let The Sky Bring Dew On Your Lap


  دنیا میں ایک انسان کو بہت سارے انسانوں سے سابقہ پڑتا ہے اور ان میں کچھ کی مثال ایک ایسے پھول کے مترادف ہوتی ہے کہ جس کی وجہ سے ہی چمن کی زینت اور خوبصورتی قائم ہوتی ہے۔اندازہ کرو اس چمن کی حالتِ زار پر جس کو فرشتہ اجل نے عین اس وقت توڑ دیا ہو جب وہ اپنے شباب پر تھا۔علاقہ یاری پورہ کے ایک چھوٹے سے گاٶں”کاٹا پورہ“میں اس وقت غم و اندوہ کی لہر دوڑ گئی جب یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی کہ اس گاٶں کے ایک خوبصورت،متحرک،خوش خلق اور انسان دوست انسان جناب”فیروز احمد ملک“ صاحب داعی اجل کو لبیک کہہ گئے۔قالو انا لله وانا الیہ راجعون۔جس نے محض 40 بہاریں دیکھی تھی اور عین وقت شباب میں تبسم بر لب اوست کے مصداق ہمیں داغ مفارقت دے کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہم سے جدا ہوگیا۔اللہ انہیں جوارِ رحمت میں جگہ عطا کریں اور اللہ تعالٰی ان کے لواحقین کو یہ صدمہ عظیم برداشت کرنے کی توفیق عطا فرمایے آمین۔موت سے چند دن پہلے ان کے ہارٹ کی سرجری ہوئی تھی اور اس کے چند دن بعد ہی یہ سانحہ اچانک پیش آیا۔اس کے موت سے سارے علاقے پر سناٹا چھا گیا اور خاص طور پر نوجوان لرزنے لگے۔

     پیشے کے لحاظ سے وہ بھیڑ چراتے تھےاور اس پیشے میں اُس نے کافی مہارت حاصل کی تھی،بلکہ اکثر لوگ انہیں اسے پیشے سے جانتے تھے۔غربت کی وجہ سے انھوں نے اس پیشہ کو منتخب کیا تھا اور دن رات اللہ کے فضل کے تلاش میں سرگرداں رہتے تھے۔کرکٹ بھی بہت ہی شاندار طریقے سے کھیلا کرتے تھے بالخصوص تیز گیند پھینکنے میں ماہر تھے اور بہت سارے اوقات پر انہیں اچھے انعاموں سے بھی  نوازا گیا۔مچھلیاں پکڑنے میں بہت مشہور تھے اور کبھی کبھار شکار کرنے کے لیے وہ درمیانی رات بھی اپنے گھر سے نکلا کرتے تھے۔دل ایسا مضبوط تھا کہ گاٶں والے مثال دیا کرتے تھے اور بہت بار بھارتی فوج سے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کی۔انہیں نوجوانی کے پہلے ایام میں ہی ٹارچر سے بھی دوچار ہونا پڑا اور بھارتی فوج کے ذریعے سے اکثر ان کے گھر کی تلاشی لی جاتی تھی۔وہ واقعی طور پر اپنے اندر شیر کا دل رکھتے تھے،جس کی جھلک اس کے چہرے پر ہی دکھتی تھی۔بھیڑ کے ساتھ وہ زیادہ وقت اپنی بستی کے باہر ہی گزارتے تھے۔ہر کوئی کام اپنے ہاتھ سے کرتے تھے اور گاٶں میں اگر کوئی فرد درمیانی رات کو بھی فون کرتا تو فوراً نکل آتے تھے۔ان کی جسمانی قوت دور سے ہی دکھائی دیتی تھی اور نوجوانوں کو ان کی جسمانی صحت دیکھ کر رشک آتا تھا۔بیماری اس کے قریب بھی نہ پھٹکتی لیکن آج اچانک ہارٹ کی سرجری کے چند دن بعد اس شیر والا دل رکھنے والے نوجوان کو بھی موت نے اپنی آغوش میں لے لیا۔وائے حسرتا!

 میرے ساتھ انہیں قریبی تعلق تھا اور مجھے وہ ”مولوی“کے لقب سے نوازتے تھے۔میں نے بذاتِ خود اس کی انسان دوستی کا مشاہدہ ایک سفر میں کیا۔یہ سفر لدھیانہ تک تھا اور اس سفر میں مجھے اپنے والدِ محترم بھی ساتھ تھے اور ان دنوں میں بہت چھوٹا تھا۔اس سفر کا تذکرہ کبھی کبھی ہماری زبانوں پر آتا تھا۔خود دکھ اٹھا کر دوسروں کو آرام دینا ان کا شیوہ تھا،جس کا ثبوت ان کے قریبی ساتھی دیا کرتے تھے۔ اس صدمہ عظیم کو برداشت کرنا گھر والوں اور رشتہ داروں کے ساتھ ساتھ ایک گروپ کو بھی بس سے باہر ہے جسے ہم”چِھرنبل گروپ“ کے نام سے جانتے تھے۔اصل میں یہ ایک ایکسکرشن گروپ تھا جسے انہوں نے چند دوستوں کے مشورے سے بنایا تھا اور یہ کاروان ہر سال چِھرنبل سیر کرنے کے لیے جایا کرتے تھے۔میں اس گروپ کا ایک ممبر تھا اور میں اس سیر میں ان کی ”انسان دوستی“ کا چشم دید گواہ ہوں۔پچھلے سال جب ہم گیے تو ایک روز صبح سویرے ہی مجھے بیدار کیا اور کہا کہ ”مولوی“ آج آپ بھی میرے ساتھ مچھلی پکڑنے کے لیے آٶ اور دریا پر ان کی مہارت دیکھ کر میں بذاتِ خود محوِ حیرت میں چلا گیا۔واپسی پر اس نے انہیں اس طرح تیار کیا کہ ہم اس کی چاشنی اب بھی محسوس کر رہیں ہیں۔ہم لوگ گھومتے پھرتے تھے اور جب ٹھکانے پر آتا تھے تو ان کو میں کھانا پکانے میں مصروف دیکھتا تھا۔وہاں وہ ہماری خدمت اس طرح کرتے تھے کہ گھر نکلنے کو دل ہی نہ چاہتا تھا۔ان کی وہاں انسان دوستی دیکھ کر میں اس نتیجہ پر پہنچ گیا تھا کہ دوسروں کے لیے جینے میں ہی زندگی ہے۔جس انسان میں بھی خدمتِ خلق کی صفت موجود ہوتی ہے لوگوں کے دل خود بخود اس کی طرف مائل ہوجاتے ہیں اور اس کی ہر ادا ذہن پر نقش رہتی ہے۔اس صفت سے جو لوگ متصف ہوتے ہیں وہ اپنی زندگی کو درخت کی طرح بنا کر خود سورج کی تپش کو برداشت کرتے ہیں لیکن آنے والوں کو سکون بخشتے ہیں۔

    مجھے بذاتِ خود ”ملِک صاحب“ کی اچانک موت کی خبر سن کر سر چکرانے لگا۔انہوں نے ہمیں اپنا سفرِ آخرت جاری کرکے موت کی حقیقت سمجھائی۔موت کا آنا قطعی اور برحق ہے۔اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے:

وَ جَآءَتۡ سَكۡرَةُ الۡمَوۡتِ بِالۡحَـقِّ‌ؕ ذٰلِكَ مَا كُنۡتَ مِنۡهُ تَحِيۡدُ ۞(ق:19)

”اور موت کی جاں کنی حق لے کر آگئی، یہ ہے وہ چیز جس سے تو بھاگتا تھا۔“

انسان ہمیشہ موت سے بھاگتا ہے اور مختلف پلاننگ کے ذریعے سے اس سے بچنے کی کوشش کرتا رہا مگر آخر میں ہمیشہ فتح موت کی ہی رہی اور ہوتی بھی رہے گی۔موت ایک ایسی انجام ہے کہ جس سے کسی متنفس کو مفر نہیں،وہ ناقابلِ علاج ہے اور رہے گی۔وقتی طور پر اگر انسان کسی عزیز کی موت اور تجہیز وتکفین پر اپنی موت اور قبر کا نقشہ آنکھوں کےسامنے لاتا بھی ہے تو فوراً اس خیال کو جھٹک کر روز مرہ کے معمولات میں اپنے آپ کو مصروف کر لیتا ہے۔اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ غفلت کی دبیز چادر اپنے اوپر اوڑھ کر خود اپنے ہاتھوں ہی اپنی آخرت کو برباد کر ڈالتا ہے۔حالانکہ حساب وکتاب کا دن بہت ہی قریب ہے،جس کا احساس انسان کو موت کی آخری ہچکی پر ہی ہوتا ہے۔کاش!کہ وہ پہلے ہی مان کر زندگی کے اس کٹھن مرحلہ کے لیے تیاری کر لیتا۔اللہ تعالٰی نے اسی بات کی ترغیب قرآنِ پاک میں ان الفاظ میں دی ہے:

اِقۡتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُهُمۡ وَهُمۡ فِىۡ غَفۡلَةٍ مُّعۡرِضُوۡنَ‌ۚ ۞(الانبیاء:1)

”قریب آگیا ہے لوگوں کے لیے ان کے محاسبے کا وقت اور وہ ہیں کہ غفلت میں منہ پھیرے ہوئے ہیں۔“


      وقتاًفوقتاً انسانوں کو اپنی آنکھوں کے سامنے موت سے ہمکنار ہوتے ہوئے دیکھنا ایک سمجھ بوجھ رکھنے والے انسان کو نتیجہ اخذ کرکے ہی چھوڑتا ہے۔وہ زندگی کی راز کو پا لیتا ہے اور اس فانی دنیا پر مرمٹنے کے بجائے حیاتِ جاوداں کی طرف لپکتا ہے۔موت کے عظیم سںانحات اپنی آنکھوں سے دیکھ کر ہمیں اپنے من میں ڈوب کر زندگی کا سراغ پانے کی حتی المقدور کوشش کرنی چاہئیے۔ہم کیا ہیں اور ہمیں کیا کرنا چاہیئے،یہ بات ہم تب تک سمجھ نہیں پائیں گے جب تک کہ ہم جسم و جان اور قلب و ذہن سے یہ جان نہ لیں کہ ہمارا وجود فانی ہے اور موت قدم سے قدم ملا کر ہمارے ساتھ اس دن سے  چل رہی ہے جس دن ہم نے دنیا میں پہلا سانس لیا تھا۔ایک عقلمند،با غیرت اور حساس مومن شام کو اس سوچ سے سونے لیٹتا ہے کہ شاید صبح نصیب نہ ہو اور ہر صبح کا خیر مقدم وہ اس علم اور شعور کے ساتھ کرتا ہے کہ ممکن ہے کہ وہ اس کی شام نہ کر پایے۔

   وہ لوگ جو زندگی کی حقیقت جان لیتے ہیں وہ ہمیشہ موت کو ذہن میں رکھ کر اپنی فکر میں لگ جاتے ہیں۔وہ عملِ صالحات سرِ انجام دینے کے باوجود بھی رب سے قبولیتِ اعمال کے لیے پکارتے ہیں۔اس فانی دنیا کو وہ آخرت کی کھیتی سمجھ کر دن رات رب کی رضا کی خاطر ایک کرتے ہیں۔وہ بار بار احتساب کا ہتھیار ہاتھ میں لے کر اپنے اعمال پر نظر دوڑاتے ہیں اور جب کمی دکھنے لگتی ہے تو رب کی بارگاہ میں”توفیق“ کی صدائیں لگاتے ہیں۔ان لوگوں کے شب وروز میں ایک ذائقہ،ایک لطف، ایک خوشی اور ایک جذبہ تشکر پیدا ہوتا ہےکیونکہ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ انسان کی زندگی کا انجام کیا ہے،اس دنیا کی راحتوں اور کلفتوں کی حقیقت کیا ہے۔جب کہ انسان نما چوپائے اس سے نا آشنا اور غافل رہتے ہیں۔
       لہٰذا جو شخص بھی اپنے رب سے ملنے کی آس رکھتا ہو اسے قرآنِ پاک میں عملِ صالحات اور شرک سے پرہیز کرنےکی دعوت ان الفاظ میں دی گئی ہے:

 فَمَنۡ كَانَ يَرۡجُوۡالِقَآءَ رَبِّهٖ فَلۡيَـعۡمَلۡ عَمَلًا صَالِحًـاوَّلَايُشۡرِكۡ بِعِبَادَةِ رَبِّهٖۤ اَحَدًا ۞        (الکھف:110)

"جو شخص اپنے رب سے ملنے کی امید رکھتا ہے اسے چاہیے کہ نیک عمل کرے اور اپنے رب کی عبادت میں کسی کو شریک نہ ٹھہرائے۔“

  خوش نصیب ہیں وہ لوگ جنہوں نے دنیا میں رہتے ہوئے اپنے آپ کو لقائے رب کے لیے آمادہ اور تیار کر لیا۔

*کاش!کہ ہم کمر بانھنے کے لیے تیار ہو جائیں۔*

Comments

  1. Indeed he was an emphatic soul ..May Allah grant him jannah.

    ReplyDelete

Post a Comment