”آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری امت کی عمریں ساٹھ اور ستر کے درمیان ہیں۔“(ترمذی)
لیکن اللہ تعالٰی نے باقی امتوں کے مقابلہ میں امتِ محمدیہ پر ایک اور فضل کیا وہ یہ کہ انہیں ایسے نیک اعمال کرنے کی ترغیب دی کہ جن پر عمل پیرا ہونے سے ہی ایک انسان کو لمبی عمر ملنے کے ساتھ ساتھ ایک بڑا اجر بھی مل جاتا ہے۔ان نیک اعمال میں سے لیلتہ القدر ہے جس کے بارے میں اللہ تعالٰی کا فرمان ہے:
لَيۡلَةُ الۡقَدۡرِ ۙ خَيۡرٌ مِّنۡ اَلۡفِ شَهۡرٍؕ ۞(القدر:3)
”شبِ قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے“
امام رازیؒ فرماتے ہیں:جان لیجیے!کہ جو شخص اس رات بیدار رہا،گویا اس نے تراسی سال اللہ کی عبادت کی اور جو ہر سال اس رات کو جاگتا رہا تو گویا اسے لمبی عمر کی نعمت ملی۔
اپنے بندے کے ساتھ انتہائی درجہ کی شفقت کا اظہار کر کے اللہ تعالٰی نے امتِ محمدیہ کو نیک اعمال کرنے کا حکم دینے کے ساتھ ساتھ چند بابرکت اوقات کا تحفہ بھی فراہم کیا تاکہ وہ اِن میں توشہ آخرت جمع کرنے کا بھر پور فائدہ اُٹھا سکیں۔اتنی سہولیت رکھنے کے باوجود بھی جو اُمتی اب اپنے معبودِ حقیقی کو پہچان کر اس کا قرب حاصل کر نہ سکے تو اِس سے بڑھ کر دنیا میں اور کوئی بدنصیب نہ ہوگا۔عقلمند اور حساس امتی وہ ہے جو اس مختصر سی زندگی میں اِن بابرکت اوقات میں اعمالِ صالحہ کو محبتًا سرِ انجام دے کر اپنے آپ کو عملِ قلیل پر اجرِ کثیر کا مستحق بنا سکیں۔ایسے بابرکت اوقات میں سے عشرہ ذی الحجہ بھی ہے۔ ویسے تو ذی الحجہ کا پورا مہینہ اپنی ذات میں خیر و برکت والا مہینہ ہے ، لیکن اس مہینہ کا پہلا عشرہ خصوصیت کے ساتھ مزید فضیلت کا حامل ہے۔چنانچہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
وَالۡفَجۡرِۙ ۞ وَلَيَالٍ عَشۡرٍۙ ۞(الفجر:2-1)
”قسم ہے فجر کی اور دس راتوں کی“
جمہور مفسرین نے اِن دس راتوں سے ذی الحجہ کی پہلی دس راتیں ہی مراد لی ہیں۔ جس سے ذی الحجہ کے پہلے دس دنوں کی فضیلت ہی کا اثبات ہوتا ہے۔ ایک اور جگہ قرآن میں ارشادِ ربانی ہے:
وَيَذۡكُرُوا اسۡمَ اللّٰهِ فِىۡۤ اَ يَّامٍ مَّعۡلُوۡمٰتٍ (الحج:28)
احادیثِ نبوی میں بھی عشرہ ذی الحجہ کی بہت زیادہ فضیلت بیان کی گئی ہے، ان میں سے چند حسبِ ذیل ہیں:
حضرت عبد اللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺْ کا ارشاد گرامی ہے:
’’جتنا کوئی نیک عمل اللہ تعالیٰ کو ان دس دنوں (یعنی ذی الحجہ کے پہلے دس دنوں )میں پسند ہے، اتنا کسی دن میں پسند نہیں۔ آپ سے پوچھا گیا، یا رسول اللہ! جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں؟ آپ نے جواب دیا۔ ہاں جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں، مگر کوئی شخص اللہ کی راہ میں جان و مال کے ساتھ شہید ہی ہو جائے۔“ (بخاری)
حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺْ نے فرمایا :
*’’اللہ تعالیٰ کے نزدیک کوئی عمل اتنا با عظمت اور محبوب نہیں ، جتنا یہ عمل ہے جو ان دس دنوں میں کیا جائے۔ پس تم ان دنوں میں کثرت سے تہلیل ، تکبیر اور تحمید کہوـ“*
یعنی لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ ، اَللّٰہُ اَکْبَرْ اور اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ کا ورد کرو۔ (مسند احمد )
ابن حجرؒ فتح الباری میں کہتے ہیں کہ عشرہ ذی الحجہ کے امتیاز کا سبب یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس میں بڑی بڑی عبادات نماز،روزہ،صدقہ اور حج اکٹھا ہو جاتی ہیں، اس کے علاوہ کسی اور عشرہ میں نہیں آتیں۔ابن رجبؒ اپنی کتاب اللطائف میں کہتے ہیں کہ اللہ تعالٰی نے اپنے مومن بندوں کے دلوں میں اپنے گھر کو دیکھنے کا اشتیاق رکھا ہے لیکن ہر کوئی ہر سال اسے دیکھنے کی قدرت نہیں رکھتا۔اہل استطاعت پر عمر میں ایک بار حج فرض کیا جبکہ پیچھے رہنے والوں کےلیے عشرہ ذی الحجہ کا موسم مشترک بنا دیا۔
لہٰذا ان مبارک دنوں میں غیر ضروری تعلُّقات سے ہٹ کر اللہ جَلَّ شَانہ، کی عبادت اور اطاعت بہت لگن اور توجہ کے ساتھ کرنی چاہیے اور ہمہ تن اللہ تعالیٰ کی یاد میں مشغول رہنا اور ذکر و فکر، تسبیح و تلاوت، صدقہ، خیرات اور نیک اعمال میں کچھ نہ کچھ اضافہ کرنا اور گناہوں سے بچنا چاہیے اور نفلی روزوں کا بھی جہاں تک ہو سکے اہتمام کرنا چاہیے۔
صحابہ کرام ؓ کا عمل
مذکورہ احادیث پر عمل کرتے ہوئے صحابہ کرام عشرہ ذی الحجہ میں خوب ذوق و شوق سے اعمال صالحہ اور عبادات و نوافل کا اہتمام فرماتے تھے۔ چنانچہ حضرت ابن عمر ؓ اور حضرت ابو ہریرہؓ کا یہ عمل تھا کہ وہ ان دس ایام میں بازار جاتے اور بلند آواز سے تکبیریں پڑھتے، انہیں دیکھ کر دوسرے لوگ بھی تکبیریں پڑھنا شروع کر دیتے۔ حضرت سعید بن جبیرؓ کے متعلق آتا ہے کہ وہ عشرہ ذی الحجہ میں بسلسلہ اعمال صالحہ خوب سعی و کوشش کرتے۔(بیہقی)
عرفے کے روزے کی فضیلت
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ:
*’’رسول اللہ ﷺْ نے فرمایا کہ کوئی دن ایسا نہیں جس میں اللہ تعالیٰ عرفہ (یعنی نو ذی الحجہ) کے دن سے زیادہ بندوں کو جہنم سے نجات دیتے ہوں، اور اللہ تعالیٰ (عرفہ کے دن) بندوں کے قریب ہوتے ہیں، پھر فجر کے طور پر فرشتوں سے فرماتے ہیں کہ یہ بندے کیا چاہتے ہیں؟“* (مسلم)
کئی احادیث میں نو ذی الحجہ کے دن کے روزے کی بیش بہا فضیلت بیان کی گئی ہے۔حضرت ابو قتادہ انصاریؓ سے ایک لمبی حدیث میں روایت ہے کہ:
’’اور رسول اللہ ﷺْ سے عرفہ (یعنی نو ذی الحجہ) کے دن کے روزہ کے بارے میں سوال کیا گیا؟ تو رسول اللہ ﷺْ نے فرمایا کہ یہ ایک سال گزشتہ، اور ایک سال آئندہ(کے صغیرہ گناہوں ) کا کفارہ کر دیتا ہے۔‘‘ (مسلم)
اور حضرت ابو قتادہؓ کی ایک روایت میں ہے کہ:
’’نبی ﷺْ نے فرمایا کہ عاشوراء (یعنی دس محرم) کا روزہ گزشتہ سال (کے صغیرہ گناہوں ) کا کفارہ کر دیتا ہے، اور عرفہ (یعنی نو ذی الحجہ ) کا روزہ دو سالوں (کے صغیرہ گناہوں ) کا کفارہ کر دیتا ہے، ایک گزشتہ سال کا اور ایک آئندہ سال کا۔“ (السنن الکبرٰی للنسائی)
حضرت سعید بن جبیر سے روایت ہے کہ:
’’ایک آدمی نے حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے عرفہ کے دن کے بارے میں سوال کیا؟تو انہیں نے فرمایا کہ ہم رسول اللہﷺْ کے ساتھ اس روزے کو دو سالوں کے روزوں کے برابر شمار کیا کرتے تھے۔‘‘ (المعجم الاوسط للطبرانی)
حضرت مسروق سے روایت ہے کہ:
’’حضرت عائشہؓ نے فرمایا کہ سال بھر میں مجھے کوئی روزہ عرفہ کے دن کے روزے سے زیادہ محبوب نہیں ہے۔“(مصنف ابن ابی شیبہ)
تکبیرِ تشریق
جیساکہ پہلے گذر چکا ہے کہ ذی الحجہ کا پورا مہینہ ہی عبادت و فضیلت والا مہینہ ہے اور اس مہینہ کا پہلا عشرہ خاص طور پر فضیلت رکھتا ہے اس میں عبادت ، ذکر (تکبیر، تہلیل اور تمہید یعنی اَللّٰہُ اَکْبَرْ، لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ، اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ وغیرہ ) کی کثرت کرنی چاہیے۔ پھر اس میں بھی ایامِ تشریق میں تکبیر کی خاص تاکید اور فضیلت ہے، اور اسی وجہ سے ان دنوں میں پڑھی جانی والی تکبیر کو تکبیرِ تشریق کہا جاتا ہے۔ اور ایام تشریق میں ہر فرض نماز کے بعد تکبیرِ تشریق کا حکم ہے۔ اور ان دنوں میں حجاج کرام کو بھی ذکر کی خاص تاکید کی گئی ہے۔ چنانچہ قرآن مجید میں ارشاد ہے
نو ذی الحجہ کی فجر سے لے کر تیرہ ذی الحجہ کی عصر کی نماز تک ہر فرض نماز کے بعد تکبیرِ تشریق پڑھنی چاہیے۔ اور تکبیرِ تشریق کے الفاظ حسبِ ذیل ہیں:
بال اور ناخن نہ کٹوانا
جن افراد کو قربانی کرنے کا ارادہ ہو ان کے لئے مسنون ہے کہ ذی الحجہ کا چاند نظر آنے کے بعد قربانی ذبح ہونے تک اپنے بال اور ناخن نہ تراشیں۔
حضرت ام سلمہؓ بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺْ نے ارشاد فرمایا:
’’جب ذی الحجہ کا پہلا عشرہ شروع ہو جائے (یعنی ذی الحجہ کا چاند نظر آ جائے ) اور تم میں سے کسی کا ارادہ قربانی کا ہو تو اس کو چاہیے کہ (قربانی کرنے تک) اپنے بال اور ناخن نہ تراشے“(مسلم)
اس حکم کو بعض حضرات نے مستحب جبکہ بعض نے واجب کہا ہے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ خوب اہتمام سے اس پر عمل کریں۔
Comments
Post a Comment