The Interrelationship Between The Guidance, Quran, Piety and Fasting

 


ہدایت طلب کرنا ہر ایک انسان  کی فطری (Native) مانگ ہے جس کا اشارہ سورۃ الفاتحہ آیت نمبر 6(اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَـقِيْمَ ) میں دیکھنے کو ملتا ہے۔

●ہدایت(guidance) ایک ایسی شیء ہے جو کہ اللہ تعالٰی کی چوکھٹ پر ہی مل سکتی ہے لیکن اس کے لیے شرط یہ ہے کہ انسان اس کا پیاسا(thirsty)ہو۔

●ہدایت کے پیاسے انسان کو  اپنی چوکھٹ پر سر بسجود دیکھ کر اللہ رب العزت اس سے شرماتا ہے کہ اسے خالی ہاتھوں واپس لوٹا دے۔

●جس ہدایت کی درخواست ہم اللہ تعالٰی سے سورۃ الفاتحہ میں کرتے ہیں اس کا جواب ہمیں سورۃ البقرہ آیت نمبر 2 میں (ھُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ) کی شکل میں دیکھنے کو ملتا ہے یعنی قرآن وہ کتاب ہے جو ہدایت ہے تقوٰی شعار لوگوں کے لیے۔لہٰذا یہ بات عیاں ہوئی کہ تقوٰی(piety) کے بغیر ہدایت کا ملنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔

●ایک انسان کو قرآنِ پاک سے ہدایت نہ ملنے کا قصور قرآنِ پاک کا نہیں بلکہ اُس انسان کا ہے جس نے اپنے اندر تقوٰی جیسی بنیادی صلاحيت کو اپنے وجود سے خارج کر دیا ہو جو کہ سرچشمہ(fountain head)ہدایت سے فائدہ اٹھانے کے لیے بے حد ضروری ہے۔قرآن نے جگہ جگہ فرمایا ہے کہ اِنَّ فِىۡ ذٰلِكَ لَعِبۡرَةً لِّمَنۡ يَّخۡشٰىؕ(اس میں خدا سے ڈرنے والوں کےلیے درسِ عبرت ہے)(نازعات:٢٦)اِنَّ فِىۡ ذٰلِكَ لَذِكۡرٰى لِمَنۡ كَانَ لَهٗ قَلۡبٌ اَوۡ اَلۡقَى السَّمۡعَ وَهُوَ شَهِيۡدٌ(بے شک اس کے اندر یاددہانی ہے اس کے لیے جس کے پاس بیدار دل ہو یاوہ پوری توجہ ہوکر بات سنے  (ق:٣٧)۔

●انسان پر کسی چیز کا اثر انداز ہونے کے لیے تنہا یہی بات کافی نہیں کہ وہ چیز بجایے خود مؤثر(effective) ہو بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ آدمی کے اندر اثر پزیری کی صلاحیت بھی موجود ہو۔  اندھے انسان کو سورج کیا فائدہ پہنچا سکتا ہے،چمن میں بلبل ہزار چہکے لیکن ایک بہرا انسان اس کے چہکنے سےکیسے لطف اندوز ہو سکتا ہے،معدے کے مریض کو مشہورومعروف ہوٹل سے لایا گیا ڈِش بھی ایک معمولی قسم کا غذا دکھائی دینے لگے گا،زکام جیسی بیماری میں مبتلا انسان خوشبو کو کیسے محسوس کر پایے گا بالکل اسی طرح قرآن اگرچہ ساری انسانیت(gentleness) کے لیے ہدایت کی کتاب ہے، جس کااشارہ ہمیں سورۃ البقرہ آیت نمبر185 میں(هُدًى لِّلنَّاسِ) کی صورت میں دیکھنے کو ملتا ہےلیکن اس کی طرف وہی لوگ متوجہ ہو سکتے ہیں جن کے اندر تقوٰی کا جوہر موجود ہو۔یہی لوگ قرآن کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور واپسی میں قرآن بھی انہیں اپنا اسیر(possess) کر لیتا ہے۔تاریخ شاہد ہے کہ آج تک قرآنِ پاک نے انہیں لوگوں کو اپنے ساتھ اٹھا لیا،جنہوں نے اپنے اندر انسان کی فطرت میں ودیعت شدہ چیز یعنی تقوٰی کی شمع کو فجور کے تلے دبا نہ دیا تھا۔ تزکیہ کے مسافر نے جب اسی چیز کو ملحوظِ نظر رکھ کر فجور کا راستہ ترک کر کے تقوٰی کا راستہ اپنالیا توسورۃ الشمس کی آیت(فَاَلۡهَمَهَا فُجُوۡرَهَا وَتَقۡوٰٮهَا ) کے بعد(قَدۡ اَفۡلَحَ مَنۡ زَكّٰٮهَا )والی آیت لاکراسے اس میں کامیابی کی نوید سنا دی گئی۔

●اگر تقوٰی،ہدایت حاصل کرنے کے لیے اتنا ضروری ہے تو پھر اس کے حصول(achievement) کے لیے ہر ایک انسان کو جو اس کا پیاسا ہو، حتی المقدور کوشش کرنی چاہیئے تاکہ اسے یہ وقت پر مل سکے۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ تقوٰی کیسے حاصل ہوتا ہے؟ اس سوال کا جواب ہمیں سورۃ البقرہ آیت نمبر 183 میں ان الفاظ میں دیکھنے کو ملتا ہے(يٰٓـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا كُتِبَ عَلَيۡکُمُ الصِّيَامُ کَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِيۡنَ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ لَعَلَّكُمۡ تَتَّقُوۡنَۙ) ،جس میں اللہ تعالٰی اشارہ کرتے ہیں کہ میں نے محض مسلمانوں پر روزے اس لیے فرض(incumbent) کیے تاکہ ان میں تقوٰی کی صفت پیدا ہو جایے لہٰذا روزہ(fast)کا اصلی اور بنیادی مقصد تقوٰی ہے۔

●مذکورہ وضاحت سے یہ بات عیاں ہوئی کہ ہدایت، قرآن،تقوٰی اور روزہ آپس میں مربوط(connected) ہیں یعنی قرآن سے ہدایت حاصل کرنے کے لیے تقوٰی کی صفت ناگُزیر ہے اور تقوٰی جیسی صفت کو روزے پروان چڑھانے میں کلیدی رول ادا کرتے ہیں،اسی چیز کو مدِ نظر رکھتے ہویے اللہ تعالٰی نے مسلمانوں پر رمضان کے  روزے فرض کیے تاکہ وہ آسانی طور پر اپنے اندر تقوٰی کی صفت کو پروان چڑھا کر قرآنِ پاک سے ہدایت حاصل کرنے کا شرف حاصل کر سکیں۔

Comments