The Star Of Love Fell Apart In Madness

  


اللہ تعالٰی نے انسان کو اشرف المخلوقات بنا کر ایک اعلٰی منصب پر فائز کر دیا ۔”انسانیت“ ایک ایسی صفت ہے کہ جو انسان کو باقی مخلوقات سے ممیز کر دیتی ہے۔جس انسان کے پاس یہ دولت موجود نہ ہو اُسے ہم دو ٹانگوں والا جانور کا نام تو دے سکتے ہیں لیکن لفظ ”انسان“ کا لقب اسے سجتا نہیں۔معاشرے میں اگرچہ مختلف مزاج کے لوگ ہوتے ہیں لیکن ان سب لوگوں کو اپنی ایک شناخت ہوتی ہے۔معاشرے میں کسی انسان کو صفتِ انسانیت ہی کی بنیاد پر ایک اعلٰی مقام مل سکتا ہے اور اسلام کا نظریہ بھی یہی ہے۔معاشرے میں ہر ایک انسان اپنا کام کرکے معاشرے کی گاڑی کو آگے لے جاتا ہے،اس لیے معاشرے میں ہر ایک انسان کی اپنی ایک قیمت ہوتی ہے اور معاشرے کی مشین میں ایک انسان کی حیثیت ایک پرزہ جیسی ہوتی ہے۔ایک پرزہ کے خراب ہونے یا چلے جانے سے پوری مشین متاثر ہوتی ہے،یہی مثال معاشرے کے متعلق ہے۔ اسی چیز  کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اسلام نے معاشرے میں اونچ نیچ کا تصور ختم کر دیا اور اس بات کو اعلانیہ طور پر کہا کہ تقوٰی یا انسانیت ہی وہ قیمتی سرمایہ ہے کہ جس کی بدولت ایک انسان کو معزز قرار دیا جا سکتا ہے۔اس صفت سے جس انسان کا دامن خالی ہو،اسے لوگ اپنے ذہنوں میں نیک انسان تو تصور کر سکتے ہیں لیکن اللہ تعالٰی کی نگاہ میں اس کی کوئی حیثیت ہی نہیں ۔لوگ ظاہری سطح کو دیکھ کر فیصلہ سناتے ہیں لیکن اللہ تعالٰی باریک بینی سے کام لیتے ہوئے قرآنِ پاک میں اپنا موقف ان الفاظ میں بیان کر دیتا ہے:

    يٰۤاَيُّهَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقۡنٰكُمۡ مِّنۡ ذَكَرٍ وَّاُنۡثٰى وَجَعَلۡنٰكُمۡ شُعُوۡبًا وَّقَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوۡا‌ ؕ اِنَّ اَكۡرَمَكُمۡ عِنۡدَ اللّٰهِ اَ تۡقٰٮكُمۡ‌ ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلِيۡمٌ خَبِيۡرٌ۔(الحجرات:13)

    ”اے لوگو ! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا، اور تمہارے خاندان اور قبیلے بنا دیئے تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو، بیشک اللہ تعالیٰ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ پرہیزگار ہے، بیشک اللہ علیم وخبیر ہے۔“

               معاشرے میں کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ جن کی ظاہری حالت دیکھ کر لوگ اُن سے دور بھاگتے ہیں لیکن اللہ کے ہاں انہیں وہ مقام ہوتا ہے کہ جس کا تصور کرنا اس دنیا میں محال ہے۔یہ لوگ پبلک میں شہرت کے بجایے لوگوں کی نگاہوں سے بچ کر اپنے فرائض بجا لاتے ہیں حالانکہ اس فانی دنیا میں انہیں کوئی لائقِ توجہ نہیں سمجھتا۔ ان لوگوں کا تذکرہ ہمیں بایں طور پر ایک حدیثِ پاک میں ان الفاظ میں دیکھنے کو ملتا ہے:

       ”کتنے ہی افراد ہیں گردوغبار میں اٹے ہوئے،بوسیدہ کپڑوں میں ملبوس،جن کی طرف کسی کی نگاہ نہیں جاتی لیکن اگر وہ قسم کھا لیں تو اسے اللہ پورا کر دے“(ترمذی)

   یہ لوگ اللہ کے ولی ہوتے ہیں اور ان سے دشمنی بہت ہی مہنگی پڑتی ہے۔ یہ لوگ اپنی شخصیتوں کا ڈھنڈورا  نہیں پیٹتے اور نہ اپنی کارناموں پر شاباشی یا زندہ باد کی ادنٰی خواہش رکھتے ہیں۔یہ لوگ نہ اپنی بہادری کا چرچا کرتے ہیں اور نہ ہی اپنے کمالات گنواتے۔محض اس ڈر سے کہ کہیں غرور،ریا اور نام ونمود کی وجہ سے اعمال خدا کے ہاں اکارت نہ ہو جائیں۔ان کا معاشرے میں موجود رہنا ستاروں کے مانند ہوتا ہے اور ان کے چلے جانے سے پورا معاشرہ اندھیری میں چلا جاتا ہے۔یہ لوگ انسانوں کی خدمت لے کر نہیں،بلکہ خدمت کرکے خوش ہوتے ہیں اور اپنی حُسنِ سیرت سے یہ لوگوں کے دلوں کو موہ لیتے ہیں۔معاشرے میں انہوں نے اپنی شخصیت کو ہر ایک کے دل میں بٹھایا ہوتا ہے اور انسانیت کی صفت ان کے وجود میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی ہے۔لیکن بدقسمتی سے ان کی موت تک انہیں کوئی پہچانتا ہی نہیں اور ان کے چلے جانے سے پورے معاشرے پر سناٹا چھا جاتا ہے

                  ہمارے علاقے میں بھی ایک محبت کا ستارہ تھا کہ جنہیں لوگ ”عارف صوب“کے نام سے جانتے تھے۔وہ سونیگام گاؤں(ڈسٹرکٹ کولگام) کا رہنے والا تھا۔نہایت ہی خوش خلق اور انسان دوستی کے حامل انسان کہ جس کی مثال  گاؤں گاؤں دیا کرتا تھا۔وہ اکثر فقیرانہ لباس میں منظر عام پر آتا تھا،لوگ انہیں ”فنا فی اللہ“ کے لقب سے نوازتے تھے ۔وہ سلام کرنے میں ہر کسی کو پہل کرتا تھا۔ وہ مسافر کی طرح زندگی بسر کرتا تھا اور جس گھر میں چاہتا کھانا تناول فرما دیتا۔مزاحیہ انداز میں بات کرنا اُن کا شیوہ تھا۔اکثر اُن کی زبان سے”کشمیری قوم غدار قوم“ کے الفاظ سننے کو ملتے تھے۔ زمین کا جو ٹکڑا بھی شہداء کے خون سے لالہ زار ہوتا وہاں اولین وقت میں پہنچنا اُن کا معمول ہی تھا۔جلسہ جلوس میں خالی معدہ دن کٹانا اُن کے دینِ اسلام کے درد کا اظہار تھا۔جنازہ میں پہلی صفوں میں شرکت کرنا ایک عظیم سنت کو زندہ کرنا اُن کا ایک بڑا خواب تھا۔شہادت کی آرزو نے اُنہیں گلی کوچوں کا فقیر بنا دیا تھا۔جن گھروں میں بھی راہِ وفا کے سپاہی نکلتے تھے،اُن گھروں سے انہیں قدرتی طور سے ایک قلبی لگاؤ ہو جاتا تھا۔اُن کے ساتھ ہر وقت ایک”ریڈیو“ رہا کرتا تھا، جس پر اسلامی ترانوں کی بارش ہوتی تھی۔یہ”ریڈیوں“انھیں جان سے بھی زیادہ عزیز تھا،اس پر ترانے سننے کے بعد ہر کوئی روحانی سرور حاصل کر لیتا تھا۔غلامی کی زندگی کو وہ حقیر نظروں سے دیکھا کرتا تھا۔راہ پر چلتے چلتے بے پردہ لڑکیوں کو ڈانٹتے اور کہا کرتے کہ آپ کو شرم نہیں آتی کہ آپ کن چمکتے ستاروں کی بہنیں ہو،جنہوں نے آخرت کی طلب میں نقدِ جان پیش کرکے تاریخ کا ایک عظیم باب رقم کر ڈالا۔بڑوں کا احترام اور چھوٹوں پر شفقت کرنے میں وہ مثالی نوجوان تھا۔جنونی حالت میں وہ زیادہ تر اپنے آپ کے ساتھ باتیں کرنے کو ہی ملتا تھا۔اُن کی ظاہری حالت دیکھ کر آخرت کی یاد تازه ہو جاتی تھی۔خدمتِ خلق میں ہر وقت پیش پیش رہتا تھا اور انسانوں کی ہمدردی کا جذبہ اُن میں روزِ روشن کی طرح عیاں تھا۔

                ان ساری صفات ہونے کے باوجود بدقسمتی سے کئی سالوں سے اِن کا دماغی توازن بگڑ چکا تھا۔اس مرض میں دن بدن اضافہ ہوتا تھا۔مؤرخہ ٤جولائی ٢٠٢١ء کو جب یہ خبر موصول ہوئی کہ اُس نے Aherbal Waterfall میں چھلانگ مار کر ہمیں رہتی دنیا تک الوداع کر دیا ،تو سارے علاقے پر سناٹا چھا گیا۔نوجوانوں نے جب اُن کی نعش کو پانی سے برآمد کیا تو اُس نے امانت دی تھی۔کچھ وقفے کے بعد اُسے گھر لایا گیا اور وہاں لوگوں کا اُمنڈتا ہوا سیلاب نمازِ جنازہ کے لئے منتظر تھے۔نوجوان بالخصوص خون کے آنسو رو رہے تھے اور ہر کوئی چاہتا تھا کہ میں ہی کندہ دے کر انہیں قبرستان کے حوالے کردوں۔لوگوں کا یہ رویہ دیکھ کر ہر کوئی کہتا تھا کہ ”عارف صوب“ نے واقعی طور پر لوگوں کے دل جیت لیے تھے اور آج اُس کے مرنے کے غم نے ہر کسی کو اندر سے نڈھال کر رکھا ہے۔دنیا سے ہر کسی کو جانا ہے لیکن کم ہی انسان ایسے ہوتے ہیں کہ جن کے مرنے پر زمانہ افسوس کرتا ہے۔بقولِ شاعر؎

مرنا تو اسکا ہے جس پہ زمانہ کرے افسوس

ورنہ دنیا میں آئیں  ہیں  سب مرنے  کے  لیے

               دماغی توازن کے بگڑ جانے سے ہم اس کی موت کو خود کشی کے لفظ سے تعبیر نہیں کر سکتے ہیں چونکہ جو فرد بھی جنونی حالت میں ہوتا ہے وہ یہی دیکھتا ہے کہ لوگوں کا رجحان کس طرف ہے اور دیکھ کر بعد میں یہ بھی یہی راستہ اپناتا ہے۔بدقسمتی سے آج ہماری وادی کشمیر میں خود کشی کے واقعات روز سننے کو ملتے ہیں اور غالب گمان ہے کہ شاید” عارف صوب“ نے بھی کچھ لوگوں کا معمول دیکھ کر ایسا قدم اٹھا کر اس فانی دنیا سے چھٹکارا حاصل کر لیا۔ واللّٰہ اعلم۔ ہم اس کے ”ریڈیو“ کو کبھی نہیں بھول سکتے ہیں، جو کہ واقعی طور پر آج کے مادی دور میں اسلام کا ترجمان تھا۔یہ لوگ ہمارے پاس امانت ہوتے ہیں اور اس قیمتی امانت کے بارے میں اللہ کے ہاں ضرور باز پُرسی ہوگی۔ ان مفلوق الحال لوگوں کو نظر انداز کر کے پورا معاشرہ اس گناہ کی زِد میں آجاتا ہے۔وقت پر ان کی درد بھری کہانی کوئی سننے کے لیے تیار بھی نہیں ہوتا کجا کہ اُن کی ضروریات کو پورا کر کے روحانی سکون حاصل کر سکے۔  ستم ظریفی یہ ہے کہ ہم نے سورج کی شعاعوں کو بھی گرفتار کیا لیکن زندگی کی شبِ تاریک سحر کر نہ سکے لہٰذا وقت کی ضرورت ہے کہ میڈیا کی دنیا سے باہر آکر عملی دنیا میں کچھ کر کے دکھانا ہے۔آج سیلفی اٹھانے کی لت اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ اگر ہماری آنکھوں کے سامنے کوئی انسان موت کے منہ میں ہوگا تو ہم اُسے بچانے کے بجایے سیلفی اٹھانا پسند کریں گے۔ 

                جب اس دنیا میں ہم ایسے لوگوں کی دادرسی نہیں کریں گے تو آخرت میں اللہ کی ناراضگی کا مشاہدہ کرنا عین یقینی ہے۔دوسروں کے دکھ پر اظہارِ غم دکھانا ایک شریف انسان کا خاصا ہوتا ہے۔انسانوں کے درد کو اپنے اندر پیدا کرنے میں ہی ہماری نجات مضمر ہے اور یہی صفت ہمیں اعلٰی مقام تک رسائی حاصل کرنے میں ایک ایسی مدد دے سکتی ہے کہ جس کے بغیر یہ چیز بس خواب ہی رہتا ہے۔لہٰذا دورِ نو میں لوگوں تک پہنچنے کی اشد ضرورت ہے اور بالخصوص اُن لوگوں تک جن کو سماج کے درندہ صفت انسانوں نے تنگ کردیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ وقت پر ایسے اقدام اٹھاتے ہیں کہ جس کے بعد ہمیں پچھتاوا کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ایک شاعر کا چونکا دینے والا ایک شعر ہی ہمیں غفلت سے بیدار کرنے کے لیے کافی ہے۔فرماتے ہیں؎

درد  دل  کے  واسطے  پیدا  کیا  انسان  کو

ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کر و بیاں

          آخر پر میری سب لوگوں سے یہی التماس ہے کہ وہ ”عارف صوب“ کو اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں اور ساتھ میں بلاتاخیر سفرِ آخرت کے لیے توشہ جمع کرنے میں لگ جائیں۔میں پُر امید ہوں کہ اللہ کے حضور پہنچ کر ”عارف صوب“-انشاء اللہ شاداں وفرحاں ہوگا۔وہاں کی مہربانیاں، عنایتیں اور کرم فرمائیاں دیکھ کر وہ اپنے زخم بھول گیا ہوگا۔

اللّٰہم اغفر لحیّنا ومیّتنا وشاہدنا وغائبنا وذکرناوأنثانا، اللّٰہم من أحییتہ منا فأحیہ علی الإسلام ومن توفّیتہ منا فتوفہ علی الإیمان۔آمین یا رب العالمین۔ 

وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین

Comments

  1. may Allah bless you brother nadem..💕

    ReplyDelete
  2. ماشاءاللہ بھائی آپ نے بہت سارے نفی سوچ
    رکھنےوالوں کو مثبت تحریر سے دھو ڈالا اللّہ قوت قلم میں اضافہ کرے
    آمیـــــــــــــــــن

    ReplyDelete

Post a Comment