Importance Of Zakaat


      
اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات (Complete Code of Conduct) ہے جس میں ہمہ گیر انقلاب کے لئے ایکا ہمہاا  گیر پروگرام بھی ساتھ ساتھ دیا گیا ہے۔ اسلام اگر ایک اصول Theoryکی حیثیت سے دیتا ہے لیکن ساتھ میں اس کو Practical کی حیثیت سے بھی دیکھنا چاہتا ہے تاکہ لوگوں پر یہ بات آشکارا ہو جائے کہ اسلام قلعوں میں رہنے کے بجائے دُنیا کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لینے کے لئے آیا ہے۔ اسلام ہی وہ واحد دین ہے جو ہمیں زندگی کے ہر شعبہ میں رہنمائی کرتا ہے۔حقوق کے معاملے میں بھی اسلام نے ہر لمحہ اور ہر آن رہنمائی فرمائی ہے اور جب ہم حقوق کی بات کرتے ہیں تو قدرتی طور پر ہمارا ذہن اللہ کے حقوق اور بندوں کے حقوق یعنی حقوق اللہ اور حقوق العباد کی طرف منتقل ہو جاتا ہے۔ حقوق اللہ میں اگر کوتاہی ہو بھی جائے تو اس کی تلافی ممکن بھی ہے اور آسان بھی۔ لیکن جب ہم بات حقوق العباد کی کرتے ہیں تو اس میں کوتاہی کرنے کے بعد تلافی مشکل سے مشکل تر ہو جاتی ہے۔ چونکہ انسان مختلف کاموں میں مشغول ہو کر بندوں کے حقوق نظر انداز کر بیٹھتا ہے جبکہ یہ بات ذہن نشین رہے کہ حقوق العباد کی ادائیگی کرنا اسی طرح فرض ہے جس طرح حقوق اللہ کی ہے اور جب تک بندے انسان کو معاف نہ کریں تب تک اللہ تعالیٰ کے ہاں بھی معافی ملنا بہت ہی مشکل ہے۔ یوں تو وقت کی قِلّت کے سبب حقوق العباد پر تفصیل سے بات کرنا نہایت ہی مشکل ہے لہٰذا بالا اختصار یہاں ہم بندوں کے حقوق میں سے ایک اہم حق یعنی ’’زکوٰۃ‘‘ پر بات کرتے ہیں۔

لفظ ’’ زکوٰۃ‘‘ کا لغوی مفہوم پاکیزگی اور اضافہ ہے۔ پہلے مفہوم کے حوالے سے زکوٰۃ ادا کرنے سے انسان کا مال حلال ہونے کے ساتھ ساتھ پاک و صاف ہو جاتا ہے اور دوسرے مفہوم کے حوالے سے زکوٰۃ ادا کرنے سے انسان کے مال میں اضافہ ہونے کے ساتھ ساتھ اجر و ثواب میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔ نماز کے بعد زکوٰۃ ہی دینِ اسلام کا ایک اہم رکن ہے۔ قرآن مجید میں اس کا ذکر بیاسی مرتبہ آیا ہے۔ زکوٰۃ نہ صرف امتِ محمدیہ ﷺْ پر فرض ہے بلکہ پہلے بھی تمام امتوں پر فرض تھی۔ نماز اور زکوٰۃ قرآن پاک میں ایک ساتھ چلتے ہیں اور ہمارے اوپر یہ بات آشکارا کرتے ہیں کہ نماز کے ذریعے اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق پیدا ہوتا ہے جب کہ زکوٰۃ کے ذریعے خدا کے بندوں کے ساتھ حسن سلوک کا جذبہ اُبھرتا اور نشو و نما پاتا ہے۔ گویا ہم اس طرح کہہ سکتے ہیں کہ نماز حقوق اللہ میں ’’رأس الحقوق‘‘ ہے اور زکوٰۃ حقوق العباد میں،،۔

            اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے میں انسان کو جو سب سے بڑی رُکاوٹ بنتی ہے وہ مال کی محبت ہوتی ہے۔ یہ مال کی محبت ہی ہوتی ہے جو انسان کے پیر کی بیڑی بن جاتی ہے۔ انسان کی نگاہوں پر جو سب سے بڑا پردہ پڑ جاتا ہے وہ دُنیا کی محبت کا پردہ ہوتا ہے اور اس کا سب سے بڑا مظہر اور سب سے بڑی علامت(Symbol) مال کی محبت ہوتی ہے۔ گویا دُنیا اور مال کی محبت لازم و ملزوم ہیں۔ مال کی محبت کو کم کرنے اور اُسے دل سے کھرچنے کے لئے زکوٰۃ کا نظام تجویز کیا گیا ہے۔ حضور ﷺْ کو بذیعہ وحی باضابطہ طور پر حکم دیا گیا ہے کہ:

’’اے نبی ﷺْ ! تم ان کے اموال سے زکوٰۃ لوتا کہ ان کو (گناہوں سے) پا ک کرو اور ان کے (درجات) بلند کرو۔‘‘        (التوبہ:۱۰۳)

            قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ ادا کرنے والوں کو ’’سچّے مومن‘‘ کے لقب سے نوازا ہے۔ قرآن پاک میں الفاظ اس طرح آئے ہیں:

   ’’وہ لوگ جو نماز قائم کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انہیں دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں ۔ وہی سچّے مومن ہیں۔ ‘‘

                                                                  (الانفال:۳۔۴)

            سورۃ البقرہ میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ زکوٰۃ ادا کرنے والے قیامت کے دن ہر کسی خوف و غم سے مامون و محفوظ ہونگے۔

            ’’جو لوگ ایمان لے آئیں اور نیک عمل کریں، نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں ان کا اجر بے شک ان کے رب کے پاس ہے، اور ان کے لئے کسی خوف اور رنج کا موقع نہیں۔‘‘                                                                            (البقرہ: ۲۷۷)

            زکوٰۃ کی ادائیگی سے نہ صرف گناہوں کا کفّارہ ہو جاتا ہے بلکہ اس فانی دُنیا میں بھی اللہ نے ایسے مال میں اضافہ کرنے کا وعدہ بھی کر رکھا ہے لیکن شرط یہ ہے کہ اخلاص کا دامن چھوٹنے نہ پائے۔ سورۃ رُوم میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ:

            ’’اور جو زکوٰۃ تم اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے دیتے ہو اس سے دینے والے ہی اپنے مال میں اضافہ کرتے ہیں۔ ‘‘              (الروم: ۳۹)

            مزید تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو سورۃ البقرہ آیت نمبر ۲۶۱ تا ۲۷۴اور مصارفِ زکوٰۃ کے لئے ملاحظہ ہو سورۃ التوبہ آیت نمبر ۶۰۔

            ادائیگی زکوٰۃ کے ان فوائد کے ساتھ ساتھ ایک نظر زکوٰۃ ادا نہ کرنے کے نقصانات اور بُرے انجام پر بھی ڈالنی ضروری ہے۔

            اللہ تعالیٰ نے سورۃ حٰم سجدہ میں زکوٰۃ ادا نہ کرنے کو شرک کی علامت قرار دیا ہے۔ ارشاد ربّانی ہے:

            ’تباہی ہے ان مشرکوں کے لئے جو زکوٰۃ ادا نہیں کرتے اور آخرت کا نکار کرتے ہیں۔‘‘     (حٰم سجدہ :۷۔۶)

            سب سے بڑی وعید جو زکوٰۃ ادا نہ کرنے والوں کو قرآن پاک میں سنائی گئی وہ سورۃ التوبہ میں اس طرح ہے:

            ’’درد ناک عذاب کی خوشخبری سنا دو ان لوگوں کو جو سونا اور چاندی جمع کرتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے ایک دن آئے گا کہ اسی سونے چاندی پر جہنم کی آگ دہکائی جائے گی اور پھر اس سے ان لوگوں کی پیشانیوں پہلوؤں اور پیٹھوں کو داغا جائے گا (اور کہا جائے گا) یہ وہ خزانہ ہے جسے تم اپنے لیے سنبھال کر رکھتے تھے، اب اپنے خزانے کا مزہ چکھو۔‘‘      (التوبہ:۳۴۔۳۵)

            نبی کریم ﷺْ کا ارشاد مبارک ہے کہ ’’قیامت کے روز زکوٰۃ ادا نہ کرنے والوں کا مال و دولت گنجا سانپ (یعنی انتہائی زیریلا) بنا کر ان پر مسلط کر دیا جائے گا جو انہیں مسلسل ڈستا رہے گا اور کہے گا’’ اَنَا مَالُکَ اَنَا کُنْزُکَ‘‘ میں تیرا مال ہوں، میں تیرا خزانہ ہوں۔‘‘             (بخاری)

            جن جانوروں کی زکوٰۃ ادا نہ کی جائے ان کے بارے میں آپﷺْ نے ارشاد فرمایا ہے کہ ’’وہ جانور اپنے مالکوں کو قیامت کے دن مسلسل پچاس ہزار سال تک اپنے سینگوں سے مارتے رہیں گے اور پاؤں تلے روندتے رہیں گے۔‘‘    (مسلم)

            معراج کی رات رسولِ  اکرم ﷺْ نے کچھ ایسے لوگ دیکھے جن کے آگے پیچھے دھجیاں لٹک رہی تھیں اور وہ جانوروں کی طرح تھوہر کانٹے اور آگ کے پتھر کھا رہے تھے۔ آپ ﷺْ نے دریافت فرمایا ’’یہ کون لوگ ہیں؟‘‘  حضرت جبرئیل ؑ نے بتایا’’یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے مالوں کی زکوٰۃ ادا نہیں کرتے تھے۔‘‘         (بزار)

            یہ بات پیش نظر رہے کہ آخرت میں جس سزا کا ذکر مذکورہ بالا آیات اور احادیث میں کیا گیا ہے یہ کفار کے لئے نہیں بلکہ ان نام نہاد مسلمانوں کے لئے ہے جو کلمہ شہادت کا اقرار کرنے کے باوجود بھی زکوٰۃ کی ادائیگی نہیں کرتے ہیں۔

            زندگی کی گھڑیاں محدود ہیں۔ موت کا فرشتہ اللہ کے حکم کی تعمیل میں کسی بھی لمحے حاضر ہو کر سانسوں کا سلسلہ توڑ کر رکھ دیتا ہے۔ قرآن مجید ہمیں توجہ دلاتا ہے کہ اللہ نے آپ کو مال دیا ہے تو اسے خرچ کرو، اسکا زکوٰۃ نکالو اور اسے ذخیرۂ آخرت بناؤ۔ اس لئے کہ قیامت کے روز آپ کا موجود مال، تجارت اور کاروبار کسی کام نہ آئیں گے۔ عقل مند اور دانا وہی آدمی ہے جو موت سے پہلے ہی اپنا مال راہ خدا میں خرچ کرکے اپنا تو شئہ آخرت جمع کر لے۔ ارشاد ہوتا ہے:’’ اے ایمان والو! خرچ کرو اُس مال میں سے جو ہم نے تمہیں دیا ہے، اُس دن کے آنے سے پہلے جس میں نہ خرید و فروخت ہو گی اور نہ دوستی اور نہ کوئی سفارش کسی کام آئے گی۔ انکار کرنے والے ہی اپنے اوپر ظلم کرنے والے ہیں۔‘‘    (البقرہ: ۲۵۴)

          ہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ مذکورہ وضاحت سے ہم یہی سبق حاصل کریں کہ اگر پچھلے سالوں کا زکوٰۃ رہ گیا ہو تو اسے جلد از جلد ادا کریں اور اس سال بھی زکوٰۃ کی ادائیگی میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیں تا کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اُخروی نجات کے ساتھ ساتھ دُنیاوی کامرانی بھی عطا فرمایں۔         آمین

Comments

Post a Comment