Ramadan - The Month Of Change



  اللہ تعالٰی نے انسان کو بڑی عبادت سر انجام دینے کے لیے چند چھوٹی چھوٹی عبادات کو ادا کرنے کا حکم دیا تاکہ انسان اس بڑی عبادت کے لیے تیار ہو سکے جو کہ اس کی زندگی کا حقیقی اور مقصدِ وحید ہے جیسا کہ قرآن پاک نے انسان کی مقصدِ زندگی کا راز یوں افشا فرمایا ہے کہ "میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری بندگی کریں"۔

تمام عبادات میں سے روزے اپنا ایک منفرد مقام رکھتی ہے۔ روزہ انسانی زندگی پر ایک ایسا اثر ڈالتی ہے جو کہ حقیقی تقوٰی(valid piety) کی صورت میں ہمیں دیکھنے کو ملتی ہے۔ روزوں میں کم کھانے، پینے اور سونے میں یہی پیغام پنہاں ہے کہ ایک مسلمان پر ایسے حالات بھی وارد ہو سکتے ہیں کہ اسے حلق سے پانی کے چند قطرے اتارنے سے بھی روک دیا جایے گا، پلنگوں پر آرام  لینےتو کیا آنکھ لگنے پر بھی پابندی عائد کی جایے گی اور اپنی شریک حیات سے بھی اسے دور رکھا جایے گا۔ خالی معدہ روزہ جیسے فریضہ کو سر انجام دینے میں یہی دعوت ہے کہ روزہ کا پابند سپاہی اگر کبھی ایسے حالات میں گِھر جایے کہ بغیر کھائے پیئے اسے ملک کا دفاع(Defence) کرنا پڑے تو امید ہے کہ وہ احسن طریقے پر اس کام کو انجام دے سکے - چونکہ اسے پہلے ہی یہ مشق کرائی گئی ہے کہ خالی معدہ ہی فرائض کو انجام دینا ہے۔ قمری مہینوں کے لحاظ سے روزے کی فرضیت میں یہی حکمت ہے کہ یہ ہر موسم  میں بدل بدل کر آتے ہیں تاکہ مسلمان کو اگر دنیا کے کسی بھی کونے اور کسی بھی موسم میں انھیں رکھنا پڑے تو وہ برضا و رغبت اسے قبول کرسکے۔ مسلمانوں کو اسلام سربلند کرتے کرتےکبھی پیٹ پر پتھر باندھنے کی نوبت بھی آتی ہے تاکہ وہ ماہِ رمضان سے پہلے ہی تربیت پاکر زبان پر حرفِ شکایت نہ لائیں۔

زندگی ایک مسلسل(Consecutive ) جدوجہد کا نام ہے ۔اس جدوجہد میں کود پڑنے سے پہلے ہی اسلام ایک مسلمان کو عبادات کے ذریعہ سے تربیت کرتا ہے تاکہ وہ جنت کے راستے پر آزمائشوں کا نزول دیکھ کے گھبرا نہ جایے بلکہ انہیں مردِ مجاہد کی طرح ڈٹ کر مقابلہ کرے اور اپنی منزل کی طرف بلا خوف و تردد کے ساتھ ایک دریا کی طرح رواں دواں رہے۔

روزہ ایک مسلمان کو سخت کوشی اور جفا کشی کی زندگی گزارنے کا خوگر ہے چونکہ ایک کاہل، سست، آرام طلب اور عیش پسند مسلمان دنیا میں کوئی کارنامہ سرِانجام نہیں دے سکتا۔ قرونِ اولٰی کے مسلمانوں نے بڑے بڑے قلعوں کو روزہ کی حالت میں ہی فتح کیا- چونکہ جن لوگوں کو منزلِ مقصود پر نظر رہتی ہے انہیں راستے کے کانٹے بھی مہکتے پھول دکھائی دینے لگتے ہیں -   انہوں نے سوکھی روٹیوں پر قناعت کر کے قوموں کی تقدیر بدل ڈالی اور وقت کے فرعون کی دعوت کو ٹھکرا کر غربت اور مسکینی میں ہی دن رات کاٹے اور اپنا سب کچھ اسلام کے راستےمیں نچھاور کر کے اپنے محبوب کو پیارے ہوگیے حالانکہ وہ بھی ہماری طرح وقت کے فرعون کے ساتھ سمجھوتا(Compromise) کر کے اچھی خاصی زندگی گزارتے لیکن انہوں نےجنت کے بدلے میں اپنی جانوں اور مالوں کا سودا اللہ تعالٰی ہی کے ساتھ کیا ہوا تھا لہٰذا وہ دھوکا دینے میں اپنا حقیقی خسران روزِ روشن کی طرح عیاں ہوتے دیکھتے تھے اور یہی وجہ ہے کہ شیطان اور نفس سے لے کر طاغوتی نظام تک کوئی بھی ان کا ایمان خرید نہ سکا۔  اسکے برعکس جو لوگ کھانے پینے کی چیزوں کے حصول کو ہی اپنی زندگی کا نصب العیںن بنا لیتے ہیں وہ اپنے معدے کے اردگرد ہی طواف کرنے لگتے ہیں اوراچھے اچھے ڈِش بنانے میں ہی اپنی زندگی کے قیمتی لمحات(costly moments) ضائع کرتے ہیں۔ ایسے لوگ روحانی افادیت کے بجائے شکم پروری میں ہی اپنا نام کماتے ہیں اور بالاٰخر نفس کے بندے بن کر اللہ کی ناراضگی مول لیتے ہیں۔

 روزہ بالخصوص بھوک کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے تاکہ وقت آنے پر پچھتانا نہ پڑے اور بھوک ہے بھی ایسی چیز کہ اس کو مٹانے کے لیے انسان قیمتی سے قیمتی متاع بھی قربان کر دیتا ہے اور حلال وحرام کی تمییز کھو کر وقت آنے پر اس کے حصول میں اس طرح سرگردان ہوتا ہے کہ اس کی ساری کاوشیں اسی کے لیے ہوتی ہیں اور اسی نقطے پر پہنچ کر وہ بالاٰخر اپنے وجود سے انسانیت کے جوہر کو رخصت کر ڈالتا ہے اور یہی اس کی روحانی موت ہوتی ہے۔ لہٰذا جو لوگ مصارفِ زندگی میں مجاہدہ(Strive) کرتے ہیں وہیں اپنے اصولوں پر قائم رہ کر اپنی آزادی کا سامان کرتے ہیں اور کسی بھی صورت میں بھی شکم پروری اور شکم پرستی کر کے اپنی عزت وآبرو پر حرف نہیں آنے دیتے۔ علامہ اقبالؒ نے اپنے ایک شعر میں اسی چیز کی طرف یوں اشارہ کیا ہے؎ 

دل کی آزادی شہنشاہی شکم سامانِ موت

فیصلہ تیرا تیرے ہاتھوں میں ہے دل یا شکم

 روزے شکم پروری کے بجائے دل کی بیداری پیدا کرتی ہے تاکہ وہ انسان وجود میں آجایے جس میں بصارت کے ساتھ ساتھ بصیرت(Insight) ہو، جو کائنات کے اسرار و حقائق سے پردہ اٹھا سکے، جس کا دل انوارِ الٰہی اور تجلیات کا مہبط بن سکے، جو مخلوق کے آئینہ میں اپنے خالق کی جھلک دیکھ سکے، جو خود دکھ اٹھا کر دوسروں کو آرام پہنچانے میں ہی راحت محسوس کرے، جو سحری کے وقت امت کے غم میں اپنے آنسو بہائے ، جو اللہ تعالٰی کی رضا کے مقابلے میں دنیا کی ناراضگی مول لے، جو اسلام کے نام پر قیمتی سے قیمتی چیز کو بھی قربان کرنے سے دریغ نہ کرے اور بالآخر اللہ تعالٰی کے دربار میں اپنے سر پر شہادت کا تاج سجا کر ہی داخلہ لینے کو سعادت سمجھے۔ اسی انسان پر خلافتِ ارضی ناز کرتی ہے اور اس کے دامن میں فرشتے نماز پڑھ کر فخر محسوس کرتے ہیں۔ جو دلِ بیدار، روزوں کو اپنا مقصد سمجھتا ہے، اسی سے مسلمان میں فاروقی اور حیدری صفات وجود میں آتی ہیں اور افراد سے لے کر قوموں میں انقلاب نمودار ہونے لگتا ہے۔ علامہ اقبالؒ نے اس کی منظر کشی ان الفاظ میں کی ہے؎

دلِ بیدار فاروقی دلِ بیدار کراری

مسِ آدم کے حق میں کیمیا ہے دل کی بیداری

دلِ بیدار پیدا کر کہ دل خوابیده ہے جب تک

نہ تیری ضرب ہے کاری نہ میری ضرب ہے کاری

               اس طرح یہ بات واضح ہوئی کہ روزہ سے ہم نفس کے داعیات کو قابو میں لاکر انہیں صحیح سمت دیتے ہیں جس کے لیے ایک ماہ کی مسلسل  کوشش کر کے ہی ہم اپنے وجود میں انقلاب برپا ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں بالکل اسی طرح اجتماعی سطح پر بھی ایک حقیقی انقلاب درکار ہے جو کہ ہمارے عزم، ولولے، توکل اور جہدِ مسلسل کا منتظر ہے بس کمر باندھنے کی دھیر ہے ؎

    اٹھ باندھ کمر کیوں ڈرتا ہے

    پھر دیکھ خدا کیا کرتا ہے

Comments

Post a Comment