COVID-19 Pandemic In Scientific And Islamic Perspective.


        کرونا وائرس کا مختصر تعارُف

            وائرس ایک انتہائی دلچسپ مخلوق ہے جو اپنے جسم و جان کی حیثیت سے انتہائی چھوٹا ہے۔ یہ ایک خورد بینی مخلوق ہے جو اپنی آزاد زندگی قایم نہیں رکھ سکتا، بلکہ کسی دوسرے جاندار کے خلیہ کے ڈے این اے یا آر این اے کو استعمال کرکے اپنے آپ کو Reproduceکرتا ہے۔ اپنے وجود کو بر قرار رکھنے کے لئے کسی خلیہ میں اُسی طفیلی کے طور پر رہنا پڑتا ہے۔ عام طور پر منفی استعمالات کے لئے ہی مستعمل ہوتا ہے۔ وائرس کے ایک بڑے قبیلے میں سے ایک گروپ کرونا Corona کے نام سے جانا جاتا ہے۔ کرونا لاطینی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی تاج یا ہالہ کے ہوتے ہیں چونکہ اس وائرس کی ظاہری شکل سورج کے ہالے یعنی کرونا سے مشابہ ہوتی ہے نیز اس کی ظاہری شکل میں تاجCrownنماٹوپیاں بھی ہوتی ہے، ان دونوں وجوہات کی بنیاد پر اُسے کرونا کہا جاتا ہے۔ ICTV(International Committee On Taxonomy Of Viruses)نے اس گروپ کے ایک وائرس کو جانچنے کے بعد ۲۰۰۳ء میں اس کو (SARS-COV)یعنی Severe acute respiratory syndrome coronavirus کا نام دیا تھا اور دسمبر ۲۰۱۹ء میں چین کے ووہان شہر میں اسی جیسی بیماری کا دوبارہ ظہور ہوا تو اس کو (SARS-COV-2)کے نام سے موسوم کیا گیا پھر’ سارس‘ کے تاریخی خوف کو مد نظر رکھ کر اس کی تشہیرNovel Coronavirusکے نام سے کی گئی ۔ اس کے بعد WHOاور دوسرے سرکاری پلیٹ فارموں پر اس کو COVID-19کے نام سے جانا گیا۔ یہ وائرس ممالیہ جانوروں اور پرندوں میں مختلف معمولی اور غیر معمولی بیماریوں کا سبب بنتا ہے، مثلًا گائے اور اس قسم کے دوسرے جانوروں میں اسہال کا باعث بنتا ہے، اسی طرح انسانوں میں سانس پھولنے کا ذریعہ بنتا ہے۔ عمومًا اس کے اثرات معمولی اور خفیف ہوتے ہیں لیکن بعض اوقات کسی غیر معمولی صورت حال میں مہلک بھی بن جاتے ہیں۔ اس کے علاج یا روک تھام کے لئے اب تک کوئی تصدیق شدہ علاج یا دوا دریافت نہیں ہوئی ہے۔

کرونا وائرس سے متعلق پہلے ہی سائنسی پیشنگوئی

            ایسا نہیں ہے کہ دُنیا میں پہلی بار اس طرح کی وبائی بیماری پھوٹ پڑی ہو، بلکہ انسانی تاریخ میں وبائوں کا ایک سلسلہ چلتا آرہا ہے۔ حالانکہ کرونا وائرس سے بھی انسان کو اس سے قبل سابقہ پڑا ہے۔ ایک امریکی جریرے’’کلینکل مائیکرو بائیلوجی ریویو‘‘ کے ۱۱ اکتوبر ۲۰۰۲ء کے شمارے میں شائع ہونے والے ایک تحقیقی مضمون میں ۱۳ سال قبل پانچ سائنسدانوں نے دُنیا کو کرونا وائرس کے بارے میں خبر دار کیا تھا ۔ ۲۰۱۲ء میں امریکن تھنک ٹینک’’ رینڈکارپوریشن‘‘ نے ایک رپورٹ شائع کیا جس میں لکھا گیا تھا کہ ’’امریکہ کے لئے بڑا خطرہ دہشت گردی نہیں بلکہ ایک عالمی وبا بنے گی جو امریکی معاشرے کے پورے طرز زندگی کو بدل کر رکھ دے گا، لہذا اس کی طرف توجہ کریں۔‘‘

کرونا وائرس بازار کی چیز ہے

            ووہان کی ہوانان سی فوڈ مارکیٹ میں فروخت ہونے والے جانوروں کو کرونا وائرس کے انفیکشن کا سبب بتایاجا رہا ہے۔

            پہلے پہل ووہان کے جنینٹان ہسپتال لائے جانے والے ۹۹ افراد میں سے ۴۹ کا سمندری غذا کے بازار سے رابطہ تھا۔ ان میں سے ۴۷ افراد یا تو ہوانان سمندری غذا مارکیٹ میں منیجر کی حیثیت سے کام کر رہے تھے یا وہاں دُوکانیں چلا رہے تھے۔ متاثرہ افراد میں صرف دو ہی ایسے تھے جو دراصل خریدار تھے۔

کررونا وائرس کی علامات

            پہلے پہل ووہان کے جنینٹان ہسپتال میں جن مریضوں کو لایا گیا تھا ان میں نمونیہ کی علامت تھیں۔ ان مریضوں کے پھیپھڑے میں تکلیف تھی اور پھیپھڑوں کے اس حصے میں جہاں سے آکسیجن کا گزر ہوتا ہے وہاں پانی بھرا ہوا تھا۔ دیگر علامات بخار، کھانسی، سانس لینے میں دشواری، پٹھوں میں درد، شکوک و شبہات، سر درد اور گلے کی سوزش کا مسئلہ وغیرہ وغیرہ بھی طبی ماہرین کو دیکھنے میں ملاہے۔

کرونا وائرس سے متاثر لوگوں میں ادھیڑ عمر کے زیادہ ہیں

            ابتدائی دنوں میں ۹۹ مریضوں میں سے زیادہ تر ادھیڑ عمر کے تھے۔ ان میں ۶۷ مرد تھے اور مریضوں کی اوسط عمر ۵۶ سال تھی۔ تاہم تازہ ترین اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ کرونا وائرس میں مبتلا ہونے والوں میں صنف کے تعلق سے زیادہ فرق نہیں ہے۔ چین میں امراض پر قابو پانے اور روک تھام کے مرکز کا کہنا ہے کہ اوسطًہ چھے مردوں کے مقابلے میں پانچ خواتین میں انفیکشن کی تشخیص ہوئی ہے۔ اس فرق کی وضاحت کی جا سکتی ہے۔ یہ خیال ظاہر کیا جاتا ہے کہ مرد کرونا انفیکشن کی وجہ سے شدید بیمار ہو سکتے ہیں اور انہیں ہسپتال میں داخل کرنے کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ معاشرتی اور ثقافتی وجوہات کی وجہ سے مردوں میں وائرس کی زد میں آنے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔ جنینٹان ہسپتال کے ڈاکٹر لی جانگ کہتے ہیں: ’’کرونا وائرس انفیکشن کا خطرہ خواتین میں کم ہے کیونکہ انہیں ایکس کروموزوم اور جنسی ہارمون کی وجہ سے زیادہ قوت مدافعت حاصل ہے۔

 

کرونا وائرس کو ڈاکٹر کمزور قوت مدافعت کا نتیجہ قرار دے رہے ہیں

            مذکورہ ۹۹ مریضوں میں سے زیادہ تر لوگوں کو پہلے سے ہی کوئی نہ کوئی بیماری تھی۔ اسی لئے ان میں کرونا سے متاثر ہونے کا ایک زیادہ خطرہ تھا۔ ۴۰ مریضوں کو دل کی کمزوری یا خون کی شریانوں کی پریشانی تھی۔ انہیں دل کی بیماری تھی اور پہلے دل کا دورہ پڑ چکا تھا۔ جبکہ ۱۲ افرادذیا بیطسس کے مرض میں مبتلا تھے۔

کیا کرونا وائرس مردہ انسان سے پھیل سکتا ہے

            وائرس قلم ڈرائیو کی طرح ہے۔ قلم ڈرائیو میں اسٹور یج ، نقل و حمل، کاپی کرنے کا بہت بڑا ڈیٹا ہوتا ہے۔ لیکن اس میں سے کچھ نہیں کیا جا سکتا جب تک کہ USBکمپیوٹر کی بندرگاہ پر کنیکٹ نہ کی جائے۔ یہ چیز پہلے سے ہی دیکھنے کو ملا کہ وائرس پھیلنے کے طریقوں کے بارے میں خوف اور غلط فہمی ہے۔ اگر چہ یہ حقیقت ہے کہ COVID-19انتہائی متعدی بیماری ہے، لیکن اس کے منتقلی کے راستوں کے بارے میں سائنسی اعتبار سے غیر یقینی اعتقادات نے اس کو مزید خراب کر دیا ہے۔ اس کے نتیجے میں ڈاکٹروں اور صحت کی دیکھ بھال کرنے والے کارکنوں کو ہر اساں کیا گیا ہے، بیما رافراد کو ایسے وقت میں صحرا چھوڑ دیا گیا جب انہیں دیکھ بال کی ضرورت تھی، اور یہاں تک کہ متاثرین کے جنازوں کو بھی شدید طور پر روک دیا گیا ہے۔

            سارس ۔کو۔2وائرس قلم ڈرائیو سے بہت مماثلت رکھتا ہے۔ وہ اپنے اندر جنسیاتی مواد رکھتے ہیں۔ یہ بات سائنس میں متفق علیہ ہے کہ سیل جو ایک سے زیادہ نئے وائرس پیدا کرنے کے لئے ضروری ہے ان کو توانائی کی ضرورت ہے۔ بائیو کیمیکل انرجی کا سب سے اہم ذریعہ اڈینو سائن ٹرائفو سفیٹ (اے ٹی پی) ہے۔ خلیوں کی عالمی توانائی کرنسی۔ وائرس کی تیاری کو اے ٹی پی کی ضرورت ہوتی ہے، لیکن ایک بار جب کوئی شخص مر جاتا ہے تو، خلیوں نے اے ٹی پی بنانا بند کر دیا ہے۔ مشابہت پر واپس جانے کے لئے ، کبھی کسی ایسی قلم ڈرائیو کے بارے میں سنا ہے جو کسی ایسی کیمپوٹر پر کام کرتا ہے جو بند ہے اور اس میں کوئی بیٹری نہیں ہے۔ نہیں ایسا ممکن نہیں ہے۔ لہذا یہ ایک حیا تیاتی کیمائی حقیقت ہے کہ مردہ جسم نئے وائرس پیدا نہیں کر سکتا۔

            سارس۔COV-2کی صورت میں ، ٹرانسمشن کا بنیادی راستہ بات کرتے، کھانسی یا چھینکتے ہوئے نکالے گئے بوندوں سے ہوتا ہے۔ چونکہ لاشیں سانس نہیں لے رہی ہیں، لہذا مردہ سے بوند بوند کے انفیکشن کے امکان موجود نہیں ہیں۔

کرونا وائرس ، حاملہ خواتین اور نوزائیدہ بچہّ

            پہلے پہل سائنسدانوں کا کہنا تھا کہ کرونا وائرس کا حاملہ خاتون سے بچیّ کی طرف منتقل ہونا بالکل عقل سے ماوراء تھا لیکن اب وہ اس نتیجے پر پہنچ گئے ہیں کہ کرونا وائرس انفیکشن کا ماںکے پیٹ میں ہی بچے کی طرف ترسیل ہونا ممکن ہے۔ ICMR (Indian Council Of Medical Research) کا کہنا ہے کہ احتیاطی تدا بیر کو ملحوظ نظر رکھنا وقت کا ایک اہم تقاضا ہے چونکہ کرونا وائرس جیسی انفیکشن اگر چہ فی الحال ماں کے پیٹ میںہی کسی بھی بچے میں منتقل نہیں ہوا تا بحال ہو سکتا ہے کہ باقی انفیکشن کی طرح داخل ہو جیسے: HIV، Zika،rubellaاور herpes virus۔ جس processمیں حاملہ خاتون کا انفیکشن اسکے بچے میں منتقل ہو اسکو Verbal Transmissionکہتے ہیں۔ یہ انٹینٹل (پیدایش سے پہلے)،پیرینیٹل( پیدائش سے قبل یا بعد میں ہفتوں ) یا پوسٹنٹل  (پیدائش کے بعد) ہو سکتا ہے۔ یہ نہ صرف اس وجہ سے سخت تشویش کا باعث ہے کہ یہ ممنکہ طور پر نوزائیدہ کو بہت بیمار ہونے کا سبب بن سکتا ہے،بلکہ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ یہ کیسے اور کب ہوتا ہے اس کا طریقہ کار ہمیشہ واضع نہیں ہوتا ہے۔ ICMR(Indian Council Of Medical Research) کا کہنا ہے کہ حاملہ خاتون کا بچیّ کو جنم لینے کے بعد ہسپتال کے ملازمین حضرات کو بچہّ Isolateکرنا چاہیے تاکہ بچہّ انفیکشن کا شکار نہ ہو جائے۔

کرونا وائرس اور احتیاطی تدابیر

            کرونا وئراس ایک ایسی عالمگیر وبا ہے جس نے پوری دُنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ اس وبا سے چھٹکارا پانا بہت ہی مشکل دکھائی دے رہا ہے لیکن پھر بھی ہمیں بحیثیت مسلمان نا اُمیدی کے دلدل میں نہیں پھنسنا چاہیے۔ لہذا وقت کا ایک اہم تقاضا ہے کہ ہم WHOویب کی معلومات سے اور اسکے ساتھ ساتھ اپنی قومی اور مقامی صحت عامہ کے ذریعے سے بھی آگاہ رہیں ۔ چین اور کچھ دوسرے ممالک میں حکام نے ان کی وبا کو سست یا روکنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ تاہم، صورتحال غیر متوقع ہے لہذا ہمیں تازہ ترین خبروں کے لئے قاعدگی سے چیک کرنا ہے۔

ہم آسان احتیاطی تدابیر اختیار کرکے COVID-19میں انفیکشن ہونے یا پھیل جانے کے امکانات کو کم کر سکتے ہیں۔

٭ہمیں چاہیے کہ اپنے ہاتھوں کو مستقل طور پر اور اچھی طرح سے الکحل پر مبنی ہاتھ سے ملا کر صابن اور پانی سے دھو لیں۔

٭ہمیں چاہیے کہ کھانسی یا چھینکنے والی کسی اور کے اور اپنی درمیان کم سے کم 1میٹر (۳ فٹ) فاصلہ بر قرار رکھیں۔

٭ہمیں چاہیے کہ آنکھوں ، ناک اور مُنہ کو چھونے سے گریز کریں۔

٭ہمیں چاہیے کہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ اپنے اور اپنے آس پاس کے لوگ اچھی سانس کی حفظان صحت پر عمل کریں۔ اس کا         مطلب یہ ہے کہ جب ہم کھانسی کرتے ہیں یا چھینک کرتے ہیں تو اپنے جھکے ہوئے خم یا ٹشو سے اپنے مُنہ اور ناک کو ڈھانپیں اور پھر استعمال شدہ ٹشو فوری طور پر ختم کر دیں۔

٭ہمیں چاہیے کہ اگر ہم اپنے کو صحتمند محسوس ہوتاپائیں تو گھر میں ہی رہیں ۔ اور اگر اپنے آپ کو بخار، کھانسی اور سانس لینے میں       دشواری پالیں تو طبی امداد حاصل کریں اور پہلے سے فون کریں۔ اپنے مقامی محکمہ صحت کے ہدایات پر بھی عمل کریں۔

٭ہمیں چاہیے کہ تازہ ترین COVID-19ہاٹ سپاٹ (شہر یا مقامی علاقے جہاں COVID-19بڑے پیمانے پر پھیل رہا            ہے)پر تازہ ترین رہیں۔ اگر ممکن ہو تو، جگہوں پر سفر کرنے سے گریز کریں۔ خاص طور پر بوڑھے، ذیابیطس، دل یا        پھیپھڑوں کی بیماری میں مبتلا اشخاص کو Isolateہی رہنا وقت کا ایک اہم تقاضا ہے۔

 کووڈ۔19کرونا وبائی بیماری اسلامی تناظر میں

            آج کورو نا وائرس نے  پوری دنیا میں ہلچل مچائی ہے۔ یہ ایک عالمگیر وبا ہے اور یہ وبا کسی ایک کو بھی اپنے لپیٹ میں لے سکتی ہے۔آج Corona Virus کا خوف پورے عالم پر لاحق ہوگیا ہے اور ہر ایک کی تقریبا ًیہی آواز ہے کہ’’کریں تو کیا کریں، جائیں تو کدھر جائیں ‘‘۔ چونکہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات (Complete Code of Conduct) ہے جس کے دائرے میں انفرادی اور اجتماعی زندگی کا کوئی بھی گوشہ اور شعبہ باہر نہیں۔اسلام ہی وہ واحد دین ہے جس میں انسانی زندگی کے جملہ مسائل کا حل ہے لہٰذا یہی دین انسانی نجات کا ضامن ہے۔Corona Virusجیسے مسئلے کا دنیا میں ابھرنا کوئی نئی بات نہیں بلکہ دنیا میں مسائل کا ابھرنا تادم سے ایں دم قائم ہے۔ آج کے دور میں سائنسی ترقی اپنے عروج پر ہے اور معاشرے میں ہر نئے اور ابھرتے ہوئے مسائل پر آگاہی کر رہی ہے لیکن سب سے بڑی اور نتیجہ خیز آگاہی ہمیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات میں ملتی ہے۔ آج Corona Virusکے حوالے سے جو بھی آگاہی طبی ماہرین نے فراہم کی ہے، تمام انسانوں کو بالعموم اور مسلمانوں کو بالخصوص ان سب ہدایات پر عمل کرنا وقت کا ایک اہم تقاضا ہے۔چونکہ احتیاتی تدابیر یا علاج و معالجہ سنت کے عین مطابق ہے۔ احتیاتی تدابیر اور علاج معالجہ کے ساتھ ساتھ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات پر عمل کرنے کے بعد ہی ہم سب اس زہریلے وائرس سے نجات حاصل کر سکتے ہیں۔

 Corona Virusاور نبوی تعلیمات

             حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی Corona Virusجیسی ایک مہلک وبا یعنی طاعون((plague نے انسانیت کو اسی طرح پریشان کر رکھا تھا جس طرح آج Corona Virus نے کر رکھا ہے۔ لیکن اُس وبا کا سامنا کرنے کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہیں بیٹھے بلکہ جو بھی تدابیر میسر آئیں ان سب پر عمل کر کے اور اللہ تعالی پر تو کل کر کے انسانیت کی جانیں بچانے کی حتی الامکان کوشش کی ۔وباء کے اِس عالم میں رسول اللہ اور آپ ؐ کے صحابہ سورہ مائدہ کی آیت نمبر۳۰کا عملی نمونہ بنے۔

’’ جس نے کسی کی جان بچائی اس نے گویا تمام انسانوں کو زندگی بخش دی ‘‘                             (المائدہ:۳۰)

اسلام ہمیں زندگی کے ہر معاملے میں احتیاط و تدابیر اختیار کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔ آجVirus  سے پیدا شدہ اِن مشکل حالات میں بھی ہمیں تعلیماتِ اسلامی میں بھرپور رہنمائی ملتی ہے۔ اِس ضمن میں ذیل میں ہم چند احادیث مبارکہ پیش کرتے ہیں تاکہ بات سمجھنے میں آسانی پیدا ہو:

سیدنا ابو ہریرہ  بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’بیمار آدمی کو صحت مند آدمی کے پاس داخل نہ کیا جائے‘‘                                                                                                                                    (مسند احمد : ۲۵۲۹)

سیدنا علی بن ابی طالب بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’ جذام زدہ مریضوں پر زیادہ دیر تک نظر نہ ڈالو اور جب تم ان سے کلام کرو تو تمہارے اور ان کے درمیان ایک نیزے کے برابر فاصلہ ہونا چاہیے۔‘‘             (مسنداحمد:۱۸۵)

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کوڑھ کے مریض سے اس طرح فرار اختیار کرو جیسے تم شیر سے بھاگتے ہو ۔‘‘                                                                                              (مسند احمد : ۹۷۲۰)

سیدنا شرید بن سوید ثقفی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم کے پاس ایک کوڑھ زدہ آدمی آیا تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کر لے،میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا اور عرض کی کہ ایک جذام زدہ آدمی آپ کی بیعت کرنا چاہتا ہے، آپ نے فرمایا : تم اس کے پاس جاؤ اور اس سے کہو کہ میں نے اس کی بیعت قبول کر لی ہے ، وہ وہیں سے واپس چلا جائے۔‘‘

                                                                                                                                                                                                        ( مسند احمد :۱۹۴۹۷)

قربان ہو جائیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر کہ جنہوں نے آج سے چودہ سو سال پہلے ان احادیث کے حوالے سے (Concept of Isolation) دے دیا جو کہ آج غیر اقوام نے بھی Corona Virusپر قابو پانے کے لیے لاگو کیا ہے۔

لہٰذا مذکورہ نبوی تعلیمات کی روشنی میں وقت کا ایک اہم تقاضا ہے کہ جو لوگCorona Virus سے متاثر ہوئے ہیں ان کو لوگوں سے isolate رہنا چاہیئے اور اس کے ساتھ ساتھ باقی لوگوں کو بھی احتیاط کرنا چاہیے تاکہCorona Virus جیسی مہلک اور تیزی سے پھیلنے والی وبا زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اپنی لپیٹ میں نہ لیں۔

حضرت عمرؓ کا صحابہ کرام کوVirus سے بچانے کا ایک ایمان افروز واقعہ

            حضرت عمر بن خطاب شام تشریف لے جارہے تھے جب آپ مقام سرغ پر پہنچے تو آپ کی ملاقات فوجوں کے امراء ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ اور آپ کے ساتھیوں سے ہوئی۔ ان لوگوں نے امیرالمومنین کو بتایا کہ طاعون کی وبا شام میں پھوٹ پڑی ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میرے پاس مہاجرین اولین کو بلا لاؤ۔ آپ انہیں بلا لائے تو عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے مشورہ کیا اور انہیں بتایا کہ شام میں طاعون کی وبا پھوٹ پڑی ہے ، مہاجرین اولین کی رائیں مختلف ہو گئیں۔ بعض لوگوں نے کہا کہ صحابہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں کی باقی ماندہ جماعت آپ کے ساتھ ہے اور یہ مناسب نہیں ہے کہ آپ انہیں اس وبا میں ڈال دیں۔

            عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اب آپ لوگ تشریف لے جائیں پھر فرمایا کہ انصار کو بلاؤ۔میں انصار کو بلا کر لایا آپ نے ان سے بھی مشورہ کیا اور انہوں نے بھی مہاجرین کی طرح اختلاف کیا کوئی کہنے لگا چلو کوئی کہنے لگا کہ لوٹ جاؤ۔ امیر المومنین نے فرمایا کہ اب آپ لوگ بھی تشریف لے جائیں پھر فرمایا کہ یہاںقریش کے جو بڑے بوڑھے ہیں جو فتح مکہ کے بعد اسلام قبول کر کے مدینہ آئے تھے انہیں بلا لاؤ۔ میں انہیں بلا کر لایا ان لوگوں میں کوئی اختلاف رائے پیدا نہیں ہوا۔ سب نے کہا کہ ہمارا خیال ہے کہ آپ لوگوں کو ساتھ لے کر واپس لوٹ چلیں اور وبائی ملک میں لوگوں کو نہ لے کر جائیں۔ یہ سنتے ہی عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں میں اعلان کرادیا کہ میں صبح کو اونٹ پر سوار ہو کر واپس مدینہ لوٹ جاؤں گا۔ تم لوگ بھی واپس چلو۔ صبح کو ایسا ہی ہوا۔ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اللہ کی تقدیر سے فرار اختیار کیا جائے گا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ کاش! یہ بات کسی اور نے کہی ہوتی ہاں ہم اللہ کی تقدیر سے فرار اختیار کر رہے ہیں لیکن اللہ ہی کی تقدیر کی طرف۔ کیا تمہارے پاس اونٹ ہوں اور تم لیکر کسی ایسے وادی میں جاؤ جس کے دو کنارے ہوں ایک سر سبز شاداب اور دوسرا خشک۔ کیا یہ واقعہ نہیں کہ اگر تم سرسبز کنارے پر چراؤ گے تو وہ بھی اللہ کی تقدیر سے ہوگا۔اور خشک کنارے پر چراؤ گے تو وہ بھی اللہ کی تقدیر ہی سے ہوگا۔ بیان کیا کہ پھر عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ آگئے وہ اپنی کسی ضرورت کی وجہ سے اس وقت موجود نہیں تھے انہوں نے بتایا کہ میرے پاس اس مسئلہ سے متعلق ایک علم ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: جب تم کسی سرزمین میں(وبا کے متعلق ) سنو تو وہاں نہ جاؤ اور جب ایسی جگہ وبا آجائے جہاں تم خود موجود ہو تو وہاں سے مت نکلو۔ راوی نے بیان کیا کہ اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے اللہ کی حمد کی اور پھر واپس ہوگئے۔(بخاری: ۵۷۲۹)

 

 Corona Virus اور قرآن

            اللہ تعالی کا ایک انتہائی اہم قانون ہے کہ جس کے تحت دنیا میں لوگوں کے کرتوتوں کے سبب ان پر چھوٹے چھوٹے عذاب بھیجے جاتے ہیں۔اس کا مقصد انہیں خبردار کرنا ہوتا ہے شاید کہ وہ اس طرح سے خواب غفلت سے جاگ کر توبہ کی روش اپنا لیں اور بڑے عذاب سے بچ جائیں۔

پورے غور و خوض کے بعد اور اللہ تعالی کے مذکورہ انتہائی اہم قانون کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم اس نتیجے پر پہنچ گئے کہCorona Virus کا اشارہ ہمیں قرآن مجید میں سورۃ سجدہ سورہ نمبر ۲۳  آیت نمبر ۱۲ میں دیکھنے کو ملا جس میں اللہ تعالی ارشاد فرما رہے ہیں کہ :

’’اُس بڑے عذاب سے پہلے ہم اسی دنیا میں ( کسی نہ کسی چھوٹے ) عذاب کا مزا انہیں چکھاتے رہیں گے شاید کہ یہ (اپنی باغیانہ روش سے ) باز آجائیں‘‘

اس آیت پر صاحبِ تفہیم القران نے جو نوٹ لکھا ہے وہ بڑا ہی بصیرت افروز بھی ہے اور اپنے مدعا کی وضاحت میں بڑا مؤثر بھی۔  لکھتے ہیں:

’’عذاب اکبر ‘‘سے مراد آخرت کا عذاب ہے جو کفر و نفاق کی پاداش میں دیا جائے گا۔اس کے مقابلے میں’’عذاب ادنیٰ ‘‘کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جس سے مراد وہ تکلیفیں ہیں جو اسی دنیا میں انسان کو پہنچتی ہیں۔ مثلا ًافراد کی زندگی میں سخت بیماریاں، اپنے عزیز ترین لوگوں کی موت، المناک حادثے، نقصانات ،ناکامیاں وغیرہ۔اور اجتماعی زندگی میں طوفان ،زلزلے، سیلاب، وبائیں،قحط، فسادات ، لڑائیاں اور دوسری بہت سی بلائیں جو ہزاروں ، لاکھوں، کروڑوں انسانوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہیں۔ان آفات کے نازل کرنے کی مصلحت یہ بیان کی گئی ہے کہ عذابِ اکبر میں مبتلا ہونے سے پہلے ہی لوگ ہوش میں آجائیں اور اُس طرز فکر و عمل کو چھوڑ دیں جس کی پاداش میں آخر کار انہیں وہ بڑا عذاب بھگتنا پڑے گا۔ دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں اللہ نے انسان کو خیریت ہی نہیں رکھا ہے کہ پورے آرام و سکون سے زندگی کی گاڑی چلتی رہے اور آدمی اس غلط فہمی میں مبتلا ہو جائے کہ اس سے بالاتر کوئی طاقت نہیں ہے جو اس کا کچھ بگاڑ سکتی ہو۔ بلکہ اللہ تعالی نے ایسا انتظام کر رکھا ہے کہ وقتا فوقتا  افراد پر بھی اور قوموں اور ملکوں پر بھی ایسی آفات بھیجتا رہتا ہے جو اسے اپنے بے بسی کا اور اپنے سے بالاتر ایک ہمہ گیر سلطنت کی فرمانروائی کا احساس دلاتی ہیں۔ یہ آفات ایک ایک شخص کو ،ایک ایک گروہ کو اور ایک ایک قوم کو یہ یاد دلاتی ہیںکہ اوپر تمہاری قسمتوں کو کوئی اور کنٹرول کر رہا ہے۔سب کچھ تمہارے ہاتھ میں نہیں دے دیا گیا ہے۔ اصل طاقت اسی کارفرما اقتدار کے ہاتھ میں ہے اس کی طرف سے جب کوئی آفت تمہارے اوپر آئے تو نہ تمہاری کوئی تدبیر اسے دفع کرسکتی ہے ،اور نہ کسی جن یا روح یا دیوی اور دیوتا، یا نبی اور ولی سے مدد مانگ کر تم اس کو روک سکتے ہو۔اس لحاظ سے یہ آفت محض آفت نہیں ہیں بلکہ خدا کی تنبیہات ہیں جو انسان کو حقیقت سے آگاہ کرنے اور اس کی غلط فہمیاں رفع کرنے کے لیے بھیجی جاتی ہیں ان سے سبق لے کر دنیا ہی میں آدمی اپنا عقیدہ اور عمل ٹھیک کر لے تو آخرت میں خدا کا بڑا عذاب دیکھنے کی نوبت ہی کیوں آئیے‘‘                                                                                      (تفہیم القرآن، جلد۴، صفحہ۴۸۔۴۷)

Corona Virusسے نجات کا واحد راستہ:              توبہ

            خدا را غور کریں کہ آج ہم بے حسی کے کس مقام تک پہنچ چکے ہیں۔ کُتے کو بھی جہاں سے ایک وقت کی روٹی مل جائے تو وہ اس در کا وفادار بن کر رہتا ہے ۔لیکن ہم نے کتنی وفا کی اپنے مالک سے جو ہمیں کھلا رہا ہے ، سلا رہا ہے ، ان گنت نعمتیں عطا کر رکھی ہیں۔ ابھی بھی وقت ہے کہ ہم سب سچے دل سے توبہ کریں اور آئندہ کے لیے گناہوں سے باز آجائیں۔ وہ تو ایسا رحیم و کریم رب ہے کہ فرما رہا ہے’’ اے میرے بندوں ! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے ، خدا کی رحمت سے نا امید نہ ہونا۔ خدا تو سب گناہوں کو بخش دیتا ہے۔ وہ تو بخشنے والا مہربان ہے ۔‘‘  ( زمر: ۳۵) دیکھیں کہ کس محبت سے مالک اپنے نافرمان بندوں سے مخاطب ہے۔ اگر ہم اب بھی اپنے رب کو بھلا دیں تو ہم سے بڑا احسان فراموش اور کون ہوگا۔ اللہ تعالی فرما تے ہیں کہ ’’کیا اب بھی مومنوں کے لیے یہ وقت نہیں آیا کہ ان کے دل خدا کے لیے نرم ہو جائیں۔ ‘‘                         (  الحدید: ۶۱)

آج ہمCoronavirus کے جس دلدل میں پھنس چکے ہیں اس سے نکلنے کا صرف ایک ہی راستہ ہے۔ اور وہ ہے توبہ۔ اللہ رب العزت کا ارشاد ہے ’’ مومنو خدا کے آگے صاف دل سے توبہ کرو۔امید ہے کہ وہ تمہارے گناہ تم سے دور کر دے گا اور تم کو باغہائے بہشت میں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں داخل کرے گا ۔‘‘                                               ( التحریم: ۶۶)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے فرمایا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرما تے ہوئے سنا ’’ خدا کی قسم میں ایک دن میں ستر سے زیادہ مرتبہ خدا سے معافی مانگتا اور توبہ کرتا ہوں ‘‘                                               ( بخاری)

 اب ہم ذرا اپنی حالت کو دیکھ کر اندازہ لگائیں کہ ہمیں توبہ و استغفار کی کتنی ضرورت ہے۔ جبکہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم جن سے بڑھ کر کوئی نیک اور تقوی والا نہیں ہوسکتا ، وہ ایسا فرما رہے ہیں۔

ابھی بھی وقت ہے ، آئیے ہم سب مل کر اللہ کے سامنے گڑ گڑائیں، اپنے اللہ کو راضی کر لیں۔ آج ہمیں چھوٹے بچوں سے سبق لینا چاہیے جنہیں کوئی بھی تکلیف پہنچے وہ صرف رونا شروع کر دیتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اسی سے ہمارا کام بنے گا۔

آج ہمارے پاس بھی اس کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں کہ اپنے رب کے سامنے روئیں ، گڑ گڑائیں اور توبہ کریں۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ توبہ کے بعد دوسرا کام یہ کرنا ہے جتنے غلط کام ماضی میں کئے ، ان کی تلافی کی کوشش کی جائے۔ یعنی جو فرائض واجبات، نمازیں ، روزے، زکوۃ رہ گئے ان کو ادا کرنے کا اہتمام کریں اور اگر کسی کی کوئی مالی یا جانی حق تلفی کی تو اس کا ازالہ کریں یا کسی کو نا حق تکلیف پہنچائی  ہو تو اس سے معافی مانگیں۔ اور توبہ کے بعد پھر ہر قسم کے گناہ سے پچیں۔ اور اگر کبھی نادانی سے غلطی ہوجائے تو پھر فورًا توبہ کر لیں۔ اپنی ظاہری و باطنی اصلاح کی ہر طرح سے کوشش کرتے رہیں۔ اللہ تبارک و تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو توبہ کی توفیق اور اس پر استقامت عطا فرمائے،آمین۔

            کرونا وائریس ایک ایسی وبا ہے جو دسمبر ۲۰۱۹ء؁ کے آخری ہفتے میں چین کے ووہان شہر میں اٹھی اور اس وبائی لہر نے پوری دُنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیاہے۔ پوری دُنیا اس وبا کے خلاف جنگ لڑ رہی ہے اور ترقی یافتہ ممالک بھی اپنا بھر پورزور دکھائی دینے میں مصروف ہیں۔ اس عالمگیر وبا سے تقریبًا زندگی کا ہرکوئی شعبہ متاثر ہوا اور پوری دُنیا اب جیل خانہ میں تبدیل ہو گئی ہے۔ ہر کوئی انسان ایک Vaccineکا انتظار کر رہا ہے۔ طبی ماہرین خاص طور پر اپنی خداداد صلاحیتوں(Inherent Abilities) کو استعمال میں لا کر اس Vaccineکو دن رات ڈھونڈنے میں سرگرم عمل ہیں لیکن انہیں بھی ہر طرف مایوسی ہی مایوسی دکھائی دے رہی ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر Vaccineملنے کی روشنی کرن فی الحال میسر نہ آئی تو پھرکیا ہم اسی نا اُمیدی کے دلدل میں پھنس کر رہ جائیں گے یا پھر کچھ کرنے کے کام بھی ہیں۔ اس سوال کا جواب ہمیں ایک مکمل ضابطہ حیات یعنی اسلام میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ اسلام ہمیں سکھاتا ہے کہ دُنیا میں جو بھی مصیبت ظہور پزیر ہوتی ہے وہ اللہ ہی کی طرف سے ہوتی ہے۔ لہٰذا کرونا وائریس جیسی ایک عالمگیر مصیبت کو دور کرنے کی طاقت اللہ کے سوا کسی کے پاس نہیں ہے۔ اسلئے بہتر یہی ہے کہ ہم بحیثیت مسلمان اللہ تعالیٰ ہی کی طرف لوٹیں اور اللہ تعالیٰ کو دُعا کرنے کے ساتھ ان اعمال کو حرزِ جان بنائیں جو اللہ تعالیٰ کی حقیقی خوشنودی کا سبب بنیں۔ کرونا وائریس جیسی عالمگیر وبا میں یوں تو بہت سارے اعمال ہیں جن کی نشاندہی ہم یہاں کر سکتے ہیں لیکن وقت کی قلت کو مِد نظر رکھتے ہوئے ہم خدمتِ خلق کو ہی اپنا آج کا موضوع بناتے ہیں۔

            اسلام کی تعلیمات پر بار بار غور کیجئے۔ آپ یقینًا اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ ایک طرف اللہ کی بندگی ہے تو اس کے ساتھ ساتھ اللہ کے بندوں کی خدمت بھی ہے گویا کہ حقوق اللہ اور حقوق العباد اچھی زندگی گزارنے کے دو اہم شعبے ہیں جن کی پاسبانی سے ہی کامیابی کی نو ید ملتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں بہت سارے دیندار لوگ حقوق اللہ کو بڑی جانفشائی سے ادا کرتے ہیں لیکن حقوق العباد ادا کرنے میں کوتاہی کرتے ہیں اور اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی حقیقی خوشنودی سے محروم رہ جاتے ہیں۔

            آج کرونا وائریس جیسی عالمگیر وبا میں اگر ہم چو طرفہ نظر دوڑائیں تو یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ معاشرے میں بہت سارے لوگ ہماری خدمت کے منتظر ہیں۔ اِن حالات میں ہمارے لئے خدمتِ خلق کے بہت سارے مواقع ہیں لہٰذا احتیاطی تدابیر کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ہمیں چاہیے کہ معاسرے میں مفلوج الحال لوگوں تک پہنچنے کی امکانی حد تک کوشش کرنا وقت کے ایک اہم تقاضے کے ساتھ ساتھ ہمارا دینی، اخلاقی، ملی اور معاشرتی فریضہ بن جاتا ہے۔

کروناوائریس اور خوش نصیب راہی

            کرونا وائریس نامی مرض کے پھیلاو کے موقع پر جو لوگ خدمتِ خلق کے کاموں میں لگے ہوئے ہیں ، وہ انتہائی عظیم مشن کے خوش نصیب راہی ہیں۔ مذکورہ موضوع کو مدِ نظر رکھتے ہوئے یہاں ہم بطور مثال ایک حدیث قدسی پیش خدمت کرتے ہیں تا کہ بات سمجھنے میں آسانی پیدا ہو۔

        ایک حدیثِ قدسی میں ہے: اللہ تعالیٰ روزِ قیامت بندے سے فرمائے گا: میں بیمار تھا، لیکن تو نے میری دیکھ بال نہیں کی تھی۔ بندہ عرض کرے گا: اے میرے رب! میں کیسے تیری دیکھ بال کرتا، تو تو سارے جہاں کا نگہبان ہے؟

            اللہ تعالیٰ فرمائے گا! کیا تجھے نہیں معلوم کہ میرا فلاں بندہ بیمار تھا؟ کیا تجھے نہیں معلوم کہ اگر تو نے اس کی دیکھ بھال کی ہوتی تو مجھے اس کے پاس پاتا؟پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا میں نے تجھ سے کھانا مانگا تھا ، مگر تو نے مجھے نہیں کھلایا تھا۔ بندہ کہے گا! اے میرے رب! میں تجھے کیسے کھلاتا ، تو تو سارے جہاں کا پالن ہار ہے؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: میرے فلاں بندے نے تجھ سے پانی مانگا تھا، مگر تو نے اسے نہیں پلایا تھا۔ کیا تجھے نہیں معلوم کہ اگر تو اسے پلاتا تو اسے میرے پاس پاتا؟                    (مسلم)

            اس حدیث پاک سے بہ خوبی اندازہ لگایاجا سکتا ہے کہ اسلام میں خدمتِ خلق کو کتنا عظیم مقام دیا گیا ہے۔ ایک انسان اپنے جیسے دوسرے انسانوں کی مدد کرتا ہے۔ وہ بھوکے ہوں تو ان کے لئے راشن یا کھانے کا نظم کرتا ہے۔ پیاسے ہوں تو ان کے لئے پانی کا انتظام کرتا ہے۔ بیمار ہوں تو ان کے علاج معالجے کی سہولیات فراہم کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ایسا کرنے والے فرد نے انسانوں کی مدد نہیں کی بلکہ خود اللہ تعالیٰ کی مدد کی ہے۔

            اس تصور کو قرآن و حدیث میں بہت نمایاں کرکے پیش کیا گیا ہے کہ یہ مال و دولت اور آسودگی، اللہ کا دیا ہوا انعام ہے۔ لیکن جب  ایک بندہ مومن اسے انسانوں کی ضروریات پر خرچ کرتا ہے، تو اللہ اسے اپنے ذمے قرض کی حیثیت دیتا ہے اور وعدہ کرتا ہے کہ روزِ قیامت اسے خوب بڑھا چڑھا کر خرچ کرنے والے کو واپس کرے گا۔ قرآن کریم میں ہے: ’’کون ہے جو اللہ کو قرضِ حسن دے، تاکہ اللہ اُسے کئی گنا بڑھا چڑھاکر واپس کرے؟‘‘                                                                   (البقرہ۲:۲۴۵)

            اسی طرح ایک حدیث میں ہے: ’’جب وہ انسان اپنی پاکیزہ کمائی میںسے کچھ اللہ کی راہ میں خرچ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے اپنے دائیں ہاتھ میں لیتا ہے اور اسے خوب اہتمام سے پروان چڑھاتا ہے، جس طرح تم میں سے کوئی شخص اپنے پالتو جانور کے بچے کی نگہ داشت اور پرورش کرتا ہے۔ یہاں تک کہ اگر اس نے ایک کھجور کا صدقہ کیا ہو تو وہ اللہ کی نگرانی میں بڑھتے بڑھتے پہاڑ کے برابر ہو جاتا ہے۔‘‘                                                                                                               (بخاری)

 کرونا وائریس میں دشوار گزار گھاٹی کو عبور کرنے کا سُنہری موقعہ

            اسلام نے حقوق اللہ اورحقوق العباد دونوں شعبوں کو اتنی اہمیت دی ہے کہ اگر ان میں سے ایک شعبہ کمزور رہ جاتا ہے تو بندوں کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے اور اس میں حقوق العباد تو اس قدر اہمیت رکھتے ہیں کہ جب تک بندے آپس میں ایک دوسرے کو معاف نہ کریں، اللہ تعالیٰ کے یہاں چھٹکارا مشکل ہے۔

            پر شکوہ عمارتیں بنا لینا یا بلند و بالا پہاڑوں کی چوٹیوں کو عبور کر لینا کوئی خوبی کی بات نہیں ہے۔ آئیے دیکھیں کہ قرآن کے نزدیک بلندیوں کو چھونا کسے کہتے ہیں:

            ’’مگر اس نے دشوار گزار گھاٹی سے گزرنے کی ہمت نہ کی۔ اور تم کیا جانو کہ کیا ہے وہ دشوار گزر گھاٹی؟ (وہ یہ ہے کہ) کسی گردن کو غلامی سے چُھڑانا، یا فاقے کے دن میں کھانا کھلانا، کسی قرابتدا ر یتیم کو یا کسی خاکسار مسکین کوـ            (البلد:۶ا:۱۱)

اس آیت پر صاحبِ تفہیم القرآن نے جو نوٹ لکھا ہے وہ بڑا ہی قابلِ دید ہے۔ لکھتے ہیں:

’’اقتحام کے معنی ہیں اپنے آپ کو کسی سخت اور مشقّت طلب کام میں ڈالنا۔ اور عَقَبہ اُس دشوار گزار راستے کو کہتے ہیں جو بلندی پر جانے کے لئے پہاڑوں میں سے گزرتا ہے۔ پس آیت کا مطلب یہ ہے کہ دو راستے جو ہم نے اُسے دکھائے ان میںسے ایک بلندی کی طرف جاتا ہے مگر مشقّت طلب او ر دشوار گزار ہے۔اُس میں آدمی کو اپنے نفس اور اس کی خواہشوں سے اور شیطان کی ترغیبات سے لڑ کر چلنا پڑتا ہے۔ اور دوسرا آسان راستہ ہے جو کھڈوں میں اُترتا ہے، مگر اس سے پستی کی طرف جانے کے لئے کسی محنت کی ضرورت نہیں پڑتی بلکہ بس اپنے نفس کی باگیں ڈھیلی چھوڑ دینا کا فی ہے، پھر آدمی خود نشیب کی طرف لڑھکتا چلا جا تا ہے۔ اب یہ آدمی جس کو ہم نے دونوں راستے دکھا دیے تھے، اِس نے اُن میں سے پستی کی جانب والے راستے کو اختیار کر لیا اور اُس مشقّت طلب راستے کو چھوڑ دیا جو بلندی کی طرف جانے والا ہے۔

            اوپر چونکہ اُس کی فضول خرچیوں کا ذکر کیا گیا ہے جو وہ بڑائی کی نمائش اور لوگوں پر اپنا فخر جتانے کے لئے کرتا ہے۔ اس لئے اب اس کے مقابلے میں بتایا گیا ہے کہ وہ کونسا خرچ اور مال کا کونسا مصرف ہے جو اخلاق کی پستیوں میں گرانے کے بجائے آدمی کو بلندیوں کی طرف لے جاتا ہے، مگر اُس میں نفس کی کوئی لذت نہیں ہے بلکہ آدمی کسی غلام کو خود آزاد کرے، یا اس کی مالی مدد کرے تاکہ وہ اپنا فدیہ ادا کرکے رہائی حاصل کر لے، یا کسی غریب کی گردن قرض کے جال سے نکالے، یا کوئی بے وصیلہ آدمی اگر کسی تاوان کے بوجھ سے لد گیا ہو تو اُس کی جان اُس سے چُھڑائے۔ اِسی طرح وہ خرچ یہ ہے کہ آدمی بھوک کی حالت میں کسی قریبی یتیم (یعنی رشتہ دار یا پڑوسی یتیم) اور کسی ایسے بے کس محتاج کو کھانا کھلائے جسے غربت و افلاس کی شدت نے خاک میں ملا دیا ہو اور جس کی دستگیری کرنے والا کوئی نہ ہو۔ ایسے لوگوں کی مدد سے آدمی کی شہرت کے ڈنکے تو نہیں بجتے اور نہ ان کو کھلا کر آدمی کی دولت مندی اور دریا دلی کے وہ چرچے ہوتے ہیں جو ہزاروں کھاتے پیتے لوگوں کو شاندار دعوتیںکرنے سے ہوا کرتے ہیں ، مگر اخلاق کی بلندیوں کو طرف جانے کا راستہ اِسی دشوار گزار گھاٹی سے ہو کر گزرتا ہے۔‘‘                                                                             (تفہیم القرآن، جلد ۶، ص۳۴۲۔۳۴۱)

کرونا مہاماری میں یتیموں اور مساکین کی دلجوئی کیجیے!

            پوری دُنیا میں لاک ڈائون سے جو صورتِ حال پیدا ہو گئی ہے وہ خون کے آنسو رُلانے والی ہے۔ اِ ن حالات میں وقت کے اہم تقاضے کے ساتھ ساتھ ہمارا یہ دینی فریضہ بھی بنتا ہے کہ ہم یتیموں اور مسکینوں کی خبر گیری کریں تا کہ ہم اُن بشارتوں کے حقیقی مصداق بن سکیں جو اُن کی دیکھ بال کے متعلق حضورؐ نے ارشاد فرمائے ہیں۔ اس موضوع کے حوالے سے حدیث کی کتابوں میں بہت ساری مُستند احادیث موجود ہیں لیکن ان سب کا یہاں لانا بہت ہی مشکل ہے اسلئے ہم اختصار کے ساتھ چند ہی احادیث کو پیش خدمت کرتے ہیں:

            حضرت سہل بن سعد ؓ کی روایت ہے کہ ’’رسول اللہ ﷺْ نے فرمایا میں اور وہ شخص جو کسی رشتہ دار یا غیر رشتہ دار یتیم کی کفالت کرلے، جنت میں اِس طرح ہوں گے۔ یہ فرما کر آپؐ نے شہادت کی انگلی اور بیچ کی انگلی کو اٹھا کر دکھایا اور دونوں انگلیوں کے درمیان تھوڑا سا فاصلہ رکھا۔‘‘                                                                                       (بخاری)

            حضرت ابو ہریرہؓ حضورؐ کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں کہ ’’ مسلمانوں کے گھروں میں بہترین گھر وہ ہے جس میں کسی یتیم سے نیک سلوک ہو رہا ہو اور بد ترین گھر وہ ہے جس میں کسی یتیم سے بُرا سلوک ہو رہا ہو۔ ‘‘                            ( ابن ماجہ)

            حضرت ابو اُمامہ ؓ کہتے ہیں کہ حضورؐ نے فرمایا’’ جس نے کسی یتیم کے سر پر ہاتھ پھیرا اور محض اللہ کی خاطر پھیرا اُس بچے کے ہر بال کے بدلے جس پر اس شخص کا ہاتھ گزرا اُس کے لئے نیکیاں لکھی جائیں گی، اور جس نے کسی یتیم لڑکے یا لڑکی کے ساتھ نیک برتائو کیا وہ اور میں جنت میں اِس طرح ہوں گے۔ اور یہ فرما کر حضورؐ نے اپنی دو انگلیاں ملا کر بتائیں۔‘‘      (ترمذی)

            حضرت ابو ہریرہؓ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺْ سے شکایت کی کہ میرا دل سخت ہے۔ حضورؐ نے فرمایا: یتیم کے سر پر ہاتھ پھیر اور مسکین کوکھاناکھلا۔‘‘                (مسند احمد)

            حضرت ابو ہریرہؓ کی حدیث ہے کہ حضورؐ نے فرمایا: بیوہ اور مسکین کی مدد کے لئے دوڑ دھوپ کرنے والا ایسا ہے جیسے جہاد فی سبیل اللہ میں دوڑ دھوپ کرنے والا۔ اور حضرت ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ مجھے یہ خیال ہوتا ہے کہ حضورؐ نے یہ بھی فرمایا تھا کہ وہ ایسا ہے جیسے وہ شخص جو نماز میں کھڑا ہے اور آرام نہ لے اور جو پے در پے روز ے رکھے اور کبھی روزہ  نہ چھوڑے۔‘ (بخاری و مسلم)

            آخر پر ہم مذکورہ موضوع کے حوالے سے یہاں خون کے آنسو رُلا دینے والا ایک واقعہ پیش خدمت کرتے ہیں تاکہ دلوں پر اثر ہو جانے کے بعد ہم یتیموں اور مساکین کے لیے محو ِ جدو جہد ہو جائیں اور نتیجًا اللہ تعالیٰ کی حقیقی خوشنودی کے ہم مصداق بن سکیں۔ واقعہ اس طرح ہے:

            عید کا دن ہے،مدینے کے گلی کوچوں میں ہر طرف چہل پہل ہے، مسلمان نوجوان، بوڑھے اور ہوشیار بچے صاف ستھرے کپڑے پہنے عید گاہ کی طرف جا رہے ہیں۔ مدینے کی گزر گاہیں تکبیر و تہلیل کی صدائوں سے گونج رہی ہیں، ایک راستے سے نبی ﷺْ بھی عید کی دو گانہ ادا کرنے کے لئے عید گاہ جا رہے ہیں۔ چلتے چلتے ایک مقام پر بے اختیار آپ کے قدم رُک گئے۔ کچھ بچے بڑی بے فکری سے اچھے اچھے کپڑے پہنے کھیل کود میں مگن ہیں، مگر ایک لڑکا ان سب سے الگ تھلگ غمگین بیٹھا ہے، میلے کچیلے کپڑے پہنے سارے بچوں کو حسرت سے دیکھ رہا ہے ۔ رحمت عالم ﷺْ اُس مصیبت کے مارے لڑکے کے پاس پہنچے۔ اس کے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرا۔ اور فرمایا۔’’ بیٹے! تم نہیں کھیلتے؟ تم نے کپڑے نہیں بدلے بیٹے! تم اتنے غمگین کیوں ہو؟‘‘

            بچے نے سر اٹھاکر دیکھا اور فورًا آنکھیں جھکا لیں، ہمدردی کا برتائو دیکھ کر اور جملے سُن کر بے اختیار اُس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ اور ٹالتے ہوئے بولا۔۔۔۔ ’’ چچا میاں ! میری قسمت میں کھیل اور خوشی کہاں؟ اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔ خدا کے رسولؐ کا دل بھر آیا، لڑکے کو گلے سے چمٹا لیا اور فرمایا’’ بیٹے! بتائو تو سہی تمہیں کیا دُکھ پہنچا ہے، آخر ت م پر کیا مصیبت آ پڑی ہے؟‘‘

            ’’ چچا میاں! آپ میری بپتا کی داستان سُن کر کیا کریں گے، میں ایک یتیم بچہ ہوں، میرے باپ بھی نہیں ہیں اور میری ماں، ۔۔۔۔ یہ کہتے ہوئے اس کی آواز بھر آ گئی اور وہ جملہ پورا نہ کر سکا۔

            خدا کے رسولﷺْ نے بچے کو کچھ اور اپنے سے قریب کر لیا، اور کہا، بیٹے تمہارے ماں باپ کا کب انتقال ہوا؟‘‘

            ’’ چچا میاں! میرے باپ ایک جنگ میں کافروں سے لڑتے لڑتے شہید ہو گئے میری ماں نے دوسرا نکاح کر لیا، اور میرا باپ کا چھوڑا ہوا سارا سامان لے کر اپنے نئے گھر میں چلی گئیں، میں بھی خوش خوش اپنی امی کے ساتھ گیا، مگر چند ہی دن کے بعد میرے دوسرے باپ نے مجھے گھر سے نکال دیا۔ اب نہ میرا کوئی گھر در ہے، نہ ولی اور سر پرست۔ اب مجھ پر ترس کھانے والا کوئی نہیں۔ چچا میاں میرا کوئی بھی تو نہیں ہے۔‘‘ اور لڑکے کے ہچکی بندھ گئی۔‘‘ میری امی بھی تو کچھ نہیں کرتیں۔ مگر وہ مجبور ہیں، اب وہ کیا کر سکتی ہیں۔‘‘

            بچے کی حالت سُن کر اور اس کا رونا دھونا دیکھ کر نبی ﷺْ کی آنکھوں میں بھی آنسو بہہ پڑے۔ اور بڑے پیار و محبت سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے فرمایا: ’’بیٹے تم کیا یہ پسند کرو گے کہ محمدؐ تمہارے باپ بن جائیں، عائشہؓ تمہاری ماں بن جائیں ، فاطمہؓ تمہاری بہن بن جائیں، اور حسنؓ و حسینؓ تمہارے بھائی بن جائیں۔‘‘

            محمدﷺْ کا نام سُنتے ہی بچے نے عقیدت و حیرت کے ساتھ آپؐ کے چہرے مبارک کو دیکھا۔ اور انتہائی عاجزی اور احترام سے بولا۔ یا رسول اللہ ! مجھے معاف فرمایئے۔ پہلی بار میںنے آپﷺ کی بات کا جواب بڑی بے توجّہی سے دیا تھا، دراصل میں آپ کو جانتا نہ تھا۔ یا رسول اللہ! میرے باپ ہزار بار قربان ہیں خدا کے رسول ؐ پر حضرت عائشہؓ سے اچھی ماں کہاں ملیں گی۔ حضرت فاطمہؓ سے اچھی بہن اور حضرت حسنؓ اور حسینؓ

 سے اچھے بھائی کہاں میسر آئیں گے۔ مجھ سے زیادہ خوش نصیب کون ہو گا، اگر خدا مجھے ایسا خاندان دلوائے۔ اور لڑکے کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو تیرنے لگے۔

            خدا کے رسول ﷺْ نے بچے کا ہاتھ پکڑا اور اپنے ساتھ گھر کی طرف لے کر روانہ ہوئے۔ گھر پہنچے، تو حضرت عائشہؓ سے فرمایا ’’عائشہ ، لو یہ تمہارا بیٹا ہے، اسے نہلا کر کپڑے پہنائو، اور اسے کھانا کھلائو۔

            یہ لڑکا آخر دم تک نبیﷺْ کے پاس رہا، آپؐ جب اس دُنیا سے رخصت ہوئے، تو اس لڑکے کا بُرا حال تھا۔ اس کی ہچکی بندھی ہوئی تھی، اور وہ کہتا تھا، آج میں یتیم ہو گیا،ابو بکر صدیق ؓ نے لڑکے کی یہ کیفیت دیکھی تو پیار سے اس کا ہاتھ پکڑ لیا اور اپنی سر پرستی میں لے لیا۔                                             (بحوالہ روشن ستارے از مولانا محمد یوسف اصلاحی، ص ۲۳۵۔۲۳۳)

 


Comments

Post a Comment