Knowledge : The Way To Know Allah



     اللہ تعالٰی نے انسان کو بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے اور ان نعمتوں میں ایک اہم ترین نعمت علم ہے۔علم ایک انسان کی پہچان (Identity) اور اشراف المخلوقات ہونے کی دلیل ہے۔حضرت آدمؑ کو جس چیز کی وجہ سے فرشتوں پر فوقیت و برتری حاصل ہوئی وہ علم ہی تھا۔ اسی چیز کی بدولت اسے مسجود الملائکہ بنانے کے ساتھ ساتھ خلافت کے ذریعے تاج پوشی(Coronation) بھی کی گئی۔ اللہ تعالٰی کی نظروں میں علم کی اتنی اہمیت ہے کہ اس نے نوعِ انسانی کے ابدی ہدایت نامہ میں پہلی وحی میں لفظ”اقرا“ لاکر پوری شریعت کی بنیاد ہی علم پر رکھ ڈالی۔قرآن کریم میں علم اور علم سے متعلق چیزوں کا ذکر کم و بیش ساڑھے آٹھ سو مرتبہ آیا ہے۔خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ دعا سکھائی گئی:

      وَقُلْ رَّبِّ زِدۡنِىۡ عِلۡمًا۔(طٰہ:114)

    ”اور دعا مانگا کیجیے، میرے رب ! (اور) زیادہ کر میرے علم کو۔“

امام قرطبیؒ لکھتے ہیں کہ اگر کوئی چیز علم سے افضل اور برتر ہوتی تو اللہ تعالٰی اپنے نبی کو حکم دیتا کہ وہ اس میں سے مزید طلب کریں جیسا کہ مزید علم طلب کرنے کا حکم دیا گیا۔(الجامع لاحکام القرآن ج٤،ص٤١)

               علم ایک روشنی ہے کہ جس کے بدولت  معاشرے میں ظلمت(Darkness) کے گھٹا ٹوپ انھیروں کو دور کیا جا سکتا ہے۔علم ہی دنیائے انسانیت کی کردار سازی میں اہم رول ادا کرتا ہے۔اسلام کا تصورِ علم یہی ہے کہ بندے کو خالقِ حقیقی کا تعارف دے کر اِسے اُس کا ہمہ وقتی غلام بنا دیا جائے۔ تاریخ کے دھارے(Current) کو تبدیل کرنے کی طاقت و قوت علم  رکھنے والوں میں ہی نمایاں ہوتا ہے۔

            شریعت میں ایک طرف اگر علم کے حصول اور اس کی ترویج و اشاعت میں اتنی اہمیت و افادیت  رکھی گئی،تو دوسری طرف عصرِ حاضر میں ہم اسے حقیر ترین مقاصد کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔  آج کا نوجوان افراط و تفریط کا شکار ہو چکا ہے۔عصرِ حاضر میں نئی نسل کو Careerism کا بُھوت سوار ہوگیا ہے۔عصرِ حاضر میں علم کے مقصد کو زیادہ سے زیادہ معلومات بٹورنا،امتحانات دینا،سرٹیفکیٹ اور ڈگریاں حاصل کرنے اور دنیا کمانے میں اپنی زندگی کو مشغول رکھنے تک ہی محدود رکھا گیا ہے۔اس پُر فتن دور میں کیرئر پرستی اور مادہ پرستی میں مشغول ہوکر اخلاقی زندگی(Moral Life) کا تصور دن بدن کم ہوتا جا رہا ہے۔اس کی وجہ یہی ہے کہ اسکولوں اور کالجوں میں اسی قسم کے تصور کو تقویت دی جارہی ہے۔نوجوانوں کی خودی کو تعلیم کے تیزاب میں ڈال کر بالاٰخر انہیں موت کےصداقت نامے(Death Certificates)دے کر اپنے گھروں کو روانا کیا جارہا ہے۔علامہ اقبالؒ نے اس دور کی صحیح ترجمانی ان الفاظ میں کی ہے:

      مدرسہ  عقل  کو  آزاد  تو  کرتا  ہے  مگر

      چھوڑ جاتا ہے خیالات کو بے ربط و نظام

              اسکولوں اور کالجوں میں غلط افکار و نظریات پکڑ کر نوجوان طبقہ اب دن بدن دینِ اسلام  سے دور ہوتا جا رہا ہے۔حالانکہ نوجوان طبقہ ہی قوم کا مستقبل ہوتا ہے۔امت کے اسی طبقے کو آگے بڑھ کر شہادت کا فریضہ انجام دینا ہے۔اسی طبقے کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی اہم ترین ذمہ داری ادا کرنی ہے۔اسی طبقے کو دنیا کے سامنے اسلام کی حقانیت (Legitimacy) اور آفاقیت (Universality) پیش کرنی ہے ۔اسی طبقے کو  باطل افکار و نظریات کا مضبوط دلائل سے منہ توڑ جواب دینا ہے۔اسی نوجوان طبقہ کو  مستقبل میں امت کی باگ ڈور اپنے ہاتھوں میں لینی ہے۔اسی طبقے کو قوموں کی تقدیر بدلانی ہے۔لیکن افسوس کہ یہ نوجوان طبقہ اب اپنی ذمہ داریاں بھول کر دنیا کی محبت میں اس حد تک غرق ہو چکا ہے کہ اُس نے اپنا منزلِ  مقصود(Destination) ہی کھودیا ہے۔ اس طبقے نے اپنے محبوبِ حقیقی کو چھوڑ کر اب نِت نئے بتوں کو تراشنا شروع کر دیا ہے۔غیر اقوام نے بھی اب پورے غوروخوض کے بعد اسی طبقے کو نشانہ بنا کر امت کے تاروپود کو بکھیر دینے میں کوئی کسر باقی نہ چھوڑ ڈالی۔آج اس طبقے نے اپنی صلاحیتوں کو غلط راستوں میں  استعمال کر کے اپنی مستقبل کو ہی گنوا دیا ہے۔زندگی کے نصب العین کو آنکھوں سے اوجھل کر کے اب یہ طبقہ distract ہو چکا ہے۔آج یہ طبقہ ڈگریاں حاصل کرنے کے بعد حصولِ رزق میں اس طرح سرگرداں ہو جاتا ہے کہ پھر وقت پر اپنے رازق کو ہی بُھلا بیٹھتا ہے۔تعلیم سے اگر خود ،خدا اور خودی کی معرفت حاصل نہ ہوئی تو یہ صرف وقت اور دولت کا ضیاع ہے۔ اونچی اونچی ڈگریاں حاصل کرنے کے بعد بھی اگر ایک نوجوان کو اللہ تعالٰی کی خشیت حاصل نہ ہوئی تو یہ تعلیم نہیں بلکہ عین جہالت ہے چونکہ علم(دینی و دنیوی) رکھنے والے ہی اللہ تعالٰی کو زیادہ ڈرنے والے ہوتے ہیں۔قرآنِ پاک میں اس چیز کا تذکرہ ان الفاظ میں دیکھنے کو ملتا ہے:

اِنَّمَا يَخۡشَى اللّٰهَ مِنۡ عِبَادِهِ الۡعُلَمٰٓؤُا ؕ(فاطر:28)

   ”اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے بندوں میں سے صرف علم رکھنے والے لوگ ہی اس سے ڈرتے ہیں“

             اس ساری داستان کے پیچھے ایک ہی چیز کارفرماں ہے وہ یہ کہ امت کے اس عظیم طبقے کو مادیت(Materialism)اور عصر حاضر کے تعلیمی نظام نے صرف فکرِ معاش میں مبتلا کر رکھا ہے۔علامہ اقبالؒ نے اسی حقیقت کو ان الفاظ میں بے نقاب کر دیا ہے کہ:

عصرِ  حاضر  مَلک  الموت  ہے  تیرا،جس  نے

قبض کی روح تری دے کے تجھے فکرِ معاش


                   علم کے لئے تمام اقسام کی دوڑودھوپ کرنا مقصدِ زندگی(Purpose of Life) کی طرف پہنچنے کا ایک وسیلہ ہے نہ کہ بنیادی ہدف۔نوجوان نسل کے ذہن میں علم سیکھنے کا مقصد رہنا چاہیئے اور جس شعبہ علم میں بھی وہ ہو، وہ مقصد نہیں بلکہ مقصدِ زندگی تک پہنچنے کا ذریعہ ہے۔
              اب جو بھی منزلِ مقصود سے ہٹ کر دنیا میں مادہ پرستی،فحاشیت(Obscenity) اور جانوروں کی طرح زندگی گزارے گا اسے اس چیز کا خمیازہ آخرت میں ضرور بھگتنا پڑے گا۔قرآنِ پاک نے پہلے ہی اس کی پیشنگوئی ان الفاظ میں دی ہے:

وَمَنۡ كَانَ فِىۡ هٰذِهٖۤ اَعۡمٰى فَهُوَ فِى الۡاٰخِرَةِ اَعۡمٰى وَاَضَلُّ سَبِيۡلًا۔

(بنی اسرائیل:72)

     ”اور جو شخص اس دنیا میں اندھا بنا رہا وہ آخرت میں بھی اندھا ہوگا اور بہت گمراہ ہوگا۔“

              
              عصرِ حاضر میں ایک مسلم نوجواں کو چاہیئے کہ وہ مادیت،بے مقصدیت اور مغربیت(Westernization) سے نکل کر اللہ تعالٰی ہی کی طرف دوڑ کر اسے راضی کرنے کی فکر میں لگ جائے۔اللہ تعالٰی شفقت بھری آواز میں اسے اِن الفاظ میں پکارتا ہے:

     فَفِرُّوۡۤا اِلَى اللّٰهِ‌ؕ  (الذاریات:50)

    ”پس دوڑو اللہ کی طرف“

              لہٰذا مذکورہ آیت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے مسلم نوجواں کو چاہیئے کہ وہ اللہ ہی کی طرف بھاگے،اسے اپنے دلوں میں بسالے،اسے اپنا معبود و مسجود بنالے،اس کی خوشنودی کے حصول کو اپنی خواہش بنالے اور اسی کے دین کی بالاتری(The Supremacy of Religion) کو اپنی منزل سمجھے اور اپنی زندگی کا ہر فیصلہ اسی کے احکام کے تابع کردے۔اسی طریقے کو اپنانے میں مسلم نوجواں کی دنیوی اور اُخروی کامیابی کا راز پوشيده ہے۔اسی خیال کو علامہ اقبالؒ نے”ضربِ کلیم“ میں دورِ نو کے طالبِ علم سے  مخاطب ہوتے ہوئے یوں بیان کیا ہے؎

     خدا تجھے کسی طوفان سے آشنا کردے

     کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں

     تجھے کتاب سے ممکن نہیں فراغ کہ تو

     کتاب خواں ہے مگر صاحب کتاب نہیں

Comments