The Great Tribulation Of Wealth And Our Present Situation



اس دُنیا میں علائقِ دنیوی کے ساتھ جس دوسری چیز سے انسان بند ھا ہوا ہے وہ ہے مال اور اسبابِ دُنیا جن سے انسان کی ضرورت پوری ہوتی ہیں۔ سورۃ النساء آیت نمبر
۵ کے حوالے سے انسان کو حق ہے کہ وہ مال کو قیامِ زندگی کا ذریعہ بنائے، لہٰذا مال سے انسان کو ایک طبعی اور قدرتی لگاؤ ہے۔ لیکن اگر اس طبعی لگاؤ میں شدت پیدا ہو جائے اور یہ چیز فی نفسہٖ مطلوب و مقصود بن جائے تو عاقبت و آخرت کے حوالے سے انسان کے لئے اس سے زیادہ مضر اور تباہ کن چیز کوئی نہیں ہو سکتی ۔ اسی لئے اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہمیں اس چیز سے پہلے ہی خبر دار کیا ہے کہ مال خاص طور پر تمہارے لئے فتنہ ہے۔ ارشاد ربّانی ہے:

’’بلا شبہ تمہارے مال اور تمہاری اولاد (تمہارے حق میں ) فتنہ ہیں، اور اللہ ہی ہے جس کے پاس اجرِ عظیم ہے۔‘‘             (التغابن:۱۵)

            فتنہ کے معنی ’’کسوٹی‘‘ کے ہیں ۔ یعنی وہ چیز جس پر پرکھ کر دیکھا جاتا ہے کہ سونا خالص ہے یا اس میں کھوٹ اور ملاوٹ ہے۔ مذکورہ آیت سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ مال کے ذریعے سے اہلِ ایمان کو اللہ تعالیٰ آزماتا ہے کہ کہیں وہ مال کی محبت میں اتنے غرق تو نہ ہوں کہ اللہ کو فراموش کر بیٹھیں اور کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ حدود اللہ کو پھاند کر اپنی عاقبت کو خود اپنے ہاتھوں برباد کر بیٹھیں۔ آیت کے دوسرے حصّے میں اللہ تعالیٰ نے اجرِ عظیم کی طرف رغبت دیتے ہوئے اہلِ ایمان کو انفاق فی سبیل اللہ کی طرف دعوت دی ہے یعنی اگر اہلِ ایمان کو اجرِ عظیم حاصل کرنا ہے تو لازمی طور پر اُنہیں مال کو جمع کرنے کے بجائے میرے راستے میں اسے صرف کرنا ہو گا تاکہ وہ اجرِ عظیم کے مستحق بن سکیں۔ یہ راستہ اختیار کرنے پر اگر چہ اہل ایمان کو نقصان سے دو چار ہونا پڑے تب بھی انہیں اس آیت سے ندا آتی ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں اس نقصان کی تلافی آخرت میں اجرِ عظیم سے فرمائے گا۔ بقولِ علامہ اقبالؒ                  ؎

تو بچا بچا کے نہ رکھ اسے، تیرا آئینہ ہے وہ آئینہ
کہ شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہِ آئینہ ساز میں!

            ککتابوں میں دیکھنے کو ملتی ہیں لیکن بالاختصار یہاں ہم چند احادیث پیش خدمت کرتے ہیں تاکہ بات سمجھنے میں آسانی پیدا ہو جائے:

            ٭حضرت کعب بن عیاضؓ سے مروی ہے فرمایا : میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا: ہر اُمّت کی ایک آزمائش ہوتی ہے اور میری اُمّت کی آزمائش مال ہے۔‘‘                           (ترمذی)

            ٭حضرت عبد اللہ بن الشخیرؓ سے مروی ہے کہ انھوں نے فرمایا: میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ سورۃ ’’ الہاکم التکاثر‘‘ کی تلاوت فرما رہے تھے آپ نے فرمایا: ’’آدم کا بیٹا کہتا ہے کہ میرا مال، میر ا مال ۔ اے ابن آدم! کیا تیرا کوئی مال ہے سوائے اس کے جس کو تو نے کھا لیا اور ختم کر دیا یا پہن لیا اور بوسیدہ کر دیا اور یا صد قہ کر دیا اور آگے بھیج دیا۔ ‘‘                 (مسلم)

            ٭حضرت کعب بن مالکؓ سے مروی ہے فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’دو بھوکے بھیڑئیے جن کو بھیڑوں میں چھوڑ دیا جائے، بھیڑوں کے اندر اس سے زیادہ تباہی نہیں مچاتےجتنی تباہی مال و جاہ کی محبت ، انسان کے دین میں مچاتی ہے۔‘‘   (ترمذی)

            ٭ حضرت عمر و بن عوف انصاریؓ سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو عبیدہ بن الجراحؓ کو جزیہ وصول کرنے کے لئے بحرین بھیجا ۔ وہ بحرین سے کچھ مال لائے۔ انصار نے حضرت ابو عبیدہؓ کی آمد کی متعلق سنا تو وہ صبح کی نماز میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شامل ہوئے۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ چکے تو آپ پلٹے، اور انصار آپ کے سامنے ہوئے۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کو دیکھا تو تبسّم فرمایا۔ پھر فرمایا: میرا خیال ہے کہ تم نے سنا ہے کہ ابو عبیدہ بحرین سے کچھ مال لائے ہیں؟ انھوں نے عرض کی: ہاں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔ فرمایا: خوش ہو جاؤ اور اس چیز کی امید رکھو جو تمہیں خوش کر دے۔ خدا کی قسم! مجھے تمہاری غربت کا ڈر نہیں بلکہ مجھے یہ ڈر ہے کہ دُنیا تمہارے لئے فراخ کر دی جائے جس طرح ان لوگوں کے لئے فراخ کر دی گئی تھی جو تم سے پہلے تھے اور دُنیا کے حصول میں اسی طرح باہم مقابلہ کرنے لگو جس طرح انھوں نے مقابلہ کیا اور وہ تمہیں اس طرح ہلاک کر دے جس طرح اس نے ان کو ہلاک کر دیا تھا۔     

                                                                                                                                                                                    (بخاری، مسلم)

            مال بذاتِ خود ناپسندیدہ نہیں۔ اگر انسان حلال طریقے سے مال کمائے اور اللہ کی راہ میں خرچ کرے۔ غریبوں، مسکینوں کے حقوق ادا کرے، اسے جمع کرکے نہ رکھے بلکہ گردش میں لائے اور اللہ کے دین کی سر بلندی کے لئے دل کھول کر خرچ کرے تو یہی مال اس کے لئے نعمت بن جاتا ہے۔ نعمت بھی ایسی کہ وہ دوسروں کے لئے قابلِ رشک بن جاتا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک فرمان کا مفہوم یہ ہے کہ دو آدمیوں کے سوا کسی پر رشک جائز نہیں ایک وہ جسے قُرآن کا علم عطا ہوا ہو اور وہ دن رات اس کی تلاوت کرتا ہو اور دوسرا وہ جسے اللہ تعالیٰ نے مال دیا ہو اور وہ اس میں سے راہِ خدا میں خرچ کرتا ہو۔(بخاری) صحابہ کرام ؓ میں سے بعض صحابہؓ بڑے دولت مند تھے لیکن ان کی دولت ہمیشہ راہِ خدا میں کام آئی اور اسلام کی سر بلندی کے لئے خرچ ہوئی۔

            لیکن جب ہم آج کے پُر فتن دور میں اپنے معاشرے پر نظر ڈالتے ہیں تو یہاں عجیب سی حالت نظر آتی ہے۔ آج کا انسان اسی بات میں محوِ فکر اور کوشاں ہے کہ مال و دولت کا حصول زیادہ ہونے کے ساتھ ساتھ اس میں اضافہ اور بڑھوتری بھی ہو ۔ اس غافل انسان کا تذکرہ اللہ سبحان وتعالیٰ نے سورۃ التکاثر میں بڑی خوبصورت انداز میں کیا ہے۔ آج کا انسان حلال و حرام کی تمیز کھو چکا ہے اورحالت یہاں پہنچ گئی ہے کہ لوگ  اب حرام کو شہد کی طرح کھا رہے ہیں اور اسی لئے تقریبًا ہر ایک انسان بے برکتی کی شکایت کرتے نظر آ رہا ہے۔ آج کے ترقی یافتہ دور میں انسان نے رزق کے پیچھے پڑ کر رازق کو بُھلا دیا ہے۔ جہاں چند سالوں پہلے ہر ایک محفل کسی خاص موضوع پر سجتی تھی لیکن بد قسمتی سے تقریبًا آج ہر ایک محفل میں صرف مال و دولت کے حصول پر بحث و مباحثہ چلتا نظر آ رہا ہے۔ سرکاری وغیر سرکاری ملازمین اب مہینہ کے آخری تاریخ کا انتظار کرتے نظر آ رہے ہیں۔آج کے نوجوان اپنی زندگی کو آرام دہ بنانے کے لئے سرکاری نوکری کے حصول کی خاطر رشوت دینا اب کوئی گناہ  ہی نہیں سمجھتے بلکہ ستم ظریفی یہ ہے کہ ان کو اس بھاری رقم کو دینے کے لئے  اور کسی کار وبار کو شروع کرنے کے لئےسرکاری و غیر سرکاری بینکوں کا بار بار طواف کرنا پڑتا ہے۔ مادیت(Materialism) نے اس حد تک  اثر کر رکھا ہے کہ انسان کو اب اللہ  رب العزت سے لو لگانے کا موقع ہی باقی  نہ رہا ۔ آج ہمارا زاوئیہ نگاہ اتنا پست ہو چکا ہے کہ ہم نے عقاب کا بلند راستہ چھوڑ کر چیونٹی کی راہ لے لی ہےجو کہ اپنا رزق خاکِ راہ میں ڈھونڈتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ آج ہمیں ہر طرف ذلت و خواری اٹھانی پڑتی ہے۔ علامہ اقبالؒ نے اس صورتحال کا نقشہ اپنے ایک مکالمے "چیونٹی اور عقاب" میں اسطرح کھینچاہے۔         ؎

چیونٹی اور عقاب

چیونٹی

میں پائمال و خوار و پریشان و درد مند
تیرا مقام کیوں ہے ستاروں سے بھی بلند

عقاب

تو رزق اپنا ڈھونڈتی ہے خاکِ راہ میں
میں نہ سپہر کو نہیں لاتا نگاہ میں

            خواتین حضرات نے بھی مال کمانے میں اب بڑھ چڑھ کر حصّہ لے لیا ہے، ان کو اب نہ اپنے مسائل جاننے کی فکر اور نہ ہی اپنے بچّوں کی تربیت کرنے کی دُھن موجود ہے حالانکہ اپنے بچّوں کو اخلاقی تعلیم نہ دینے سے وہ خود ہی اپنے ہاتھوں انھیں ہلاک کر ڈالتے ہیں لیکن انھیں اس بات کا شعور نہیں۔ ماضی میں جھانکنے سے یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ صالح خواتین نے ہی اُمت ِمسلمہ کو بڑے بڑے دانشور، فاتح، علماء اور صلحاء وغیرہ عطا کئے لیکن آج قحط الرّجال اس حد تک پہنچ چکا ہے کہ اُمتِ مسلمہ کو اب خون کے آنسو رونے کے سوا کچھ باقی نہ رہا۔ عصرِ حاضر نے ملک الموت کی صورت اختیار کر لی ہے اور انسان کی روح قبض کرکے اسے فکر معاش دے دی ہے۔ علامہ اقبالؒ نے اس چیز کا تذکرہ اپنے ایک شعر میں اس طرح کیا ہے:                ؎

عصرِ حاضر ملک الموت ہے تیرا، جس نے
قبض کی روح تری دے کے تجھے فکر معاش



            مال و دولت نے اب نصب العین کی جگہ لے لی ہر اسی لئے آج کا انسان اسی مال ومان کو بار بار عُشر ، زکوٰۃ، صداقات ، قر ضِ حسنہ اور انفاق فی سبیل اللہ کی طرف قرآن پاک میں دعوت دی گئی تاکہ اُن کے دلوں سے مال و دولت کی محبت نکل جائے۔ ایک معاشرے میں معاشی مسائل تب تک حل نہیں ہو سکتے جب تک کہ اُس میں مال و دولت پانی کی طرح گردش میں نہ رہے چونکہ جس طرح پانی کافی عرصے سے ایک جگہ جمع رہنے سے خرابی پھیلاتی ہے بالکل اسی طرح مال و دولت کے ایک جگہ جمع رہنے سے معاشرے میں مختلف قسم کی بُرائیاں پھیلتی ہیں، جن میں ایک واضح مثال سود کی ہے، جو معاشرے کو دیمک کی طرح چاٹ لیتی ہے اور شریعت میں اسے سنگین گناہوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے ہم مال و دولت کو آزمائش سمجھ کر اسے زیادہ سے زیادہ اللہ کی راہ میں لگائیں تاکہ اللہ سبحان و تعالیٰ ہم سے راضی ہو جائے ۔ آخر پر اللہ سبحان و تعالیٰ سے دُعا ہے کہ وہ ہمیں مال و دولت کو جمع کرنے کے بجائے اسے اپنی راہ میں خرچ کرنے کی تو فیق عطا فرمائے ۔ آمین


Comments