Learning The Art Of Handling The Serious Situations

 




  اسلام دینِ حق  ہے اور حق اس کا پابند نہیں ہوتا کہ کوئی اسے قبول کرے یا نہ کرے،کوئی اسے ساتھ دے یا نہ دے۔ اگر لوگ حق کا ساتھ نہ دیں گےتو حق ناکام نہیں بلکہ وہ لوگ ہوں گے جنہوں نے حق کو حق جاننے کے باوجود بھی اسے ٹھکرادیا ۔ تاریخ گواہ ہے کہ ماضی میں بہت سارےجوانمردوں نے اس کی سربلندی میں ہی اپنی نجات سمجھی اور بالآخر اپنی تاریخ خود اپنے ہاتھوں بنا ڈالی،اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ لوگ سچ مچ میں بہادر تھے اور تاریخ بنانا تو واقعتًا بہادر مردوں ہی کا کام ہوتا ہےاسکے برعکس بزدل لوگ تو بس باتیں بنانے میں ہی اپنے دن رات کاٹتے چلے آیے ہیں۔         

            آج بھی نوعِ انسانی میں  قلیل تعداد حق کو اپنی جان سے  بھی زیادہ عزیز رکھتے ہیں اور حق کی ترویج و اشاعت اور اس کے  غلبے کے لیے اپنی قیمتی سے قیمتی متاع کو بھی قربان کر ڈالتے ہیں اور یہی لوگ اپنے اندر  تاریخ کا دھارا تبدیل کرنے کی صلاحيت رکھتے ہیں۔                                                                                
         حق کے راستے کو انہوں نےعلٰی وجہ بصیرہ دیکھ کر اپنے منزل کی طرف رواں دواں رہنے میں ہی کامیابی سمجھی اگرچہ اس راستے پر انہیں آزمائشیوں کا نہ تھمنے والا سلسلہ ہی دیکھنے کو ملا  اور کبھی کبھی انہیں اپنی ہمت بھی جواب دینے لگی لیکن پھر بھی وہ انہیں خندہ پیشانی سے برداشت کر نے لگے چونکہ محبوبِ حقیقی کو منزلِ مقصود پر انتظار کرتے ہویے انہیں شرم محسوس ہوئی  کہ اپنی زبان پر حرفِ شکایت لائیں لہٰذا وہ امید کا چراغ ہاتھ میں لیے ہویے منزلِ مقصود پر جلدازجلد پہنچنے میں ہی بےچین رہے تاکہ مقررہ وقت پر اپنے محبوب کے دیدار کا شرف حاصل کر سکیں۔                                                                                                         
             یہ لوگ ہر وقت اپنے مقصد کے دھن میں لگے رہ  کر،دماغ سے اسی کے لیے تدبیریں سوچ کر،ہاتھ پاؤں سے اسی کے لیے دوڑدھوپ اور محنت کر کے،اپنے تمام  امکانی وسائل سے اس کو فروغ دینے میں اور ہر اُس مزاحمت کا پوری قوت کے ساتھ مقابلہ کر کے نظر آتے ہیں جو اس راہ میں پیش آیے اور بالآخر اگر جان کی بازی کی بھی ضرورت پڑے تو اس سے بھی دریغ نہیں کرتے لیکن ان ساری قربانیوں کے پیچھے انہیں بس اللہ  تعالٰی کی رضاجوئی کی فکر دامن گیر ہوتی ہے۔ آخر پر ان کی موت کو ہر ایک رشک بھری نگاہوں سے دیکھتا ہے دراصل عظیم موت دینے سے اللہ تعالٰی لوگوں پر یہ بات آشکاراکرنا چاہتا ہے کہ یہی لوگ میرے وہ سچے وفادار بندے ہیں کہ جس دنیا پر لوگ جان دیتے ہیں اسے یہ میرے لیے آگ لگا کے آیے ہیں۔

    نوعِ انسانی کے یہ معدودے چند افراد دنیا چھوڑ کر تو جاتے ہیں لیکن زمانہ انہیں یاد کرتا ہے،زبانوں پر ان کا ذکرِ خیر ہوتا ہے،لوگ ان کی مثال دیتے ہیں وجہ یہ ہوتی ہے کہ انہوں نے ایک بامقصد زندگی گزاری تھی کچھ کر کے گیے تھے۔وہ مر گیے لیکن پھر بھی زندہ ہیں ۔موت اگرچہ ان  کے جسم پر اثر انداز ہوئی لیکن اپنے کارناموں سے،اپنے افکار سے،اپنے نظریہ سے،اپنے انمٹ نقوش چھوڑنے سے، نوعِ انسانی پر اپنے احسانات سے وہ زندہ جاوید ہوگیے۔دلوں میں ان کی محبت اور عظمت پسِ مرگ بھی باقی رہی۔صدیوں تک اہلِ وفا انہیں یاد کرتے رہے، ان کے لیے دعائیں مانگتے رہے اور نسل در نسل انہیں ایک نمونہ کی حیثیت سے دیکھا جاتا رہا۔لوگوں نے انہیں اپنے دلوں میں بسایا تھا وجہ یہ تھی کہ انہوں نے اللہ تعالٰی سے شدید ترین محبت رکھی تھی،جو کہ ہر ایک حکم پر لبیک کہنے پر نمایاں ہوتی تھی اور واپسی میں اللہ تعالٰی بھی انہیں چاہنے لگا اور اس چاہنے کا تذکرہ زمین و آسمان میں بھی ہونے لگا۔ ایک حدیثِ پاک میں بایں طور پر یہی تصویر ان الفاظ میں دیکھنے کو ملتی ہے:
         اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا ہے: "جب اللہ کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو جبریل سے بتا دیتا ہے کہ میں اسے چاہتا ہوں، تم بھی اسے چاہو۔ تو جبریل بھی اس بندے کو اپنا محبوب بنا لیتے ہیں۔ پھر وہ آسمان والوں کو پکار کر بتاتے ہیں کہ فلاں بندے کو اللہ چاہتا ہے، تم بھی اس سے محبت رکھو۔ لہٰذا اہلِ فلک اسے چاہنے لگتے ہیں، پھر کرۂ ارضی پر دلوں میں اس کی مقبولیت رکھ دی جاتی ہے۔" (متفق علیہ)
              انسان نما چوپائیوں کی بھیڑ میں یہ بہت قلیل تعداد انسانوں کی ہوتی ہے،ورنہ ذریت آدم کی اکثریت کا حال یہ ہے کہ عمرِ نوح بھی اگر پائیں پھر بھی کوئی یادگار کارنامہ انجام دینے سے قاصر رہ جائیں گے،یہی لوگ گمنام آتے ہیں اور گمنام ہی چلے جاتے ہیں۔چند مہینوں یا سالوں میں ہی ان کے اعزاء و اقارب اور دوست انہیں بُھلا ڈالتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں وہ لوگ جو اپنے آپ کو اللہ تعالٰی کی رضاجوئی کے لیے تج دیتے ہیں اور اپنا تن من دھن قربان کرنے کو تیار رہتے ہیں، قرآنِ پاک میں اللہ تعالٰی  اپنے ان بندوں کی تعریف ان الفاظ میں کرتا ہے:
وَمِنَ النَّاسِ مَنۡ يَّشۡرِىۡ نَفۡسَهُ ابۡتِغَآءَ مَرۡضَاتِ اللّٰهِ‌ؕ وَ اللّٰهُ رَءُوۡفٌ ۢ بِالۡعِبَادِ ۞ (البقرہ:٢٠٧)
"اور لوگوں میں کچھ ایسے بھی ہیں جو اللہ کی رضاجوئی کے لیے اپنے آپ کو بیچ دیتے ہیں اور اللہ اپنے بندوں پر نہایت مہربان ہے۔"
        دراصل یہی لوگ دنیا میں( اِنَّ صَلَاتِىۡ وَنُسُكِىۡ وَ مَحۡيَاىَ وَمَمَاتِىۡ لِلّٰهِ رَبِّ الۡعٰلَمِيۡنَ) کی چلتی پھرتی تصویر بن کر نظر آتے ہیں اور ان کا سفر نماز سے شروع ہوکر بالآخر شہادت پر منتج ہوتا ہے اور اس سفر میں اپنی منزلِ مقصود پر نظر رکھ کر وہ مالِ غنیمت اور کِشور کشائی سے بھی نظر ہٹا لیتے ہیں۔علامہ اقبالؒ نے اس پُر عزم قافلے کی تصویر ان الفاظ میں کھینچی ہے:

یہ غازی،یہ تیرے پُر اسرار بندے
جنہیں تُو نے بخشا ہے ذوقِ خدائی
دونیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا
سِمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی
دو عالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو
عجب چیز ہے لذتِ آشنائی
شہادت ہے مطلوب و مقصودِ مومن
نہ مالِ غنیمت نہ کِشور کشائی


Comments

Post a Comment