Sacrifice And Nearness To Allah

  


قربانی عربی زبان کے لفظ ”قرب“سے نکلا ہے ،جس کے معنی ہیں”کسی شئے کے نزدیک ہونا“ جبکہ شرعی اصطلاح میں مخصوص وقت میں اللہ کی بارگاہ میں قرب حاصل کرنے کےلئے مخصوص جانور ذبح کرنا "قربانی "کہلاتا ہے۔پس عیدالاضحٰی وہ عید قربان ہے کہ بندے کو اللہ کے بہت قریب کر دیتی ہے اور بندے اور اللہ کے درمیان موجود سب دوریوں کو ختم کر دیتی ہے۔


          ہر عمل کی تاریخ کی ایک ابتداء ہے لیکن قربانی کا عمل تاریخ کے اعتبار سے سب سے زیادہ تاریخ کا حامل ہے۔ قربانی کی تاریخ حضرت آدم علیہ السلام کے دو بیٹوں ہابیل وقابیل کی قربانی سے ہی شروع ہوجاتی ہے، یہ سب سے پہلی قربانی تھی، حق تعالیٰ جل شانہ کا ارشاد ہے:

وَاتۡلُ عَلَيۡهِمۡ نَبَاَ ابۡنَىۡ اٰدَمَ بِالۡحَـقِّ‌ۘ اِذۡ قَرَّبَا قُرۡبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنۡ اَحَدِهِمَا وَلَمۡ يُتَقَبَّلۡ مِنَ الۡاٰخَرِؕ  ۞(المائدہ:27)

”اور ان کو آدم کے دو بیٹوں کی سرگزشت اس کی حکمت کے ساتھ سنائو،جب کہ ان دونوں نے قربانی پیش کی تو ان میں سے ایک کی قربانی قبول ہوئی اور دوسرے کی قربانی قبول نہیں ہوئی۔“

         علامہ اِبن کثیر رحمہ اللہ نے اِس آیت کے تحت حضرت اِبن عباس رَضی اللہ عنہ سے رِوایت نقل کی ہے کہ ہابیل نے مینڈھے کی قربانی کی اور قابیل نے کھیت کی پیداوار میں سے کچھ غلہ صدقہ کرکے قربانی پیش کی، اُس زمانے کے دستور کے موافق آسمانی آگ نازل ہوئی اور ہابیل کے مینڈھے کو کھا لیا، قابیل کی قربانی کو چھوڑ دِیا۔(تفسیر ابن کثیر:٢/٥١٨)
          مذکورہ آیت کے الفاظ سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ دیکھنے کی حد تک دونوں نے قربانی کے ذریعے اللہ کا قرب چاہا کیونکہ ’’قربا‘‘ اور ’’قربانا‘‘ دونوں کا مادہ ’’قرب‘‘ ہے۔

          قربانی کے معنی تقرب حاصل کرنے کے ہیں، ہر وہ چیز جس سے ایک بندۂ مومن اللہ تعالی کا تقرب حاصل کرتا ہے قربانی کے مفہوم میں شامل ہے۔اللہ تعالی کی بارگاہ میں قربانی کرنا محبوب ومطلوب ہے۔انسان کو اللہ تعالٰی نے دنیا میں بہت ساری چیزیں دے کر امتحان کے میدان میں ڈال دیا ہے تاکہ آزمائش کرکے یہ بات لوگوں پر آشکارا ہو جائے کہ کون امتحان میں کامیاب نکلا اور کون ناکام؟دنیا میں ہم کسی بھی چیز کے مالک نہیں ہیں بلکہ ان کا حقیقی مالک اللہ تعالٰی ہی  کی ذات ہے۔یہ زندگی،یہ اہل و عیال،یہ مال و دولت،جسم و جان کی ساری توانائیاں اور صلاحیتیں اللہ تعالٰی کی عطا کردہ ہیں۔لہٰذا ان ساری نعمتوں کو رب کی رضا اور اس کے ایک ہی مقبول اور پسندیدہ دین کی خاطر وقف کرنا ہی ایک بندہ مومن کی حقیقی معراج ہے۔جن نعمتوں کو رب نے ہمارے پاس بطورِ امانت رکھا ہے اور وہ کسی بھی وقت انہیں واپس لینے کا ارادہ کر سکتا ہے،پس بندہ مومن کا کام یہ ہے کہ وہ انہیں پیش کرنے میں کوئی پس و پیش نہ کرے۔

          جن چیزوں کو بھی ہم رب کی رضا کی خاطر اسلام کے نام پر لُٹاتے ہیں،انہی چیزوں کو ہم آسان لفظوں میں دین کے نام پر” قربان“ ہونے کے لقب سے نوازتے ہیں اور یہی چیزیں قربان ہونے کے بعد ہمیں اللہ تعالٰی  کے قریب کر دیتے ہیں۔ویسے تو بندہ مومن کو اسلام کے نام پر بہت ساری چیزوں کو قربان کرنا پڑتا ہے لیکن سب سے بڑی قربانی جان کی قربانی ہوتی ہے۔عید الاضحٰی کے موقع پر ہم جانور کو فدیہ دے کر اپنی جان چھڑا لیتے ہیں،لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کب تک ہم اپنی جان چھڑا کر جانور کے گلے پر چُھری چلائیں گے؟
   
       انسان کو اللہ تعالٰی کی دی گئی نعمتوں سے بے پناہ لگاؤ ہوتا ہے اور وہ نہیں چاہتا ہے کہ یہ اس کے ہاتھوں سے چھن جائیں۔لیکن ان تمام نعمتوں میں انسان کو اپنی جان اور اپنا مال زیادہ پیارا ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ انہیں سینت سینت کر رکھتا ہے۔اللہ تعالٰی بھی اسی چیز کو مدِنظر رکھتے ہوئے انہی دو چیزوں کو اسلام کے نام پر قربان کرنے کی دعوت دیتا ہے۔اور انہی دو چیزوں کو دین کے نام پر رب کی رضا کی خاطر قربان کرنے کے بدلے میں بندہ مومن کو جنت میں ابدی آرام کے ساتھ ساتھ رب کے دیدار کا شرف بھی حاصل ہوگا اور وہاں کی مہربانیاں، عنایتیں اور کرم فرمائیاں دیکھ کر وہ اپنے سارے زخم آنًا فانًا بھول جائے گا۔قرآنِ پاک نے خیالی پلاؤ کھانے کے بجایے جان و مال کو اسلام کے راستے میں قربان کرنے کی دعوت ان الفاظ میں دی ہے:

اِنَّ اللّٰهَ اشۡتَرٰى مِنَ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ اَنۡفُسَهُمۡ وَاَمۡوَالَهُمۡ بِاَنَّ لَهُمُ الۡجَــنَّةَ‌ ؕ ۞(التوبہ:111)

”بےشک اللہ نے خرید لیے ہیں مو منوں سے ان کے جان و مال جنت کے بدلے میں۔“

         مذکورہ آیت سے یہ بات عیاں ہوئی کہ جنت میں اللہ تعالٰی کی قربت حاصل کرنے کے لئے قربانی ناگزیر ہے اور نیکی کا مقام بھی دین کے نام پر رب کی رضا کی خاطر اپنے محبوب ترین چیزوں کو قربان کرنے سے ہی حاصل ہو سکتا ہے،جیسا کہ ارشادِ ربانی ہے:

لَنۡ تَنَالُوا الۡبِرَّ حَتّٰى تُنۡفِقُوۡا مِمَّا تُحِبُّوۡنَ ؕ وَمَا تُنۡفِقُوۡا مِنۡ شَىۡءٍ فَاِنَّ اللّٰهَ بِهٖ عَلِيۡمٌ ۞(اٰل عمران:92)

”تم اللہ کی وفاداری کا درجہ ہرگز حاصل نہیں کرسکتے جب تک تم خرچ نہ کرو ان چیزوں میں سے جنھیں تم محبوب رکھتے ہو اور تم جو چیز بھی خرچ کرو گے تو یقینا اللہ اسے جاننے والا ہے۔“


       متذکرہ قربانی کی روشن مثال رہتی دنیا تک ہمارے سامنے حضرت ابراہیمؑ نے قائم کی کہ جس نے دین کی سربلندی کی خاطر اپنی قیمتی سے قیمتی متاع کو بھی قربان کرنے سے گریز نہ کیا،حتٰی کہ وہ  اپنے لختِ جگر کی گردن پر چُھری چلانے پر بھی تیار ہوگئے،یہ ان کی ابتلاء و آزمائشوں کا نقطہ عروج تھا۔اُس نے اُن آزمائشوں میں ثابت قدمی دکھائی کہ جن کا تصور کرکے ہی بڑے بڑوں کے پسینے چھوٹتے اور رونگھٹے کھڑے ہو جاتے ہیں،مگر ابراہیمؑ کی عالی ہمتی اور سراپا تسلیم و رضا کی عالی شخصیت کو خود اللہ تعالٰی نے”فاتمھن“کی سندِ عزیمت سے نوازا اور انہیں رہتی دنیا تک کے لئے امامت کے منصب پر فائز کیا۔قرآنِ پاک نے اس کا تذکرہ ان الفاظ میں کیا ہے:

وَاِذِ ابۡتَلٰٓى اِبۡرٰهٖمَ رَبُّهٗ بِكَلِمٰتٍ فَاَتَمَّهُنَّ ‌ؕ قَالَ اِنِّىۡ جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ اِمَامًا ‌ؕ ۞ (البقرہ:124)

”اور ( وہ وقت بھی یاد کرو) جب ابراہیم کو ان کے پروردگار نے چند امور میں آزمایا اور انھوں نے وہ انجام دے دیئے ارشاد ہوا کہ میں یقینا تمہیں لوگوں کا پیشوا بنانے والا ہوں۔“

          لہٰذا مذکورہ آیت سے یہ بات واضح ہوئی کہ اللہ کے ہاں اونچے منصب پر فائز ہونے سے پہلے جان جوکھوں میں ڈالنا پڑتا ہے اور اسی کی بدولت اُس کی قربت کا خواب شرمندہ تعمیر ہوتا ہے۔فرعون نے بھی اسی سنت کو ذہن میں رکھ کر جادوگروں کو جب حضرت موسٰیؑ کے مقابلہ میں آزمائش کے طوفان میں کھڑا کیا تو انھوں نے مقابلہ نویسی سے پہلے اپنی مزدوری کی خواہش کی۔فرعون نے واپسی میں جواب دیا کہ موسٰیؑ کو شکست دینے کے بعد مزدوری تو کیا،آپکو میں اپنے مقربین میں شامل کردوں گا۔قرآنِ پاک نے اُن کی بات کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے:

قَالَ نَـعَمۡ وَاِنَّكُمۡ لَمِنَ الۡمُقَرَّبِيۡنَ ۞(الاعراف:114)

”فرعون نے کہا ہاں بیشک اور تم ہمارے مقربین میں بھی داخل ہوں گے۔“

         مذکورہ آیت میں لفظ”المقربین“ قابلِ غور ہے۔اس لفظ نے ہمیں اس بات سے باور کرایا کہ اگر  وقت کا فرعون بھی آنکھ بند کر کےآزمائش کے بغیر منصب نہیں دیتا تو رب العٰلمین کیسے دے سکتا ہے۔اگر وقت کا فرعون اپنی سلطنت کو بچانے کے کےلئے اپنے چیلے چانٹوں کو استعمال میں لاتا ہے تو اللہ تعالٰی بھی ”کونو انصاراللہ“ کی پکار دے کر فرعونی نظام کو تبدیل کرنے کے لیے اپنے محبوب بندوں کو آزمائشوں میں ڈال کر اپنی قربت کے شرف سے نوازتا ہے۔اب یہ بندوں کا کام ہے کہ کون آزمائشوں میں ثابت قدمی دکھا کر اپنے آپ کو ابدی آرام کا مستحق بنائے؟کون جان و مال کی قیمتی متاع کو دینِ اسلام کے نام پر لُٹا کر رب کی قربت سے لطف اندوز ہو جائے؟

          المیہ یہ ہے کہ ہم نے لفظ” قربانی“ کو جانور کی قربانی تک محدود کر رکھا ہے اور اسی کا نتیجہ ہے کہ ہم نے ابراہیمؑ کا اصلی اُسوہ چھوڑ کر اسی ایک سنت پر قناعت کر رکھی ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہماری قربانی حقیقی روح سے کھالی ہوگئی ہے حالانکہ عید الاضحٰی کے موقع پر کروڑوں جانوروں کی قربانی دی جاتی ہے لیکن کیا وجہ ہے کہ ہم ایک انچ بھی اللہ کے قریب نہیں جاتے ؟۔دراصل آج تک نہ ہم نے قربانی کے جامع تصور کو ہی سمجھااور نہ ہی روحِ قربانی یعنی تقوٰی کے حصول میں کامیاب ہوگئے۔حالانکہ اللہ تعالٰی نے قرآنِ پاک میں واشگاف الفاظ میں ہمیں پہلے ہی خبردار کیا ہے کہ:

لَنۡ يَّنَالَ اللّٰهَ لُحُـوۡمُهَا وَلَا دِمَآؤُهَا وَلٰـكِنۡ يَّنَالُهُ التَّقۡوٰى مِنۡكُمۡ‌ؕ ۔ ۞(الحج:37)

”ہرگز نہیں پہنچتے اللہ کو ان کے گوشت اور نہ ان کے خون، البتہ ! اسے تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔“

 علامہ اقبالؒ مرحوم بھی ہماری حالتِ زار دیکھ کر یہ کہنے پر مجبور ہوگئےکہ؎

       رگوں میں وہ لہو باقی نہیں ہے

       وہ  دل،وہ  آرزو  باقی  نہیں ہے

       نماز  و روزہ  و  قربانی  و حج

     یہ سب باقی ہیں تُو باقی نہیں ہے!


         لہٰذا اپنے گریبانوں میں جھانک کر یہ دیکھنے کی ضرورت کہ ہم کہاں کھڑے ہیں؟ہم میں سے کتنے لوگ دینِ اسلام کی سربلندی کی خاطر جان،مال، وقت اور صلاحیتوں کی قربانی دینے کے لئے تیار ہیں؟کیا واقعتاً ہم اپنے جذبات و احساسات کی قربانی دے سکتے ہیں؟کیا ہم اپنے ذاتی مفادات اللہ اور اس کے دین کے لئے قربان کرنے کے لئے تیار ہیں؟کیا ہم اپنا عزیز وطن اشاعتِ دین کی خاطر چھوڑنے کے ليے تیار ہیں؟کیا ہم الله کے دین کی خاطر اپنے رشتے اور اپنی محبتیں قربان کر سکتے ہیں؟کیا ہم اپنی محبوب ترین چیزیں اللہ کی راہ میں قربان کر سکتے ہیں؟کیا ہم آزمائشوں کے طوفان میں اپنی سفینہ کو ساحل تک لے جانے کے لئے تیار ہیں؟کیا ہم ڈوبنے والے فکر و نظریہ اور معبود کو چھوڑنے کے لئے تیار ہیں؟کیا ہم بت کدہ والی قوم میں اپنے آپ کو سب سے بڑا بت شکن ثابت کرنے کے لئے تیار ہیں؟کیا ہم معبودانِ باطل سے اعلانِ جنگ کرنے کے لئے تیار ہیں؟کیا ہم باطل کے ایوانوں میں جاکر دعوتِ توحید اور رب کا قانون عملًا نافذ کرنے کے ليے تیار ہیں؟کیا ہم اپنے ساتھ اپنے اہل وعیال کو بھی جنت کے راستے پر ڈالنے کے لئے تیار ہیں؟کیا ہم اپنے آباواجداد کے چھوڑے گئے بدعات و رسومات کو چھوڑنے کے لئے تیار ہیں؟کیا ہم دعوتِ دین کی خاطر ملکوں ملکوں کی خاک چھان لینے کے لئے تیار ہیں؟کیا ہم مستقبل کی تعمیر کے لئے کوشاں ہیں؟کیا ہم نفسِ امارہ کا خون کرنے اور خواہشاتِ نفس کو تقوٰی کی چُھری سے ذبح کرنے کے لئے تیار ہیں؟کیا ہم اپنے نہا خانہ دل سے من گھڑت بتوں کو چن چن کر باہر پھینکنے کے لئے تیار ہیں؟کیا ہم اجنبی یا راہ چلنے والے مسافر کی طرح دنیا میں زندگی بسر کرنے کے لئے تیار ہیں؟کیا ہم راہِ حق میں صعوبتیں برداشت کرنے اور خون کے نذرانے پیش کرنے کے لئے تیار ہیں؟کیا ہم راہِ حق میں آرہی آزمائشوں کا مردانہ وار مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہیں؟کیا ہم باطل نظام کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینکنے کے لئے تیار ہیں؟کیا ہم جیل کی سلاخوں کے پیچھے رب سے مناجات کرنے کے لئے تیار ہیں؟کیا ہم شاہانہ زندگی کو خیرباد کہہ کر فقیرانہ زندگی پر قناعت کرنے کو تیار ہیں؟کیا کسی کے خوف یا کسی کے لومتہ لائم سے ڈر کر حق کا راستہ ترک نہ کرنے پر ہم تیار ہیں؟کیا ہم کفر و شرک میں لت پت معاشرے کے نظریات و افکار،تہذیب و تمدن و روایات و خصوصیات کو بدلنے کی انتھک کوشش کرنے کے لئے تیار ہیں؟کیا ہم رب سے اس حالت میں ملنے کے لئے تیار ہیں کہ سر پر شہادت کا تاج ہو؟اگر ہم سب یہ کرنے کے لئے تیار ہیں تو عید الاضحٰی کے موقع پر یہ قربانی بھی ”نور علی نور“ ہے اور اگر ہم اللہ کے دین کے لئے کوئی ایثار کرنے کے لئے تیار نہیں تو جانوروں کی یہ قربانی ایک خول اور ڈھانچہ ہے جس میں کوئی روح نہیں۔ایسی قربانی کہ جس میں روحِ ابراہیمی موجود نہ ہو وہ اللہ سے قریب کرنے کے بجایے مزید دوری کا سبب بن جاتی ہے۔

            لہٰذا اگر ہم سب مسلمان عید قربانی کے ذريعے سے اللہ کا قرب حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں چاہئیے کہ ہم عہد کریں کہ حضرت ابراہیمؑ ہی کی طرح راہِ حق میں اپنی خواہشات،وطن،متاع عزیز حتٰی کہ جان کی قربانی بھی دیں،جس سے باطل و طاغوت کو یہ پیغام ملے؎

         آگ  ہے ، اولاد  ابراہیم  ہے ، نمرود  ہے

    کیا کسی کو پھر کوئی امتحان مقصود ہے

           ہمیں چاہئیے کہ ہم یہ عہد کریں کہ دین کے نام پر کسی بھی قسم کی آنچ نہیں آنے دیں گے اور اعلائے کلمۃ اللہ ”اقامت دین“ ”نظام خلافت“ اور ”احیائے دینِ  حق“ کی حفاظت کے لئے خون کا آخری قطرہ تک بہا دیں گے۔اس راہ میں یہ کٹھن منزلیں پیش آتی ہیں جس کے بعد ہی کامیابی قدم چومتی ہے۔

           جان دی،دی ہوئی اُسی کی تھی

           حق تو یہ ہے کہ حق  ادا نہ  ہوا



Comments

Post a Comment