A Meeting With The Late Faizan

   


پہلے پہل جب اسکول میں بچے داخلہ لیتے ہیں تو ان کو پہچاننا بہت ہی مشکل ہوتا ہے اور ساتھ میں انہیں بھی اسکول کے دن کاٹنے میں کافی دُشواری محسوس ہوتی ہے ،لیکن جب کچھ وقت گزر جاتا ہے تو غیر معمولی طور پر ان بچوں کو اسکول اور  اساتذہ صاحبان سے گہرا تعلق پیدا ہوجاتا ہے۔”فیضان صوب“ بھی انہی بچوں کی طرح پہلے پہل ہمارے لیے نا آشنا تھے لیکن چند ہی دنوں میں اُس کو پبلک مشن اسکول یاری پورہ کے اساتذہ صاحبان اور بچوں کے ساتھ ایک قلبی تعلق پیدا ہوا۔میں نے ذاتی طور پر ان سے پہلے ہی کہا کہ بیٹے آپ Arabic subject میں کیوں پیچھے ہیں، تو اُس نے جواب دیا کہ میں گورنمنٹ اسکول میں پڑھتا تھا۔جب میں نے گورنمنٹ اسکول میں اس کی ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کی وجہ تلاش کی تو پتہ چلا کہ غربت کی وجہ سے وہ آٹھویں جماعت تک پرائیویٹ اسکول میں داخلہ نہ لے سکے،اس چیز نے مجھے اندر ہی اندر کھوکھلا کر دیا لیکن میں اس کا اظہار نہ کر سکا۔میں اپنے من میں ڈوب کر سوچنے لگا کہ کاش میرے پاس  بھی وافر مقدار میں دولت ہوتی تو میں اسے غریب طلباء کی پڑھائی پر صرف کر دیتا لیکن میں اندر کے زخموں کو اپنے آنسوؤں سے ہی مرہم کر دینے پرمجبور ہوگیا۔ 

                 آج ”فیضان صوب“ دسويں کلاس میں پڑھتا تھا،جس کی عمر تقریباً چودہ سال تھی ،مزاجًا انتہائی شریف ہونہار طالبِ علم تھے،جس کی گواہی اسکول کے بچوں کے ساتھ ساتھ اساتذہ صاحبان بھی دیا کرتے تھے۔اللہ تعالٰی نے اُس کو غیر معمولی صلاحیتوں سے نوازا تھا۔ گھر پر اپنے ہاتھ سے مختلف چیزوں کو بنا کر اُس نے ایک اہم میدان میں قدم رکھا تھااور جو بھی اسکے ویڈیو youtube پر دیکھتا تھاوہ محوِ حیرت میں مبتلا ہوجاتا تھا۔میں نے ذاتی طور پر اُسکو مشورہ دیا تھا کہ اس کام کو بھی جاری رکھو لیکن ساتھ میں پڑھائی کی طرف بھی دھیان دو تاکہ آپ کو مستقبل میں دشواریوں کا سامنا نہ کرنا پڑے۔مجھے اُمید تھی کہ مستقبل میں کوئی بھی کمپنی اس کے Talent کو دیکھ کر اسے اپنے ساتھ کام کرنے کی دعوت دے گی۔ لیکن کل رات کو اچانک اس کی موت کی خبر جب کانوں میں پہنچی تو مجھے بذاتِ خود دماغ میں چکر آنے لگا اور فورًا چند اساتذہ کو ساتھ لے کے ہم اس کے گھر پہنچ گیے۔جب ہم اس کے گھر کے صحن میں داخل ہویے تو میں نے دیکھا کہ وہاں لوگوں کا کافی ہجوم تھا اور ”فیضان صوب“کو دو چار عالمِ دین غسل دینے میں مصروف تھے۔ہم بھی فورًا اُس جگہ پہنچے تو ہم نےفیضان صوب کو سفرِ آخرت کی تیاری کر کے پایا۔جونہی اس کے چہرے پر نظر پڑی تو ہم اپنے آنسوؤں کو روک نہ سکے اور ”فیضان صوب“کے ساتھ ماضی میں گزارے گیے سارے لمحات ذہن میں بجلی کی طرح دوڑنے لگے۔ قرآنِ پاک کی چند آیتیں میرے ذہن میں بار بار گھومنے لگے جس کی وجہ سے میرا وجود تھرتھرانے لگا اور میں سوچتا رہا کہ میں نے سفرِ آخرت کے لیے کیا سامان تیار کر رکھا ہے۔میں ایک نظر اُس کے خوبصورت چہرے پر ڈالتا تھا اور ایک نظر اپنے نامہ اعمال پر،جس کی وجہ سے آخرت کا منظر میرے سامنے آنے لگا۔خاص طور پر جس آیت نے مجھے بے چین کر دیا وہ سورۃ الحشر کی آیت نمبر 18 تھی،جس  میں اللہ تبارک وتعالٰی فرماتےہیں:

يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا اتَّقُوا اللّٰهَ وَلۡتَـنۡظُرۡ نَـفۡسٌ مَّا قَدَّمَتۡ لِغَدٍ‌ ۚ وَاتَّقُوا اللّٰهَ‌ؕ اِنَّ اللّٰهَ خَبِيۡرٌۢ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ۔

”اے لوگو ! جو ایمان لائے ہو، اللہ سے ڈرو، اور چاہیے کہ ہر شخص یہ دیکھے کہ اس نے کل کے لیے کیا سامان کیا ہے، اور اللہ سے ڈرتے رہو، جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس کو جاننے والا ہے۔“

       جُدا ہونے سے پہلے میں نے سوچا کہ میں بذاتِ خود ”فیضان صوب“ سے ایک Interview لوں تاکہ اُس کا پیغام میں پبلک مشن اسکول یاری پورہ کے بچوں کے ساتھ اساتذہ صاحبان کے پورے قافلے کےنام بھی بروقت بھیج سکوں۔جونہی میں نے اُسے سوال پوچھنے چاہیں تو اُس نے جواب دیا ”ندیم سر“ جلدی کیجیے کیونکہ اپنے اصلی گھر کی طرف کوچ کرنے میں مجھےکافی خوشی محسوس ہورہی ہے اور میں اپنی آنکھوں سے ایک بڑے قافلے کو انتظار کرتے ہویے پاتا ہوں،میں نہیں چاہتا ہوں کہ یہ قافلہ مجھ سے چھوٹ جایے۔ اسلیے میں نے بھی شرم محسوس کی اور اسے جلدی میں چند سوالات پوچھے جن کے جوابات انہی کی زبانی سے میں آپ کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا ہوں:

س:”فیضان صوب“ آپ نے جب پبلک مشن اسکول میں داخلہ لیا تو آپ نے کیا محسوس کیا؟ 

ج: پبلک مشن اسکول ایک اسکول ہی نہیں بلکہ ایک تربیتی ادارہ ہے جس میں داخلہ لینے کے بعد میں نے بذاتِ خود اتنا کچھ سیکھا کہ زبان بولنے سے قاصر ہے۔

س:”فیضان صوب“ آپ کلاس میں زیادہ باتیں کرنے کے بجایے اکثر خاموش رہا کرتے تھے اس کی کیا وجہ تھی؟

ج: عقلمند،ہوشیار اور سنجیدہ مزاج کے لوگ اکثر خاموش ہی رہا کرتے ہیں۔

س:فیضان صوب آپ اسکول کے صحن میں کھیل کود میں کیوں داخلہ نہ لیتے تھے؟

ج: میں دنیا کے بجایے جنت میں کھیلنا زیادہ پسند کرتا تھا۔

س:”فیضان صوب“ میں نے آپ کو اکثر اپنے آپ سے باتیں کرتے پایا،اس کی کیا وجہ تھی؟

ج: مجھے معاف کیجیے اس سوال کا جواب میں expose نہیں کرنا چاہتا ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ اس سوال کا جواب إن شاء الله میں وسیع وعریض جنت میں دوں۔

س:”فیضان صوب“ گھر میں معاشی حالت کمزور پاکر کیا آپ کو دل میں کبھی زیادہ دولت کے آنے کی خواہش پیدا ہوئی؟

ج: جب حدیثِ پاک کے حوالے سے غریب و محتاج مسلمان جنت میں مالداروں سے پانچ سو برس پہلے داخل ہونگے تو پھر میں امیر بننے کی خواہش میں اپنی زندگی کے قیمتی لمحات ضائع کر دینے میں کیوں صرف کر دیتا۔

س:”فیضان صوب“ آپ جسمانی طور پرکمزور تھے آپ نے موٹا بننے کی کیوں کوشش نہ کی؟

ج:دنیا اگر جسم موٹا بنانے کے لیے دی گئی ہوتی تو اس کے لیے سب سے پہلے حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ نےکوشش کی ہوتی۔

س:”فیضان صوب“ آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی آپ سادہ سا لباس کیوں پہنتے تھے؟

ج: سادہ سا لباس پہننا ایمان کی علامت ہے اور قیمتی لباس کو پہننے سے اس لیے میں نے پرہیز کیا تاکہ مجھے اس کو پہنتے ہویے دیکھ کر کہیں کسی غریب کا دل ٹوٹ نہ جایے۔جنت کے لباس کو ذہن میں رکھ کر مجھے دنیا کے قیمتی سے قیمتی لباس بھی ہیچ دِکھنے لگے۔

س:”فیضان صوب“ اپنے معاشرے میں نوجوانوں کو شاہانہ زندگی بسر کرتے دیکھ کر کیا آپکو کبھی انہی جیسی زندگی گزارنے کا شوق دل میں پیدا ہوا تھا؟ 

ج: دنیا میں عیش کوشی کی زندگی بسر کرنا ہی اگر مومن کی حقیقی معراج ہوتی تو اسکی جھلک ہمیں کم از کم اپنے اسلاف کی زندگیوں میں ہی دیکھنے کو ملتی۔لیکن انکی زندگیوں کو پڑھ کر ہمیں اس کے برعکس ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔

س:”فیضان صوب“ پبلک مشن اسکول یاری پورہ کی ٹوٹی پھوٹی عمارت کو دیکھ کر کیا آپ کو کبھی خیال آیا کہ کاش میں نے کسی مِشنری اسکول میں داخلہ لیا ہوتا؟

ج: ولولوں کی دنیا ہمیشہ غریبوں کی جھونپڑوں میں ہی پیدا ہوتی ہے۔یہاں سے وہ طوفان اُٹھتے ہیں جن میں محلات بہہ جایا کرتے ہیں۔

س: ”فیضان صوب“پہلے سے ہی آپ کو مجھ سے کیوں زیادہ لگاؤ ہوگیا،اس کی کیا وجہ تھی؟

ج: آپ کا اسلام کے  جامع تصورات سمجھانے کے ساتھ ساتھ بچوں کو ہنسانا ہی اس چیز کا سبب بن گیا تھا۔

س:”فیضان صوب“ کبھی کبھار آپ کو ہمارے اساتذہ ڈانٹتے تھے،کیا اُس وقت آپ کے دل کو چوٹ لگتی تھی؟

ج: استاد روحانی باپ ہوتا ہے جو بچے کے فائدے کے لیے ہی ایسے اقدام اٹھاتا ہے اور ویسے تو آج کے پُر فتن دور میں بچوں کو قابو میں رکھنا انتہائی ضروری ہے ورنہ بچوں کو راہِ راست سے بھٹک جانے کا خطرہ یقینی ہے۔ 


س:”فیضان صوب“ اپنے مُشفِق پرنسپل محترم ارشاد احمد وگے صاحب کے لیکچر سُن کر آپ نے کیا محسوس کیا؟

ج:محترم کے لیکچر سُن کر میں جاگ گیا اور مجھے اپنی منزل قریب نظر آنے لگی۔بد قسمتی سے آج کے مادی دور میں مذہبی انسان کی کوئی قدروقیمت ہی اب باقی نہ رہی،جس کی وجہ سے اب نوجوانوں نے یہ راستہ ہی چھوڑ دیا ہے۔ایک اچھے انسان کی قدروقیمت اس کے مرنے کے بعد ہی پتہ چل جاتا ہے۔

س:”فیضان صوب“ اسکول کے پرنسپل کے نام آپ کا کیا پیغام ہے؟

ج: وہ ایک عالمِ دین ہیں لیکن پھر بھی میں آپ کے کہنے پر انہیں یہی پیغام دینا چاہتا ہوں کہ انہیں چاہیئے کہ اسکول کے بنیادی مقاصد کو مدِ نظر رکھا جایے،دنیوی تعلیم کے ساتھ ساتھ اخلاقی تعلیم سے بھی بچوں کو آراستہ کیا جایے،اسکول کے اساتذہ میں  باہمی اتحاد کو فروغ دیا جایے، اسکول میں اساتذہ صاحبان کے پرابلمز کو انفرادی طور پر سُن کر انہیں بروقت حل کیا جایے،تمام اساتذہ صاحبان کو اسلامی تعلیمات اپنانے پر زور دیا جایے تاکہ بچے بھی اس چیز کا اثر پکڑ سکیں،تمام طلباء وطالبات کے مسائل کو حل کرنے کی بروقت کوشش کی جایے،بچوں کو دینِ اسلام کے قریب لانے میں حتی المقدور کوشش کی جایے،غریب بچوں کے پرابلمز کو حل کرنے کی کوشش کی جایے تاکہ انکا Talent ضائع نہ ہو جایے،باقی اسکولوں کو ذہن میں لاکر  اپنے اسکول میں بھی دن بدن ترقی لانے میں کوشش کی جایے،دعوت کے منہج کو مدِ نظر رکھتے ہویے بچوں کے گھروں سےبھی رابطہ رکھا جایے،اساتذہ کے پورے قافلے کی فکر میں تبدیلی لانے میں وقتًا فوقتًا کام کیا جایے،اپنے مشن کو چلانے میں راستے کی دشواریوں کو خندہ پیشانی سے برداشت کیا جایے،اللہ تعالٰی کے دربار میں حاضری دے کر اپنے مشن میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے بار بار دعا کی درخواست  کی جایے کیونکہ مومن کے لیے دعا ایک قیمتی ہتھیار ہے۔

س: ”فیضان صوب“ اسکول کے تمام  اساتذہ کے نام آپ کا کیا پیغام ہے؟

ج: استاد قوم کا معمار ہوتا ہے لہٰذا اس چیز کو ہر ایک استاد کو ذہن میں رکھنا چاہیئے تاکہ اپنے شعبے کے ساتھ انصاف کرکے وہ اللہ تعالٰی کی حقیقی خوشنودی کےمستحق بن سکے۔تمام اساتذہ سے میری یہی التماس ہے کہ وہ گفتار کے بجایے کردار کے غازی بنیں۔

س: ”فیضان صوب“اسکول کے تمام بچوں کےنام آپ کا کیا پیغام ہے؟

ج: آج عمومًا تعلیم روزگار کے لیے حاصل کی جاتی ہے جو کہ ایک غلط تصور ہے، جسکا بر وقت ازالہ کرنا ہر ایک طالبِ علم کے لیے اشد ضروری ہے۔بچوں کو تعلیم کے ذریعے فکرِ معاش کےبجایے فکرِ آخرت پیدا کرنی چاہیے،اُن کو دینی و دنیوی علوم ساتھ میں پڑھنے چاہیئے،اسلامی تعلیمات سے اپنے آپ کو آج ہی سے لیث کرنا چاہیئے،ماں باپ اور تمام اساتذہ صاحبان کی خدمت کو اپنے اوپر لازم سمجھنا چاہیئے،غلط عادات اور حرکات کو آج ہی سے الوداع کرنا چاہیئے،اپنے Talent کو صحیح انداز میں استعمال کرنا چاہیئے،اسلام کی سربلندی کو ہی اپنی زندگی کا مقصد بنانا چاہیئے،آج ہی سے موت کی تیاری کرنی چاہیئے کیونکہ میری موت میں آپ سب کے لیے ایک بڑے وعظ کے ساتھ ایک بڑا پیغام بھی پنہاں ہے۔

س:”فیضان صوب“ آپ اس دنیا سے اتنی جلدی کیوں چلے گیے؟

ج: اسلام کو اپنی آنکھوں کے سامنے مٹتے دیکھ کر مجھے گوارا نہ ہوا اور دنیا اگر مومن کے لیے قید خانہ ہے تو قید خانے میں سالوں سال زندگی کی تمنا کرنا ایک نادان اور بے یقین مسلمان ہی کا کام ہوسکتا ہے۔

س:”فیضان صوب“ آپ کی جدائی میں آپ کا پورا خاندان اشکبار ہے،ان کے لیے آپکی طرف سے کیا پیغام ہے؟

ج: اصلی گھر آخرت کا گھر ہے،إن شاء الله کچھ وقفے کے بعد ہی وہاں میں گھر کے سارے افراد کو پھر سے ملوں گا۔یہ وقفہ عارضی وقفہ ہے جس کو جلد ہی ختم ہونا ہے۔مجھے امید ہے کہ میرے گھر والے صبر کے دامن کو مضبوطی سے پکڑیں گے کیونکہ آزمائشوں کے طوفان کو صبر کے ہتھیار سے ہی مقابلہ کیا جاسکتا ہے اور زبان پر حرفِ شکایت نہ لانے دیں گے۔ویسے تو موت ہی تو ایسی شیء ہےجسکو پیغمبر بھی ایک سیکنڈ ٹال نہیں سکتا ہے۔

س:”فیضان صوب“ آپکے تابناک چہرے پر  نظر پڑکر مجھے لگتا ہے کہ آپ اب ہم سے رخصت ہونا چاہتےہیں؟

ج: آپ کی بات واقعی طور پر سچ ہے،مجھے شرم محسوس ہورہی ہے کہ پاکباز قافلے کو انتظار کرتے کرتے تکلیف دے دوں،جدا ہونے سے پہلے میرا سلام میرےگھر والوں،اساتذہ صاحبان،دوستوں،ہمسائیوں اور رشتہ داروں کو بھیجنا۔ان سب کو کہنا کہ میرے حق میں دعا کرتے رہنا،خاص طور پر میں اپنے” پرنسپل صاحب“ کے دعاؤں کا منتظر رہوں گا  اور اگر کسی بھی گھر کے فرد، استاد یا دوست کو میری طرف سے کبھی کوئی تکلیف پہنچ گئی ہو تو انہیں کہنا کہ ”فیضان صوب“ نے کہا کہ مجھے معاف کردینا۔ ”ندیم سر“ انفرادی طور پر میں اب آپکو بھی معافی چاہتا ہوں کہ ہوسکتا ہے کبھی آپ کے حکم کی خلاف ورزی کی ہو اور  آپ صاحب سے یہی التماس کرتا ہوں کہ مجھے دعاؤں میں یاد رکھنا۔ میں چاہتا ہوں کہ ان اشعار کو سنا کر ہی آپ سے رخصت ہو جاؤں:

تم ہم سے ملو گے تو ہمیں پاؤ گے مخلص

ہر چند کہ اخلاص کا دعویٰ نہیں کرتے

ہم لوگ تو درویش ہیں کیا ہم سے الجھنا

جو ہم کو برا کہتے ہیں اچھا نہیں کرتے

لازم  ہے  زمانے  کو  کرے  قدر  ہماری

ہم  لوگ  کبھی  لوٹ  کے  آیا  نہیں کرتے

Comments

  1. May allah grant him highest palce in jannah and make his departure as an awakening trigger for our souls. Amen.

    ReplyDelete

Post a Comment