The Last Ten Days of Ramadan: Let's Get Into Worship



جس طرح رمضان المبارک کو باقی مہینوں پر برتری و فوقیت حاصل ہے اسی طرح ماہِ رمضان کا آخری  عشرہ پہلے دو عشروں پر فضیلت رکھتا ہے۔ اس ماہ مبارک کے آخری عشرے میں ایک ایسی رات "لیلۃ القدر" ہے جس کو قرآن کریم نے ہزار مہینوں سے بہتر قرار دیا ہے- اس مقدس رات کا ایک سیکنڈ باقی دنوں کے مقابلے میں کئی گھنٹوں سے بہتر اور افضل ہے ۔اس طرح اس عشرے کی اہمیت اور بھی زیادہ بڑھ گئی ہے - اس رات میں اللہ رب العالمیین اپنے بندوں کو اپنے ساتھ تعلق جوڑنے کا موقع فراہم کرتا ہے- یہ مغفرت کی رات ہے - یہ خیر کثیر حاصل کرنے کی رات ہے- یہ رات اب تک کی ہوئی کوتاہیوں کو دور کرنے اور نیکیوں میں رہ گئی خامیوں کو پورا کرنے کا ایک نادر موقع فراہم کرتی ہے۔ اس عشرے میں رب الزوجلال اپنی رحمت سے بہت سارے مسلمانوں کی بخشش کرتے ہیں اور اس طرح ان کو کامیابی کی نوید سنائی دی جاتی ہے - واقتًا یہی بڑی اور حقیقی کامیابی ہے اگرچہ آج کے مادی دور(Materialistic remote) میں انسان نے کامیابی کے عجیب و غریب معیارات خود ہی تعمیر کیے ہیں۔ قرآن پاک نے بلا خوف و تردد کے ساتھ حقیقی کامیابی کا تذکرہ ان الفاظ میں یوں فرمایا ہے:
" پس جو دوزخ سے بچایا گیا اور جنت میں داخل کیا گیا وہ کامیاب رہا اور یہ دنیا کی زندگی تو بس دھوکے کا سودا ہے۔"    (اٰلعمران:١٨٥)

    رمضان المبارک کے آخری عشرے کی اہمیںت کا اندازہ اس سے زیادہ اور کیا لگایا جایے کہ کائنات کے سب سے بہتر کامل انسان، پیغمبروں کے سردار، محبوبِ خدا سرور کونین حضرت محمد مصطفی ﷺ اس عشرے میں ازواج اور اصحاب سے بے تعلق ہو کر  اپنے محبوبِ حقیقی(Substantial desirable) کے ساتھ اعتکاف میں خلوت نشینی کر کے سارے لطف حاصل کر لیتے اور اگرچہ باقی دنوں میں بھی وہ عبادت میں مصروف رہتے لیکن ان دنوں ان کی آتش شوق تیز ہو جاتی تھی جس کی گواہی حضرت عائشہؓ نے ان الفاظ میں دی ہے کہ: "جب(رمضان کا آخری) عشرہ آتا حضرت محمدﷺ رات کو بیدار رہتے اور اپنے گھر والوں کو بھی جگاتے (کہ اٹھ کر عبادت کریں) اور (عبادت میں بہت) کوشش فرماتے اور (اس کے لیے) کمر ہمت باندھ لیتے۔" (مسلم)
  "حضرت عائشہؓ ہی کا بیان ہے کہ حضرت محمدﷺ (رمضان کے) آخری دس دنوں میں اتنی کوشش اور محنت سے عبادت کرتے تھے جتنی کوشش اور محنت سے رمضان کے علاوہ دوسرے دنوں میں نہیں کرتے تھے" ۔ (مسلم)

       اس طرح ان احادیث مبارک سے واضح ہوا ہے کہ رمضان المبارک کے آخری عشرے میں خاص طور پر زیادہ سے زیادہ عبادت کرنے کا اہتمام کرنا چاہیئے، خصوصًا اس عشرے کی طاق (اکیسویں، تیئسویں، پچیسویں، ستایئسویں اور انتیسویں) راتوں میں قیام لیل و کثرت ذکر و اذکار کیا جائے اور مغفرت کی طلب کی جائے چونکہ حضرت عائشہؓ کا بیان ہے کہ حضرت محمدﷺ نے فرمایا کہ لیلتہ القدر کو رمضان کے آخری دس دنوں کی طاق (راتوں) میں تلاش کیا کرو۔ (بخاری)
     
      قارئین کرام یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ حضرت محمدﷺ ایک انقلابی شخصیت(Revolutionary personality) کے حامل انسان تھے، تو آپﷺ اِن دس دنوں میں یہ گوشہ گیری (Secludedness)کیوں اختیار فرماتے تھے ؟ اس پر پوری طرح سے غور و خوض کرنے کے بعد یہ جواب از خود روزِ روشن کی طرح عیاں ہوتا ہے کہ دراصل آپ ﷺ ہمیں یہی پیغام دینا چاہتے تھے کہ ایک مسلمان کے اندرونی انقلاب کے بغیر بیرونی انقلاب کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا ہے - دوسری طرف اس میں یہ پیغام بھی ملتا ہے کہ ایک مسلمان کے لیے دنیا میں اللہ تعالٰی کے ساتھ مضبوط تعلق ہی وہ واحد سہارا ہے جو اسے اقامتِ دین کی شاہراہ پر مستقل مزاجی(Unwaveringly) کے ساتھ چلا سکے ۔  قرونِ اولٰی کے مسلمانوں نے بھی یہی اسوہ اپنا کر  دن کی شہسواری کے ساتھ رات کی درویشی اختیار کر کے ہی ایسے کارنامے انجام دیے کہ جن کا لوہا غیروں کو بھی ماننا پڑا ہے۔ 

         تکاثر میں پڑے انسان کو کیا پتہ کہ الٰہی کے چوکھٹ پر کیا ملتا ہے۔ گناہوں کے مرض میں مبتلا انسان کو کیا معلوم کہ اللہ تعالٰی کی عبادت میں کیسی چاشنی(Taste) ہے۔ سحری کے وقت خراٹے مارنے والے کو کیا معلوم کہ تہجد پڑھنے میں کیسی لذّت ہے۔ اپنے پیٹ کی خاطر غلام بننے والے انسان کو کیا پتہ کہ اللہ کی غلامی میں کیسا سکون ہے۔ عشقِ مجازی کے مرض میں مبتلا نوجوان کو کیا معلوم کہ عشقِ حقیقی میں کیسا مزا (Deliciousness)ہے۔ دنیوی نعمتوں پر فریفتہ انسان کو کیا خبر کہ فی سبیل اللہ میں کیسا روحانی سکون ہے۔ غلامی کی زندگی گزارنے والے انسان کو کیا معلوم کہ رب کی خاطر جان دینے سے کس قدر بلند مقام حاصل ہوتا ہے۔من چاہے زندگی والے انسان کو کیا خبر کہ رب چاہے زندگی میں ہی اصل نجات ہے۔ مزاجِ خانکاہی میں پختہ تر ہویے انسان کو کیا معلوم کہ روحانیت کا حصول میدانوں سے وابستہ ہے۔ مالکِ حقیقی کو تراشے  ہوئے بُتوں میں تلاش کرنے والے بے خبر انسان کو کیا معلوم کہ وہ بدلتی ہوئی رُتوں میں ہی ملتا ہے۔  الغرض جب تک ایک انسان کسی نعمت کا مزہ خود نہ چکھے تب تک وہ نعمت اس کے لیے خواب ہی رہتی ہے۔                          
       
    جنت کا راستہ اگرچہ آزمائشوں سے پُر ہے لیکن جس انسان کے دل و دماغ میں یہ بات راسخ ہو کہ خدا کی راہ میں جتنی زیادہ تکلیف اٹھائی جایے گی اتنا ہی انسان اجر و ثواب کا مستحق ہوگا - اگرچہ اُسے اِس راہ پر گُھسیٹا ہی چلا جائے تو پھر بھی اپنی منزل کو چھوئے بغیر وہ راستہ تبدیل کرنے کا خیال بھی اپنے ذہن میں لانا گوارا نہ کرے گا ۔اگرچہ ماہِ رمضان کے پہلے دو عشروں میں بالعموم اور آخری عشرہ میں بالخصوص ہمیں بہت ساری دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن یہ بات ذہن نشین رہے کہ کسی عمل کا مشکل یا آسان ہونا بہت حد تک شوق کی کمی یا زیادتی پر منحصر ہوتا ہے - جس کام میں محبت، شوق، ذوق اور دل کی لگن موجود ہو تو اس راہ کے تمام مشکلات، آسانیوں میں تبدیل ہونے لگتے ہیں  اور جس کام کی طرف طبیعت(Mood) کا میلان نہ ہو وہ اگرچہ فی نفسہٖ آسان بھی ہو تب بھی پہاڑ جیسی بھاری بوجھ محسوس ہونے لگتی ہے ۔
       خلاصہ کلام یہ ہے کہ رمضان المبارک کے اس آخری عشرے میں اپنے روح کے اندر تجرد و انقطاع پیدا کریں جس سے اللہ تعالٰی کی طرف متوجہ ہونے کی ایک خاص کیفیت پیدا ہو جاتی ہے اور اگر ان دنوں اعتکاف کی توفیق مل جایے تو وہ سونے پر سہاگا کا کام کر کے ہی رکھ دے گی - لہٰذا ہمیں چاہئے کہ ان دس دنوں میں اپنا کمر کس کر خوب سے خوب تر عبادت کیا کریں تاکہ ہمیں بھی قرونِ اولٰی کے مسلمانوں کی طرح قربِ الٰہی  حاصل ہو کر دنیا میں خلافت برپا کرنے کی سعادت نصیب ہو جایے ۔جہدِ مسلسل(Consecutive effort) کا پیغام جو ہہمیں ماہِ رمضان کے آخری عشرہ سے ملتا ہے بالکل یہی پیغام علامہ اقبالؒ نے بھی مسلمانوں کو تھکن محسوس کیے بغیر شاہین کی زندگی سے سبق حاصل کر کے مسلسل پرواز(Consecutive Flight) کرنے میں ان الفاظ میں دیا ہے؎

  شاہیں کبھی پرواز سے تھک کر نہیں گرتا
  پُر دَم ہے اگر تُو تو نہیں خطره افتاد

Comments

Post a Comment