That Little Bud: Withered Prematurely.

    


ایک چمن میں مختلف قسم اور رنگوں کے پھول ہوتے ہیں۔ہر ایک پھول اپنی ایک الگ شناخت اور اہمییت رکھتا ہے۔انسان چمن میں داخل ہوتے ہی ہر ایک قسم کے پھول سے لُطف اندوز ہونا چاہتا ہے۔پھول بھی اپنے اندر ایک کشِش رکھتا ہے اور اپنی خوشبو سے ہر ایک کو مہکانا چاہتا ہے۔چمن میں جونہی انسان ایک پھول سے گزرتا ہے تو فورًا دوسرے پھول سے مستفیض ہونے کے لیے بے قرار رہتا ہے اور اپنے دل میں یہی تمنا پال رہا ہوتا ہے کہ کب میں ہر ایک پھول سے گزر کر اپنے دل و دماغ کی پیاس بُجھا دوں۔ پھولوں کی مہک ہر ایک انسان کو تازگی دے کر بار بار چمن کی طرف اسے مدعو کرتا ہے۔ایک اسکول بھی چمن کی طرح ہوتا ہے جس میں بچے خوبصورت پھولوں کےمترادف ہوتے ہیں۔اسکول میں ہر بچہ ایک پھول کی طرح غیر معمولی حیثیت رکھتا ہے اور ہر روز اپنی حاضری دے کر اسکول کے چمن کو رونک بخشتا ہے۔جس طرح ایک چمن میں کسی پھول کے اندر مُرجھانے کے آثار دکھائی دینے لگتے ہیں تو پورا چمن اس کی وجہ سے متاثر ہوتا ہے، اسی طرح اسکول میں ایک ننھی سی کلی جیسے بچے کے چلے جانے سے پورا کا پورا اسکول ویران ہوجاتا ہے۔


                 پبلک مشن اسکول(یاری پورہ) بھی ایک چمن کے مترادف ہے جس میں کافی تعداد میں بچے دینی و عصری تعلیم حاصل کر کے پورے معاشرے کو مہکاتے ہیں۔اس اسکول میں باالخصوص ننھی کلیوں(لڑکیوں) کا باپردہ رہنا ایک الگ ہی رونق دکھاتا ہے،جونہی اسکول کی بچیاں چھٹی کے بعد بازار سے گزرتی ہیں تو ہر ایک ان پھولوں کی مہک محسوس کرتا ہے۔ان ہی ننھی کلیوں میں ایک کلی”مہرین مشتاق“ تھی،جو کہ اسی اسکول کے آٹھویں کلاس میں پڑھتی تھی اور اس  کی عمر تقریباً چودہ سال کے آس پاس تھی۔نہایت ہی شریف مزاج کے حامل تھی اور کلاس میں خاموش بیٹھنا ان کا شیوہ تھا۔ہر ایک استاد کے احترام اور اطاعت کرنے میں پیش پیش تھی۔نقاب کے اندر اسکول میں ان کا آنا  اور جانا ایک الگ سی رونق دکھائی دیتی تھی۔اسکول کے بعد گاؤں کے دینی درس گاہ میں بھی قرآنِ پاک کے علم سے مسلسل مستفیض ہوتی تھی۔گھر والوں کا کہنا ہے کہ”مہرین جان“ ہمارے گھر کو چار چاند لگاتی تھی اور گاؤں والوں کا کہنا ہے کہ وہ سلام کرنے میں پہل کرتی تھی۔ان کے اخلاق  دیکھ کر ہر کوئی متاثر ہوجاتا تھا۔

          بدقسمتی سے کل شام کو جب یہ خبر اچانک موصول ہوئی کہ بجلی کی وجہ سے ان کی موت واقع ہوئی ہے، تو بچوں اور اسکول کے پورے قافلے پر سناٹا چھا گیا۔ہم اساتذہ صاحبان جب اس کے گھر پہنچے تو چارپائی پر انہیں دیکھ کر ہم اپنے آنسوؤں کو روک نہ سکے۔ان کے چہرے پر جب نظر پڑی تو یوں محسوس ہوتا تھا کہ جیسے وہ میٹھی نیند میں سوئی ہوئی تھی۔ان کے گھر والوں کی حالت بہت ہی خراب ہوئی تھی اور گھر نے بھی ویرانگی کی شکل پکڑ لی تھی۔جنازہ میں لوگوں کا کافی ہجوم تھا اور میں نے دیکھا کہ اس گاؤں کا ہر شخص افسردہ تھا چونکہ چند دنوں پہلے ہی اسی گاؤں کا ایک ہونہار لڑکا مرحوم”فیضان صوب“ بھی داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے تھے،وہ بھی ہمارے اسکول کے چمن کا ایک مہکتا اور چمکتا ہوا پھول تھا۔

               میں بذاتِ خود سوچ رہا تھا کہ یہ بچی کتنی خوش قسمت ہے کہ ایک طرف چھوٹی ہی عمر میں آخرت کے سفر کی طرف رواں ہوئی اور دوسری طرف جمعہ کے دن وہاں ان کا استقبال ہوا۔قبرستان میں لے جاتے وقت ہر طرف سناٹا چھایا دیکھ کر مجھے بذاتِ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی لختِ جگر حضرتِ فاطمہؓ یاد آئی کہ جنہوں نے مرنے سے پہلے وصیت کی تھی کہ مجھے رات کے اندھیرے میں دفن کرنا تاکہ مجھے کوئی دیکھ نہ سکے۔اس ننھی کلی کو بھی ہم رات کے انھیری میں ہی قبرستان لے کر انہیں اللہ کے حوالے کر دیا۔

          وائے! اس ننھی کلی کو بھی موت نے اپنی آغوش میں لے لیا۔موت ہے بھی ایسی چیز کہ جس سے کسی انسان کومفر نہیں ہے اور مقرر وقت پر انسان اس کو ایک سیکنڈ بھی ٹال نہیں سکتا ہے۔اللہ تعالٰی نے اسی حقیقت کو قرآنِ پاک میں ان الفاظ میں بےنقاب کر دیا ہے کہ:
وَلَنۡ يُّؤَخِّرَ اللّٰهُ نَفۡسًا اِذَا جَآءَ اَجَلُهَا‌ؕ وَاللّٰهُ خَبِيۡرٌۢ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ(المنافقون:11)
”اور اللہ ہرگز کسی جان کو ڈھیل نہیں دیتا جب اس کی مقررہ مدت آجاتی ہے اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے باخبر ہے“

                 ہر انسان کو موت کا مزہ چھکنا ہے اور موت ہےبھی ایسی حقیقت کہ اللہ تعالٰی کے منکر بھی اسے challenge نہیں کرسکتے ہیں۔دنیوی زندگی بس آزمائش کےلیے ہے اور اس میں سُکھ اور دُکھ دے کر اللہ تعالٰی آزماتا ہے کہ کون میرا راستہ پکڑ کر ابدی عزت وآرام کا اپنے آپ کو مستحق بنائے گا؟ اور کون شیطان کی راہ پکڑ کر ابدی ذلت و عذاب کو دعوت دے گا؟بالاٰخر سارے انسانوں کو چارو وناچار اللہ تعالٰی ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔قرآنِ پاک نے ذیل کی آیت میں بڑے ہی دلنشین انداز میں اس حقیقت کو ان الفاظ میں سمجھایا ہے کہ:
كُلُّ نَفۡسٍ ذَآئِقَةُ الۡمَوۡتِ‌ؕ وَنَبۡلُوۡكُمۡ بِالشَّرِّ وَالۡخَيۡرِ فِتۡنَةً‌  ؕ وَاِلَيۡنَا تُرۡجَعُونَ۔(الانبیاء:35)
”ہر نفس موت کا مزہ چکھنے والا ہے اور ہم تم لوگوں کو دکھ اور سکھ دونوں سے آزما رہے ہیں اور آخر کار تم سب کو ہماری طرف ہی لوٹ کے آنا ہے۔“

               نہ انسان موت کو ٹال سکتا ہے اور نہ ہی وہ اس سے بھاگ سکتا ہے تو بہتری  اسی میں ہے کہ اس کے لیے تیاری کی جایے۔موت سے بھاگنے کی اگر کوشش  کی بھی جائے تب بھی وہ آکر ہی رہے گی اور رب کے سامنے ہر ایک انسان کو زندگی کے ایک ایک لمحے کا حساب دینا پڑے گا ۔قرآنِ پاک میں اس حقیقت کا تذکرہ ان الفاظ میں دیکھنے کو ملتا ہے:
قُلۡ اِنَّ الۡمَوۡتَ الَّذِىۡ تَفِرُّوۡنَ مِنۡهُ فَاِنَّهٗ مُلٰقِيۡكُمۡ‌ ثُمَّ تُرَدُّوۡنَ اِلٰى عٰلِمِ الۡغَيۡبِ وَالشَّهَادَةِ فَيُنَبِّئُكُمۡ بِمَا كُنۡتُمۡ تَعۡمَلُوۡنَ۔(الجمعہ:8)
”اے پیغمبر ان سے کہہ دیجیے کہ جس موت سے تم بھاگ رہے ہو وہ تمہیں آکر رہے گی، پھر تم اس کے سامنے پیش کیے جائو گے جو غائب و حاضر کو جاننے والا ہے اور وہ تمہیں بتادے گا جو کچھ تم کرتے رہے ہو“

             دنیا اگر مہلتِ عمل ہے تو عقلمند انسان وہی ہے جو اس مہلت سے فائدہ اٹھا کر آخرت کی تیاری کرتا ہے۔لیکن بدقسمتی سے ہم نے دنیا ہی کو اپنی منزل بنا دیا ہے اور اب ہم اسی کی تعمیر میں لگے ہوئے ہیں۔المیہ یہ ہے کہ آج کے اس مادی دور میں ایک انسان کے سامنے نہ جانے کتنے جنازے اٹھتے ہیں لیکن پھر بھی وہ ٹس سے مس نہیں ہوتا ہے۔آج کے انسان نے موت کی یاد کو اپنے سیلبس سے نکال دیا ہے حالانکہ موت کی بار بار یاد سے ہی ایک انسان اسلام کے راستے پر مستقل مزاجی سے چل سکتا ہے۔ خاص طور پر بچوں کے جنازے دیکھ کر جو قوم بیدار نہیں ہوتی، تو پھر  کون سی چیز اسے بیدار کر سکتی ہے۔ ہماری بے راہ روی کے پیچھے ایک ہی چیز کارفرماں ہے وہ یہ کہ ہم موت اور حساب و کتاب سے غافل ہو چکے ہیں۔قرآنِ پاک نے اس چیز کا تذکرہ ان الفاظ میں کیا ہے:
اِقۡتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُهُمۡ وَهُمۡ فِىۡ غَفۡلَةٍ مُّعۡرِضُوۡنَ‌ۚ(الانبیاء:1)
”قریب آگیا ہے لوگوں کے لیے ان کے محاسبے کا وقت اور وہ ہیں کہ غفلت میں منہ پھیرے ہوئے ہیں۔“

                 اس ننھی سی کلی نے بچپن میں ہی ہمارے آنکھوں کے سامنے دنیا چھوڑ کر ہمیں دنیا کی حقیقت سمجھائی اور مسلمانوں کو رجوع الی اللہ کرنے کی ترغیب دی ۔لیکن اس چیز پر دل کا ٹھک جانا  ناگزیر ہے تب ہی کوئی نتیجہ بر آمد ہونے کی آمید رکھی جا سکتی ہے۔زندگی کےان قیمتی لمحات کو ضائع کیے بغیر ابھی بھی موقع ہے کہ ہم اللہ تعالٰی کی طرف رجوع کریں چونکہ یہی طریقہ ہمارے لیے نجات کا ضامن ثابت ہو سکتا ہے۔ اسکے ساتھ ساتھ خاتمہ بالخیر کی دعاؤں کا پڑھنا سونے پر سہاگے کا کام دے سکتا ہے چونکہ اسلام نے اپنے پیروکاروں کو خاتمہ بالخیر کی دعائوں پر ابھارا ہے۔مثال کے طور پر حضرت یوسف کی یہ دعا دیکھیں:    
 رَبِّ قَدْ آتَیْْتَنِیْ مِنَ الْمُلْکِ وَعَلَّمْتَنِیْ مِن تَأْوِیْلِ الأَحَادِیْثِ فَاطِرَ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ أَنتَ وَلِیِّیْ فِیْ الدُّنُیَا وَالآخِرَۃِ تَوَفَّنِیْ مُسْلِماً وَأَلْحِقْنِیْ بِالصَّالِحِیْن۔ (یوسف،101)
 ’’اے میرے رب، تونے مجھے حکومت بخشی اور مجھ کو باتوں کی تہ تک پہنچنا سکھایا۔ زمین وآسمان کے بنانے والے، تو ہی دنیا اور آخرت میں میرا سرپرست ہے،میرا خاتمہ اسلام پر کر اور انجامِ کار مجھے صالحین کے ساتھ ملا۔‘‘
           یا ساحرینِ فرعون نومسلموں کا یہ اعلان اور دعا دیکھیں:
    قَالُواْ إِنَّا إِلَی رَبِّنَا مُنقَلِبُونَ٭وَمَا تَنقِمُ مِنَّا إِلاَّ أَنْ آمَنَّا بِآیَاتِ رَبِّنَا لَمَّا جَاء تْنَا رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَیْْنَا صَبْراً وَتَوَفَّنَا مُسْلِمِیْن (اعراف،126-125)
          ’’انہوں نے جواب دیا:بہرحال ہمیں پلٹنا اپنے رب ہی کی طرف ہے۔ تو جس بات پر ہم سے انتقام لینا چاہتا ہے وہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ ہمارے رب کی نشانیاں جب ہمارے سامنے آگئیں تو ہم نے انھیں مان لیا۔ اے رب، ہم پر صبر کا فیضان کر اور ہمیں دنیا سے اُٹھا تو اس حال میں کہ ہم تیرے فرماں بردار ہوں۔‘‘
              یا قرآن کی نظر میں عقل والوں یعنی اولو الالباب کی یہ دعا ملاحظہ فرمائیں:
         رَّبَّنَا إِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِیْاً یُنَادِیْ لِلإِیْمَانِ أَنْ آمِنُواْ بِرَبِّکُمْ فَآمَنَّا رَبَّنَا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَکَفِّرْ عَنَّا سَیِّئَاتِنَا وَتَوَفَّنَا مَعَ الأبْرَار(آلِ عمران،193)
      ’’مالک، ہم نے ایک پکارنے والے کو سنا جو ایمان کی طرف بلاتا تھا اور کہتا تھا کہ اپنے رب کو مانو۔توہم نے اس کی دعوت قبول کر لی۔پس اے ہمارے آقا، جو قصور ہم سے ہوئے ہیں ان سے درگزر فرما،جو برائیاں ہم میں ہیں انھیں دور کر دے اور ہمارا خاتمہ نیک لوگوں کے ساتھ کر۔‘‘

            آخر پر اللہ تعالٰی سے یہی دعا ہے کہ وہ ہماری اس چھوٹی بچی”مہرین پروین“کو قبر کے عذاب سے بچا کر انہیں جنت میں اعلٰی مقام میں جگہ دے اور ان کے لواحقین کو صبرِ جمیل عطا فرمایے آمین یا رب العٰلمین۔

Comments