Mobile Phone Temption Of The Decade




موبائیل فون د ورِ نو کا فتنہ     

            اللہ تعالیٰ نے دُنیا میں بے شمار مخلوقات پیدا کئے اور اِن تمام مخلوقات کو اُس نے ایک قاعدے اور قانون کا پابند بنا دیا جس کے خلاف وہ بال برابر بھی جنبش نہیں کر سکتے ۔ یہ تمام مخلوقات بالجبر اطاعت کرنے پر مجبور کر دئیے گئے ہیں جیسا کہ قرآن پاک میں ارشاد آیا ہے:

’’نہ سورج کی مجال ہے کہ وہ چاند کو جا پکڑے اور نہ رات دن پر سبقت لے جا سکتی ہے اور سب اپنے اپنے مدار میں گردش کر رہے ہیں۔‘‘                                                                                                     (یٰس :۴۰)

            چونکہ انسان زمین پر خدا کا خلیفہ ہے اور اس بھاری ذمہ داری کو سرِ انجام دینے کے لئے اللہ تعالیٰ نے دُنیا کے تمام مخلوقات کو انسان کے لئے مسخر کر رکھا ہے اسلئے انسان کو Crown of the UniverseیاClimax of the Creaturesکے لقب سے نوازا جاتا ہے۔ انسان کو دُنیا میں جن جن چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے اللہ تعالیٰ نے ان سب کا انتظام خود ہی کر دیا ہوتا ہے تاکہ انسان جیسی اشرف المخلوقات کو کوئی دُشواری نہ پیش آجائے۔ قرآن میں اس چیز کی طرف اشارہ اس طرح آیاہے :’’ اللہ وہی تو ہے جس نے زمین اور آسمانوں کو پیدا کیا اورآسمان سے پانی برسایا، پھر اس کے ذریعہ سے تمہاری رزق رسانی کے لئے طرح طرح کے پھل پیدا کئے۔ جس نے کشتی کو تمہارے لئے مسخر کیا کہ سمندر میں اُس کے حکم سے چلے اور دریائوں کو تمہارے لئے مسخر کیا۔ جس نے سورج اور چاند کو تمہارے لئے مسخر کیا کہ لگاتار چلے جا رہے ہیں اور رات اور دن کو تمہارے لئے مسخر کیا۔ جس نے وہ سب کچھ تمہیں دیا جو تم نے مانگا۔ـ‘‘                                         (ابراہیم: ۳۴۔۳۲)

            سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر دُنیا کی ساری مخلوقات کو اللہ تعالیٰ نے انسان کے لئے مسخر کیا تو پھر انسان کا مقصد تخلیق کیا ہے۔ اس سوال کا جواب ہمیں اللہ تعالیٰ خود ہی قرآن پاک میں اس طرح دیتے ہیں:’’ اور میں نے جن اور انسان اسی لئے بنائے ہیں کہ وہ میری بندگی کریں۔‘‘                                        (الذاریات:۵۶)

            لہٰذا انسان کی زندگی کا مقصد وحید اللہ تعالیٰ کی عبادت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے زمین کو زیب و آرائش سے بھر دیا، انسان کے دل میں مال، اولاد اور عزت کی محبت ڈال دی اور پھر انسان کو اس کی رنگینیوں کے بیچ چھوڑ دیا تاکہ آزمائے کہ یہ دُنیا کی رنگینیوں میں اللہ کی مقرر کردہ حدود کی پابندی کرتے ہوئے اللہ کی خوشنودی کا طلبگار رہتا ہے یا اس کے احکامات سے اعراض کرتے ہوئے شیطان کی پوجا کرتا ہے۔ چونکہ انسان بھی ایک حیثیت میں دوسرے مخلوقات کی طرح ایک قاعدے اور قانون کے تحت بند ہے اور دوسری حیثیت میں اسے اختیار دے دیا گیا ہے۔ جب ایک انسان اختیار و بے اختیاری دونوں حالتوں میں خدا کے قانون کا پابند بنتا ہے تو ساری کائنات سے اس کی آشتی ہوتی ہے۔ یعنی وہ باقی مخلوقات کی طرح پورا اور پکا مسلمان بن جاتا ہے۔ گویا کہ ساری دُنیا اس کی اورہ وہ خدا کا ہو جاتا ہے۔

            انسان جب چو طرفہ نظر دوڑاتا ہے تو اُسکو بے شمار نعمتیں دیکھنے کو ملتی ہیں جن کا احاطہ کرنا اُس کے لئے لا محال ہے۔ قرآن میں اس چیز کا تذکرہ اس طرح آیا ہے: ’’اگر تم اللہ کی نعمتوں کا شمار کرنا چاہو تو کر نہیں سکتے۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان بڑاہی بے انصاف اور نا شکر ہے۔‘‘                                                (ابراہیم:۳۴)

 آج کے اس ترقی یافتہ دور میں ہمارے اوپر نعمتوں کی مزید بارش ہوتی گئی اور یہاں ان نعمتوں میں قابلِ ذکر موبائیل فون ہے۔ لیکن یہ بات یاد رکھنی کی ہے کہ ہر کوئی نعمت ہمارے لئے مفید تب ہی ثابت ہو سکتی ہے جب کہ اس کا استعمال مثبت طور پر ہو۔ لہٰذا مذکورہ آیت سے بھی یہ اشارہ ملتا ہے کہ انسان جب بھی کوئی نعمت منفی طور پر استعمال کرتا ہے تو اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ انسان بے انساف اور نا شُکر بن جاتا ہے بالکل یہی مسئلہ موبائیل فون کا بھی ہے۔ موبائیل فون ہمارے لئے رحمت ہی رحمت ہے جب کہ ہم اُسے مثبت طور پر استعمال کریں۔ جس طرح ماچس کی تیلی سے ہم ایک شمع کو جلا سکتے ہیں اور اسی ماچس کی تیلی سے ہم کہیں پر آگ بھی لگا سکتے ہیں لہذا قصور ماچس کی تیلی کا نہیں بلکہ ہمارے منفی استعمال کا ہے۔

            موبائیل فون ایک ذریعہ ہے جس سے خیر و شر دونوں کی انجام دہی ممکن ہے۔ مومن سراپا خیر ہوتا ہے وہ شر کی معرفت بھی اسی لئے حاصل کرتا ہے تاکہ اس سے بچ سکے۔ حضرت عمر فاروقؓ کا ایک قول ہے کہ ’’عرفت الشر للشر ولکن لتوقیہـ‘‘ (میں نے شر کو جانا شر کی خاطر نہیں، بلکہ اس سے بچنے کے لئے)۔موبائیل فون کے سلسلے میں ایک اہم اصول یہ بھی ہے کہ اس کا استعمال اچھے مقاصد کے لئے ہو۔ مثلًا ذاتی ضروریات کی تکمیل، دینی مقاصد، تجارتی مقاصد اور روابطہ عامہ کا استحکام وغیرہ۔ ذیل میں ہم چند چیزوں کا تذکرہ کریں گے تاکہ یہ بات واضح ہو جائے کہ اگر موبائیل فون کا استعمال مثبت طور پر نہ ہوا تو عنقریب ہم میں سے ہر ایک کو یہ اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔

 

موبائیل فون اور ہماری حالتِ زار

            مغرب نے نت نئی ٹیکنالوجی کے ساتھ اپنی بعض قدر یں بھی دُنیا کو دیں جن میں سر فہرست خدا بیزاری، فحاشی ، عریانی اور نام نہاد آزادی ہے۔ انہی تعلیمات پر ہم نے عامل ہو کر اس موبائیل کا صحیح استعمال نہ کیا بلکہ برابر مغربی تعلیمات کا اثر رکھنے کے بعد اسی خدا بیزاری، فحاشی و عریانیت اور نام نہاد آزادی خاص کر آزادی نسواں کے پرچم تلے ہم نے پناہ لی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہم ’’خذ منہ ما صفا دعو ماکدر‘‘ (جو خالص و بے آمیز ہے اسے لے لو اور جو چیز گندی ہے اسے چھوڑ دو) کے اصول پر ٹیکنالوجی تو لیتے مگر مغرب کی نام نہاد ’’قدریں ‘‘ اسی کے منہ پر دے مارتے، مگر وائے نا کامی ہم اپنا رُخ تبدیل کرکے اسی بہتے دریا کے ساتھ بہنے لگے حالانکہ علامہ اقبالؒ نے ہمیں پہلے ہی مغربی تہذیب کی عکاسی ان الفاظ میں کی تھی۔        ؎

فساد قلب و نظر ہے فرنگ کی تہذیب

کہ روح اس مدنیت کی رہ سکی نہ عفیف

رہے نہ روح میں پاکیزگی تو ہے ناپید

ضمیر پاک و خیال بلند و ذوق لطیف

 

موبائیل فون اور ہمارے اسکول، کالج کے طلبہ و طالبات

                        دُنیا کا یہ عام قاعدہ ہے کہ ’’ضرورت ایجاد کی ماں ۔‘‘ اسلام کی بھی یہی تعلیم ہے۔ آدمی ضرورت کے تحت کام کرے نہ کہ خواہشات کے زیر بار ہو کر۔ موبائیل فون میں سب سے پہلی چیز یہی ہے کہ موبائیل ضرورت کے تحت رکھا جائے۔ اسکول اور کالج کے طلبہ و طالبات میں موبائیل فون کا چلن بہت عام ہوتا جا رہا ہے اور ان کے بگاڑ کا سبب بنتا جا رہا ہے۔ ہمارے اسکول اور کالج کے طلبہ و طالبات قصدًا موبائیل فون ہاتھ میں رکھ کر گھومتے ہیں تاکہ یہ معلوم ہو کہ یہ ’’بڑے لوگ‘‘ ہیں ۔ جس کے پاس جتنا مہنگا موبائیل فون ہو وہ اسی قدر اسکی نمائش کرتا رہتا ہے تاکہ دُنیا جانے کہ یہ شخص کتنا مالدار ہے۔ ہمارے طلبہ و طالبات حضرات بار بار موبائیل فون کا ماڈل تبدیل کرتے ہیں اور ماڈل کی تبدیلی میں فضول خرچی کرکے شیطان سے اپنا رشتہ جوڑتے ہیں۔ اس چیز نے آج Fashionکی صورت اختیار کر لی ہے اور اسکے ساتھ ساتھ اس میں ریا کاری بھی کسی حد تک شاملِ حال ہے۔ بہر حال فضول خرچی ہو یا ریاکاری، فیشن پر ستی ہو یا خواہش پرستی یہ تمام چیزیں اسلام میں نا پسندیدہ ہیں۔

موبائیل فون اور عشقِ مجازی کی دُ ھوم

                        ٹی وی اور انٹرنیٹ کے بعد اب موبائیل فون بھی فحاشی کی ترویج و اشاعت کا ایک ذریعہ بن گیا ہے۔ موبائیل فرینڈ شپ ایک عام سی بات بن گئی ہے جس میں کسی بھی لڑکی سے’’کنکٹ ہو جائو‘‘ کے مصداق دوستی کر لی جاتی ہے اور اس سے عشق لڑایا جاتا ہے۔ طلبہ و طالبات کے مابین بھی موبائیل فرینڈ شپ عام ہوتی جا رہی ہے۔ بلکہ ہمارا پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا اس کی پُر زور تشہیر کر رہا ہے، نئے نئے ماڈلز بنا کر ٹی وی وغیرہ پر ان کا Advertiseایسے طریقوں سے کیا جا رہا ہے کہ انسان کا اندر والا انسان زندہ ہونے کے بجائے موت کی آغوش میں سو جاتا ہے۔ ایس ۔ ایم ۔ ایس(SMS) اور موبائیل کیمرے کا استعمال بھی فحاشی کی ترویج میں ہو رہا ہے۔ اکثر دیکھنے اور سننے میں آیا ہے کہ جوان لڑکے اور لڑکیاں آپس میں یوں ہی ایس۔ ایم ۔ ایس(SMS) بھیجتیں ہیں کہ شیطان بھی شرمائے۔ بہر حال فحاشی کی ترویج و اشاعت بہت بڑا گناہ ہے اور قرآن میں فحاشی کی ترویج کرنے والوں کو سخت وعید سنائی گئی ہے۔ ایک آیت میں اس طرح الفاظ ہیں: ’’بے شک جو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ مومنین کے درمیان فحاشی پھیلے ان کے لئے دُنیا میں بھی اور آخرت میں بھی درد ناک عذاب ہے۔‘‘                                                                                                                                                (النور: ۱۹)

 

موبائیل فون اور والدین حضرات کی ذمہ داری

                        اخلاقی تربیت کا سب سے پہلا میدان گھر ہے۔ اور بیوی بچوں سے تربیت کا آغاز ہوتا ہے اور یہ تربیت صرف اسی وقت کامیاب رہ سکتی ہے جب سرپرست اور والدین کی اپنی زندگی سیرت و کردار کے سانچے میں ڈھلی ہو۔ جس طرح نرسری کا مالی پودوں کی رکھوالی اور نگہداشت ٹھیک ٹھیک کرتا ہے، اور اس کے پودے مضبوط اور تناور درخت بن جاتے ہیں۔ اسی طرح والدین کی پاکیزہ اور صحیح خطوط پرتربیت سے بچے کھرے مسلمان اور پاکیزہ شہری بن سکتے ہیں۔ یہ بات پیش نظر رہے کہ گھر ہی بچے کی تربیت کا پہلا مدرسہ ہوتا ہے۔ مشہور شاعر اکبر الہ آبادی اپنے بیٹے عشرت کو کیا خوب نصیحت کرتے ہیں۔    ؎

تحصیل علوم کر کہ دولت ہے یہی

اخلاق درست کر کہ زینت ہے یہی

اکبر کی یہ بات یاد رکھ اے عشرت

محفوظ ہو معصیت سے عزت ہے یہی

            دورِ جدید میں ایک مسئلہ یہ پیدا ہو چکا ہے کہ بچوں کا اکثر وقت والدین سے زیادہ موبائیل فون کے ساتھ گزرتا ہے۔ میڈیا کے اپنے مفادات ہوتے ہیں جن کے تحت وہ رومانیت، جنس اور تشدد کو بہت زیادہ ابھار کر دکھاتے ہیں۔ ایسے میں اگر والدین حضرات اپنے بچے کو صرف موبائیل فون پر آنے والے زہریلی پروگراموں کے حوالے کر دیں گے تو ان تمام چیزوں کے اثرات کا ان تک پہنچنا لازمی ہیں۔ اسی طرح مغربی تہذیب اور روایات کے بعض اثرات اسی ذریعے سے ہمارے بچوں میں خاموشی سے منتقل ہو جاتے ہیں۔لہٰذا ضروری ہے کہ والدین حضرات اس معاملے کو سنجیدگی سے لیں۔ اور وقت کا تقاضا بھی ہے کہ والدین حضرات جناب لقمان ؑ کا اسوہ اپنا لیں جو کہ اپنے وقت کے بڑے دانا اور عقلمند شخص گزرے ہیں انہوں نے اپنے بیٹے کو اچھی باتوں کی نصیحت کی جنہیں اللہ تعالیٰ نے پسند فرمایا۔ اور اپنی کتاب مبین میں سورۃ لقمان آیت ۱۹۔۱۲ میں ان کا ذکر فرما کر ہمارے لئے روشنی اور ہدایت کا سامان بنا دیا۔

موبائیل فون اور قیمتی وقت کا ضیاع

                        موبائیل فون کو بعض لوگ وقت گزاری کا آلہ سمجھ بیٹھے ہیں اور اس سے نہ صرف اپنا بلکہ دوسروں کا وقت بھی ضائع کرتے رہتے ہیں۔ موبائیل ہاتھ میں رکھ کر کچھ نہ کچھ کرتے رہتے ہیں اور انہیں خود پتہ نہیں ہوتا کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔ وقت مومن کی زندگی میں بڑی اہم چیز ہوتی ہے۔ وہ اپنی جوانی کے سلسلے میں بھی جوابدہ ہوتا ہے اور اپنی پوری عمر کے سلسلے میں بھی۔ گزرتا وقت مومن کے خسران پر دلیل نہیں ہوتا بلکہ ہر گزرتادن اور ہر گزرتا لمحہ اسے کامیابیوں کی نوید سناتا ہے۔ اس کی ڈکشنری میں ’’وقت فرصت‘‘ کا لفظ نہیں ہوتا کہ وہ اسے بیکار کے کاموں میں گنواتا پھرے۔ بلکہ اس پر تو ہر وقت یہ دھن سوار رہتی ہے کہ               ؎

وقت فرصت ہے کہاں کام ابھی باقی ہے

نورِ توحید کا اہتمام ابھی باقی ہے

                                                         

                                                                           (اقبالؒ)

            وہ نبی کریم ﷺْ کی اس تنبیہ سے کبھی بھی غافل نہیں ہوتا۔ جس میں آپؐ نے فرمایا ہے کہ: ’’دو نعمتیں ایسی ہیں جن کے سلسلے میں اکثر لوگ دھوکہ کھا جاتے ہیں ایک صحت اور دوسرا خالی وقت‘‘

            موبائیل فون کے سلسلے میں یہ بات پیش نظر رہے کہ نہ اپنا وقت ضائع ہونے دیں اور نہ دوسروں کا وقت ضائع کریں۔

 

موبائیل فون اور بے روح نماز

                        نماز دین کا بنیادی ستون اور مومن کی معراج ہے۔ نماز اللہ تعالیٰ کی یاد اور قرب کا بہترین ذریعہ ہے۔ حضور ﷺْ کی آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں رکھی گئی ہے۔ مسلمانوں کو پُر آشوب حالات میں بھی نماز اور صبر کی تلقین کی گئی ہے۔ لیکن ان تمام فضائل ہونے کے باوجود بھی آج ہمارے نمازوں میں خشوع و خضوع کا فقدان نظر آ رہا ہے۔ آج ہماری نماز ’’نمازِ بے سرور‘‘ اور ہمارے سجدے ’’سجدہ بے ذوق‘‘ کے ترجمان بن گئے ہیں۔ آج ہماری نماز اسلاف کی نماز سے میل نہیں کھاتی یہی وجہ ہے کہ ہم نماز پڑھنے کے باوجود بھی فحش اور بُرے کاموں سے نہیں بچتے۔ قصور نماز کا نہیں بلکہ ہمارا ہے چونکہ آج موبائیل فون نے نشہ کی صورت اختیار کر لی ہے اور المیہ یہ ہے کہ دین دار طبقہ بھی اس کا شکار ہو رہا ہے۔ نماز میں ہم رٹی رٹائی الفاظ زبان سے دُہراتے ہیں لیکن دل اللہ تعالیٰ کے بجائے موبائیل فون کی طرف متوجہ رہتا ہے یہی بات ہمیں ایک حدیث پاک میں بھی دیکھنے کو ملتی ہے ۔ حدیث پاس اس طرح ہے:

            ’’حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺْ نے ارشاد فرمایا: ’’جب بندہ مومن نماز میں کھڑا ہوتا ہے،(راوی کہتا ہے کہ) میرا گمان ہے کہ رسول اللہ ﷺْ نے فرمایا: تو وہ رحمان تبارک و تعالیٰ کے سامنے کھڑا ہوتا ہے۔ جب وہ بندہ (نماز کے دوران ) اِدھر اُدھر متوجہ ہوتا ہے، تو اللہ تعالیٰ اسے فرماتا ہے: تو کس کی طرف متوجہ ہوتا ہے؟ کیا مجھ سے بھی کوئی بہتر ہے، جس کی جانب تو متوجہ ہوتا ہے۔ اے ابن آدم ! میری جانب متوجہ ہو ، میں اُس سے بہتر ہوں، جس کی طرف تو متوجہ ہوتا ہے۔‘‘                         (مسند البزار:۹۳۳۲)

علامہ اقبالؒ نے بھی اپنے اشعار میں اس چیز کی طرف اشارہ کیا ہے۔ لکھتے ہیں :                  ؎

سجدہ عشق ہو تو عبادت میں مزہ آتا ہے

خالی سجدوں میں تو دُنیا ہی بسا کرتی ہے

لوگ کہتے ہیں کہ بس فرض ادا کرنا ہے

ایسا لگتا ہے کوئی قرض لیا ہو رب سے

تیرے سجدے کہیں تجھے کافر نہ کر دیں اے اقبال

تو جھکتا کہیں اور ہے اور سوچتا کہیں اور ہے

            نماز میں بے توجہی تو ایک مسئلہ ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ یہاں ہمارے معاشرے میں یہ چیز بھی دیکھنے کو ملا ہے کہ اکثر لوگ موبائیل فون رات کو دیر تک چلاتے ہیں اور اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ صبح سویرے اُٹھ نہیں پاتے۔ آج اکثر نوجوان کمزوری، یاداشت کی کمی، معدہ میں Acidity،تھکاوٹ اور بے سکونی وغیرہ چیزوں کی شکایت کرتے ہیں اور یہ بات پیش نظر رہے کہ یہ سب دیر میں سونے کے منفی اثرات ہیں۔ اسلام کی تعلیم جلدی سونے اور سویرے اُٹھنے کی تھی لیکن ہم نے نبی کریمﷺْ کی تعلیمات کو پسِ پشت ڈال دیا جس کا نتیجہ آج ہمارے سامنے موجود ہے۔ اگر ہمارے دلوں میں اللہ تعالیٰ کی حقیقی محبت ہوتی تو ہماری یہ حالت زار نہ ہوتی۔ علامہ اقبالؒ نے کیا ہی خوب کہا ہے           ؎

کس قدر تم پہ گراں صبح کی بیداری ہے

ہم سے کب پیار ہے؟ ہاں نیند تمہیں پیاری ہے

موبائیل فون اور مطالعہ کی موت

                        لفظ’’مطالعہ‘‘ عربی زبان کا لفظ ہے جو ’’طلع‘‘ سے ماخوذ ہے، جس کے معنی روشن،نمودار اور طلوع ہونے کے ہیں۔ انگریزی زبان میں اس کے لئے ’’Reading‘‘، ’’Study‘‘ اور ’’Research‘‘ کے الفاظ کا استعمال ہوتا ہے۔ اصطلاحی معنوں میں مطالعہ کرنے سے مراد کسی کتاب، رسالے یا اخبار کو پڑھنے کے ہیں۔ جس طرح طلوعِ فجر سے دُنیا بھر کی گھٹاٹوپ اندھیری دور ہو جاتی ہے بالکل اسی طرح مطالعہ کرنے سے انسان کی اندرونی اندھیری دھیرے دھیرے غائب ہو جاتی ہے اور وہاں علم کی روشنی نمودار ہو جاتی ہے۔ اور جس طرح جسم کی نشو نما کے لئے خوراک کی ضرورت ہے بالکل اسی طرح قلب و ذہن کی روحانی خوراک کے لئے مطالعہ ضروری ہے، ورنہ جس طرح چیزوں کو بغیر استعمال کئے زنگ لگ جاتا ہے بالکل اسی طرح انسانی قلب و ذہن کو بھی زنگ لگ جاتا ہے اور وہ زندگی کی حقیقت اور مقصد ِحیات سمجھنے سے بالکل قاصر رہ جاتے ہیں۔ اس لئے ہر پڑھے لکھے انسان کو زندگی کے آخری سانس تک حتی المقدور مطالعہ کرتے رہنا چاہئے تاکہ وہ گمراہ ہو جانے سے بچ پائے۔

            المیہ یہ ہے کہ کشمیر جیسے خطے میں ، جہاں کتاب پڑھنے کا کلچر پہلے ہی کم تھا، اب جدید ٹیکنالوجی کی وجہ سے مزید کم ہو تا جا رہا ہے اور نوجوان نسل لائبریریوں کی جگہ گیمنگ زون اور ہاتھوں میں کتاب کی جگہ موبائیل فونز تھامے نظر آتے ہیں۔ اگر چہ کئی سطح پر گاہے بگاہے  کتب میلوں کا انعقاد کیا جا رہا ہے، تاہم ان میلوں میں بھی نوجوان کتابیں خریدنے سے گریزاں نظر آتے ہیں۔ ’’کتاب بہترین دوست ہے‘‘ کی پرانی کہاوت کو ٹیکنالوجی کی نئی لہر نے تبدیل کرکے ’’موبائیل فون بہترین دوست ہے‘‘ میں تبدیل کر دیا ہے اور وہ نوجوان، جو پہلے اپنا وقت کتب بینی میں گزارتے تھے، اب وہی وقت جدید آلات اور انٹرنیٹ پر سرمنگ میں ضائع کر رہے ہیں۔

            آج بھی اگر ہم ترقی کی شاہراہ پر قدم رکھنا چاہتے ہیں تو اس کا ذریعہ صرف یہ ہے کہ لوگوں میں پڑھنے کی عادت پیدا کریں۔ کیونکہ علم کی فصل قلم و کتاب کی جس زمین پر اگتی ہے، اسے پڑھنے کا شوق رکھنے والے لوگ سیراب کرتے ہیں۔ جس معاشرے سے مطالعے کا ذوق اور عادت ختم ہو جائے، وہاں کی پیدا وار بھی ختم جاتی ہے۔ جس قوم میں علم نہ، اس کا انجام سوائے مغلوبیت و غلامی کے کچھ اور نہیں ہو سکتا۔

            ضرورت اس بات کی ہے کہ اس فائدہ مند چیز یعنی موبائیل فون کا صحیح استعمال کیا جائے ورنہ اگر ہم نے اس طریقے میں تبدیلی نہیں لائی تو جن حالات کے ہم آج چھوٹی سطح پر شکار ہو رہے ہیں عنقریب وہ ہر گھر کی کہانی کی صورت میں نظر آئے گی، اور اس وادی کشمیر کی جنت جیسی نعمت کو جہنم کا سماں حاصل ہو گا۔ اللہ تعالیٰ اس سے بچائے۔                (آمین )


Comments

Post a Comment